• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
مشترکہ خاندانی نظام ، ایک سماجی کینسر

اللہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے ان گنت جوڑے پیدا فرمائے ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا، جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ"تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،
ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن بڑھتی اور بے لگام ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں؎
" وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ،،
عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی ،،
اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،،،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،
ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے چلے جاتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شریک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو " حدیث اس حد تک تو صحیح ھے کہ یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،

جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج

جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم میں داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،

اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ ، عدل اور برابری کے نام پر ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،

اس سے پہلے کہ آگے چلیں چند مثالیں سن لیں تا کہ واضح ھو جائے کہ جس مشترکہ خاندان کی بات کر رھا ھوں وہ کیا بلا ھے ،، نوروز خان کو امارات میں آئے ھوئے 40 سال ھو گئے ھیں، وہ جب امارات میں آیا تھا تو اس کے منہ پر مونچھ داڑھی کے نام پر کوئی بال نہ تھا،آج جب وہ کام سے فارغ ھوا ھے تو اس کے سر پر بال نام کی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی ،،وہ اپنے بھائی کے ساتھ مسئلہ پوچھنے آیا تھا کہ ،اسکی کمپنی کی طرف سے جو ڈیوز ملے ھیں ،ان پر اس کے بھائیوں کا حق ھے یا نہیں؟ بقول اس کے اس نے آج تک جو کمایا وہ باپ کو بھیجا ، وہ 5 بہن بھائی تھے ،کہ والدہ فوت ھوگئیں ،والد کو بولا کہ شادی کر لو مگر اس عمر کی کرو کہ آگے اولاد پیدا نہ ھو مگر والد صاحب نے چھوٹی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی ،اس میں سے 4 بھائی ھیں گویا ٹوٹل 9 بہن بھائی ھوگئے ،ساری زندگی جو کمایا وہ والد صاحب کو دیا،والد صاحب نے جو جائداد بنائی دوسرے بیٹوں کے نام بنائی ،،اس کا بیٹا بیمار ھوا ،کسی نے اسپتال تک لے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی وہ گھر میں ایڑیاں رگڑ کر فوت ھو گیا، باقی بچوں اور بیوی کو یہاں بلایا تو گویا قیامت ھوگئی اور والد سمیت سب کہتے ھیں کہ بےغیرت اور جورو کا غلام ھو گیا ھے، اب نوکری گئی ھے تو وہ کہتے ھیں کہ دیگر 8 بہن بھائیوں میں بھی تقسیم ھو گی ،ورنہ گاؤں میں قدم نہیں رکھ سکتے !
دوسرے جہانزیب خان صاحب ھیں،،وزارت داخلہ کی بہت اھم اور حساس پوسٹ پر ھیں،25 ھزار درھم تنخواہ لیتے ھیں ،مگر جوائنٹ فیملی سسٹم کا شکار ھیں ، مردان اور ھنگو میں کئ ایکڑ بہترین زرعی زمین خریدی ھے،مگر والد نے اپنے نام سے خریدی ھے، والد کے انتقال کے بعد ساری زمین پر بھائیوں نے قبضہ کر لیا ھے ،، اس کے بعد انہوں نے اپنے نام سے زمین لینا شروع کی ،،یہ لے کر واپس آتے اور بھائی قبضہ کر لیتے ، ایک بھائی کرائے کا قاتل اور اغوا برائے تاوان کا مجرم ھے، پیسے دے کر پاکستان میں جہاں چاھو بندہ مروا لو ،میں یہ بات اس کے خلاف ایف آئی آر اور عدالتی کارروائی کی کاپیاں پڑھ کر کہہ رھا ھوں جو انہوں نے مجھے دکھائیں ،، ان پر بھی بھائیوں نے فائرنگ کی اور یہ علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ھوئے ،،ایک کوٹھی لی ،،بھائی وھاں بھی پہنچ گئے ،کرائے داروں کو دھمکا کر نکالا اور قبضہ کر لیا، آخر کسی کو اونے پونے داموں بیچ کر جان چھڑائی ،،

میرے دوست ھیں ننکانہ صاحب سے یہ پولیس میں فارماسسسٹ ھیں،،بھائی کو بلا کر جیولری کی دکان ڈال کر دی ،بھائی صاحب ھوٹلوں کے چکر میں 5 لاکھ درھم کی دکان کھا کر اور مزید 1 لاکھ درھم کا قرض لے کر پاکستان بھاگ گیا ، پاکستان گئے تو دونوں چھوٹے بھائیوں نے پکڑ کر تسلی سے مارا اور ابا جی نے بھی مارنے میں اخلاقی مدد فرمائی ان کو اپنے ھی بنائے گئے گھر سے نکال دیا گیا ،رات کو کسی کے گھر بستر مانگ کر رھے اور اگلے دن واپس آگئے، جائداد پہلے ھی ابا جان اپنے نام اور دوسرے بیٹوں کے نام لیتے رھے تھے لہٰذا ان کے پاس اب سوائے نوکری کے کچھ نہیں !!

دبئی کے صاحب ھیں جن کی بیوی کا پرسوں فون تھا،، بدقسمتی سے سب سے بڑے ھیں،مگر اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں ،،بھائیوں کے مکان پہلے بنیں گے پھر اپنا دیکھیں گے، وہ کہہ رھی تھیں زندگی کا بھروسہ نہیں،ابھی صرف چھوٹے کا مکان بنا ھے اور اس نے پہلا کام یہ کیا ھے کہ الگ ھو گیا ھے،، یوں چھوٹے تو شادی کرتے اور الگ ھوتے چلے جائیں گے ،بڑی بہو کو شاید قبر ھی الگ نصیب ھو گی الغرض یہ دس میں سے آٹھ آدمیوں کا فسانہ ھے،نفرتیں اندر ھی اندر کینسر پھوڑے کی طرح اکٹھی ھوتی رھتی ھیں،،اور قرآن کے الفاظ میں،،تحسبُھم جمیعاً و قلوبھم شتیۜ ،،تم ان کو اکٹھا سمجھتے ھو جبکہ ان کے دل دور دور ھیں،
کرنا کیا چاھئے؟

ھونا یہ چاھئے کہ اگر ایک بھائی نے شادی کی ھے تو اسے سب سے پہلے اگر ممکن ھے تو اپنے بیوی بچے اپنے پاس رکھنے چاھییں ،،اگر ممکن نہیں ھے تو اپنی بیوی کو ایک کمرہ الگ سے بنا کر دینا چاھئے،،کمرہ سے مراد کچن ،باتھ مکمل سیٹ ھے،،اور اگر یہ بھی ممکن نہیں ھے تو پھر شادی ھی نہیں کرنی چاھئے،، اکثر شادی گھر کے کام کاج کے لیئے ایک روٹی کپڑۓ کی ملازم خاتون کی ضرورت کے تحت کی جاتی ھے،اور نکاح صرف اس گھر میں اس کے رھنے کا ایک شرعی جواز پیدا کرنے کا نام ھے،،نکاح کے تحت اس کے حقوق کی ادائیگی سرے سے کسی کے ایجنڈے میں شامل ھی نہیں ھوتی،لہذا ایسی کسی چیز کا مطالبہ ایک جرم سے کم نہیں ھوتا، اگر والدین کے ساتھ بہن بھائی چھوٹے ھیں تو اس صورت میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بیوی کے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں،نہ کہ بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھے ،بظاھر یہ عجیب بات لگتی ھے کہ؎

"والدین کا بیوی کے ساتھ رھنا اور بیوی کا والدین کے ساتھ رھنا "

ایک ھی تو بات ھے؟ جی نہیں ! زمین آسمان کا فرق ھے،،، اسی بس میں ڈرائیور بھی ھوتا ھے اور سواریاں بھی ،،مگر اسٹئیرنگ کا فرق ھوتا ھے،،ماں باپ بیوی کے ساتھ رھیں گے ،مگر آئینی سربراہ کے طور پر اور گھر کو کس طرح چلانا ھے،،بچے کس اسکول میں ڈالنے ھیں اور گھر کے قواعد و ضوابط عورت طے کرے گی ،کیونکہ وہ حالات سے زیادہ واقف ھے،بنسبت والدہ صاحبہ کے جو کہ 50 سال پرانے نظام کی باتیں کرتی اور اسی زمانے کی مثالیں دیتی ھیں ، جب کہ بیوی والدین کے ساتھ رکھنے کا مطلب ھے،،کہ وہ مہمان اداکارہ کے طور پر رھے گی اور قانون اماں جی کا چلے گا ،، حقیقت یہ ھے کہ اماں جی اپنی اینگز کھیل چکی ھیں اور جو کچھ انہوں نے بنانا تھا اپنی اولاد کو وہ بنا چکی ھیں،،اب کریز خالی کر دیں،،اپنے روٹی کپڑے سے مطلب رکھیں اوراللہ اللہ کریں نماز روزہ کریں اور پچھلے بخشائیں !

اگر بیٹے زیادہ ھیں تو امی جان گھر بدلتی رھیں کبھی ایک بیٹے کو حج کا موقع دیں اور کبھی دوسرے کو،مگر اس میں بھی احتیاط کریں ،،ایک بیٹے کے گھر کی باتیں اور کمزوریاں دوسری بہو کو نہ بتائیں اور جاسوس کا کردار ادا نہ کریں ورنہ سب بہو بیٹوں کی نظر سے گر جائیں گی،، بہو اور بیٹوں کو اپنی اولاد کے فیصلے کرنے میں فری ھینڈ دیں ،، جتنی مداخلت کم کریں گی اُتنا ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ھو گا،،مرتے دم تک حکومت کرنے کی ھوس گھروں کو برباد کر دیتی ھے،،ساس اپنا رویہ نہیں بدلتی بہوئیں بدلتی رھتی ھے ، مگر ھر آنے والی شوھر کا مطالبہ کرتی ھے اور اجڑ جاتی ھے،،تا آنکہ ساس کے انگوٹھے باندھ کر قبر میں نہ رکھ دیا جائے،،بیوی کے ساتھ اچھے تعلقات عموماً زن مریدی کی دفعہ کے تحت آتے ھیں ،ساس اس معاملے میں بہت حساس ھوتی ھے کہ اس کا بیٹا کہیں بیوی کے "تھلے" نہ لگ جائے ،اور بھول جاتی ھے کہ اس نے جس کو ساری زندگی "تھلے " لگا کر رکھا ھے وہ بھی کسی ماں نے نو ماہ پیٹ میں رکھا تھا،،

گھریلو معاملات میں جب بھی حالات نازک ھو جائیں والد سے مشورہ کریں وہ صبر کی تلقین کرے گا،اور گھر بسانے کی بات کرے گا،، اور کبھی کبھی سچ کہہ بھی دیتا ھے کہ،،تیری ماں کوئی کم نہیں تھی،،میں نے بھی تو گزارہ کیا ھے !! والدین کے حقوق اور گھریلو ذمہ داریوں میں بیلنس بنا کر رکھنا چاھئے اور وادین کے حقوق کے نام پر کسی کے حقوق کو پائمال نہیں کرنا چاھئے،ظلم کرنا کبھی بھی والدین کے حقوق کا حصہ نہیں رھا،اور عدل کو ترک کرنا کبھی بھی اولاد کے فرائض میں شامل نہیں رھا،،آخر سورہ النساء ھی کو اس حکم کے لئے کیوں چنا گیا کہ"اے ایمان والو! اللہ کے لئے کھڑے ھو جاؤ ڈٹ کر حق کی گواھی کے لئے چاھے وہ اپنے آپ کے خلاف پڑے یا والدین کے خلاف ھو یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ھو؟(النساء 135 )
پھر مزید مسائل اس وقت جنم لیتے ھین جب بچوں کی شادی کا وقت آتا ھے،، خاندان کا ھر فرد یہ چاھتا ھے کہ شادی میں اس کا مشورہ مانا جائے ،اس طرح بھینسوں کی لڑائی میں عموماً درختوں کی تباھی کا سامان ھوتا ھے،جبکہ بچی کی شادی میں بچی،اس کے والد اور ماں کا مشورہ ھونا چاھئے،،چچا لوگ اپنا گھر دیکھیں،، آپ اپنا گھر لیں ،بہن بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں،،مشکل میں ان کی مدد کریں،ماں باپ کے خرچے برچے کا دھیان رکھیں،بہنوں کی شادی میں انکی مالی مدد کریں،،جائداد بنانے کی بجائے اولاد کو پڑھانے کی طرف توجہ دیں،،معاشرے کو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان دے جانا بہتر ھے اس جائداد سے جسکی خاطر بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹیں،،


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جماعت اسلامی کے ایک وٹس آپ گروپ میں یہ تحریر بھیجی گئی ہے. میری علماء سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس تحریر کا علمی جائزہ لیں. اس میں کیا باتیں خلاف شریعت ہیں وہ بھی بیان کریں اور جوائنٹ فیملی سسٹم اور اسلامی نظام معاشرت ک تقابلی جائزہ بھی پیش کریں. نیز پاکستانی معاشرے میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی خرابیوں سے کیسے نمٹا جائے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
شیخ@اسحاق سلفی
شیخ@خضر حیات
شیخ@ابوالحسن علوی
شیخ@اشماریہ

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فی الحال درج ذیل سطور دیکھیں
((یہ مضمون میرا نہیں بلکہ مبشر نذیر صاحب کا ہے۔))
عہد رسالت کے عرب معاشرے میں یہ عام رواج تھا کہ شادی کے بعد لوگ الگ گھر میں رہتے تھے۔ تمام امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے الگ الگ گھر تھے جو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھے۔ موجودہ دور میں ان سب کو روضہ انور کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی معاملہ تھا۔
قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں ایسا حکم نہیں ملتا ہے کہ ہر بیوی کے لیے علیحدہ گھر ہونا ضروری ہے۔ بس بیوی کی تمام ضروریات پورا کرنے کا حکم ہے۔ علیحدہ گھر کا تعلق معاشرت سے ہے۔ عرب معاشروں میں آج بھی رواج ہے کہ علیحدہ گھر لیے بغیر شادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔

برصغیر کے معاشرے میں جائنٹ فیملی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میاں بیوی باہمی مشورے سے طے کر سکتے ہیں کہ انہیں کس طرح رہنا ہے۔ شریعت نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ الگ گھر لے کر دینا ہے یا مشترک خاندان ہی میں رہنا ہے۔ اس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔
جہاں تک میں نے اس نظام کا مطالعہ کیا ہے تو جائنٹ فیملی میں فوائد کی نسبت مسائل زیادہ ہیں اور لڑائی جھگڑے زیادہ ہوتے ہیں۔ ساس بہو اور نند بھابی کی جنگیں عام ہیں جبکہ عرب معاشروں میں ایسا بہت کم ہے۔ ان کے ہاں اچھے لوگ والدین کو اپنے قریب (ہو سکے تو ایک ہی بلڈنگ میں) الگ گھر لے دیتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔
اگر ہمارے ہاں بھی والدین شادی ہوتے ہی بیٹے اور بہو کو الگ کر دیں جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی بسر کر سکیں تو باہمی جھگڑے بہت کم ہو سکتے ہیں۔
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جیسا کہ اوپر کہا گیا ، شریعت میں اکٹھے یا مل کر رہنے کی کوئی پابندی نہیں ، شریعت میں حقوق و فرائض کی بات کی گئی ہے ۔ اوپر والی تحریر میں تصویر کا صرف ایک رخ دکھایا گیا ہے کہ بڑا بیٹا شادی کے بعد ماں باپ ، اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی برداشت کرتا ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ساری عمر ماں باپ محنت مزدوری کرکے بچوں کو پڑھاتے لکھاتے ہیں ، جب بیٹا کچھ کرنے کے قابل ہوتا ہے ، وہ شادی کرکے اپنا علیحدہ گھر بسا لیتا ہے ، اور والدین کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
ساس بہو کو ٹوکتی ہے ، کام میں کیڑے نکالتی ہے ، یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس لڑکی کو سلنڈر جلانا نہیں آتا ، وہی ساس کی توجہ اور ڈانٹ ڈپٹ کے نتیجے میں ایک اچھی بہو اور بہترین گھریلو خاتون بن جاتی ہے ۔
ماں باپ کے ساتھ اکٹھے رہنے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ شوہر جہاں مرضی چلا جائے ، بیوی بچوں کی فکر نہیں ہوتی ، جو اکیلے اکیلے رہتے ہیں ، ایسی صورت حال میں ان کے لیے گھر میں امن و امان مسئلہ بن جاتا ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مشترکہ خاندانی نظام کے مقابلہ میں ہر شادی شدہ جوڑے کی الگ رہائش کا نظام ایک بہتر طریقہ ہے۔ لڑائی جھگڑا کا امکان کم ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مالی و غیر مالی ”ظلم و زیادتی“ کرنے کا امکان بھی کم سے کم ہوتا ہے۔ شرعی پردے کا اہتمام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ خواتین اپنے دیور، جیٹھ وغیرہ سے ایک ”فاصلہ“ سے میل جول رکھتی ہیں۔ اور بھائیوں کے بچوں کی بلوغت کے عمر کو پہنچنے کے بعد نا محرم کزنز بھی زیادہ آسانی کے ساتھ ”شرعی حجاب“ کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ان سب باتوں کا خیال رکھنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے اسی لئے اکثر مشترکہ گھروں ایسا نظر نہیں آتا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مشترکہ و غیر مشترکہ خاندانی نظام سے متعلق دونوں طرف کے دلائل عمدہ ہیں-

بحثیت مجموعی غیر مشترکہ خاندانی نظام بہتر طرز زندگی کی ضمانت ہے - جو لوگ independent زندگی گذارتے ہیں- چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ - ان میں مشکلات کو face کرنے کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے- بنسبت ان لوگوں کے جو مشترکہ خاندانی نظام میں اپنی زندگی گذارتے ہیں -(یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے) -
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جزاک اللہ خیرا
میرے خیال میں مشترکہ خاندانی نظام میں بنیادی مسئلہ شرعی پردہ کا ہے جو کہ انتہائی مشکل بلکہ بعض رشتہ داروں سے ناممکن ہوتا ہے
اور جہاں تک بہو اور ساس کے مسائل کا تعلق ہے اس میں کیس کے مطابق ہی کچھ کہا جاسکتا ہے. بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں ساس بہو میں مثالی ماں اور بیٹی کا تعلق ہوتا ہے. اور بعض گھروں میں ایک فریق دوسرے فریق کو نہ صرف اس کا جائز مقام نہی دیتا بلکہ دوسرے پر ظلم و ستم کرتا ہے.


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
خضر بھائی پردہ کے نقطہ نظر سے آپ کی کیا رائے ہے. ہمیں کیا کرنا چاہیے.

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر بھائی پردہ کے نقطہ نظر سے آپ کی کیا رائے ہے. ہمیں کیا کرنا چاہیے.
Sent from my SM-G360H using Tapatalk
جی مشترکہ رہائش میں پردہ متاثر ہونا ، اس نظام کی خامیوں میں سے ہے۔ لیکن بہر صورت اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
اصل میں یہاں بہت ساری باتیں خلط ملط ہوگئی ہیں ۔ ایک ہے ایک ہی چار دیواری کے اندر رہنا ، ایک ہے ، ساتھ ساتھ اپنے اپنے گھر میں رہنا ، لیکن آمدن اور مصارف اکٹھے رکھنا ۔
بہر صورت چونکہ اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی پابندی نہیں ، لہذا دونوں میں سے کسی ایک طریقہ کار پر اصرار کرنے کی بجائے ، ایسا کرنا چاہیے کہ دونوں طریقوں کی خوبیوں سمیٹتے ہوئے ، دونوں طرف پائی جانےوالی خامیوں سے بچا جائے ۔
 
Top