السلام علیکم
جب میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمع قرآن کا کام عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے کیا تھا
صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث بیان ہوئی جس کا مفہوم یہ کہ
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ بن اکوع ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 502
یعنی مسجد نبوی کا ایک ستون خاص قرآن مجید رکھا ہونے کی وجہ سے مشہور تھا قرآن کو جمع دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا تھا اور اس ستون کے پاس رکھا گیا تھا صحیح بخاری میں بیان ہوا جس کا مفہوم یہ کہ
قتادہ نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا، انہوں نے بتلایا کہ چار صحابیوں نے، یہ چاروں قبیلہ انصار سے ہیں۔ ابی بن کعب، معاذبن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر:5003
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید کو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع کرکے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا تو پھر دور ابوبکر میں بھی قرآن کو دوبارہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟؟؟
کیونکہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ
حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ عہد ابوبکر میں جنگ یمامہ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ قرآن کو جمع کیا جائے حضرت ابو بکر کے حکم سے حضرت عمر مجھے بلانے کے لئے آئے اور کہا کہ " یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیں" میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے۔پھر ہم حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ابو بکر نے بھی وہی کہا جو عمر نے کہا تھا اور میں نے جواب میں یہی کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور قرآن مجید کو مختلف لوگوں سے جمع کرکے حضرت ابوبکر کو دئے قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکرکے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 4986
مفہوم حدیث ختم ہوا
جب میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمع قرآن کا کام عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے کیا تھا
صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث بیان ہوئی جس کا مفہوم یہ کہ
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ بن اکوع ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 502
یعنی مسجد نبوی کا ایک ستون خاص قرآن مجید رکھا ہونے کی وجہ سے مشہور تھا قرآن کو جمع دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا تھا اور اس ستون کے پاس رکھا گیا تھا صحیح بخاری میں بیان ہوا جس کا مفہوم یہ کہ
قتادہ نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا، انہوں نے بتلایا کہ چار صحابیوں نے، یہ چاروں قبیلہ انصار سے ہیں۔ ابی بن کعب، معاذبن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر:5003
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید کو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع کرکے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا تو پھر دور ابوبکر میں بھی قرآن کو دوبارہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟؟؟
کیونکہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ
حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ عہد ابوبکر میں جنگ یمامہ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ قرآن کو جمع کیا جائے حضرت ابو بکر کے حکم سے حضرت عمر مجھے بلانے کے لئے آئے اور کہا کہ " یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیں" میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے۔پھر ہم حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ابو بکر نے بھی وہی کہا جو عمر نے کہا تھا اور میں نے جواب میں یہی کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور قرآن مجید کو مختلف لوگوں سے جمع کرکے حضرت ابوبکر کو دئے قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکرکے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 4986
مفہوم حدیث ختم ہوا