جمہوریت کو ہم کفر کیوں کہتے ہیں؟؟؟۔۔۔ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے۔۔۔
جس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام یہود ونصارٰی نے ایجاد کیا ہے۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صرف اس وجہ سے نہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کی ایجاد ہے بلکہ اس لیئے بھی کہ اس نظام کے اصول و قوائد قرآن و حدیث کے ساتھ متصادم ہیں آپ سمجھ لیں کہ اگر اسلامی نظام دن ہے تو جمہوری نظام رات ہے، اگر جمہوری نظام اندھیرا ہے تو اسلامی نظام روشنی ہے یعنی یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
کویت، بحرین، قطر، دبئی میں خلیفہ بن کر نظام چلا رہے ہیں۔۔۔
عمان، سعودی عرب میں بادشاہ بن کر ایک دوسرا نظام چلایا جارہا ہے۔۔۔
نام اسلامی رکھ دینے سے کوئی نظام اسلامی نہیں بن جاتا جس طرح آجکل سود کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے تو کیا وہ اسلام میں حلال ہوگیا ہے؟ نہیں ناں؟ اسی طرح اگر کوئی خلیفہ کہلائے مگر اس میں خلیفہ والی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو وہ دھوکہ ہوسکتا ہے خلیفہ نہیں ،رہ گیا بادشاہ والا معاملہ تو بھائی جان یہ سسٹم دینِ محمد ﷺ میں جائز نہیں ہے پہلے انبیاء و رسل علیہم السلام کے دلائل نہ دیجیئے گا کیونکہ اللہ نے اس دین میں جو طریقہ بطورِ نظام کے دیا ہے وہ خلافت ہے بادشاہت نہیں دیا ہے اس لیئے اب اسلامی نظام وہی ہوگا جو خلافت کی شرائط کو پورا کرئے۔
آپ کی بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ بات کسی پریشانی میں لکھی گئی ہے یا احساسِ کمتری کے شکار کی کہی گئی بات ہے جیسے کہ
رہ گئے عجمی تو نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔۔۔ اس پر بات کرنا بیکار ہے۔۔۔
بھائی میرے کیا عجمی لوگ قیامت کے دن اُٹھائے نہیں جائیں گے؟؟؟
کیا اسلامی نظام کے احیاء کی جدوجہد عجمیوں پر موقوف ہے؟؟؟
کیا عجمی نہ جنت میں جائیں گے نہ جہنم میں؟؟؟
کیا اسلام صرف عربیوں کے لیئے نازل ہوا تھا؟؟؟
اگر ان سب کا جواب آپ نہیں میں دیتے ہیں تو یہ اس طرح کی باتیں کیوں لکھتے ہیں؟؟؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ جی عرب ہی مرکز ہے اس لیئے عجمیوں کی کوشش بےکار ہے تو عرض ہے کہ اُن احادیث بارے آپ کا کیا حکم ہے جنمیں مشرق یعنی خراسان سے کالے جھنڈے والے برآمد ہونے اور ان کا حق پر ہونے کا ذکر ہے؟؟؟
اس میں کچھ شک نہیں کہ مرکز عرب بنے گا مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ عجمی لوگ اسلامی نظام کے احیاء کی جدوجہد میں شریک ہی نہ ہوں بلکہ وہ جہاں کہیں بھی رہ رہے ہوں اپنے علاقائی نظاموں کو اپنائیں اور ان کو ہی نافذالعمل کرنے میں اپنی صلاحتیں لگائیں؟؟؟
بھائی میرے اس بار آپ نے مجھے میرے سوالوں کے جوابات ضرور دینے ہیں تاکہ اس بات چیت کو احسن طریقے سے چلا سکیں اور آخر میں جو بھی بات قرآن و سنت سے سامنے آئے اس کو اپنا سکیں۔
چلیں ایک کام کی حدیث پیش کرتا ہوں۔۔۔ پڑھنی نہیں ہے سمجھنی بھی ہے۔۔۔
مسند احمد، ترمذی، نسائی اور طیالسی میں حارث الاشعری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
اور میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔١۔ جماعت میں رہنا۔٢۔ سننا۔٣۔اطاعت کرنا۔٤۔ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔٥۔ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
مسلم کی حدیث ملاحظہ کیجئے!۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔من خلع یدا من طاعۃ لقی اللہ یوم القیامۃ لاحجۃ لہ ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ۔جس نے (امیر کی) کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اُس پر کوئی حجت نہیں ہوگی۔ اور جوکوئی اس حال میں مرا کہ اُس کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہی نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اگر آپ پہلے ان دونوں احادیث پر اپنا تبصرہ فرما دیتے تو ہم جیسے کم علم بندوں کے لیئے ان کو سمجھنا آسان ہو جاتا، اور جہاں تک میں ان کو سمجھتا ہوں یہ ہے کہ پہلی حدیث میں ایک نظم کی ترتیب ہے اور یہ جتنی اہم حدیث ہے ہم لوگوں نے اتنا ہی اس کو پس پشت ڈالا ہوا ہے میں نے یہ حدیث بہت سے لوگوں کے سامنے پیش کی ہے ان میں علماء کرام بھی ہیں مگر کوئی بھی اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہو رہا یا وہ کہتے ہیں کہ اس پر عمل ناممکن ہے، یا عمل مشکل ہے یا ہم اسی پر کوشش کر رہے ہیں یا کچھ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہاں ہم اسی پر تو عمل کر رہے ہیں ہم جماعت کے ساتھ ہیں، سمع و اعطاعت کرتے ہیں ہجرت بھی کریں گے اور جہاد بھی مگر جب کہا کہ اس طرح تو سبھی جماعتوں والے عمل کر رہے ہیں مگر مقصد میں سبھی ناکام ہیں؟؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اس فرمان میں یہی مقصود ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں؟ تو خاموشی چھا جاتی ہے۔
اس حدیث میں بہت اہم اصول ہیں جو کہ کسی انسان نے وضع نہیں کیئے بلکہ خالقِ کائنات نے حکم فرمائے ہیں اور انہی اصولوں کا حکم نبی ﷺ نے اپنی امت کو دیا مگر افسوس ہم ان سبھی حکموں کے خلاف چل رہے ہیں جس کی وجہ سے امت متفرق ہے اگر ان سبھی سنہری اصولوں پر عمل کیا جائے تو امت متحد ہو جائے اور اسلام غالب بھی ہو جائے کیونکہ مسلمانوں کی بقاء صرف اور صرف اتحاد میں ہے اور یہ احکامات اتحاد کا ہی درس دے رہے ہیں سب سے پہلا حکم
الجماعت کے ساتھ رہنے کا
یہ الجماعت ایسا نظم ہے جس کو خلافت کہا جاتا ہے اس سے مراد مسلمانوں کی متفرق جماعتیں ہرگز نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، اس کی وضاحت فرمانِ رسول ﷺ سے ہوتی ہے
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي رَجَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
یعنی اس الجماعت سے مراد خلافت کا سسٹم ہے نہ کہ موجودہ مسلمانوں کے متفرق گروہ اوردوسرا حم ہے سننے کا تیسرا حکم ہے اعطاعت کا یعنی خلیفہ کی سمع و اعطاعت اور خلیفہ کے مقرر کیئے ہوئے امیر کی سمع و اعطاعت، نہ کہ آجکل کے سینکڑوں متفرق امراء کی اعطاعت بلکہ ان متفرق امیروں سے اعتزال کا حکم ہے یعنی ان کے ساتھ شامل ہی نہیں ہونا جیسا کہ حذیفہ بن یمان والی حدیث میں حکم ہے وہ حدیث بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ یہ حکم واضح ہوسکے
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
اتنے واضح اور بینات اصول ہونے کے باوجود مسلمان متفرق ہوچکے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ اسلام کے سنہری اصولوں کو فراموش کرچکے ہیں اور بات آپ والی آ گئی کہ
منکر حدیث جاوید غامدی پر حملے ہوتے ہیں اور جو اس حدیث کو مانتے ہوئے عمل نہیں کررہے اُن کی شان میں قصیدے یہ کھلا تضاد کیوں ہے؟؟؟
بات یہی سچ ہے کہ ہم مان کر بھی نہیں مانتے،زبان سے اقرار کر لیا تو کیا حاصل جب اس پر عمل ہی نہ کیا جائے؟؟؟ بات چل رہی تھی سمع و اعطاعت کی تو بھائیو اسلام میں اللہ اور رسول ﷺ کے بعد اگر کوئی ہستی ہے جس کی بات سنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے وہ صرف اور صرف خلیفہ اور اس کا مقرر کیا امیر ہی ہے مگر ان کی اعطاعت مشروط ہے قرآن و حدیث کے ساتھ، رہ گے موجودہ متفرق امراء تو ان سے اعتزال کا حکم ہے یعنی ان کی بغاوت کا حکم ہے اگر کوئی ان سے بغاوت نہیں کرتا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کا انجام اللہ کے نبیﷺ نے بتا دیا کہ جو بھی ان کی بات مانے گا اس کو جہنم میں پھینک دے گا، اب ہر کوئی اپنا محاسبہ کر لے۔
چوتھا حکم ہے ہجرت کا
یعنی جب آپ الجماعت کے ساتھ رہے اور سمع و اعطاعت کی تو اس کے بعد اللہ دارالاسلام عطاء فرمائیں گے جیسا کہ سورہ نور کی آیت نمبر 55 میں بھی ذکر ہے تو پھر اس کی طرف ہجرت کرنا لازمی امر قرار پاتا ہے جیسا کہ نبیﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی مدینہ کو دارالاسلام بنایا اور اس کے بعد پانچواں حکم آتا ہے جہاد یعنی قتال کا، ہر دور کا طاغوت یہ نہیں چاہتا کہ اسلامی نظام کہیں رائج ہو اس لیئے وہ دارالاسلام پر حملہ کرتا ہے جیسا کہ مدینہ پر جزیر العرب کے مشرکین نے مل کر کیا تھا، آج کی بھی طاغوتی طاقتیں یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہدنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی خلافت قائم ہو اگر کہیں قائم ہوئی تو یہ سب کافر مل کر اور ان کے ساتھ ان کے ایجنٹ بھی شامل ہو کر اس اسلامی نظام پر حملہ کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ اور اس کے طاغوتی اتحاد نے افغانستان پر حملہ کیا، اس کے بعد کا عمل ہے جہاد کا جس کو بعض لوگ پہلے 4 حکم فراموش کر کے پانچویں حکم پر عمل کر رہے ہیں تو کیا اس طرح یہ کامیابی حاصل کرلیں گے؟؟؟ ہرگز ہرگز ہرگز نہیں کیونکہ اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، اس کی تازہ مثال روس کے خلاف جہاد ہے 1500000 مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور 15 سال تک جہاد کیا مگر نتیجہ کیا نکلا آپس میں جنگ و قتال!!! کیا یہ جہاد کا نتیجہ ہوتا ہے؟؟؟ نہیں اللہ کی قسم یہ جہاد کا نہیں بلکہ متفرق ہونے کا نتیجہ ہے۔ جہاد و قتال کا جو حکم اللہ نے دیا اور نبی ﷺ نے اس پر عمل کرکے دیکھایا اس کے خلاف جب بھی عمل کیا جائے گا نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
ایک بات کی وضاحت کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ جن علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے ان علاقوں کے مسلمانوں پر جہاد و قتال کرنا لازم ہے اس حکم علیحدہ سے قرآن میں موجود ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی مگر اس کے باوجود کہ ان کو لڑنے کی اجازت ہے ایک اصول یہاں بھی فراموش نہیں کرنے والا کہ متحد ہو کر لڑنا ہے ناکہ متفرق ہو کر اگر اتحاد قائم کیئے بنا قتال کیا گیا تو نتیجہ افغانستان والا نکل سکتا ہے اس لیئے ایک امیر کے تحت جہاد و قتال کیا جائے گا۔
آپ نے مزید لکھا کہ
اب مجھے ذرا یہ بتائیں۔۔۔ کہ ہم کیا کریں؟؟؟۔۔۔ میں تو تیار ہوں خادم حرمین شریفین کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو لیکن کیا وہ میری بیعت کو قبول کریں گے؟؟؟۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے میرے امام بننے کو تیار ہونگے؟؟؟۔۔۔ یا اگر میں اپنی اس خواہش کو پاکستان کےعلماء حضرات کے سامنے پیش کروں تو کیا وہ مجھے ساون کا اندھا نہیں سمجھیں گے جس کو ہر طرف ہریالی ہی دکھائی دیتی ہے۔۔۔ دیکھیں بھائیوں! خلافت کی باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن اس کے نفاذ میں جب مجدد ملت عبدالوہاب صاحب ناکام ہوگئے تو ہماری اوقات کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا کے متصادق ہی ہوگی اس سے زیادہ نہیں۔۔۔ لہذا ملک کو بچائیں۔۔۔ جیسے دیگر اسلامی ممالک نے اپنے لوگوں اور اپنی ریاستوں کے لئے جمہوریت سے ہٹ کر جو نظام قائم کررکھے ہیں جن کی داغ بیل بھی یہود ونصارٰی نے ڈالی ہے تو ہم تو عجمی ہیں۔۔۔
خادم الحرمین شریفین تو آپ کی جان کنی کا حکم صادر فرما دیں گے بھائی ان کے سامنے تو خلافت اور بیعت کا ذکر کرنا بھی گناہ ہے ہمارے کئی ساتھی جیلوں میں ہیں قصور صرف یہی ہے جو میں یہاں کر رہا ہوں یعنی خلافت بارے معلومات وہ ساتھی کسی بھی تحریبی سرگرمیوں میں شامل نہیں تھے۔وہ جہادی امام نہیں بنیں گے بلکہ آپ کے جنازے کے امام کو بھی پکڑ لیں گے یہ امریکی ایجنٹ ہیں ان سے خیر کی توقع عبس ہے، ہم تو اللہ سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے کہ وہ امریکی غلامی سے نکل کر اسلام کی غلامی آ جائیں۔
رہا معاملہ پاکستان کے علماء کا تو وہ میں اوپر بھی لکھ آیا ہوں کہ جی یہ کام ناممکن ہے مشکل ہے، مشکل تو ہوگا ہی اس سے مسجد کی امامت جاسکتی ہے، مدرسہ ہاتھ سے نکل جائے گا، قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنی پڑیں گیں اوہو یہ کام بہت مشکل ہے واقعی ہی بہت مشکل ہے،
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اسلام کو ماننے والے اسلام کے نظام کے دشمن کیوں بن گے ہیں؟؟؟ آخر اسلامی نظام کی دشمنی ان لوگوں میں کیسے آ گئی ہے؟؟؟پاکستان میں پھر بھی اتنی سختی نہیں ہے یہاں دعوت و تبلیغ میں اتنی زیادہ مشکلات پیش نہیں آتی جتنی کہ عرب ممالک میں ہیں، وہاں تو کوئی رعایت نہیں دی جاتی فوراً اُٹھا لیا جاتا ہے اور پھر کوئی خبر نہیں ملتی کہ وہ بندہ زندہ ہے یا کہ قتل کردیا گیا ہے آخر یہ اسلام کو بطورِ مذہب ماننے والے اسلام کو بطورِ دین کیوں نہیں مانتے؟؟؟ یہ باتیں ان لوگوں کو سوچنی چاہیئے جو کاٖفروں کے نظام کو اپنانے میں مصلحتوں کا شکار ہیں اگر کافر لوگ اور ان کے ایجنٹ اسلامی نظام برداشت نہیں کرنا چاہتے تو ہم مسلمان کیوں ان کے کفریہ نظام کو گلے لگائے بیٹھے ہیں؟؟؟
اور ہمارے اہل علم لوگ بھی اسی فتنے کا شکار ہیں الاماشاءاللہ، تو بھائیو اس بات کو سمجھیں جس طرح کافر اسلامی نظام کے دشمن ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان کے باطل نظاموں سے دشمنی رکھنی چاہیئے اور اسی کا حکم اللہ نے دیا ہے، جو بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے نظام میں اس لیئے داخل ہوئے ہیں کہ ہم اس سے اسلامی انقلاب لائیں گے تو پہلے مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا کبھی کفر کے زریعہ اسلام آیا ہے؟؟؟ یہ ایک پلید نظام ہے اس میں جو بھی داخل ہوگا وہ بھی پلید ہو جائے گا جس طرح گٹر کی صفائی کرنے والا گٹر میں داخل ہوکر پلید ہو جاتا ہے،
اگر اسلامی انقلاب لانا مقصود ہے تو اس کا طریقہء کار وہی اپنانا ہوگا جس کا حکم اللہ اور رسول ﷺ نے دیا ہے نئے نئے ایجاد کردہ طریق سے اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاسکتا اس کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ ہے سنتِ رسول ﷺ جیسا کہ آپﷺ نے انقلاب لاکر دیکھایا اسی سنت پر عمل کرنے سے اسلامی نظام آئے گا ان شاءاللہ۔
آپ نے مزید لکھا ہے کہ
خوارج کو کہا جارہا ہے قرآن پڑھتے ہیں مگر حلق سے نہیں اترتا تو ہم مومن ہو کر اس بات کا دعوٰی کرسکتے ہیں کہ قرآن ہمارے حلق سے نیچے اتر رہا ہے۔۔۔ یہ بڑی سنجیدہ گفتگو ہے۔۔۔ چار کتابیں پڑھ کر خلافت نافذ نہیں ہوگی۔۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ۔۔۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
کی کامل مثال بنیں۔۔۔ عربی عجمی اور کالے گورے کی بدبودار سوچ کو دفن کریں۔۔۔ کر پائیں گے؟؟؟۔۔۔ عراق جل گیا، افغانستان جل رہا ہے، لیبا جل رہا ہے شام اور فلسطین جل رہے ہیں۔۔۔ طائف سے ایک بھی محمد بن قاسم نہیں جو مدد کو آسکے۔۔۔ بنتے ہیں سلفی۔۔۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بھی تو سلفی تھے۔۔۔ کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔ مسجد اقصٰی پکار رہی ہے کہ آو ہے کوئی بندہ مومن جو مجھے آزاد کراسکے؟؟؟۔۔۔ جہاں صحابہ کرام کی قبریں ہیں وہاں پر کتوں کا پارک بنایا جارہا ہے۔۔۔
پہلی بات یہ کہ اللہ کسی کے دعویٰ کو نہیں دیکھتا اللہ عمل دیکھتا ہے کہ کیسا کر رہا ہے اللہ کا ارشاد ہے کہ
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60
اے نبیؐ ! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نا ز ل کی گئی تھیں ، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں ، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔(60)النساء
دعویٰ کیسا اور عمل کیسا!!! اب اس شخص کو کس بات کی جزاء دی جائے گی؟؟؟دعویٰ پر جزاء؟ یا عمل پر جزاء؟ یقیناً جو عمل کیا ہے اسی کی جزاء دی جائے گی تو جیسا عمل ویسی جزاء، آج ہم کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ ہم کہیں اپنے تنازعات میں کسی طاغوت کو تو حاکم نہیں بناتے؟؟؟ طاغوتی عدالتوں کا بائیکاٹ کریں یہاں تک کہ اگر آپ کا حق بھی غضب کیا جارہا ہے تو بھی ان طاغوتی عدالتوں میں نہ جائیں بلکہ صبر کریں اللہ اس کا بہترین اجر دے گا ان شاءاللہ۔ اگر کوئی آپ پر دعویٰ دائر کردیتا ہے تو آپ جاسکتے ہیں صرف اپنی صفائی پیش کرنے کے لیئے مگر آپ انصاف اور فیصلہ کے لیئے ایسی عدالتوں میں نہیں جاسکتے جن میں غیراللہ کے قوانین رائج ہوں۔
چار کتابیں پڑھ کر خلافت نافذ نہیں ہوگی۔۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ۔۔۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
کی کامل مثال بنیں۔۔۔ عربی عجمی اور کالے گورے کی بدبودار سوچ کو دفن کریں۔۔۔ کر پائیں گے؟؟؟۔۔
بھائی صرف کتابیں نہیں پڑھیں بلکہ ہم عملی میدان میں کام کر رہے ہیں کتابیں علم کی پیاس بجانے کے لیئے پڑھی جاتیں ہیں اگر ان پر عمل نہ ہو تو پڑھائی کسی کام نہیں آئے گی اس لیے ہم عملی میدان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اور ہماری پہلی ترجع ہی سنت رسولﷺ پر استطاعت بھر عمل کی ہے، ہمیں علم ہے کہ نبیﷺ کے منہج کو چھوڑ کر کبھی بھی اسلامی نظام قائم نہیں کرسکیں گے صرف ایک ہی رستہ ہے جو اسلامی انقلاب لاسکتا ہے اور وہ اسوۃ حسنہ ہے۔
اور ہم لوگ ہر قسم کے تعصب کے خلاف ہیں وہ قومی تعصب ہو، ملکی تعصب ہو یا مسلکی تعصب یہ سب اسلام میں حرام ہیں، جس نے کلمہ پڑھا، دل سے اس کو سچا جانا اور عمل اس کے مطابق کیا وہ اب مسلم ہے چاہے وہ گورا ہو یا کالا، وہ عربی ہو یا عجمی سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، قوم پرستی پر میں نے ایک مضمون لکھا ہوا ہے قوم پرستی جاہلیت کی پکار اس کا مطالعہ کرکے ہمارے مؤقف کو سمجھا جاسکتا ہے۔
عراق جل گیا، افغانستان جل رہا ہے، لیبا جل رہا ہے شام اور فلسطین جل رہے ہیں۔۔۔ طائف سے ایک بھی محمد بن قاسم نہیں جو مدد کو آسکے۔۔۔
بھائی جان اب وہ خلافت کا نظام نہیں ہے اس لیئے کوئی بھی مدد کے لیئے تیار نہیں ہے اور محمد بن قاسم بھی اپنا گروپ بناکر مظلوموں کی مدد کے لیئے نہیں گے تھے بلکہ ان کو بھیجنے والی ایک اتھارٹی تھی اور یہی اتھارٹی::خلافت، خلیفہ:: اصل چیز ہے میں یقین کے ساتھ کہہ ہوں کہ اگر آج بھی وہ اتھارٹی::خلیفہ:: مسلمانوں کے پاس ہوتئ تو کفار اتنی جرءت نہ کرتے، ان کافروں کو پتا ہے مسلمانوں کا سر یعنی خلیفہ ہم نے اتار دیا ہوا ہے اب امتِ مسلمہ ایک مردہ جسم کے مانند ہے جس کو جہاں سے مرضی چیرو ، کاٹو یہ اپنا دفاع نہیں کرسکے گا اس لیئے بھائیو پہلے ہمیں وہ اتھارٹی بنانی چاہیے جو کافروں کے ہاتھ کاٹ سکے امتِ مسلمہ کو متحد کرسکے،
جہاں صحابہ کرام کی قبریں ہیں وہاں پر کتوں کا پارک بنایا جارہا ہے۔۔۔
بھائی ایسے بےشمار ظلم ہیں جو ہم برداشت کر رہے ہیں ایسا ممکن اس لیے ہوا ہے کہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں کافروں نے ہمیں ملکی و مسلکی گروہوں میں قید کر رکھا ہے، ہماری سوچ باندھ دی گئی ہے، اسلام ایک عالم گیر دین تھا اس کو چند مذہبی رسومات میں قید کردیا گیا ہے، آج ہم دوسرے ملک کے مسلمانوں پر ظلم ہوتے دیکھتے ہیں تو یہی کہہ دیتے ہیں کہ وہ افغانی ہیں، وہ شامی ہیں، وہ فلسطینی ہیں یہ کم ہی سوچتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ہمارے دینی بھائی ہیں اگر ایسا سوچیں تو ہم ان کی مدد کریں نہ کہ راہِ فرار اختیار کریں۔
آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ
ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا اصل مرکز (عقر) شام ہوگا، شام سے مراد، اردن، سیریا، لبنان، فلسطین اور عراق کا کچھ حصہ ہے اس روایت کو ابونواس سمعان نے روایت کیا ہے اسی کو مسند احمد میں بھی سلمہ بن نفیل سے روایت کیا ہے کہ بےشک مسلمانوں کا عقر شام ہوگا۔۔۔ طبرانی نے بھی اسے انہی اسناد سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو ثقہ بتایا ہے اس کی اسناد میں دو صحابہ، دو تابعین، اور پانچ تبع تابعین آئے ہیں۔۔۔
خلافت نافذ کرنی ہے تو چلیں شام۔۔۔ چھوڑیں پاکستان اور ہندوستان کو۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکز عرب کی زمین بنے گی یہ تو آپ نے ایک حدیث پیش کی ہے اس کے علاوہ اور بھی احادیث میرے مطالعے میں ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے ہم عجمی لوگ اس بابرکت کام میں حصہ نہ لیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم سبھی لازمی عرب چلے جائیں بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں رہ کر بھی خلافت کے قیام کی جدو جہد کرسکتے ہیں، ابھی تو لوگوں کو خلافت کے نظام کو سمجھانے میں لگے ہیں مسلمانوں کی اکثریت تو خلافت کے نام سے بھی ناواقف ہے وہ خلافت اور خلیفہ درباروں،خانقاہوں والی سیاہ ست کو ہی سمجھے بیٹھے ہیں، پیری مریدی کے سسٹم کو ہی خلافت کا سسٹم سمجھے بیٹھے ہیں کیونکہ ایک پیٹ پرست فرقہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کو حق بات سے روکتے ہیں اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرکے اور لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے ان کے بنائے سسٹم کو ہی اسلامی سمجھ چکے ہیں، اور دوسری طرف سے بھی لوگوں کو خوب بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ نظام ہے یعنی کافروں کے نظام کو ہی اسلامی بنا دیا گیا ہے اس جہالت سے پُر فتوے کی وجہ سے لوگ اس کفریہ نظام کو ہی اسلامی نظام سمجھ چکے ہیں کیونکہ یہ فتویٰ کسی عامی نے نہیں دیا بلکہ عالم نے دیا ہے اس لیئے لوگ اسی کفریہ نظام کو اسلام کا نظام سمجھ چکے ہیں، یہ دو بڑی بڑی وجوہات ہیں لوگوں کو خلافت سے لاعلم رکھنے کی اور خلافت کے نظام سے دور رکھنے کی۔