• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن عاشررحمہ اللہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے، فرماتے ہیں:
’’والصواب أنھا ستۃ: المکي الشامي والبصري والکوفي والمدني العام الذي سیرہ عثمان من محل نسخۃ إلی مقرہ والمدني الخاص بہ الذي حبسہ لنفسہ وھو المسمی الإمام‘‘(مناھل العرفان:۴۰۳)
’’صحیح بات یہ ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ چھ تھے جن میں مکی، شامی،بصری، کوفی، مدنی عام جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محل نسخ یعنی مدینہ والوں کی قراء ات کے لیے خاص کیا تھا اور مدنی خاص جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے خاص فرمایا تھا۔‘‘
ابن حجررحمہ اللہ اور ابن عاشر کا قول میں کوئی منافات نہیں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے مصحف امام کا ذکر ہی نہیں کیا یعنی فقط لفظی اختلاف ہے۔
نیز امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے، فرماتے ہیں:
’’اختلف في عدۃ المصاحف التي أرسل بھا عثمان إلی الآفاق، فالمشہور أنھا خمسۃ‘‘(الإتقان:۱؍۱۲۱)
’’جو مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مختلف بلاد میں روانہ کیے تھے انکی تعداد میں اختلاف ہے اور مشہو ریہ ہے کہ وہ پانچ ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیاآیات اور سورہ کی ترتیب توقیفی ہے؟
آیات کی ترتیب کے بارے میں تو اُمت مسلمہ کا اِجماع ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے۔
٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الإجماع والنصوص المترادفۃ علی أن ترتیب الآیات توقیفي لا شبہۃ في ذلک۔ أما الإجماع فنقلہ غیر واحد منھم: الزرکشي في البرھان وأبو جعفر بن الزبیر في مناسباتہ، وعبارتہ: ترتیب الآیات في سورھا واقع بتوقیفہ وأمرہ من غیر خلاف في ھذا بین المسلمین‘‘ (الإتقان:۱؍۱۲۱)
’’اِجماع اُمت اور نصوص مترادفہ اس پر دال ہیں کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے، اس پر کئی ایک نے اجماع نقل کیا ہے جن میں زرکشی رحمہ اللہ نے برھان میں اور ابوجعفر بن الزبیرنے مناسبات میں کہا ہے کہ سورتوں میں آیات کی ترتیب یہ نبی مکرمﷺنے خود بتائی ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
٭ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فأما الآیات في کل سورۃ وضع البسملۃ أوائلھا فترتیبھا توقیفي بلاشک، ولا خلاف فیہ۔‘‘ (البرھان:۱؍۲۵۳)
’’ہر ایک سورت کی آیات اور ان کے شروع میں بسملہ لکھنا تو قرآن کریم کی جو ترتیب ہے یہ بغیر کسی شک کے نبی مکرمﷺ کی طرف سے ہے اور اس بارے میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مکی بن ابی طالب القیسي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ترتیب الآیات في السور ھو من النبي ! ولما لم یأمر بذلک في أوّل براء ۃ ترکت بلا بسملہ۔‘‘
’’آیات کی ترتیب یہ نبی مکرمﷺ کی طرف سے ہے اسی وجہ سے سورۃ براۃ کو بغیر بسملہ کے لکھا گیا ہے کہ آپ نے وہاں لکھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
٭ قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترتیب الآیات أمر واجب وحکم لازم فقد کان جبریل یقول:’’ضَعُوْا آیَۃَ کَذَا فِيْ مَوْضِعِ کَذَا‘‘۔ (البرھان:۱؍۲۵۳)
’’آیات کی ترتیب کو ملحوط رکھنا واجب اور لازم ہے خود سیدنا جبریل علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھو۔‘‘
اِمام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی اللہ نے اپنی کتاب المدخل اور دلائل النبوۃ میں اس کی دلیل حضرت زیدرضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دی:
’’کنا حول رسول اﷲ ! نؤلف القرآن من الرقاع۔ إذ قال: ’’طُوْبٰی لِلشَّامِ‘‘۔ فقیل لہ: ولِمَ؟ قال: ’’إِنَّ مَلَآئِکَۃَ الرَّحْمٰنِ بَاسِطَۃٌ أَجْنِحَتَھَا عَلَیْہِمْ‘‘۔ (البرھان: ۱؍۱۵۴)
’’کہ ہم اس وقت اللہ کے رسولﷺکے اردگرد قرآن کریم کو ترتیب دے رہے تھے جب آپ نے کہا کہ شام والوں کے لیے خوشخبری ہو، آپﷺسے کہا گیا کیوں اللہ کے رسولﷺ، آپﷺنے فرمایا: رحمن کے فرشتے شام پر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔‘‘
لہٰذا ترتیب آیات توقیفی ہونے کے متعلق اُمت مرحومہ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے ساری کی ساری اُمت اس بات پرمتفق ہے کہ یہ توقیفی ہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترتیب سور کا مسئلہ
سورتوں کی ترتیب آیا توقیفی ہے یعنی بذریعہ وحی مقرر کی گئی ہے یا پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اجتہاد سے مقرر فرمائی ہے اس بارے میں علماء کی تین آراء ہیں:
(١) قرآن کی ترتیب اجتہادی ہے یعنی صحابہ نے خو د اپنے اِجتہاد سے مقرر فرمائی ہے یہ جمہور علماء کی رائے ہے امام مالک رحمہ اللہ اور قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ اپنے ایک قول میں ان کے ساتھ ہیں۔ (الاتقان:۱؍۱۲۴)
(٢) علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ آیات کی طرح سور کی ترتیب بھی توقیفی ہے یعنی خود نبیﷺنے مقرر فرمائی ہے۔
(٣) اس بارے میں تیسری رائے یہ ہے کہ قرآن کابعض سور کی ترتیب توقیفی ہے اوربعض کی صحابہ رضی اللہ عنہم نے مقرر فرمائی۔ (البرھان:۱ ؍۳۵۴)
ہماری نظر میں درست اور صحیح مذہب یہ ہے کہ قرآن کریم کی ان سور کی ترتیب تو نبی مکرمﷺکی مقرر کردہ جس کی طرف آپ نے خود اِشارہ بھی فرمایا ہے ۔جبکہ دیگر سور کی ترتیب اِجتہادی ہے ۔توقیفی کہنے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’عن واثلۃ بن الأسقع أن النبي ! قال: ’’أُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّوْرَاۃِ السَّبْعَ الطِّوَالَ، وَأُعْطِیْتُ مَکَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئَیْنِ وَأُعْطِیْتُ مَکَانَ الإِنْجِیْلِ الْمَثَانِيْ وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ‘‘(مسند أحمد: ۱۶۳۶۸، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني: ۱۴۸۰)
’’واثلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرمﷺنے فرمایا: مجھے تورات کے بدلے سبع طوال، زبور کے بدلے متین، اِنجیل کے بدلے مثانی عطاکی گئی ہیں اور مجھے مفصل سورتوں کے ساتھ فضیلت عطا کی گئی ہے۔‘‘
اس رِوایت کے بارے میں امام ابوجعفر النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’المختار علی أن تألیف السور علی ھذا الترتیب من رسول اﷲ ! لحدیث واثلۃ وأعطیت مکان التوراۃ السبع الطوال۔‘‘ (مناہل العرفان: ۱؍۳۵۵، الإتقان: ۱؍۱۷۲)
’’واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’أعطیت مکان التوراۃ السبع الطوال‘‘ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سورتوں کی ترتریب بھی اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے ہے اور یہی پسندیدہ مذہب ہے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
’’فھذا الحدیث یدل علی أن تألیف القرآن مأخوذ عن النبی!۔‘‘ (المرجع السابق)
’’یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ سورۃ کی ترتیب یہ نبی مکرمﷺسے ہی ماخوذ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن الحصاررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ترتیب وضع الآیات علی مواضعھا إنما کان بالوحي۔‘‘
’’سورتوں اور آیات کی ترتیب یہ صرف اور صرف وحی کی بنیاد پر ہے۔‘‘
٭ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ترتیب بعض السور علی بعضھا أو معظمھا لا یمتنع أن یکون توقیفیاً: ومما یدل علی أن ترتیب المصحف کان توقیفا ما أخرجہ أحمد، وأبوداؤد وغیرہما عن أوس بن أبي أوس حذیفۃ الثقفي۔ قال: ’’کنت في الوفد الذین أسلموا من ثقیف…‘‘ الحدیث۔ وفیہ، فقال لنا رسول اﷲ !: ’’طَرَأَ عَلَيَّ حِزْبِيْ مِنَ الْقُرْآنِ فَأَرَدْتُ أَنْ لَّا أَخْرُجَ حَتّٰی أَقْضِیَہٗ‘‘۔ فسألنا عن أصحاب رسول اﷲ ! قلنا: کیف تحزبون القرآن؟ قالوا: نحزبہ ثلاث سور وخمس سور وسبع سور وتسع سور، وإحدی عشرۃ، وثلاث عشرۃ، وحزب المفصل من قٓ حتی تختم، فھذا یدل علی أن ترتیب السور علی ما ھو في المصحف الآن کان في عھد النبي !۔‘‘ (الاتقان: ۱؍۱۲۶)
’’ بعض سور کی بعض کے ساتھ جو ترتیب ہے اس بارے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اسے توقیفی قرار دیا جائے اور ان کی توقیفیت پر مسنداحمد اور ابوداؤد کی یہ حدیث دال ہے۔ ’’حذیفہ الثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس وفد میں شامل تھا جو ثقیف میں سے مسلمان ہوئے تھے۔ ہمیں رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اچانک مجھے، قرآن کی تلاوت کرنا یاد آگیا اور میں نے ارادہ کیا کہ اس کی تکمیل کرکے ہی نکلوں: کہتے ہیں کہ ہم نے صحابہ سے سوال کیا کہ تم کس طرح قرآن کے حزب بناتے ہو۔ انہوں نے کہا ، پہلا حزب تین سورتیں، دوسرا پانچ سورتیں، تیسرا سات سورتیں، چوتھا نو سورتیں، پانچواں گیارہ سورتیں، چھٹا تیرا سورتیں اور سورۃ ق سے آخر تک ۔ اس کے بعد حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ1 کے زمانہ میں بھی مصحف کی یہی ترتیب تھی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومما یدل علی أنہ توقیفي کون الحوامیم رتبت ولاء وکذا الطواسین ولم ترتب المسبحات ولائ، بل فصل بین سورھا وفصل (طسٓم) الشعراء و(طٓسٓم) القصص بـ(طس) مع أنھا أقصر منھما ولو کان الترتیب اجتھادیاً لذکرت المسبحات ولائ، وأخِّرت طس عن القصص۔‘‘ (الاتقان:۱؍۱۲۶)
’’قرآن کریم کی سورتوں کے توقیفی ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ تمام سورتیں جو حمٓ اور طٓس سے شروع ہوتی ہیں انہیں اکٹھا ذکرکیاگیاہے اور مسبّحات کے درمیان کئی دیگر سورتیں بھی موجود ہیں نیز یہ کہ سورۃ قصص اور شعراء کے درمیان سورۃ النمل کو لایا گیا ہے حالانکہ وہ دونوں سے چھوٹی ہے اگر ترتیب اجتہادی ہوتی تو پھر مسبحات کو اکٹھا ذکر کرنا چاہئے تھا اور قصص اور شعراء کے درمیان نمل کو لانے کی بجائے اسے قصص سے مؤخر کرنا چاہئے تھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عن سلیمان بن بلال قال: سمعت ربیعۃ یسأل: لم قدمت البقرۃ وآل عمران وقد نزل قبلھما بضع وثمانون سورۃ بمکۃ، وإنما أنزلتا بالمدینۃ۔ قال: قدمتا وألف القرآن علی علم ممن ألفہ بہ۔‘‘ (الإتقان: ۱؍۱۷۳)
’’سلیمان بن بلال کہتے ہیں میں نے ربیعہ سے سنا کہ جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ بقرہ اور آل عمران کو کیوں مقدم کیاگیاہے حالانکہ اس سے پہلے اسی زیادہ سورتیں نازل ہوئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کو اسی ذات کے علم کی وجہ سے مقدم کیا گیا جس نے قرآن کی ترتیب لگوائی ہے۔‘‘
اَئمہ کے اِن اَقوال کے علاوہ بعض مزید مرفوع اَحادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
’’اِقْرَئُوْا الزَّھْرَاوَیْنِ؛ اَلْبَقَرَۃَ وَسُوْرَۃَ آلِ عِمْرَانَ‘‘۔ (صحیح مسلم: ۱۳۳۷)
’’دو چمکنے والی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھا کرو۔‘‘
اس حدیث میں بھی اللہ کے رسولﷺ نے موجودہ ترتیب کے موافق سورۃ بقرہ اور آل عمران کے اَسماء ذکر فرمائے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام محمود کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ترتیب السور ھکذا ھو عند اﷲ وفي اللوح المحفوظ وھو علی ھذا الترتیب کان یعرض علی جبریل کل سنۃ ما کان یجتمع عندہ ، وعرض علیہ في السنۃ التي توفي فیھا مرتین۔‘‘ (مباحث فی علوم القرآن: ۱/۱۴۵)
’’سورتوں کی ترتیب موجودہ ترتیب کے موافق اللہ کی طرف سے متعین کردہ ہے اور لوح محفوظ میں بھی اسی طرح ہی موجود ہے اسی ترتیب کے موافق ہی اللہ کے رسولﷺسیدنا جبریل علیہ السلام سے ہر سال جتنا قرآن ان کے پاس جمع ہوتا دور کرتے اور ایسے ہی عام وفات میں آپﷺنے دو مرتبہ دور فرمایا۔‘‘
مذکورہ اَحادیث اور اَئمہ کے اَقوال کے باوصف چند ایک دلائل ایسے ہیں جو سورتوں کی ترتیب کے توقیفی ہونے میں حائل ہیں۔ جس میں ایک دلیل صحابہ کے وہ مصاحف ہیں کہ جن میں سور کی ترتیب موجودہ ترتیب عثمانی کے خلاف ہے۔ جس کی تفصیل ’الإتقان‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس کی دوسری دلیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے جس میں آپ نے سورۃ انفال اور توبہ کو اپنے اِجتہاد سے ترتیب دیا۔ نیز بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایات بھی اس کے خلاف دلیل ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’وما یضرک أیۃ قرأت قبل، إنما نزل أول ما نزل منہ سورۃ من المفصل، فیہا ذکر الجنۃ والنار…۔‘‘ (فتح الباری: ۱۱؍۴۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جبکہ سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’لقد تعلمت النظائر التي کان النبي یقرؤہن اثنین في کل رکعۃ فقام عبداﷲ ودخل معہ علقمۃ وخرج علقمۃ فسألناہ فقال: عشرون سورۃ من أول المفصل علی تألیف ابن مسعود آخرہن الحوامیم حٰم الدخان وعم یتسائلون۔‘‘ (فتح الباری: ۱۱؍۴۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے قرآن کی ترتیب مقرر نہیں کی تھی ایسے ہی ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی ترتیب قرآن ،کہ جس میں سورۃ دخان مفصل میں شامل ہے یہ ظاہر کرتی ہے قرآن کریم کی ترتیب اجتہادی ہے نہ کہ توقیفی۔ اِن دلائل کی موجودگی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مکمل قرآن کریم کی ترتیب توقیفی ہے البتہ ان سورتوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ترتیب توقیفی ہے جس کے بارے میں نبی مکرمﷺنے خود اِرشاد فرمایا اور پھر مصحف عثمانی میں ان کو اسی ترتیب کے موافق لکھا گیا ہے۔ واﷲ أعلم بالصواب۔

٭_____٭_____٭
 
Top