• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوری سیاست میں شرکت کا حکم اور کیفیات

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ میرے ایک طالب علم کا مقالہ تھا جو اس نے مجھے ای میل کیا تھا میں نے اسے بغیر کسی تبدیلی کے یہاں پوسٹ کر دیا ہے اس کے بے شمار مندرجات پر ملاحظات لگائے جا سکتے ہیں لیکن پھر بھی انتخابی سیاست میں شرکت پر ایک اچھی تحریر ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جزاک الله -

جمہوری نظام کے خلاف دلائل سے بھرپور مضمون ہے -
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مضمون نگار نے اگرچہ کافی محنت سے مضمون مرتب کیا ہے لیکن جمہوری نظام کے حکم اور اس کے ساتھ تعامل میں فرق کرنے میں نا اہل رہے ہیں۔ ایسے فروق کے جاننے کے لیے عموما ان لوگوں کی صحبت درکار ہوتی ہے جنہوں نے معاشرے میں کوئی قابل قدر دینی کام کیا ہو۔ کتابی مطالعہ بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ان لوگوں کی صحبت بھی بہت ضروری ہے جو کوئی بڑے پیمانے پر دینی کام کر گئے ہیں یا کم از کم صحبت اگر میسر نہ ہو تو ان کی سوانح کا ہی بندہ مطالعہ کر لیں تو اس سے بھی اعتدال پیدا ہو جائے گا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مضمون نگار نے اگرچہ کافی محنت سے مضمون مرتب کیا ہے لیکن جمہوری نظام کے حکم اور اس کے ساتھ تعامل میں فرق کرنے میں نا اہل رہے ہیں۔ ایسے فروق کے جاننے کے لیے عموما ان لوگوں کی صحبت درکار ہوتی ہے جنہوں نے معاشرے میں کوئی قابل قدر دینی کام کیا ہو۔ کتابی مطالعہ بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ان لوگوں کی صحبت بھی بہت ضروری ہے جو کوئی بڑے پیمانے پر دینی کام کر گئے ہیں یا کم از کم صحبت اگر میسر نہ ہو تو ان کی سوانح کا ہی بندہ مطالعہ کر لیں تو اس سے بھی اعتدال پیدا ہو جائے گا۔
آج کل ایک اور فورم پر میرا "عثمانی" فرقے سے جمہوریت کے متعلق بحث مباحثہ جاری ہے - جمہوریت کے حکم سے متعلق ان کا بھی تقریبا یہی موقف ہے جو ہمارے ملک میں اکثرعلماء بشمول (اہل حدیث علماء) کا ہے - یعنی ان کے نزدیک نہ صرف جمہوری نظام جائز ہے بلکہ عین اسلامی افکار کے مطابق ہے جس میں ہر کام آپس کے مشورے سے انجام پاتا ہے-

اب یہ الله بہتر جانتا ہے کہ جمہوریت کے جائز ہونے سے متعلق "عثمانیوں" کا موقف انہوں نے ہمارے نام نہاد علماء سے لیا ہے -یا پھر ہمارے علماء عثمانی فرقے سے اس معاملے میں متاثر ہیں-؟؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
آج کل ایک اور فورم پر میرا "عثمانی" فرقے سے جمہوریت کے متعلق بحث مباحثہ جاری ہے - جمہوریت کے حکم سے متعلق ان کا بھی تقریبا یہی موقف ہے جو ہمارے ملک میں اکثرعلماء بشمول (اہل حدیث علماء) کا ہے - یعنی ان کے نزدیک نہ صرف جمہوری نظام جائز ہے بلکہ عین اسلامی افکار کے مطابق ہے جس میں ہر کام آپس کے مشورے سے انجام پاتا ہے-

اب یہ الله بہتر جانتا ہے کہ جمہوریت کے جائز ہونے سے متعلق "عثمانیوں" کا موقف انہوں نے ہمارے نام نہاد علماء سے لیا ہے -یا پھر ہمارے علماء عثمانی فرقے سے اس معاملے میں متاثر ہیں-؟؟؟
اللہ آپ کو ذہنی بلوغت عطا فرمائے کہ حکم اور تعامل کا فرق سمجھ سکیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اللہ آپ کو ذہنی بلوغت عطا فرمائے کہ حکم اور تعامل کا فرق سمجھ سکیں۔
محترم -

میں نے اس فورم پر دیے گئے مضمون پر کمنٹس نہیں پیش کیے "کہ جمہوری نظام کے حکم اور اس کے ساتھ تعامل میں کیا فرق ہے"؟؟؟ -بس ایک بات کی تھی کہ دور حاضرکے علماء اور عثمانیوں کے جمہوریت سے متعلق نظریات میں کافی مماثلت ہے -ذہنی بلوغت تو ان میں پیدا ہونی چاہیے جو جمہوریت کے کفریہ نظام کے زریے ملک میں "اسلام " کا نفاذ چاہتے ہیں -
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مضمون نگار نے اگرچہ کافی محنت سے مضمون مرتب کیا ہے لیکن جمہوری نظام کے حکم اور اس کے ساتھ تعامل میں فرق کرنے میں نا اہل رہے ہیں۔ ایسے فروق کے جاننے کے لیے عموما ان لوگوں کی صحبت درکار ہوتی ہے جنہوں نے معاشرے میں کوئی قابل قدر دینی کام کیا ہو۔ کتابی مطالعہ بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ان لوگوں کی صحبت بھی بہت ضروری ہے جو کوئی بڑے پیمانے پر دینی کام کر گئے ہیں یا کم از کم صحبت اگر میسر نہ ہو تو ان کی سوانح کا ہی بندہ مطالعہ کر لیں تو اس سے بھی اعتدال پیدا ہو جائے گا۔
ابو الحسن علوی صاحب یہ ایک طالب علم کی کاوش ہے اور طالب علمانہ زندگی کے حساب سے ایک اچھی کاوش ہے اور میں نے ابتدا میں ہی لکھ دیا تھا کہ
اس پر ملاحظات لگائے جا سکتے ہیں
شاید آپ نے غور نہیں کیا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ابو الحسن علوی صاحب یہ ایک طالب علم کی کاوش ہے اور طالب علمانہ زندگی کے حساب سے ایک اچھی کاوش ہے اور میں نے ابتدا میں ہی لکھ دیا تھا کہ
اس پر ملاحظات لگائے جا سکتے ہیں
شاید آپ نے غور نہیں کیا
طالب علمانہ زندگی میں یہ ایک اچھی کاوش نہیں بہت اچھی کاوش ہے۔ آپ کی تحریر اور موقف میری نظر میں تھا۔ طالب علم کا علم اچھا ہے لیکن علم کی تطبیق میں بہتری کی گنجائش ہے۔ ہمارے استاذ حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ اصول فقہ پڑھنے کے لیے دو سال اور اس کی تطبیق سیکھنے کے لیے بیس سال چاہییں۔ علوم کی تطبیق میں اس وقت اعتدال پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان معاشرے میں نکل کر لوگوں سےعلمی گفتگو کرے، معاشرے کا جزو بنے، لوگوں کے مسائل سمجھے اور حل کرے اور عملا دین کی کوئی بڑی خدمت کرے۔ اپنے شاگرد کو اگر مزید بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اب علم دوست لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا مشورہ دیں۔ یہاں فورم پر آ جائیں۔ میرے جیسے بہت سے انہیں ایسے دوست مل جائیں گے کہ جن کی وہ اصلاح کریں اور وہ ان کی اصلاح کریں گے اور تبادلہ خیال سے ذہن وسیع بھی ہو گا اور کھلے گا بھی۔

اب دیکھیں کتنی سادہ سی اور سامنے کی بات ہے کہ ایک یہودی کا حکم ہے کہ وہ کافر ہے اور اس کے ساتھ تعامل ہے یعنی اس سے لین دین، معاملات یا مناکحات وغیرہ کا باب ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ ایک مشرک والدین کا حکم ہے اور ایک ان کے ساتھ تعامل ہے کہ کیا رویہ یا اخلاق یا خدمت یا معاملات وغیرہ جائز ہیں۔ ایک جمہوریت کا حکم ہے اور ایک اس کےساتھ تعامل ہے یعنی جمہوری نظام کے ساتھ کیا برتاو کیا جائے کہ اس کا شر کم ہو جائے۔ پھر خود جمہوری نظام کے گہرائی سے مطالعہ کی ضرورت ہے کہ مغرب میں اور یہاں کے نظام میں کیا فرق ہے۔ پھر مسلمان صرف پاکستان میں نہیں ہیں۔ انڈیا میں بھی ہیں۔ وہاں کیا کریں؟ ساری چیزیں مدنظر رکھتے ہوئے کوئی جامع بحث کی جا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے پہلے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کو ذہن کھولنے کی ضرورت ہے۔

مجھے خود جب بعض اوقات کسی پیچیدہ موضوع پر لکھنا ہوتا ہے تو پہلے فورم پر یا فیس بک پر ایک پوسٹ ڈال کر لوگوں کی رائے جان کر اس کے مختلف پہلووں کی روشنی میں ایک رائے بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس طرح جب بہت سے ذہن ایک رائے کےبننے میں شامل ہو جائیں تو کسی قدر اعتدال آ ہی جاتا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ یہ اصلاح سے زیادہ مشورہ کی پوسٹ تھی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
طالب علمانہ زندگی میں یہ ایک اچھی کاوش نہیں بہت اچھی کاوش ہے۔ آپ کی تحریر اور موقف میری نظر میں تھا۔ طالب علم کا علم اچھا ہے لیکن علم کی تطبیق میں بہتری کی گنجائش ہے۔ ہمارے استاذ حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ اصول فقہ پڑھنے کے لیے دو سال اور اس کی تطبیق سیکھنے کے لیے بیس سال چاہییں۔ علوم کی تطبیق میں اس وقت اعتدال پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان معاشرے میں نکل کر لوگوں سےعلمی گفتگو کرے، معاشرے کا جزو بنے، لوگوں کے مسائل سمجھے اور حل کرے اور عملا دین کی کوئی بڑی خدمت کرے۔ اپنے شاگرد کو اگر مزید بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اب علم دوست لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا مشورہ دیں۔ یہاں فورم پر آ جائیں۔ میرے جیسے بہت سے انہیں ایسے دوست مل جائیں گے کہ جن کی وہ اصلاح کریں اور وہ ان کی اصلاح کریں گے اور تبادلہ خیال سے ذہن وسیع بھی ہو گا اور کھلے گا بھی۔

اب دیکھیں کتنی سادہ سی اور سامنے کی بات ہے کہ ایک یہودی کا حکم ہے کہ وہ کافر ہے اور اس کے ساتھ تعامل ہے یعنی اس سے لین دین، معاملات یا مناکحات وغیرہ کا باب ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ ایک مشرک والدین کا حکم ہے اور ایک ان کے ساتھ تعامل ہے کہ کیا رویہ یا اخلاق یا خدمت یا معاملات وغیرہ جائز ہیں۔ ایک جمہوریت کا حکم ہے اور ایک اس کےساتھ تعامل ہے یعنی جمہوری نظام کے ساتھ کیا برتاو کیا جائے کہ اس کا شر کم ہو جائے۔ پھر خود جمہوری نظام کے گہرائی سے مطالعہ کی ضرورت ہے کہ مغرب میں اور یہاں کے نظام میں کیا فرق ہے۔ پھر مسلمان صرف پاکستان میں نہیں ہیں۔ انڈیا میں بھی ہیں۔ وہاں کیا کریں؟ ساری چیزیں مدنظر رکھتے ہوئے کوئی جامع بحث کی جا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے پہلے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کو ذہن کھولنے کی ضرورت ہے۔

مجھے خود جب بعض اوقات کسی پیچیدہ موضوع پر لکھنا ہوتا ہے تو پہلے فورم پر یا فیس بک پر ایک پوسٹ ڈال کر لوگوں کی رائے جان کر اس کے مختلف پہلووں کی روشنی میں ایک رائے بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس طرح جب بہت سے ذہن ایک رائے کےبننے میں شامل ہو جائیں تو کسی قدر اعتدال آ ہی جاتا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ یہ اصلاح سے زیادہ مشورہ کی پوسٹ تھی۔
جزاک اللہ خیرا بالکل ایسا ہی ہوتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے اس مقالہ کی فوٹو کاپی میں کروا کر اپنے بعض اساتذہ ساتھیوں کو دے چکا ہوں اور ان کی طرف سے جو ملاحظات لگائے گئے وہ اس ساتھی کو دے چکا ہوں اور ان ملاحظات کی تعداد تقریبا 22 ہے جب وہ اس کو تیار کر لے گا تو میں اسے یہاں شئیر کروں گا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی اصولوں کی حکمرانی بلا شبہ ہمارا نصب العین ہے ۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہ اصول انتخابات کے ان ضابطوں اور جیت ہارکے ان قوانین ہی سے متصادم ہیں جن کی راہ سے ہم اپنے ان اصولوں کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جان لینے کے بعد بھی اگر ہم انتخابات کے ان قاعدوں ضابطوں کو قبول کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت ہیں تو اپنے اصولوں کو آپ ہی تو ڑتے ہیں اور اگر اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو اور ان پر کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں تو اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ظاہر ہے کسی کھیل میں آپ اسی وقت حصہ لے سکتے ہیں جب آپ میں اور کھیل کے باقی سب کھلاڑیوں میں کھیل کے کچھ اصولوں پر پیشگی اتفاق ہو۔ اب یہاں آپ کو جو دقت درپیش ہے وہ یہ کہ دوسروں کے تو کوئی خاص اصول نہیں اس لیے وہ ہرکھیل میں حصہ لے سکتے ہیں مگر آپ کے پہلے سے کچھ اپنے اصول ہیں ،جو آپ اپنے دین سے لیتے ہیں۔ یہ اصول اس کھیل کے اصولوں سے صاف صاف متصادم ہیں جو آپ کھیلنے جار ہے ہیں۔ آپ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ سب کھلاڑی ان پراتفاق نہیں کرتے اور اگر آپ کھیل کے ان اصولوں اور ضابطوں کو تسلیم کرلیتے ہیں جن کے مطابق سب کھلاڑی کھیلنے پر متفق ہیں اور جو کہ کھیل کے ’منتظمین ‘جاری کرتے ہیں ، تو آپ کے اپنے اصول جاتے ہیں۔ اب اگر آپ اس کے باوجود’ منتظمین‘ کی شروط پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ کھلے دل سے تسلیم کرلیا جائے کہ آپ اپنے اصولوں سے کلی یا جزوی طور پر دستبردار ہوچکے ہیں۔
اگر آپ اس مر کی وضاحت کر دیں کہ اس میں کیا غلطی ہے تو میرا خیال ہے زیادہ مناسب ہو گا
 
Top