ابو الحسن علوی صاحب یہ ایک طالب علم کی کاوش ہے اور طالب علمانہ زندگی کے حساب سے ایک اچھی کاوش ہے اور میں نے ابتدا میں ہی لکھ دیا تھا کہ
اس پر ملاحظات لگائے جا سکتے ہیں
شاید آپ نے غور نہیں کیا
طالب علمانہ زندگی میں یہ ایک اچھی کاوش نہیں بہت اچھی کاوش ہے۔ آپ کی تحریر اور موقف میری نظر میں تھا۔ طالب علم کا علم اچھا ہے لیکن علم کی تطبیق میں بہتری کی گنجائش ہے۔ ہمارے استاذ حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ اصول فقہ پڑھنے کے لیے دو سال اور اس کی تطبیق سیکھنے کے لیے بیس سال چاہییں۔ علوم کی تطبیق میں اس وقت اعتدال پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان معاشرے میں نکل کر لوگوں سےعلمی گفتگو کرے، معاشرے کا جزو بنے، لوگوں کے مسائل سمجھے اور حل کرے اور عملا دین کی کوئی بڑی خدمت کرے۔ اپنے شاگرد کو اگر مزید بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اب علم دوست لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا مشورہ دیں۔ یہاں فورم پر آ جائیں۔ میرے جیسے بہت سے انہیں ایسے دوست مل جائیں گے کہ جن کی وہ اصلاح کریں اور وہ ان کی اصلاح کریں گے اور تبادلہ خیال سے ذہن وسیع بھی ہو گا اور کھلے گا بھی۔
اب دیکھیں کتنی سادہ سی اور سامنے کی بات ہے کہ ایک یہودی کا حکم ہے کہ وہ کافر ہے اور اس کے ساتھ تعامل ہے یعنی اس سے لین دین، معاملات یا مناکحات وغیرہ کا باب ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ ایک مشرک والدین کا حکم ہے اور ایک ان کے ساتھ تعامل ہے کہ کیا رویہ یا اخلاق یا خدمت یا معاملات وغیرہ جائز ہیں۔ ایک جمہوریت کا حکم ہے اور ایک اس کےساتھ تعامل ہے یعنی جمہوری نظام کے ساتھ کیا برتاو کیا جائے کہ اس کا شر کم ہو جائے۔ پھر خود جمہوری نظام کے گہرائی سے مطالعہ کی ضرورت ہے کہ مغرب میں اور یہاں کے نظام میں کیا فرق ہے۔ پھر مسلمان صرف پاکستان میں نہیں ہیں۔ انڈیا میں بھی ہیں۔ وہاں کیا کریں؟ ساری چیزیں مدنظر رکھتے ہوئے کوئی جامع بحث کی جا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے پہلے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کو ذہن کھولنے کی ضرورت ہے۔
مجھے خود جب بعض اوقات کسی پیچیدہ موضوع پر لکھنا ہوتا ہے تو پہلے فورم پر یا فیس بک پر ایک پوسٹ ڈال کر لوگوں کی رائے جان کر اس کے مختلف پہلووں کی روشنی میں ایک رائے بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس طرح جب بہت سے ذہن ایک رائے کےبننے میں شامل ہو جائیں تو کسی قدر اعتدال آ ہی جاتا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ یہ اصلاح سے زیادہ مشورہ کی پوسٹ تھی۔