بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے بھائیو!
میں چند مقدمے اور اسکے بعد اصل مطلب بیان کرتا ہوں۔۔۔
١ـآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام کے علاوہ کسی کا قول و فتوی ھماری گردن نہیں جھکا سکتا کیوں ما اھل حدیثیم۔
٢ـآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسان کام کو نہیں بلکہ افضل کو انجام دیتے تھے۔۔۔
٣ـحدعیثوں سے صحابہ کرام کا فھم ھمارے لیے حجت ہے کیونکہ سنت کو وہی اچھی طرح جانتے ہیں۔۔
٤ـإِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا) النساء / 103 . اس آیت میں یہ ہے کہ نماز معین وقت پر واجب ہے اب وہ کونسا وقت ہے اسکو سنت نبوی بیان کریگی۔۔۔۔
٥ـ حدیث جمع بین الصلوتین میں یہ تمام الفاظ(سفر، مطر، خوف،علہ اور مرض) نکرہ استعمال ہوئے ہیں۔۔
٦ـ بعض احادیث میں صحابہ کرام نے اور علما نے بھی دوبارہ مطر و سفر جیسے بھانے ڈھونڈھے لیکن وہ سب نص کے مقابلے میں تھے۔۔۔
اب اصل مطلب
جب تمام احادیث میں یہ تمام الفاظ(سفر، مطر، خوف،علہ اور مرض) نکرہ استعمال ہوئے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ کسی قسم کا خوف کسی قسم کا مرض کسی قسم علت اور سبب کے بغیر دو نمازیں جمع پڑھی گئیں۔۔۔۔
حرج کا مطلب ہے کہ خود دو نمازیں ملا کر پڑھنا حرج اور مشکل ہے۔۔۔
قال ابن عمر : جمع لنا رسول اللّه ( ص ) مقيماً غير مسافر بين الظهر و العصر ، و المغرب و العشاء ، فقال رجل لابن عمر : لِمَ ترى&rlm النبى ( ص ) فعل ذلك؟ قال : لئلا يحرج أمته إن جمع رجلٌ .
مصنف عبدالرزاق ، ج 2 ، ص 556 ، ح 4437
كنزالعمال ، ج 2 ، ص 242 ، ح 5078 .
آپ کا اعتراض تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایک بار پڑھی تھی۔۔۔۔ اگر جمع کرنا عام ھوتا تو ایک سے زیادہ بار پڑھتے کیونکہ آسان کو اتجیح دیتے تھے تو اسکا جواب یہ ہے کہ
١ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباح کے مقابلے میں مستحب کو اور مکروھ کے مقابلے میں مباح کو انجام دیتے تھے۔۔۔
٢ـکس نے کہا ہے کہ ایک بار پڑھی تھی بلکہ : إن النبى ( ص ) كان يصلى بالمدينة يجمع بين الصلاتين الظهر و العصر و المغرب و العشاء ، من غير خوف و لا مطر ، قيل له : لِمَ؟ قال : لئلا يكون على امته حرج .
سنن النسائى ، ج 1 ، ص 290 .
جب لفظ "کان" فعل مضارع کے ساتھ آئے تو استمرار پر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔۔
آپ کا کہنا ہے کہ لازم نہیں کہ تمام عذر قرآن و سنت میں موجود ہوں! تو میں کہتا ہوں
اولا: اپ کی دعوی بلا دلیل ہے۔۔
ثانیا: عذر امر وجودی ہے لذا امر وجودی دلیل کا محتاج ہے۔
ثالثا: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے علت پوچھی گعی تو انہوں نے جواب دیا لئلایحرج امتی۔۔۔ کوئی دوسرا عذر نہیں بتایا۔۔۔اگر ہوتا توپوچھنے کے باوجود ضرور بتاتے۔۔۔
رابعا: اگر اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عذر تھا تو وہ کونسا تھا؟ یعنی وہ عذر ایک ہی مرتبہ لاحق ہوا! جو عذر زندگی میں ایک ہی مرتبہ لاحق ہو وہ تہ آسانی سے صحابہ کرام کہ بتایا جاسکتا تھا۔۔۔ جو عذر زندگی میں ایک مرتبہ لاحق ہو وہ ظاھر ہے کہ مرض مطر وءیرہ سے کم نہ ہوگا۔۔۔ اگر کم ہوگا تو وہ ایک ہی بار کیوں آیا؟!!!
خامسا: اگر احادیث میں فقط بلامطر اور بلا مرض کے الفاظ ہوتے تو آپ پھر بھی استدلال کرتے پر بلاخوف اور لاعلت (جو کہ ھر عذر چاہے قرآن و سنت میں موجود ہو یا نہ ہو) کو شامل ہے۔
سادسا: اگر کہا جائے کہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازیں ملا کر پڑھنا جائز ہے تو یہ بات کسی پر گران اور بھاری نہیں گذرتا خاص کرے صحابہ کرام پر۔۔۔۔
پر اگر بغیر کسی عذر کے ہو تو سب پر بھاری گذرتا ہے جیسے آپ ہی گذرا۔۔۔۔
تو یہی مسئلا کسی صحابی کریم کو بھی پیش آیا اور بھاری گذرا پھر انھوں نے ابو ھریرہ رضی اللہ بیان کیا تو انہوں نے بھی جمع بین الصلاتین کا کہا۔۔۔
عن عبداللّه بن شفيق العقيلى : قال : خطبنا ابن عباس يوماً بعد العصر حتى غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس يقولون : الصلاة الصلاة ، قال : فجاء رجل من بنى تميم لا يفترُ و لا ينثنى يقول : الصلاة الصلاة ، فقال ابن عباس : أتعلّمنى بالسنة لا امَّ لك؟! ثم قال : رأيت رسول اللّه ( ص ) جمع بين الظهر و العصر و المغرب و العشاء ، قال عبداللّه بن شفيق : فحاك فى صدرى من ذلك شىء ، فأتيت أبا هريرة فسألته فصدَّق مقالته .
مسند احمد ، ج 1 ، ص 251 ؛
صحيح مسلم ، ج 2 ، ص 154 ؛
اس جملے کو دیکھیں( حاک فی صدری من ذالک الشیء(الجمع بین الصلاتین)) ۔
میرے بھائیو!
میں چند مقدمے اور اسکے بعد اصل مطلب بیان کرتا ہوں۔۔۔
١ـآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام کے علاوہ کسی کا قول و فتوی ھماری گردن نہیں جھکا سکتا کیوں ما اھل حدیثیم۔
٢ـآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسان کام کو نہیں بلکہ افضل کو انجام دیتے تھے۔۔۔
٣ـحدعیثوں سے صحابہ کرام کا فھم ھمارے لیے حجت ہے کیونکہ سنت کو وہی اچھی طرح جانتے ہیں۔۔
٤ـإِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا) النساء / 103 . اس آیت میں یہ ہے کہ نماز معین وقت پر واجب ہے اب وہ کونسا وقت ہے اسکو سنت نبوی بیان کریگی۔۔۔۔
٥ـ حدیث جمع بین الصلوتین میں یہ تمام الفاظ(سفر، مطر، خوف،علہ اور مرض) نکرہ استعمال ہوئے ہیں۔۔
٦ـ بعض احادیث میں صحابہ کرام نے اور علما نے بھی دوبارہ مطر و سفر جیسے بھانے ڈھونڈھے لیکن وہ سب نص کے مقابلے میں تھے۔۔۔
اب اصل مطلب
جب تمام احادیث میں یہ تمام الفاظ(سفر، مطر، خوف،علہ اور مرض) نکرہ استعمال ہوئے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ کسی قسم کا خوف کسی قسم کا مرض کسی قسم علت اور سبب کے بغیر دو نمازیں جمع پڑھی گئیں۔۔۔۔
حرج کا مطلب ہے کہ خود دو نمازیں ملا کر پڑھنا حرج اور مشکل ہے۔۔۔
قال ابن عمر : جمع لنا رسول اللّه ( ص ) مقيماً غير مسافر بين الظهر و العصر ، و المغرب و العشاء ، فقال رجل لابن عمر : لِمَ ترى&rlm النبى ( ص ) فعل ذلك؟ قال : لئلا يحرج أمته إن جمع رجلٌ .
مصنف عبدالرزاق ، ج 2 ، ص 556 ، ح 4437
كنزالعمال ، ج 2 ، ص 242 ، ح 5078 .
آپ کا اعتراض تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایک بار پڑھی تھی۔۔۔۔ اگر جمع کرنا عام ھوتا تو ایک سے زیادہ بار پڑھتے کیونکہ آسان کو اتجیح دیتے تھے تو اسکا جواب یہ ہے کہ
١ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباح کے مقابلے میں مستحب کو اور مکروھ کے مقابلے میں مباح کو انجام دیتے تھے۔۔۔
٢ـکس نے کہا ہے کہ ایک بار پڑھی تھی بلکہ : إن النبى ( ص ) كان يصلى بالمدينة يجمع بين الصلاتين الظهر و العصر و المغرب و العشاء ، من غير خوف و لا مطر ، قيل له : لِمَ؟ قال : لئلا يكون على امته حرج .
سنن النسائى ، ج 1 ، ص 290 .
جب لفظ "کان" فعل مضارع کے ساتھ آئے تو استمرار پر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔۔
آپ کا کہنا ہے کہ لازم نہیں کہ تمام عذر قرآن و سنت میں موجود ہوں! تو میں کہتا ہوں
اولا: اپ کی دعوی بلا دلیل ہے۔۔
ثانیا: عذر امر وجودی ہے لذا امر وجودی دلیل کا محتاج ہے۔
ثالثا: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے علت پوچھی گعی تو انہوں نے جواب دیا لئلایحرج امتی۔۔۔ کوئی دوسرا عذر نہیں بتایا۔۔۔اگر ہوتا توپوچھنے کے باوجود ضرور بتاتے۔۔۔
رابعا: اگر اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عذر تھا تو وہ کونسا تھا؟ یعنی وہ عذر ایک ہی مرتبہ لاحق ہوا! جو عذر زندگی میں ایک ہی مرتبہ لاحق ہو وہ تہ آسانی سے صحابہ کرام کہ بتایا جاسکتا تھا۔۔۔ جو عذر زندگی میں ایک مرتبہ لاحق ہو وہ ظاھر ہے کہ مرض مطر وءیرہ سے کم نہ ہوگا۔۔۔ اگر کم ہوگا تو وہ ایک ہی بار کیوں آیا؟!!!
خامسا: اگر احادیث میں فقط بلامطر اور بلا مرض کے الفاظ ہوتے تو آپ پھر بھی استدلال کرتے پر بلاخوف اور لاعلت (جو کہ ھر عذر چاہے قرآن و سنت میں موجود ہو یا نہ ہو) کو شامل ہے۔
سادسا: اگر کہا جائے کہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازیں ملا کر پڑھنا جائز ہے تو یہ بات کسی پر گران اور بھاری نہیں گذرتا خاص کرے صحابہ کرام پر۔۔۔۔
پر اگر بغیر کسی عذر کے ہو تو سب پر بھاری گذرتا ہے جیسے آپ ہی گذرا۔۔۔۔
تو یہی مسئلا کسی صحابی کریم کو بھی پیش آیا اور بھاری گذرا پھر انھوں نے ابو ھریرہ رضی اللہ بیان کیا تو انہوں نے بھی جمع بین الصلاتین کا کہا۔۔۔
عن عبداللّه بن شفيق العقيلى : قال : خطبنا ابن عباس يوماً بعد العصر حتى غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس يقولون : الصلاة الصلاة ، قال : فجاء رجل من بنى تميم لا يفترُ و لا ينثنى يقول : الصلاة الصلاة ، فقال ابن عباس : أتعلّمنى بالسنة لا امَّ لك؟! ثم قال : رأيت رسول اللّه ( ص ) جمع بين الظهر و العصر و المغرب و العشاء ، قال عبداللّه بن شفيق : فحاك فى صدرى من ذلك شىء ، فأتيت أبا هريرة فسألته فصدَّق مقالته .
مسند احمد ، ج 1 ، ص 251 ؛
صحيح مسلم ، ج 2 ، ص 154 ؛
اس جملے کو دیکھیں( حاک فی صدری من ذالک الشیء(الجمع بین الصلاتین)) ۔