وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
میں بھی الحمد للہ جوائنٹ فیملی کا قائل ھوں. اور میں بھی یہ چاہتا ھوں کہ ھم ساتھ رھیں لیکن افسوس کہ یہ خواہش ادھوری ھی رہ جائیگی.
وراثت کا مسئلہ ھے. بڑا بیٹا کماتا ھے اور گھر میں ھی پیسے دیتا ھے اور یہ سلسلہ شادی کے بعد تک چلتا ھے تو اسمیں دقت یہ آتی ھے کہ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کو بھی دوسرے بیٹوں کے برابر ھی حصہ ملتا ھے حالانکہ اس نے اپنا پیسہ بھی لگایا تھا. کیا یہ اسلام کا طریقہ صحیح ھے؟؟
(یقینا صحیح ھے. اسلام کا طریقہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا. وہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا ھے. لیکن مجھے اسکا جواب چاہیۓ. )
اگر کوئ صاحب میرے سوال کا جواب جانتے ھیں تو پلیز رہنمائ کریں.
میرے خاوند کے والد (میرے سسر ) نے میرے خاوندکی شادی میں مالی تعاون کیا شادی کے بعد میراخاوند خلیجی ممالک میں کام کاج کے سلسلے میں چلا گیا اس لیے کہ اس پر بہت زيادہ قرض تھا جس کی بنا پر وہ اپنے والد کوپیسے نہیں بھیجتا ۔
اب اس کا والد شادی پر صرف کیے گۓ مبلغ کا مطالبہ کررہا ہے حالانکہ میرے سسر کی ماہانہ آمدنی اچھی خاصی اورکافی ہے تومیرا سوال یہ ہے کہ :
کیا بیٹے کی شادی کرنا والد پر واجب نہیں اوراس پر اس جیسے حالات میں کیا واجب ہوتا ہے ؟
Published Date: 2009-02-08
الحمد للہ
اول :
اگروالد مالداراوربیٹا غریب ہواورشادی کرنے کی سکت نہ رکھےتووالد پر بیٹے کی شادی کرنا واجب ہے ، اس لیے کہ شادی بھی واجب شدہ نفقہ میں سے ہے اوراللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان میں شامل ہے :
{ اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جودستور کے مطابق ہو } البقرۃ ( 233 ) ۔
تواس لیے اگر بیٹے شادی نہیں کرسکتے اوروالد میں استطاعت ہے تووالد پرضروری اورواجب ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادی کرے اوران پر کھانے پینے اورپڑھائ وغیرہ میں خرچ کرے کا اس لیے کہ والدپر نفقہ واجب ہے ۔
دوم :
بیٹے کے ذمہ والد کا خرچہ واجب نہيں لیکن اگر دو شرطیں پائيں جائیں توپھر بیٹے کے ذمہ اپنے والد پر خرچ کرنا واجب ہوگا :
1 - یہ کہ بیٹا غنی مالدار ہو ( یعنی اس کے پاس اپنی ضرورت سے زيادہ مال ہو )
2 - والد فقیر ہو ۔
تواگر یہ دونوں شرطیں پائي جائيں توپھربیٹے کے ذمہ والد پر خرچہ کرنا ضروری اورواجب ہے ، اوریہاں پر سوال کرنے والی نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس کے خاوند کا والد اچھا کھاتا پیتا اوراس کی ماہانہ آمدنی بھی ٹھیک ہے ۔
توپھر اگر حالت ایسی ہی ہے تو بیٹے پر یہ ضروری اورواجب نہیں کہ وہ اپنے والد پر خرچ کرے ، لیکن اگر مالدار ہونے کے باوجود والد بیٹے سے کچھ مال طلب کرتا ہے اوربیٹے کواس کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے پاس زائد ہے توپھر اسے اپنے والد کویہ مال دینا چاہیے تا کہ وہ اپنے والد کا عاق شمار نہ ہو ۔
لیکن اگر بیٹے کوبھی مال کی ضرورت ہے توپھر اس پر لازم نہيں کہ وہ والد کومال ادا کرے ، اوربیٹے کو اپنے والد سے اپنے حالات بیان کر دینا ضروری ہے کہ اس کے مالی حالات صحیح نہیں اوروہ اپنا قرض ادا کرنے کے بعد جب مالی طور پر مستحکم ہوگا توپھر حسب استطاعت اپنے والد کو مال بیھج دے گا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراللہ تعالی کسی بھی جان کواس کی استطاعت سے زيادہ مکلف نہيں کرتا } ۔
واللہ اعلم
كيا بھائى پر بہن كا نفقہ واجب ہے ؟
كيا بھائى پر بہن كا نفقہ واجب ہے، اور كيا بھائى اپنى بہن كو زكاۃ دے سكتا ہے ؟
Published Date: 2012-07-03
الحمد للہ:
اگر بہن تنگ دست ہو اور بھائى مالدار تو اس كے ليے بہن كا نفقہ واجب ہے، اور اگر بہن فوت ہو جائے تو بھائى اس كا وارث بنےگا، اور اگر بہن كى اولاد ہونے يا پھر باب يا دادا ہونے كى صورت ميں بھائى اپنى بہن كا وارث نہ بنتا ہو تو بہن كا نفقہ بھائى پر لازم نہيں، اس صورت ميں بھائى اپنى بہن كو زكاۃ دے سكتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نفقہ واجب ہونے كے ليے تين شروط كا ہونا ضرورى ہے:
پہلى شرط:
جن پر نفقہ كيا جائے وہ فقراء و تنگ دست ہوں اور ان كے پاس مال نہ ہو، اور نہ ہى اتنى آمدنى ہو جس سے ان كا گزارہ ہو بلكہ وہ كسى دوسرے كے محتاج ہوں، اور اگر ان كے پاس مال ہے يا اتنى آمدنى ہو كہ وہ كسى دوسرے كے محتاج نہيں تو اس صورت ميں ان كا نفقہ نہيں ہوگا.
دوسرى شرط:
جس كا نفقہ واجب ہو اور وہ ان پر نفقہ كرے تو وہ اپنے نفقہ كے بعد زائد مال سے ہو، يا تو اپنے مال سے وہ نفقہ كرے يا پھر آمدنى سے كرے، ليكن اگر كسى شخص كے پاس اپنے خرچ اور نفقہ كے بعد زائد نہ ہو تو اس پر كسى دوسرے كا نفقہ نہيں.
كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تم ميں سے كوئى شخص فقير و تنگ دست ہو تو وہ اپنے آپ سے شروع كرے، اور اگر كچھ بچ جائے تو اپنے اہل و عيال پر خرچ كرے، اور اگر اس سے كچھ بچ جائے تو قريبى رشتہ داروں پر خرچ كرے "
تيسرى شرط:
نفقہ برداشت كرنے والا وارث ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور وارث پر بھى اسى طرح ہے }.
اور اس ليے بھى كہ ايك دوسرے كا وارث بننے والوں كى آپس ميں ايك دوسرے كا قريبى رشتہ ہوتا ہے، جس كا تقاضہ ہے كہ وہ باقى لوگوں كى بجائے وارث بننے والے كے مال كے زيادہ حقدار ہيں، اس ليے اس دوسروں كى بجائے اسے نفقہ برداشت كرنا واجب ہوگا، اور اگر وہ وارث نہ ہو تو اس پر نفقہ واجب نہيں ہوگا " انتہى بتصرف
ديكھيں: المغنى ( 8 / 169 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہمارے ہاں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ نفقہ برداشت كرنے والا جس كا نفقہ اٹھا رہا ہے وارث ہو، الا يہ كہ وہ اصل اور فرع نہ ہو، تو پھر اس ميں وارث كى شرط نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 503 ).
اس بنا پر اگر بھائى پر اس كى بہن كا نفقہ واجب ہے تو پھر بھائى اسے اپنے مال كى زكاۃ نہيں دے سكتا.
اور اگر بہن كا بھائى پر نفقہ واجب نہيں ہوتا تو پھر بھائى اسے اپنے مال كى زكاۃ دے سكتا ہے، بلكہ اس صورت ميں كسى اور كو دينے كى بجائے بہن كو زكاۃ دينا افضل و بہتر ہو گا، كيونكہ بہن كو دينے سے اسے صلہ رحمى كا بھى اجروثواب حاصل ہوگا، اور زكاۃ كا بھى.
واللہ اعلم .
میرے خیال یہ دو فتاوی مسئلہ کو کچھ حل کرتے ہیں. باقی قطعی رائے تو علما دے سکتے ہیں
Sent from my SM-G360H using Tapatalk