• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنت کا احوال

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَى الْجَنَّۃِ زُمَرًا۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِيْنَ۝۷۳ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّۃِ حَيْثُ نَشَاۗءُ۝۰ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۝۷۴ (زمر:۷۳۔۷۴)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہتے تھے وہ گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دئیے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، تم خوش رہو۔ تم اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔ یہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا۔ جنت میں جہاں چاہیں قیام کریں۔ پس عمل کرنے والوں کو بہت ہی اچھا بدلہ ہے۔
ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنتیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ بعض بعض لوگ نہایت عمدہ اور اعلیٰ درجہ کی سواریوں پر سوار ہو کر جنت کی طرف پہنچائے جائیں گے۔ کچھ مقربین کی جماعتیں ہوں گی اور صلحاء و ابرار کی جماعتیں ہوں گی۔ ان سے کم درجہ والوں کی جماعت پھر ان سے کم درجہ والوں کی۔ ہر ہر جماعت اپنے مناسب لوگوں کے ساتھ ہوگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کرے کہ ہمارے دل نرم ہوجائیں
کیونکہ جن کے دل سخت ہوگئے تھے اللہ نے اُن کو بندر اور خنزیر بنا دیا

ایک جگہ اللہ ملک فرماتے ہیں :

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢٢﴾


کیا وه شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نےاسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وه اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے ( اثر نہیں لیتے بلکہ) سخت ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں (22)

سورة الزمر
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
انبیاء ، انبیاء کے ہمراہ۔ علماء ، عالموں کے ساتھ، غرض ہر جنس اپنے میل کے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ جب یہ جنت کے پاس پہنچیں گے، پُل صراط سے پار ہوچکے ہوں گے تو وہاں ایک پُل پر ٹھہرائے جائیں گے اور ان میں آپس میں جو مظالم ہوں گے ان کا قصاص اور بدلہ ہوجائے گا۔ جب پاک و صاف ہوجائیں گے تب جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔ ’’صور‘‘ کی مطول حدیث میں ہے کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ کر یہ آپس میں مشورہ کریں گے کہ دیکھو سب سے پہلے کسے اجازت دی جاتی ہے۔ پھر وہ حضرت آدمu کا قصد کریں گے۔ پھر حضرت نوحu کا، پھر حضرت ابراہیم u کا، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا، پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کا، پھر حضرت محمد ﷺکا ، جیسے میدانِ محشر میں شفاعت کے موقع پر کیا تھا۔ اس کا سب سے اہم مقصد جناب احمد مجتبیٰ ﷺکی فضیلت کا موقع بموقع اظہار کرنا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ میں پہلا سفارشی ہوں جنت میں۔ اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں قیامت کے دن جنت کا دروازہ کھلوانا چاہوں گا تو وہاں کا داروغہ مجھ سے پوچھے گا کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا محمد ﷺ۔ وہ کہے گا مجھے یہی حکم تھا کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کے لیے نہ کھولوں۔

مسند احمد میں ہے کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے۔ تھوک، رینٹ، پیشاب، پاخانہ وہاں کچھ نہ ہوگا۔ ان کے برتن اور سامان آسائش سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی انگیٹھیوں میں بہترین اگر خوشبو دے رہا ہوگا۔ ان کا پسینہ مشک ہوگا۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا بوجہ حسن و نزاکت، صفائی اور نفاست کے گوشت کے نیچے سے نظر آرہا ہوگا۔ کسی دو میں کوئی اختلاف اور حسد و بغض نہ ہوگا۔ سب مل کر ایسے ہوں گے جیسے ایک شخص کادل۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح میں گزرے گا۔

ابو یعلٰی میں ہے پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان کے بعد والی جماعت کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے بہترین چمکتا ہوا ستارہ۔ پھر قریب قریب اوپر والی حدیث کے بیان کے مطابق ہے اور یہ بھی ہے کہ ان کے قد ساٹھ ہاتھ کے ہوں گے۔ جتنا حضرت آدم علیہ السلام کا قد تھا۔

اور ایک حدیث میں ہے کہ میری امت کی ایک جماعت جو ستر ہزار کی تعداد میں ہوگی پہلے پہل جنت میں داخل ہوگی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ یہ سُن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے بھی ان ہی میں سے کردے۔ آپﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان ہی میں سے کردے پھر ایک انصاری نے بھی یہی عرض کیا۔ آپﷺ نے فرمایا عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان ستر ہزار کا بے حساب جنت میں داخل ہونا بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے صحابہؓ سے مروی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا سات سو شخص ایک ساتھ جنت میں جائیں گے اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے۔سب ایک ساتھ ہی جنت میں قدم رکھیں گے۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے کہ مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے۔ ان سے نہ حساب لیا جائے گا نہ انہیں عذاب ہوگا۔ ان کے علاوہ اور تین لپیں بھر کر … جو اللہ اپنے ہاتھوں سے لپ کر جنت میں پہنچائے گا۔ (طبرانی)۔ اس روایت میں ہے کہ پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے، اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں۔ جب یہ سعید بخت و بزرگ جنت کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے دروازے کھل جائیں گے، ان کی وہاں عزت و تعظیم ہوگی وہاں کے محافظ فرشتے انہیں بشارت سنائیں گے ان کی تعریفیں کریں گے انہیں سلام کریں گے۔ اس کے جواب کا جواب قرآن میں محذوف رکھا گیا ہے تاکہ عمومیت باقی رہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ پورے خوش و خرم ہوجائیں گے۔ بے اندازہ راحت و سرور و آسائش و آرام انہیں ملے گا۔ ہر طرح کی آس اور ہر بھلائی کی امید بندھ جائے گی۔

انبیاء ، انبیاء کے ہمراہ۔ علماء ، عالموں کے ساتھ، غرض ہر جنس اپنے میل کے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ جب یہ جنت کے پاس پہنچیں گے، پُل صراط سے پار ہوچکے ہوں گے تو وہاں ایک پُل پر ٹھہرائے جائیں گے اور ان میں آپس میں جو مظالم ہوں گے ان کا قصاص اور بدلہ ہوجائے گا۔ جب پاک و صاف ہوجائیں گے تب جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔ ’’صور‘‘ کی مطول حدیث میں ہے کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ کر یہ آپس میں مشورہ کریں گے کہ دیکھو سب سے پہلے کسے اجازت دی جاتی ہے۔ پھر وہ حضرت آدمu کا قصد کریں گے۔ پھر حضرت نوحu کا، پھر حضرت ابراہیم u کا، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا، پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کا، پھر حضرت محمد ﷺکا ، جیسے میدانِ محشر میں شفاعت کے موقع پر کیا تھا۔ اس کا سب سے اہم مقصد جناب احمد مجتبیٰ ﷺکی فضیلت کا موقع بموقع اظہار کرنا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ میں پہلا سفارشی ہوں جنت میں۔ اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں قیامت کے دن جنت کا دروازہ کھلوانا چاہوں گا تو وہاں کا داروغہ مجھ سے پوچھے گا کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا محمد ﷺ۔ وہ کہے گا مجھے یہی حکم تھا کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کے لیے نہ کھولوں۔

یہاں یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ ’’فُتِحَتْ‘‘ میں واؤ آٹھویں ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ انہوں نے بڑے تکلف سے کام لیا ہے اور بے کار مشقت اُٹھائی ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ثبوت تو صحیح حدیثوں میں صاف موجود ہے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جنت کے کئی ایک دروازے ہیں۔ نمازی ’’باب الصلوٰۃ‘‘ سے، سخی ’’باب الصدقہ‘‘ سے، مجاہد ’’باب الجہاد‘‘ سے، روزہ دار ’’باب الریان‘‘ سے بلائے جائیں گے۔ یہ سُن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔ مقصد تو جنت میں جانے سے ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی ہے جوجنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہوگے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام ’’باب الریان‘‘ ہے۔ اس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ تم میں سے جو شخص کامل مکمل اور خوب مل کے اچھی طرح وضو کرے پھر اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جن میں سے چاہے چلا جائے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جنت کی کنجی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔ اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے۔ آمین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جنت کے دروازوں کی کشادگی کا بیان
شفاعت کی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے محمد! (ﷺ) اپنی امت میں سے جن پر حساب نہیں انہیں داہنے طرف کے دروازے سے جنت میں لے جائیے۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ)کی جان ہے کہ جنت کی چوکھٹ اتنی وسعت والی ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر میں ہے یا فرمایا جتنا فاصلہ مکہ اور بحرین میں ہے۔ ایک روایت میں ہے جتنا فاصلہ مکہ اور بصرٰی میں ہے۔ (صحیحین)


سیدنا عتبہ بن عزوان نے اپنے خطبہ میں بیان فرمایا ہے کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے کی وسعت چالیس سال کی مسافت ہے۔ ایک ایسا بھی دن آنے والا ہے جب کہ جنت میں جانے والوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہ وسیع دروازے کھچا کچھ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (مسلم)

مسند میں ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ جنت کی چوکھٹ چالیس سال کی مسافت ہے۔ یہ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو انہیں فرشتے سلام کریں گے اور مبارک باد دیں گے کہ تمہارے اعمال، تمہارے اقوال، تمہاری کوشش اور تمہارا بدلہ ہر چیز خوشی والی اور عمدگی والی ہے۔ جیسے کہ نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی جنگ کے موقع پر اپنے منادی سے فرمایا تھا کہ جاؤ ندا کردو کہ جنت میں صرف مسلمان لوگ ہی جائیں گے۔ یا فرمایا صرف مومن ہی جنت میں جائیں گے۔ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اب تم یہاں سے نکالے نہیں جاؤ گے بلکہ یہاں تمہارے لیے ہمیشگی ہے۔ اپنا یہ حال دیکھ کر جنتی بہت خوش ہوں گے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ الحمدللہ، جو ہم سے وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی کیا تھا اسے پورا کیا۔

یہی دعا ان کی دنیا میں بھی تھی:
رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران:۱۹۴)
یعنی اے ہمارے رب! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے کیا تھا اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر۔ یقینا تیری ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے۔


یہاں یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ ’’فُتِحَتْ‘‘ میں واؤ آٹھویں ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ انہوں نے بڑے تکلف سے کام لیا ہے اور بے کار مشقت اُٹھائی ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ثبوت تو صحیح حدیثوں میں صاف موجود ہے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جنت کے کئی ایک دروازے ہیں۔ نمازی ’’باب الصلوٰۃ‘‘ سے، سخی ’’باب الصدقہ‘‘ سے، مجاہد ’’باب الجہاد‘‘ سے، روزہ دار ’’باب الریان‘‘ سے بلائے جائیں گے۔ یہ سُن کر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔ مقصد تو جنت میں جانے سے ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی ہے جوجنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہوگے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام ’’باب الریان‘‘ ہے۔ اس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ تم میں سے جو شخص کامل مکمل اور خوب مل کے اچھی طرح وضو کرے پھر اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗپڑھے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جن میں سے چاہے چلا جائے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جنت کی کنجی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔ اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے۔ آمین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنت اور جنتیوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کے بدلے میں آرام دہ جنت ملے گی اور وہاں ایسا ایسا عیش و آرام ملے گا۔ وہاں ہمیشہ رہیں گے، کھانے پینے کا حسب خواہش سامان ملے گا۔ اس مضمون کی چند آیتیں آپ حضرات کے سامنے بیان کی جارہی ہیں تاکہ آپ کو زیادہ رغبت پیدا ہوا اور اس کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ واقعہ میں نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (واقعہ:۱۰ تا۴۰)
اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں آرام دہ جنتوں میں ہیں۔ بہت بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے۔ یہ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے آمد و رفت کریں گے۔ آبخورے اور آفتابے لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے لبریز ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں۔ اور گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو اچھوتے موتیوں کی طرح ہیں۔ یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی اور داہنے ہاتھ والے، کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے۔ بغیر کانٹوں کے بیریوں، تہہ بہ تہہ کیلوں، لمبے لمبے سایوں، بہتے ہوئے پانیوں اور نہ ختم ہونے والے بکثرت پھلوں جو روکے نہیں جائیں گے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے۔ ہم نے ان بیویوں کو خاص طور سے بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں کر دیا ہے وہ ہم عمر ہیں دائیں ہاتھ والوں کے لیے۔ جم غفیر ہے اگلوں میں اور بہت بڑی جماعت پچھلوں میں بھی ہے۔


یہاں یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ ’’فُتِحَتْ‘‘ میں واؤ آٹھویں ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ انہوں نے بڑے تکلف سے کام لیا ہے اور بے کار مشقت اُٹھائی ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ثبوت تو صحیح حدیثوں میں صاف موجود ہے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جنت کے کئی ایک دروازے ہیں۔ نمازی ’’باب الصلوٰۃ‘‘ سے، سخی ’’باب الصدقہ‘‘ سے، مجاہد ’’باب الجہاد‘‘ سے، روزہ دار ’’باب الریان‘‘ سے بلائے جائیں گے۔ یہ سُن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔ مقصد تو جنت میں جانے سے ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی ہے جوجنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہوگے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام ’’باب الریان‘‘ ہے۔ اس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ تم میں سے جو شخص کامل مکمل اور خوب مل کے اچھی طرح وضو کرے پھر اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جن میں سے چاہے چلا جائے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جنت کی کنجی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔ اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے۔ آمین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جنت کے دروازوں کی کشادگی کا بیان
شفاعت کی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے محمد! (ﷺ) اپنی امت میں سے جن پر حساب نہیں انہیں داہنے طرف کے دروازے سے جنت میں لے جائیے۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ جنت کی چوکھٹ اتنی وسعت والی ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر میں ہے یا فرمایا جتنا فاصلہ مکہ اور بحرین میں ہے۔ ایک روایت میں ہے جتنا فاصلہ مکہ اور بصرٰی میں ہے۔ (صحیحین)


سیدنا عتبہ بن عزوان نے اپنے خطبہ میں بیان فرمایا ہے کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے کی وسعت چالیس سال کی مسافت ہے۔ ایک ایسا بھی دن آنے والا ہے جب کہ جنت میں جانے والوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہ وسیع دروازے کھچا کچھ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (مسلم)

مسند میں ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ جنت کی چوکھٹ چالیس سال کی مسافت ہے۔ یہ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو انہیں فرشتے سلام کریں گے اور مبارک باد دیں گے کہ تمہارے اعمال، تمہارے اقوال، تمہاری کوشش اور تمہارا بدلہ ہر چیز خوشی والی اور عمدگی والی ہے۔ جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ کے موقع پر اپنے منادی سے فرمایا تھا کہ جاؤ ندا کردو کہ جنت میں صرف مسلمان لوگ ہی جائیں گے۔ یا فرمایا صرف مومن ہی جنت میں جائیں گے۔ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اب تم یہاں سے نکالے نہیں جاؤ گے بلکہ یہاں تمہارے لیے ہمیشگی ہے۔ اپنا یہ حال دیکھ کر جنتی بہت خوش ہوں گے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ الحمد للہ، جو ہم سے وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی کیا تھا اسے پورا کیا۔ یہی دعا ان کی دنیا میں بھی تھی:

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران:۱۹۴)

یعنی اے ہمارے رب! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے کیا تھا اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر۔ یقینا تیری ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنت اور جنتیوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کے بدلے میں آرام دہ جنت ملے گی اور وہاں ایسا ایسا عیش و آرام ملے گا۔ وہاں ہمیشہ رہیں گے، کھانے پینے کا حسب خواہش سامان ملے گا۔ اس مضمون کی چند آیتیں آپ حضرات کے سامنے بیان کی جارہی ہیں تاکہ آپ کو زیادہ رغبت پیدا ہوا اور اس کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ واقعہ میں نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:

وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (واقعہ:۱۰ تا۴۰)

اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں آرام دہ جنتوں میں ہیں۔ بہت بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے۔ یہ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے آمد و رفت کریں گے۔ آبخورے اور آفتابے لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے لبریز ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں۔ اور گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو اچھوتے موتیوں کی طرح ہیں۔ یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی اور داہنے ہاتھ والے، کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے۔ بغیر کانٹوں کے بیریوں، تہہ بہ تہہ کیلوں، لمبے لمبے سایوں، بہتے ہوئے پانیوں اور نہ ختم ہونے والے بکثرت پھلوں جو روکے نہیں جائیں گے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے۔ ہم نے ان بیویوں کو خاص طور سے بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں کر دیا ہے وہ ہم عمر ہیں دائیں ہاتھ والوں کے لیے۔ جم غفیر ہے اگلوں میں اور بہت بڑی جماعت پچھلوں میں بھی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جنت کے دروازوں کی کشادگی کا بیان
شفاعت کی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے محمد! (ﷺ) اپنی امت میں سے جن پر حساب نہیں انہیں داہنے طرف کے دروازے سے جنت میں لے جائیے۔

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ)کی جان ہے کہ جنت کی چوکھٹ اتنی وسعت والی ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر میں ہے یا فرمایا جتنا فاصلہ مکہ اور بحرین میں ہے۔ ایک روایت میں ہے جتنا فاصلہ مکہ اور بصرٰی میں ہے۔ (صحیحین)


سیدنا عتبہ بن عزوان نے اپنے خطبہ میں بیان فرمایا ہے کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے کی وسعت چالیس سال کی مسافت ہے۔ ایک ایسا بھی دن آنے والا ہے جب کہ جنت میں جانے والوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہ وسیع دروازے کھچا کچھ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (مسلم)

مسند میں ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ جنت کی چوکھٹ چالیس سال کی مسافت ہے۔ یہ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو انہیں فرشتے سلام کریں گے اور مبارک باد دیں گے کہ تمہارے اعمال، تمہارے اقوال، تمہاری کوشش اور تمہارا بدلہ ہر چیز خوشی والی اور عمدگی والی ہے۔ جیسے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی جنگ کے موقع پر اپنے منادی سے فرمایا تھا کہ جاؤ ندا کردو کہ جنت میں صرف مسلمان لوگ ہی جائیں گے۔ یا فرمایا صرف مومن ہی جنت میں جائیں گے۔ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اب تم یہاں سے نکالے نہیں جاؤ گے بلکہ یہاں تمہارے لیے ہمیشگی ہے۔ اپنا یہ حال دیکھ کر جنتی بہت خوش ہوں گے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ الحمدللہ، جو ہم سے وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی کیا تھا اسے پورا کیا۔

یہی دعا ان کی دنیا میں بھی تھی:

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران:۱۹۴)


یعنی اے ہمارے رب! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے کیا تھا اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر۔ یقینا تیری ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنت اور جنتیوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کے بدلے میں آرام دہ جنت ملے گی اور وہاں ایسا ایسا عیش و آرام ملے گا۔ وہاں ہمیشہ رہیں گے، کھانے پینے کا حسب خواہش سامان ملے گا۔ اس مضمون کی چند آیتیں آپ حضرات کے سامنے بیان کی جارہی ہیں تاکہ آپ کو زیادہ رغبت پیدا ہوا اور اس کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ واقعہ میں نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:

وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (واقعہ:۱۰ تا۴۰)

اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں آرام دہ جنتوں میں ہیں۔ بہت بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے۔ یہ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے آمد و رفت کریں گے۔ آبخورے اور آفتابے لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے لبریز ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں۔ اور گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو اچھوتے موتیوں کی طرح ہیں۔ یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی اور داہنے ہاتھ والے، کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے۔ بغیر کانٹوں کے بیریوں، تہہ بہ تہہ کیلوں، لمبے لمبے سایوں، بہتے ہوئے پانیوں اور نہ ختم ہونے والے بکثرت پھلوں جو روکے نہیں جائیں گے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے۔ ہم نے ان بیویوں کو خاص طور سے بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں کر دیا ہے وہ ہم عمر ہیں دائیں ہاتھ والوں کے لیے۔ جم غفیر ہے اگلوں میں اور بہت بڑی جماعت پچھلوں میں بھی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنت اور جنتیوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کے بدلے میں آرام دہ جنت ملے گی اور وہاں ایسا ایسا عیش و آرام ملے گا۔ وہاں ہمیشہ رہیں گے، کھانے پینے کا حسب خواہش سامان ملے گا۔ اس مضمون کی چند آیتیں آپ حضرات کے سامنے بیان کی جارہی ہیں تاکہ آپ کو زیادہ رغبت پیدا ہوا اور اس کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ واقعہ میں نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (واقعہ:۱۰ تا۴۰)
اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں آرام دہ جنتوں میں ہیں۔ بہت بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے۔ یہ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے آمد و رفت کریں گے۔ آبخورے اور آفتابے لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے لبریز ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں۔ اور گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو اچھوتے موتیوں کی طرح ہیں۔ یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی اور داہنے ہاتھ والے، کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے۔ بغیر کانٹوں کے بیریوں، تہہ بہ تہہ کیلوں، لمبے لمبے سایوں، بہتے ہوئے پانیوں اور نہ ختم ہونے والے بکثرت پھلوں جو روکے نہیں جائیں گے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے۔ ہم نے ان بیویوں کو خاص طور سے بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں کر دیا ہے وہ ہم عمر ہیں دائیں ہاتھ والوں کے لیے۔ جم غفیر ہے اگلوں میں اور بہت بڑی جماعت پچھلوں میں بھی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان آیتوں کا مطلب ترجمہ سے ظاہر ہوگیا ہے۔ پھر جو لوگ علم و عمل اور تقویٰ کے زیوروں سے دنیا میں مزین ہو چکے ہیں وہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نوازشوں کے بھی مستحق ہوں گے۔ پہلی اور پچھلی جماعت سے مراد ہر نبی کی امت صحبت یا قربت کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کے مقربین ہیں اور پچھلے لوگوں سے وہ مراد ہیں جو نبی کے صحابی تو نہیں لیکن ان کے سچے فرماں بردار ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔
یعنی سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد تابعین کا پھر اس کے بعد تبع تابعین کا۔


یہ سب اگلے پچھلے جنتی ہیں اور جنت میں سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ ان کی خدمت میں سدا رہنے والے فرشتے رضا کار رہیں گے۔ صاف ستھری مزے دار خوشبو دار شرابوں کا فنجان لیے ہوئے جنتیوں کے پاس دورے کرتے رہیں اور حسب ِ خواہش پرندے کا گوشت، کباب، قیمہ، کوفتہ اور پسندے وغیرہ لے کر پھرتے رہیں گے اور دل بستگی کے لیے حسین و خوب صورت موتی کی طرح عورتیں بھی ان کی خواہش کے لیے موجود ملیں گی اور ایسے باغوں میں ہوں گے جن میں ہر قسم کے میوہ جات کھانے کے لیے پیش کرتے رہیں گے، اور کنواری دوشیزہ، محبت کرنے والی بھی انہیں کو نصیب ہوں گی۔

سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کی یہ تعریف فرمائی ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۝۴۶ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۷ۙ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ۝۴۸ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۹ فِيْہِمَا عَيْنٰنِ تَجْرِيٰنِ۝۵۰ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۱ فِيْہِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِہَۃٍ زَوْجٰنِ۝۵۲ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۳ مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍؚبَطَاۗىِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ۝۰ۭ وَجَنَا الْجَنَّـتَيْنِ دَانٍ۝۵۴ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۵ فِيْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۷ۚ كَاَنَّہُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۹ ہَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۝۶۰ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۱ وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ۝۶۲ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۳ۙ مُدْہَاۗمَّتٰنِ۝۶۴ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۵ۚ فِيْہِمَا عَيْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ۝۶۶ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۷ فِيْہِمَا فَاكِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ۝۶۸ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۹ۚ فِيْہِنَّ خَيْرٰتٌ حِسَانٌ۝۷۰ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۱ۚ حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ۝۷۲ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۳ۚ لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۷۴ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۵ۚ مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ۝۷۶ۚ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۷ تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۷۸ۧ (رحمٰن:۴۶ تا ۷۸)
اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں پس اپنے پروردگار کی نعمتوں میں سے کس کو تم جھوٹا جانتے ہو۔ وہ تو بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہے پھر اپنے رب کی کس نعمت کو تم جھوٹ سمجھتے ہو۔ ان دونوں جنتوں میں دو بہنے والے چشمے ہیں۔ سو، اے جن و انس! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کے منکر ہوجاؤ گے؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میوے بھی جوڑے جوڑے ہوں گے۔ پھر کیا کیا نعمتیں اپنے رب کی جھٹلاؤ گے۔ یہ جنتی ایسے فرشوں پر تکیے لگائے ہوں گے جن کے استر، دبیز ریشم کے ہوں گے۔ اور ان دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہوں گے پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاتے ہو؟ وہاں شرمیلی نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا۔ پھر اپنے پالنے والے کی نعمتوں میں سے تم کس کے منکر ہو؟ وہ حوریں مثل موتی اور مونگے کے ہوں گی پس اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاتے ہو۔ نیکو کاری کا بدلہ ہی بہت بڑا انعام و احسان ہے۔ پس کیا کیا اپنے رب کی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اور ان دو کے سوا دو جنتیں اور ہیں۔ پس تم اپنے پرورش کرنے والے کی کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں۔ بتاؤ اپنے پروردگار کی کس نعمت کا انکار کرو گے۔ ان میں دو جوش سے اُبلنے والے چشمے ہیں۔ پھر تم اپنے پالنہار کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ان دونوں میں میوے، کھجور اور انار ہوں گے کیا اب بھی تم اپنے رب کی کسی نعمت کی تکذیب کرو گے؟ ان میں نیک سیرت، خوب صورت عورتیں ہیں پس تمہارے جھٹلانے کا تعلق اللہ کی کس نعمت کے ساتھ ہے۔ گورے رنگ کی حوریں خیموں میں محفوظ ہیں۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ان حوروں سے کوئی انسان یا جن ان سے قبل نہیں ملا۔ پس اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرو گے۔ سبز مسندوں اور فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے پس اے جنوں انسانوں! تم اپنے رب کی کس نعمت کو جھٹلاتے ہو۔ تیرے پروردگار کا نام بابرکت ہے جو بزرگی و انعام والا ہے۔
 
Top