• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن ایک دفعہ ہی اذان کہی جائے گی ، جب امام منبر پر بیٹھ جائے

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
غلط فہمی : ۔

ازالہ : ۔ جناب اگر دین کی بنیاد صرف قرآن اور حدیث نبوی نہیں ہے !؟(نعوذباللہ)
تو درج ذیل آیت پر ایمان کیسے لائیں گے ؟ اور اس پر عمل کیسے کریں گے ؟

الله تعالیٰ فرماتا ہے : ۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میرا سوال ہی یہی تھا کہ اگر نبیﷺنے بات اسی طرح فرمانی تھی جس طرح آپ نے اس حدیث کا ترجمہ کر کے بتائی ہے:-
”ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ“
تو نبیﷺ بات کو آپ کے بیاد کردہ الفاظ یا مفہوم میں فرمادیتے لیکن ایسا نہیں ہوا ،بلکہ نبیﷺنے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی ”سنت “کو مطلقابیان فرمایا ہے ، کیوں؟
ان الفاظ پر بھی غور کریں:-

سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ“
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35

ــــــــــ
سوال : ۔
ــــــــــ

تو نبیﷺ بات کو آپ کے بیاد کردہ الفاظ یا مفہوم میں فرمادیتے لیکن ایسا نہیں ہوا ،بلکہ نبیﷺنے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی ”سنت “کو مطلقابیان فرمایا ہے ، کیوں؟

ـــــــــ
جواب : ۔
ـــــــــ


جناب آپ کی اس "کیوں " کا جواب میں پہلے نقل کر چکا ہوں ۔ لیکن آپ نے شاید میرے جواب کو غور و فکر کے ساتھ ملاحظہ نہیں کیا !؟
بہر حال دوبارہ نقل کر رہا ہوں ، ملاحظہ کیجیے :۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810)

ــــــــــــــــــ
مزید وضاحت : ۔
ــــــــــــــــــ

کیا ابن عمر نے یہ حدیث نہیں سنی تھی ؟
سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ“
عمر تھے بھی خلیفہ لیکن ابن عمر نے خلاف سنّت کام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے احکام میں اتباع کرنی ہے خلفاء راشدین کے طریقہ کی !؟ تو ابن عمر پر کیا حکم لگائیں گے آپ ؟؟؟
اور اگر جواب یہ ہے کہ صرف سنّت نبوی میں کی جائے گی ، جیسا کہ ابن عمر نے کیا ، تو پھر آپ کو میری کی گئی وضاحت سے کیا اعتراض ہے ؟؟؟


 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156

ــــــــــ
سوال : ۔
ــــــــــ



ـــــــــ
جواب : ۔
ـــــــــ


جناب آپ کی اس "کیوں " کا جواب میں پہلے نقل کر چکا ہوں ۔ لیکن آپ نے شاید میرے جواب کو غور و فکر کے ساتھ ملاحظہ نہیں کیا !؟
بہر حال دوبارہ نقل کر رہا ہوں ، ملاحظہ کیجیے :۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔

(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810)

ــــــــــــــــــ
مزید وضاحت : ۔
ــــــــــــــــــ

کیا ابن عمر نے یہ حدیث نہیں سنی تھی ؟

سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ“
عمر تھے بھی خلیفہ لیکن ابن عمر نے خلاف سنّت کام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے احکام میں اتباع کرنی ہے خلفاء راشدین کے طریقہ کی !؟ تو ابن عمر پر کیا حکم لگائیں گے آپ ؟؟؟
اور اگر جواب یہ ہے کہ صرف سنّت نبوی میں کی جائے گی ، جیسا کہ ابن عمر نے کیا ، تو پھر آپ کو میری کی گئی وضاحت سے کیا اعتراض ہے ؟؟؟

”ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ“
ترجمہ میں یہ اضافہ عربی گرائمر کے کس اصول کے تحت کیا گیا ہے ؟
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ترجمہ میں یہ اضافہ عربی گرائمر کے کس اصول کے تحت کیا گیا ہے ؟
یہ درج ذیل وضاحت کے تحت کیا گیا ہے :
ـــــــــ
جواب : ۔
ـــــــــ
دوبارہ نقل کر رہا ہوں ، ملاحظہ کیجیے :۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810)

ــــــــــــــــــ
مزید وضاحت : ۔
ــــــــــــــــــ

کیا ابن عمر نے یہ حدیث نہیں سنی تھی ؟

سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ“

عمر تھے بھی خلیفہ لیکن ابن عمر نے خلاف سنّت کام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے احکام میں اتباع کرنی ہے خلفاء راشدین کے طریقہ کی !؟ تو ابن عمر پر کیا حکم لگائیں گے آپ ؟؟؟
اور اگر جواب یہ ہے کہ صرف سنّت نبوی میں کی جائے گی ، جیسا کہ ابن عمر نے کیا ، تو پھر آپ کو میری کی گئی وضاحت سے کیا اعتراض ہے ؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيکُمْ بِتَقْوَی اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِي فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيرًا فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّکُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
راشد محمود صاحب نے اس حدیث کا درج ذیل ترجمہ نقل کیا ہے:
عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )
اس پر مزید تعلیق یہ لگائی ہے کہ:
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
نیلے ملون الفاظ میں جس سنت کا بیان ہے اس پر کوئی اختلاف نہیں، اختلاف اس سنت پر ہے جو سرخ ملون ہیں؛
یعنی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا لازم ہونا تو متفقہ ہے! اس کے معنی و مفہوم میں بھی کوئی اختلاف نہیں!
اختلاف واقع ہو رہا ہے سرخ ملون الفاظ کےمعنی و مفہوم میں !
راشد صاحب کا مدعا یہ ہے کہ یہاں ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنا'' مراد ہے!
یعنی راشد صاحب کہ بقول اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح لازم پکڑنے کا حکم ہے! اس کے علاوہ کسی اور امر کا حکم نہیں!
ہمارے نزیک یہ فہم باطل ہے؛ پہلے ہم اس فہم کا بطلان واضح کریں گے اور پھر راشدمحمود صاحب نے جو دلائل اس مؤقف پر بیان کیئے ہیں، ان کا جائزہ پیش کریں گے!
اگر راشد محمود صاحب کا فہم معتبر تسلیم کیا جائے تو لازم آئے گا کہ کسی خلیفہ راشد نے شریعت کے بیان میں تمام اقوال درست تسلیم کیئے جائیں اور شریعت کے بیان میں انہیں معصوم تسلیم کیا جائے!
کیونکہ بقول راشد صاحب، جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ سنت نبی صلی علیہ وسلم کو ہدایت یافتہ خلفہ راشد کی طرح پکڑنا لازم قرار دیا ہے، تو پھر کسی خلیفہ راشد کے کسی ایسے قول پر کہ جس میں شریعت کا بیان ہو، اسے اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مخالف یا متضاد قراردینا عبث ہوگا!
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے، راشد محمود صاحب خود رقم طراز ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو
اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810 )
راشد محمود صاحب اسے اپنے مؤقف کے اثبات میں پیش کررہے ہیں، جب کہ اس سے ان کا مؤقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے!
وہ یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو کہ خلیفہ راشد ہیں، ان کے اس قول و حکم کو رد کردیا!
یعنی کی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کے مفہوم کی مخالفت کررہے ہیں کہ جس کا حکم خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے دیا تھا۔

دوم کہ اگر راشد محمود صاحب کا بیان کردہ مفہوم معتبر تسلیم کیا جائےتو لازم آئے گا کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی اور صحابی یا جمہور صحابہ کے فہم کو قبول کرنا لازم نہ ٹھہرے! بلکہ صرف خلفائے راشدین کا فہم لازم قرار پاتا ہے!
جبکہ ایسا ہے نہیں! راشد محمود صاحب کی ہی اوپر پیش کی گئی حدیث اس کو باطل ثابت کرتی ہے، اور خود راشد صاحب بھی اسی کے قائل ہیں!
اور قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ:

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة البقرة 137)
پس اگر وہ بھی ایمان لے آئيں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا گئے اور اگر وہ نہ مانیں تو وہی ضد میں پڑے ہوئے ہیں سو تمہیں ان سے الله کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
یاد رہے کہ ایمان میں عمل بھی شامل ہے!
اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کا پیمانہ صرف خلفاء کو قرار نہیں دیا! فتدبر!
راشد محمود صاحب نے ایک سوال کیا ہے:
اور اگر جواب یہ ہے کہ صرف سنّت نبوی میں کی جائے گی ، جیسا کہ ابن عمر نے کیا ، تو پھر آپ کو میری کی گئی وضاحت سے کیا اعتراض ہے ؟؟؟
بھائی ! آپ کے مؤقف کا فساد اوپر بیان کیا ہے، اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بات اس بارے میں نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں!
اب ہم اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہیں، تا کہ غلط فہمی کا ازالہ کیا جا سکے؛
جس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ یہ ہے:

وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ
یعنی کہ ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت
اب یہ کیا ہے اور کس معاملہ میں ہے؟
سنت کی فہم اور اس پر عمل کے لئے صرف خلفاءراشدین کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، یہ تو اوپر واضح کردیا گیا ہے!
اور یہاں خاص خلفاء راشدین کا کا ذکر ہے!
معاملہ یوں کہ کہ شریعت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے! وگرنہ یہ ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہنے کی ضرورت نہ تھی، اور جب ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہا ہے تو خلفاء کا تعلق امور خلافت و مملکت و سیاسیات سے ہوتا ہے!
ان شاء اللہ آپ کو یہ بات واضح ہو گئی ہو گی، کہ آپ کے فہم میں خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کے حکم کی نفی تھی، جبکہ اسحاق سلفی بھائی یہی بات سمجھا رہے تھے کہ آپ صرف (واحد) کو لازم پکڑنے کی جو بات کررہے ہیں وہ اس حدیث میں تحریف کے مترادف ہے!
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شرعی حکم میں اپنے والد ، خلیفہ راشد ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حکم کا رد کیا تھا، نہ کہ کسی امور سلطنت کے مسئلہ میں!
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ابن داود صاحب نے میری پچھلی عبارت کو تو نقل کیا لیکن اس سے اگلی جو نقل کی اس میں لکھنے میں تھوڑی غلطی ہوئی تھی اور تصحیح کر دی گئی تھی لیکن شائد موصوف نے پچھلی گفتگو کو ملاحظہ نہیں کیا !؟ اسی لئے شائد انہیں وہ تصحیح نظر نہیں آئی۔
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
جناب میرے پچھلے پیغام میں یہ بات واضح ہے کہ
ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ۔
لیکن جناب نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اسے خاطر میں نہیں لائے ۔ بہر حال یہ ترجمہ اب ذہن نشین کر لیجیے اچھی طرح اور آئندہ اگر پچھلے پیغامات میں یہ غلطی نظر آئے تو اسے اس ترجمہ کی بنیاد پر نظر انداز کر دیجیےگا ۔
(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
جناب ابن داود نے کہا : ۔
راشد صاحب کا مدعا یہ ہے کہ یہاں ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنا'' مراد ہے!
یعنی راشد صاحب کہ بقول اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح لازم پکڑنے کا حکم ہے! اس کے علاوہ کسی اور امر کا حکم نہیں!
تصحیح :۔
جناب دین میں میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کی بات کی اہمیت ہے ۔
دین اسلام میں حجت صرف اور صرف قرآن اور احادیث نبوی ہیں ۔

الله تعالیٰ فرماتا ہے

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ

تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )

(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ہمارے نزیک یہ فہم باطل ہے؛ پہلے ہم اس فہم کا بطلان واضح کریں گے اور پھر راشدمحمود صاحب نے جو دلائل اس مؤقف پر بیان کیئے ہیں، ان کا جائزہ پیش کریں گے!
قارئین کرام ! اب ہم جناب کی وضاحت کا جائزہ لیتے ہیں !
ان شاء الله
(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی :۔

اگر راشد محمود صاحب کا فہم معتبر تسلیم کیا جائے تو لازم آئے گا کہ کسی خلیفہ راشد نے شریعت کے بیان میں تمام اقوال درست تسلیم کیئے جائیں اور شریعت کے بیان میں انہیں معصوم تسلیم کیا جائے!
ازالہ : ۔

قارئین ! ابن داود صاحب کا یہ کہنا کہ
"اگر راشد محمود صاحب کا فہم معتبر تسلیم کیا جائے تو لازم آئے گا کہ کسی خلیفہ راشد نے شریعت کے بیان میں تمام اقوال درست تسلیم کیئے جائیں اور شریعت کے بیان میں انہیں معصوم تسلیم کیا جائے!"
اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جناب نے میری بات کو صحیح طرح سمجھا ہی نہیں ہے ۔ اگر سمجھا ہوتا تو مذکور بالا غلط فہمی قطعا نہ ہوتی ۔
بہرحال ! میں مزید وضاحت کرتا ہوں ۔ان شاء الله

قارئین کرام ! نیک صدیقین ہوں یا خلفاء راشدین، ان کی سنّت (یعنی طریقہ ) سے کیا مراد ہے ؟؟؟

ایک غلط فہمی جو پیدا ہوتی ہے اس جملہ میں کہ "سبیل المؤمنین کی پیروی کرنی ہے !؟


ازالہ : ۔


اس فقرے سے ہر فرقہ اپنا مطلب پورا کرتا ہے ، یعنی کوئی اس سے تقلید کو ثابت کرتا ہے تو کوئی کچھ وغیرہ وغیرہ ....۔
اس فقرے پر غور و فکر کیا جائے تو معاملہ حل ہو جاتا ہے لیکن لوگ تحقیق کی بجائے تقلید کرتے ہیں تو غور
و فکر کیسے ہو ؟؟؟

قارئین ! اس جملہ کو غور کے ساتھ سمجھیں -
اس میں یہ نہیں کہ مؤمنین کی یعنی اولیاء الله کی پیروی کرنی ہے بلکہ اس میں لکھا ہے کہ مؤمنین یعنی اولیاء الله کے راستہ کی پیروی کرنی ہے ۔ اور مؤمنین کا راستہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے ۔
آئیے اس بات کا جواب قرآن مجید سے دیکھتے ہیں ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے : ۔


وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیائ، صدیقین، شہیدوں اور صالحین [٩٩] کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں
(النساء -٦٩ )

قارئین ! اس آیت میں الله تعالیٰ نے نیک لوگوں کا راستہ بتا دیا ۔نیک لوگوں یعنی ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ صرف الله اور اس کے رسول کی اطاعت ہے یعنی صرف قرآن اور احادیث نبوی ۔
یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کا شمار ان لوگوں کے زمرے میں ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں :

(اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ)

آیت زیر مطالعہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ“ کی تفسیر ہے۔کیونکہ قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ۔



(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
قارئین کرام ! میں نے درج ذیل روایت پیش کی تھی :
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو
اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810 )
ابن داود صاحب کو اس سے بھی غلط فہمی ہوئی ہے ۔
غلط فہمی : ۔
راشد محمود صاحب اسے اپنے مؤقف کے اثبات میں پیش کررہے ہیں، جب کہ اس سے ان کا مؤقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے!
وہ یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو کہ خلیفہ راشد ہیں، ان کے اس قول و حکم کو رد کردیا!
یعنی کی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کے مفہوم کی مخالفت کررہے ہیں کہ جس کا حکم خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے دیا تھا۔
ازالہ : ۔ شاید ابن داود صاحب نے صحیح طرح روایت کو سمجھا نہیں ہے !؟ اور اگر سمجھنے کی کوشش بھی کی !؟ تو غلط سمجھے ۔
جناب اس سے ہمارا موقف غلط ثابت نہیں ہوتا بلکہ ثابت ہوتا ہے ۔

وضاحت : ۔ اگر ابن عمر خلیفہ کے حکم کو مان لیتے ، تب ہمارا موقف غلط ثابت ہو سکتا تھا !؟
لیکن انہوں نے اس حکم کو جو کہ سنّت رسول کے خلاف تھا ، اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اور عمر رضی الله عنہ نے بھی رجوع کر لیا کیوں کہ وہ ہدایت یافتہ تھے اور ان کا راستہ(طریقہ ، سنّت ) صرف قرآن اور حدیث کی اطاعت تھا اور اسی چیز کی اطاعت کا حکم دیا گیا
اور یوں ہماری کی گئی وضاحت کہ : ۔

"ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ۔"
ثابت ہو گئی ۔
و الحمد للہ رب العالمین
(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
Top