• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
پہلے یہ جان لیں کی نماز جمعہ سے قبل سنت مؤکدہ نہیں ، نوافل ہیں ۔ جمعہ کے دن مسجد میں حاضر ہوکر جس قدر نوافل پڑھنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ۔ کم از کم دو رکعت پڑھنا چاہئے جو تحیۃ المسجد کے حکم میں ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا جمعہ کے دن زوال کا وقت نہیں ہوتا ؟ اگر زوال ہوتا ہے توجمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل پڑھنا کیسا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے عام دنوں میں زوال ہوتا ہے جمعہ کے دن بھی زوال ہوتا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی ممنوع ہے۔
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ثلاثُ ساعاتٍ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهانا أن نُصلِّيَ فيهنَّ . أو أن نَقبرَ فيهن موتانا : حين تطلعُ الشمسُ بازغةً حتى ترتفعَ . وحين يقومُ قائمُ الظهيرةِ حتى تميلَ الشمسُ . وحين تَضيَّفُ الشمسُ للغروبِ حتى تغربَ .(صحيح مسلم:831)
ترجمہ: نبیﷺ نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: جب سورج طلوع ہو رہا ہویہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی عین زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔
اس حدیث کی روشنی میں زوال کے وقت نفل نماز ادا کرنا ممنوع ہے مگر اسباب والی نمازیں زوال کے وقت ادا کرنی جائز ہے مثلا تحیۃ المسجد، سنۃ الوضو، نماز طواف وغیرہ۔ اسی طرح جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل ادا کرنا جائز ہے ۔ اس کی واضح دلیل بخاری ومسلم کی روایت ہے ۔
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى ۔( صحیح البخاري :883 وصحیح مسلم:857)
ترجمہ:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے ، اور ممکن حد تک پاکی حاصل کرتا ہے ، اور تیل لگاتا ہے ، یا اپنے پاس جو خوشبو میسر ہو اسکو لگاتا ہے ، پھر نماز کے لئے جاتا ہے ، دو شخصوں کے درمیان جدائی نہیں کرتا ،(یعنی اپنے لئے راستہ بنا کر آگے جانے کی غرض سے دو آدمیوں کو نہیں ہٹاتا ، بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جاتا ہے ) پھر توفیق کے مطابق نماز پڑھتا ہے ، پھر خاموشی سے خطبہ سنتا ہے تو اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک اس کے ہونے والے گناہ معاف کرئے جاتے ہیں
ـ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فوائد کے طور پہ لکھا ہے کہ اس میں جمعہ کے دن نصف النہار کے وقت نوافل ادا کرنے کا جواز ملتا ہے ۔
یہ روایت واضح طور پہ دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کے دن نمازی مسجد میں داخل ہوکر جس قدر چاہے دو،چار، چھ، آٹھ، دس، بارہ رکعت نماز ادا کرے اور جب امام خطبہ شروع کرنے لگے تو خاموشی سے خطبہ سنے ۔ گویا بوقت خطبہ نماز سے رکنا ہے ، اس سے پہلے مسلسل نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ اگر کوئی امام کے خطبہ دیتے وقت مسجد آئے تو دو رکعت ہلکی ادا کرکے بیٹھے ۔ جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل ادا کرنے کا موقف بہت سے اہل علم نے اختیار کیا ہے جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم، علامہ ناصرالدین البانی اور شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ کا ہے ۔ متعددصحابہ کرام کےعمل سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے زوجہ رسول ﷺ کے عمل سے متعلق روایت ذکر کی ہے ۔ رأيتُ صفيةَ بنتَ حُييٍّ ( وهي من أزواجِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ماتت في ولايةِ معاويةَ ) صلت أربعًا قبل خروجِ الإمامِ ، وصلتِ الجمعةَ مع الإمامِ ركعتيْنِ۔
ترجمہ: راوی حدیث(صافیہ) بیان کرتی ہیں کہ میں نے صفیہ بنت حی (یہ نبی ﷺ کے ازواج مطہرات میں سے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ دورمیں وفات پاتی ہیں) کو امام کے (خطبہ دینے کے لئے) نکلنے سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے دیکھا اور انہوں نے امام کے ساتھ دو رکعت نماز جمعہ ادا کیں۔
اس کی سند مسلم کی شرط پہ ہے ۔ (الاجوبۃ النافعہ للالبانی :35)
خلاصہ یہ کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل ادا کی جاسکتی ہے البتہ اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں کہ مسجد میں دیر تک بیٹھے رہے اور امام کی آمد سے چند لحظہ قبل نفل ادا کرے ۔ اسی طرح یہ عمل بھی ثابت نہیں ہے کہ لوگ مسجد میں آکر بیٹھے رہیں اور جب اذان ہو تونماز کے لئے کھڑے ہوں۔ حنفیہ کے یہاں ایسا طریقہ رائج ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔یہ بات بھی واضح رہے کہ دو اذانوں کے درمیان جو دو رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے اس سے مراد اذان واقامت کے در ان نماز پڑھنا ہے اور جمعہ کی پہلی اذان نبی ﷺ کے دور میں نہیں تھی ۔لہذاان دو عملوں سے بچنا چاہئے ۔

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ کی تحریر تضادات پر مبنی ہے ملاحظہ فرمائیں؛
پہلے یہ جان لیں کی نماز جمعہ سے قبل سنت مؤکدہ نہیں ، نوافل ہیں ۔ جمعہ کے دن مسجد میں حاضر ہوکر جس قدر نوافل پڑھنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے زوجہ رسول ﷺ کے عمل سے متعلق روایت ذکر کی ہے ۔ رأيتُ صفيةَ بنتَ حُييٍّ ( وهي من أزواجِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ماتت في ولايةِ معاويةَ ) صلت أربعًا قبل خروجِ الإمامِ ، وصلتِ الجمعةَ مع الإمامِ ركعتيْنِ۔
ترجمہ: راوی حدیث(صافیہ) بیان کرتی ہیں کہ میں نے صفیہ بنت حی (یہ نبی ﷺ کے ازواج مطہرات میں سے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ دورمیں وفات پاتی ہیں) کو امام کے (خطبہ دینے کے لئے) نکلنے سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے دیکھا اور انہوں نے امام کے ساتھ دو رکعت نماز جمعہ ادا کیں۔
اس کی سند مسلم کی شرط پہ ہے ۔ (الاجوبۃ النافعہ للالبانی :35)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ثلاثُ ساعاتٍ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهانا أن نُصلِّيَ فيهنَّ . أو أن نَقبرَ فيهن موتانا : حين تطلعُ الشمسُ بازغةً حتى ترتفعَ . وحين يقومُ قائمُ الظهيرةِ حتى تميلَ الشمسُ . وحين تَضيَّفُ الشمسُ للغروبِ حتى تغربَ .(صحيح مسلم:831)
ترجمہ: نبیﷺ نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: جب سورج طلوع ہو رہا ہویہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی عین زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔
اس حدیث کی روشنی میں زوال کے وقت نفل نماز ادا کرنا ممنوع ہے مگر اسباب والی نمازیں زوال کے وقت ادا کرنی جائز ہے مثلا تحیۃ المسجد، سنۃ الوضو، نماز طواف وغیرہ۔ اسی طرح جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل ادا کرنا جائز ہے ۔
دلیل میں درج ذیل حدیث پیش کی؛
اس کی واضح دلیل بخاری ومسلم کی روایت ہے ۔
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى ۔( صحیح البخاري :883 وصحیح مسلم:857)
ترجمہ:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے ، اور ممکن حد تک پاکی حاصل کرتا ہے ، اور تیل لگاتا ہے ، یا اپنے پاس جو خوشبو میسر ہو اسکو لگاتا ہے ، پھر نماز کے لئے جاتا ہے ، دو شخصوں کے درمیان جدائی نہیں کرتا ،(یعنی اپنے لئے راستہ بنا کر آگے جانے کی غرض سے دو آدمیوں کو نہیں ہٹاتا ، بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جاتا ہے ) پھر توفیق کے مطابق نماز پڑھتا ہے ، پھر خاموشی سے خطبہ سنتا ہے تو اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک اس کے ہونے والے گناہ معاف کرئے جاتے ہیں
ـ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
خلاصہ یہ کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل ادا کی جاسکتی ہے البتہ اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں کہ مسجد میں دیر تک بیٹھے رہے اور امام کی آمد سے چند لحظہ قبل نفل ادا کرے ۔ اسی طرح یہ عمل بھی ثابت نہیں ہے کہ لوگ مسجد میں آکر بیٹھے رہیں اور جب اذان ہو تونماز کے لئے کھڑے ہوں۔ حنفیہ کے یہاں ایسا طریقہ رائج ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔یہ بات بھی واضح رہے کہ دو اذانوں کے درمیان جو دو رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے اس سے مراد اذان واقامت کے در ان نماز پڑھنا ہے اور جمعہ کی پہلی اذان نبی ﷺ کے دور میں نہیں تھی ۔لہذاان دو عملوں سے بچنا چاہئے ۔
زوال کے وقت نماز پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا جیسا کہ خود ہی حدیث ذکر کی ہے اس کے جواز کا حکم لگا رہے ہیں امتی کے قول پر۔ زوال کے بعس کسی بھی وقت نماز پڑھی جا سکتی ہے اس سے کہیں ممانعت نہیں اس پر اعتراض ہو رہا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے!!!!!!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
زوال کے وقت نماز پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا جیسا کہ خود ہی حدیث ذکر کی ہے اس کے جواز کا حکم لگا رہے ہیں امتی کے قول پر۔ زوال کے بعس کسی بھی وقت نماز پڑھی جا سکتی ہے اس سے کہیں ممانعت نہیں اس پر اعتراض ہو رہا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے!!!!!!
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
زوال وغیرہ ممنوعہ اوقات میں نماز ادانہ کرنے کا حکم عمومی ہے ، یعنی خالی یہ حکم ہے کہ نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
لیکن دیگر احادیث سے کچھ نمازوں کی اجازت ملتی ہے ، مثلا اگر فرض نماز رہ گئی ہو تو ادا کی جاسکتی ہے ، تحیۃ المسجد ہوں تو ادا کیے جاسکتے ہیں ، تحیۃ الوضو ادا کیےجاسکتے ہیں ، کیونکہ ان چیزوں کی الگ الگ احادیث میں اجازت آگئی ہے ، اسی طرح جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت بھی الگ حدیث سے ثابت ہوتی ہے ، جسے اوپر مقبول سلفی صاحب نے بیان کیا ہے ، اسی طرح کئی صحابہ و صحابیات کے آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ اسی لیے شافعیہ ، امام ابو یوسف وغیرہ جواز کی رائے رکھتے ہیں ، بلکہ کہا جاتا ہے کہ احناف کے ہاں قابل اعتماد قول یہی ہے ، اور فتوی بھی اسی کے مطابق دیا جاتا ہے ۔
البتہ بہت سارے علماء اس سے مختلف رائے بھی رکھتے ہیں ، وہ منع والی حدیث کے عموم سے تحیۃ المسجد ، تحیۃ الوضو اور جمعہ سے پہلے کے نوافل کی تخصیص کے قائل نہیں ۔
فریقین اپنے اپنے موقف کی تائید میں قرآن وسنت سے دلائل رکھتے ہیں ، دونوں کے دلائل میں نظر کرنے کے بعد مجھے جواز والا موقف درست لگتا ہے ، ممکن ہے کسی اور کے نزدیک دوسرا موقف راحج ہو ، اور اس کے دلائل قوی ہوں ۔ واللہ اعلم ۔
اس سے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب فورم پر بہلے سے موجود ہے ، ملاحظہ کیجیے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
زوال وغیرہ ممنوعہ اوقات میں نماز ادانہ کرنے کا حکم عمومی ہے ، یعنی خالی یہ حکم ہے کہ نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
لیکن دیگر احادیث سے کچھ نمازوں کی اجازت ملتی ہے ، مثلا اگر فرض نماز رہ گئی ہو تو ادا کی جاسکتی ہے ، تحیۃ المسجد ہوں تو ادا کیے جاسکتے ہیں ، تحیۃ الوضو ادا کیےجاسکتے ہیں ، کیونکہ ان چیزوں کی الگ الگ احادیث میں اجازت آگئی ہے ، اسی طرح جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت بھی الگ حدیث سے ثابت ہوتی ہے ، جسے اوپر مقبول سلفی صاحب نے بیان کیا ہے ، اسی طرح کئی صحابہ و صحابیات کے آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت واضح لفظوں میں ہے جیسا کہ اوپر محترم مقبول احمد سلفی صاحب نے حدیث ذکر کی۔
رہی ہوئی نماز، تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوء اور جمعہ کی نماز وں کے جواز والی احادیث بھی لکھ دیں تاکہ بات واضح ہو سکے۔ شکریہ
آپ نے جو کہا کہ مقبول احمد سلفی صاحب نے جواز کی حدیث اوپر منقول کی ہے۔ مقبول احمد سلفی صاحب نے اپنے مراسلہ میں تین روایات پیش کی ہیں۔ پہلی روایت تو زوال کے وقت کسی قسم کی نماز پڑھنے کی ممانعت کی ہے؛
ترجمہ: نبیﷺ نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: جب سورج طلوع ہو رہا ہویہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی عین زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔
اس کے علاوہ مقبول احمد سلفی صاحب نے دو روایات اور نقل کی ہیں جن میں سے ایک فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور دوسرا امتی کا عمل ہے۔
ان مذکورہ دونوں روایات میں زوال کے وقت نماز پڑھنے کی تصریح نہیں ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت بھی الگ حدیث سے ثابت ہوتی ہے ، جسے اوپر مقبول سلفی صاحب نے بیان کیا ہے
براہِ کرم مقبول احمد سلفی صاحب کے مراسلہ سے یا دیگر ذخیرہ احادیث سے جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت والی حدیث بمع عربی متن و حوالہ لکھ دیں۔ شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
براہِ کرم مقبول احمد سلفی صاحب کے مراسلہ سے یا دیگر ذخیرہ احادیث سے جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت والی حدیث بمع عربی متن و حوالہ لکھ دیں۔ شکریہ
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى ۔( صحیح البخاري :883 وصحیح مسلم:857)
ترجمہ:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے ، اور ممکن حد تک پاکی حاصل کرتا ہے ، اور تیل لگاتا ہے ، یا اپنے پاس جو خوشبو میسر ہو اسکو لگاتا ہے ، پھر نماز کے لئے جاتا ہے ، دو شخصوں کے درمیان جدائی نہیں کرتا ،(یعنی اپنے لئے راستہ بنا کر آگے جانے کی غرض سے دو آدمیوں کو نہیں ہٹاتا ، بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جاتا ہے ) پھر توفیق کے مطابق نماز پڑھتا ہے ، پھر خاموشی سے خطبہ سنتا ہے تو اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک اس کے ہونے والے گناہ معاف کرئے جاتے ہیں
ـ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فوائد کے طور پہ لکھا ہے کہ اس میں جمعہ کے دن نصف النہار کے وقت نوافل ادا کرنے کا جواز ملتا ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم! حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ جمعہ والے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
اگر آپ کے نزدیک اس بات کا ذکر موجود ہے تو اس کو نشان زد کر دیں۔ شکریہ
 
Top