• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہر شخص کے لئے خاموشی کا حکم کہا آپ نے، تو پھر ثابت ہوچکا محمد علی جواد صاحب خود آپ کی زبانی کہ کسی بھی نماز میں مقتدی امام کی قراءت صرف سن سکتا ہے خود قرآن بلکل پڑھ نہیں سکتا ۔ اس بات کی تائد اس حدیث سے بھی ہوتی ہے

1
عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فسمع ناسایقرؤن مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفقہوا اما آن لکم ان تعقلوا واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امرکم اللہ۔

تفسیر طبری جلد9
حضرت یسیر بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو،جب قرآن کریم کی قراءۃ ہوتی ہو تو تم اس کی طرف توجہ کرو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
2
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالٰی واذا قری القران فاستمعوا لہ و انصتوا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالٰی کے ارشاد واذا قری القرآن۔الآیۃ کے متعلق مروی ہے کہ یہ فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
3
عن ابن عمر قال کانت بنو اسرائیل اذا قراءت اسمتھم جاوبوھم فکرہ اللہ ذٰلک لہذہ الامۃ قال واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔

الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور جلد3
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے امام جب قراءت کرتے تھے تو بنی اسرائیل ان کی مجاوبت کرتے تھے ،اللہ تعالٰی نے یہ کام اس امت کے لئے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو۔
4
عن عبداللہ بن المغفل فی ھذہ الآیۃ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا قال فی الصلوٰۃ۔

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ آیت کریمہ واذا قری القرآن کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
5
قال ابن تیمیۃ الحرانی وذکراحمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذالک فی الصلوٰۃ وذکرالاجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال الجہر۔

فتاوٰی کبری جلد2صفحہ168
نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز اس پر بھی اجماع نقل کیا ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قراءت کررہا ہو تو مقتدی پر قراءت واجب نہیں ۔
6
عن ابو موسٰی قال علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا قمتم الی الصلوٰۃ فلیؤمکم احد کم و اذا قراء الامام فانصتوا۔
مسند احمد جلد4 صفحہ415
حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی، فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک نمہارا امام بنے اور جب وہ امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔


اور فاتحہ قرآن ہے ویسے ہی جیسے باقی ایک سو تیرہ سورتیں ہیں ۔ تو اسے پڑھنا بھی امام کا ہی حق ہے مقتدی کا نہیں ۔

شکریہ
السلام علیکم -

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

امام کی قرانی آیات کی قرأت کی وقت مقتدی کو خاموش رہنا ضروری ہے - لیکن سوره الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے - اگر ہم قرآن کی سوره الاعراف کی آیت کو دلیل بنا کر یہ کہیں کہ امام کی قرآت کے وقت کچھ بھی پڑھانا جائز نہیں - تو پھر یہ جو آیت نماز قصر سے متعلق ہے اس میں صرف دشمن کے خوف سے نماز قصر کا حکم ہے - تو پھر آپ امن کے حالات میں سفر کے دوران نماز قصر کیوں پڑھتے ہیں -ملاحظہ قرآن کی آیت جس میں نماز قصر دشمن کے خوف سے مشروط ہے -

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا سوره النساء ١٠١
اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں نماز میں سے کچھ کم کر دو اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے بےشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں-


دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سوره الاعراف کی آیت وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - نماز میں مقتدی پر امام کی قرآت کے وقت خاموش رہنے پر ایک دلیل ہے - توسوال ہے کہ پھر آپ احناف سری نمازوں میں جن میں امام آہستہ آواز میں قرآن کی قرآت کرتا ہے اس میں آپ سوره الفاتحہ خلف الامام کے قائل کیوں نہیں؟؟؟ - کیوں کہ اس میں تو قرآت سنائی ہی نہیں دیتی - اور سوره الاعراف کی آیت میں مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم اس بنا پر ہے کہ قرانی آیات غور سے سنی جائیں -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہر شخص کے لئے خاموشی کا حکم کہا آپ نے، تو پھر ثابت ہوچکا محمد علی جواد صاحب خود آپ کی زبانی کہ کسی بھی نماز میں مقتدی امام کی قراءت صرف سن سکتا ہے خود قرآن بلکل پڑھ نہیں سکتا ۔ اس بات کی تائد اس حدیث سے بھی ہوتی ہے

1
عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فسمع ناسایقرؤن مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفقہوا اما آن لکم ان تعقلوا واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امرکم اللہ۔

تفسیر طبری جلد9
حضرت یسیر بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو،جب قرآن کریم کی قراءۃ ہوتی ہو تو تم اس کی طرف توجہ کرو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
2
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالٰی واذا قری القران فاستمعوا لہ و انصتوا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالٰی کے ارشاد واذا قری القرآن۔الآیۃ کے متعلق مروی ہے کہ یہ فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
3
عن ابن عمر قال کانت بنو اسرائیل اذا قراءت اسمتھم جاوبوھم فکرہ اللہ ذٰلک لہذہ الامۃ قال واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔

الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور جلد3
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے امام جب قراءت کرتے تھے تو بنی اسرائیل ان کی مجاوبت کرتے تھے ،اللہ تعالٰی نے یہ کام اس امت کے لئے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو۔
4
عن عبداللہ بن المغفل فی ھذہ الآیۃ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا قال فی الصلوٰۃ۔

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ آیت کریمہ واذا قری القرآن کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
5
قال ابن تیمیۃ الحرانی وذکراحمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذالک فی الصلوٰۃ وذکرالاجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال الجہر۔

فتاوٰی کبری جلد2صفحہ168
نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز اس پر بھی اجماع نقل کیا ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قراءت کررہا ہو تو مقتدی پر قراءت واجب نہیں ۔
6
عن ابو موسٰی قال علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا قمتم الی الصلوٰۃ فلیؤمکم احد کم و اذا قراء الامام فانصتوا۔
مسند احمد جلد4 صفحہ415
حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی، فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک نمہارا امام بنے اور جب وہ امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔


اور فاتحہ قرآن ہے ویسے ہی جیسے باقی ایک سو تیرہ سورتیں ہیں ۔ تو اسے پڑھنا بھی امام کا ہی حق ہے مقتدی کا نہیں ۔

شکریہ
مقتدى كے ليے امام كے پيچھے سورۃ فاتحہ كے علاوہ اور قرآت كرنى جائز نہيں

كيا جب امام قرآت لمبى كرے تو مقتدى كے ليے امام كے ساتھ قرآن پڑھنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

جھرى نمازوں ميں مقتدى كے ليے سورۃ الفاتحہ سے زيادہ قرآت كرنى جائز نہيں، بلكہ مقتدى سورۃ الفاتحہ كے بعد خاموشى سے امام كى قرآت سنے( يعنى سورۃ الفاتحہ پڑھنے كے بعد ) كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لگتا ہے تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟
ہم نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سورۃ الفاتحہ كے علاوہ نہ پڑھا كرو، كيونكہ جو سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "

مندرجہ بالا حديث اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان:

" جو فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "

متفق على صتحہ.

كے عموم كى بنا پر سورۃ الفاتحہ مستثنى ہو گى.

واللہ اعلم .
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا فتوى ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 291 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال: کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اور امام کے پیچھے پڑھنے کا کیا کیا حکم ہے؟ جبکہ قرآن میں ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو؟


فتاو یٰ سیریز:(سوال و جواب) مفتی محمد یوسف طیبی
( حفظہ ا ﷲ)فاضل مدینہ یونیوورسٹی(مدینہ) اور مدیر جامعہ الدراسات لاسلامیہ ، کراچی


 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم -

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
مزکورہ حدیث ابوداؤد میں تو آپ کے شیخ البانی کے قول کے مطابق "ضعیف" ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن "قرار دیا ہے، تو ابوداؤد میں وارد روایت آپ کے کام کی نہیں آپ کے اصول کے مطابق یعنی فرقہ جماعت اہلحدیث کے۔ رہی بات ترمذی کی حدیث کی تو جناب اس بارے میں پہلے بھی امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول پیش کرچکا ہوا ہوں پھر پیش کردیتا ہوں ،کیونکہ ابھی تک اس بات کو آپ سمیت سب غیر مقلدین نے نظر انداز کیا ہے (ابتسامہ)
قال الامام الترمذی واما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی ﷺ لاصلوٰۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ۔
ترمذی جلد اول صفحہ 71
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے فرمان کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورۃ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے ،کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ۔

اس بارے میں کچھ عرض فرمائیے جناب کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا "حسن " کہنا اتنا بھارہا ہے کہ "حسن" کو "فرض" مان لیا گیا ہے اور اسی "حسن" کہنے والے امتی کی اگلی بات کو خاطر میں ہی نہیں لایا جارہا ؟ محمد علی جواد صاحب آپ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کو مقتدی کے لئے پڑھنا فرض مانتے ہیں تو پھر فرض ثابت کرنے کے لئے فرمان رسول اللہ ﷺ آنا چاھئیے تھا یا رسول اللہ ﷺ کے رب کا کلام دکھانا چاھئیے تھا تاکہ فرض آپ کے نعرے کے مطابق ثابت مانا جاسکے ،جبکہ اس کے الٹ معاملہ یہ ہورہا ہے کہ امتیوں کے اقوال سے نماز کے فرض کو ثابت بتایا جارہا ہے جبکہ امتی کا قول آپ کے ہاں حجت نہیں ۔ اگر یہ اصول تبدیل کرلیا گیا ہے تو بتادیجئے۔
امام کی قرانی آیات کی قرأت کی وقت مقتدی کو خاموش رہنا ضروری ہے - لیکن سوره الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے - اگر ہم قرآن کی سوره الاعراف کی آیت کو دلیل بنا کر یہ کہیں کہ امام کی قرآت کے وقت کچھ بھی پڑھانا جائز نہیں - تو پھر یہ جو آیت نماز قصر سے متعلق ہے اس میں صرف دشمن کے خوف سے نماز قصر کا حکم ہے - تو پھر آپ امن کے حالات میں سفر کے دوران نماز قصر کیوں پڑھتے ہیں -ملاحظہ قرآن کی آیت جس میں نماز قصر دشمن کے خوف سے مشروط ہے -

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا سوره النساء ١٠١
اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں نماز میں سے کچھ کم کر دو اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے بےشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں-
آپ نے اپنا عمل نہیں بتایا اس بارے میں ؟ آپ قصر مانتے ہیں یا نہیں ؟ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ بے خوفی کی حالت میں کئے گئے سفر میں قصر نہیں فرماتے ؟


دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سوره الاعراف کی آیت وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - نماز میں مقتدی پر امام کی قرآت کے وقت خاموش رہنے پر ایک دلیل ہے - توسوال ہے کہ پھر آپ احناف سری نمازوں میں جن میں امام آہستہ آواز میں قرآن کی قرآت کرتا ہے اس میں آپ سوره الفاتحہ خلف الامام کے قائل کیوں نہیں؟؟؟ - کیوں کہ اس میں تو قرآت سنائی ہی نہیں دیتی - اور سوره الاعراف کی آیت میں مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم اس بنا پر ہے کہ قرانی آیات غور سے سنی جائیں -
1
عن عکرمۃ عن ابن عباس انہ قیل لہ ان ناسا یقرءون فی الظھر و العصر فقال لوکان لی علیھم سبیل لقلعت السنتھم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراء فکانت قراءتہ لنا قراءۃ وسکوتہ لنا سکوتا۔

طحاوی ج1ص141
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ ظہر و عصر میں قراءت کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میرا ان پر بس چلے تو میں ان لوگوں کی زبانیں کھینچ لوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ہماری قراءت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت ہمارا سکوت تھا۔

2
عن عبیداللہ بن مقسم قال ساءلت جابر بن عبداللہ اتقراء خلف الامام فی ظھر و العصر شیاء فقال لا۔
مصنف عبدالرزاق ج2ص141
حضرت عبیداللہ بن مقسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ ظہر و عصر میں امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، نہیں۔
3
عن الولید بن قیس قال ساءلت سوید بن غفلۃ اقراء خلف الامام فی الظھر و العصر قال لا۔
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1
ولید بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرسکتا ہوں؟ تو انہوں نے فرمایا ، نہیں۔
4
عن جابر بن عبداللہ قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باصحابہ الظھر او العصر فلما انصرف۔قال من قراء خلفی بسبح اسم ربک الاعلٰی ؟فلم یتکلم احد فردوذالک ثلٰثا ۔فقال رجل انا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال لقد رائیتک تخالجنی او قال تنازعنی القرآن من صلٰی منکم خلف امام فقراءتہ لہ قراءۃ۔
کتاب القراءۃ للبیہقی صفحہ125
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میرے پیچھے سبح اسم ربک الاعلٰی کس نے پڑھی ہے؟ کوئی نہ بولا ، آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔اک صاحب بولے میں نے یا رسول اللہ ﷺ ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے دیکھا کہ تو مجھے قرآن کی قراءت کے متعلق خلجان میں ڈال رہا ہے یا فرمایا کہ کش مکش میں ڈال رہا ہے ۔ تم میں سے جوکوئی بھی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔
5
عن جابر بن عبداللہ ان رجلا قراء خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الظھر او العصر فاوٰی الیہ رجل فنھاہ فلما انصرف قال اتنھا ان اقراء خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فتذاکرا ذالک حتی سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ ﷺ من صلی خلف الامام فان قراءتہ لہ قراءت۔
کتاب القراءۃ للبیہقی صفحہ 162
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ظہر یا عصر کی نماز میں ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کی ،اثناء نماز میں اک آدمی نے اشارے سے اس کو قراءت سے منع کیا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو قراءت کرنے والے نے منع کرنے والے سے کہا کہ تم مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کرنے سے کیوں روکتے ہو؟ وہ دونوں یہ باتیں کر رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ان کی گفتگو سن لی اور ارشاد فرمایا ۔جوشخص امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہو اس کے لئے امام کی قراءت ہی کافی ہے۔
6
عن جابر قال لا یقراء خلف الامام۔
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص376
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے۔

ایک نمبر سے پانچ نمبر تک کی احادیث میں ظہر و عصر کی صراحت موجود ہے اور چھ نمبر حدیث میں مطلقا امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت سے منع پیش کردیا ہے ۔ امید ہے اب آپ صرف امام ترمذی کے "حسن" کہہ دینے سے "فرض" ماننے کی حقیقت سمجھائیں گے ۔
شکریہ
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
جناب جواد صاحب کا "عظیم الشان جھوٹ" جسے وہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے؟جناب نے لکھ ہے
"امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہی مسلک جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام وتبع تابعین وائمہ دین کا ہے،"
جناب نے جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام و تبع تابعین کرام اور ائمہ دین پر یہ بہت بڑا بہتانِ عظیم گھڑا ہے ۔جناب کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ صرف اور صرف "تین" صحابہ کرام تین تابعین عظام،تین تبع تابعین کرام اور چاروں ائمہ دین سے صحیح سند کے ساتھ اپنا یہ جھوٹا دعوی(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) ثابت کر دیں تو جناب سچے ورنہ سلف صالحین پر جھوٹ گھڑنے سے توبہ کر لیں۔
اپنا دعویٰ یاد رکھیں(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) یہ الفاظ ! ہیر پھیر چکر بازی نہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جناب جواد صاحب کا "عظیم الشان جھوٹ" جسے وہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے؟جناب نے لکھ ہے
"امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہی مسلک جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام وتبع تابعین وائمہ دین کا ہے،"
جناب نے جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام و تبع تابعین کرام اور ائمہ دین پر یہ بہت بڑا بہتانِ عظیم گھڑا ہے ۔جناب کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ صرف اور صرف "تین" صحابہ کرام تین تابعین عظام،تین تبع تابعین کرام اور چاروں ائمہ دین سے صحیح سند کے ساتھ اپنا یہ جھوٹا دعوی(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) ثابت کر دیں تو جناب سچے ورنہ سلف صالحین پر جھوٹ گھڑنے سے توبہ کر لیں۔
اپنا دعویٰ یاد رکھیں(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) یہ الفاظ ! ہیر پھیر چکر بازی نہیں
میرے بھائی آپ مقلد ہے یا مجتہد ؟

آپکی اس طرح کی پوسٹ سے تو پتا چلتا ہے کہ آپ پکے مقلد ہے
 
Last edited:
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
میرے بھائی آپ مقلد ہے یا مجتہد ؟

آپکی اس طرح کی پوسٹ سے تو پتا چلتا ہے کہ آپ پکے مقلد ہے
مقلد یا غیر مقلد کے چکر میں نہ پڑیں آپ اس کا جواب دے دیں:
جناب جواد صاحب کا "عظیم الشان جھوٹ" جسے وہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے؟جناب نے لکھ ہے
"امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہی مسلک جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام وتبع تابعین وائمہ دین کا ہے،"
جناب نے جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام و تبع تابعین کرام اور ائمہ دین پر یہ بہت بڑا بہتانِ عظیم گھڑا ہے ۔جناب کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ صرف اور صرف "تین" صحابہ کرام تین تابعین عظام،تین تبع تابعین کرام اور چاروں ائمہ دین سے صحیح سند کے ساتھ اپنا یہ جھوٹا دعوی(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) ثابت کر دیں تو جناب سچے ورنہ سلف صالحین پر جھوٹ گھڑنے سے توبہ کر لیں۔
اپنا دعویٰ یاد رکھیں(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) یہ الفاظ ! ہیر پھیر چکر بازی نہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی مختصر دلیل دے رہا ہوں

ﺳﻮﺭہ ﺍﻟﻔﺎﺗﺤﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻛﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﻮﺭﺕ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﻛﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺘﺪاء ﻛﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ الفَاتِحَةُ ﯾﻌﻨﯽ فَاتِحَةُ الكِتَابِ ﻛﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻧﺎﻡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﺜﻼﹰ : أُمُّ القُرْآنِ ، السَّبْعُ المَثَانِي ، القُرْآنُ العَظِيمُ ، الشِّفَاءُ ، الرُّقْيَةُ ( ﺩﻡ ) وَغَيْرهَا مِنَ الأسْمَاءِ- ﺍﺱ کا ﺍﯾﻚ ﺍﮨﻢ ﻧﺎﻡ "الصَّلاة" ﺑﮭﯽ ﮨﮯ, ﺟﯿﺴﺎ ﻛﮧ ﺍﯾﻚ ﺣﺪﯾﺚ ﻗﺪﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ, اللہ تعالٰی ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي " ۔

الحديث (صحيح مسلم -كتاب الصلاة )

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﻼۃ ( ﻧﻤﺎﺯ ) ﻛﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﻛﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﻛﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ, ﻣﺮﺍﺩ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ کا ﻧﺼﻒ ﺣﺼﮧ اللہ تعالٰی ﻛﯽ ﺣﻤﺪﻭﺛﻨﺎء ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻛﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﻭﺭﺑﻮﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﻝ ﻭﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﻛﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﻒ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﻭﻣﻨﺎﺟﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮦ اللہ ﻛﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺻﺎﻑ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ کا ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻧﺒﯽ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ﻛﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺧﻮﺏ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻛﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ "

( صحيح بخاري وصحيح مسلم )

ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ۔

ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ( ﻣﻦ ) کا ﻟﻔﻆ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻛﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ۔ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ, ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﻘﺘﺪﯼ ۔ ﺳﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺟﮩﺮﯼ, ﻓﺮﺽ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﻔﻞ ۔ ﮨﺮ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔

ﺍﺱ ﻋﻤﻮﻡ ﻛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﯾﻚ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻓﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻛﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻗﺮﺍءﺕ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﻮﮔﺌﯽ, ﻧﻤﺎﺯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :

"لا تَفْعَلُوا إِلا بِأُمِّ الْقُرْآنِ؛ فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا" ۔

ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺖ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﻭ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺖ ﭘﮍﮬﺎ ﻛﺮﻭ ) ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﻛﺮﻭ, ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﺍﺱ ﻛﮯ ﭘﮍﮬﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ۔
( اﺑﻮﺩﺍﻭﺩ, ﺗﺮﻣﺬﯼ, ﻧﺴﺎﺋﯽ )

ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :

"مَنْ صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ -ثَلاثًا - غَيْرُ تَمَامٍ"

ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﺎﻗﺺ ﮨﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ رضی اللہ عنہ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ : "إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ (ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﯾﮟ؟) ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ (اِقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ) ( ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﻮﺭﺊ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻮ )
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ۔

ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺪﯾﺜﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺍ ﻛﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا ( الأَعراف ۔ ٢٠٤)
ﺟﺐ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻨﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻮ ﯾﺎ ﺣﺪﯾﺚ وَإِذَا قَرَأَ أَنْصِتُوا ( بشرط صحت) ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺮﺍءﺕ ﻛﺮﮮ ﺗﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻮ کا ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﮩﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﺎﻗﯽ ﻗﺮﺍءﺕ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﮟ ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮧ ﭘﮍﮬﯿﮟ ۔ ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﻭﻗﻔﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﮯ ﺗﺎﻛﮧ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﺳﻜﯿﮟ, ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻜﺘﮧ ﻛﺮﮮ ﻛﮧ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺁﯾﺖ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺤﻤﺪللہ ﻛﻮﺋﯽ ﺗﻌﺎﺭﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﺐ ﻛﮧ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺧﺎﻛﻢ ﺑﺪﮨﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﻜﺮﺍؤ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﺍﯾﻚ ﭘﺮ ﮨﯽ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺳﻜﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺑﯿﻚ ﻭﻗﺖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻣﻤﻜﻦ ﻧﮩﯿﮟ ۔ فَنَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا ( ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﻛﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮ ﻛﺘﺎﺏ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺍﻟﻜﻼﻡ ﺍﺯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﻣﺒﺎﺭﻙ ﭘﻮﺭﯼ ﻭ ﺗﻮﺿﯿﺢ ﺍﻟﻜﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺍﻟﺤﻖ ﺍﺛﺮﯼ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﹴ , ﻭﻏﯿﺮﮦ )۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مقلد یا غیر مقلد کے چکر میں نہ پڑیں آپ اس کا جواب دے دیں:
جناب جواد صاحب کا "عظیم الشان جھوٹ" جسے وہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے؟جناب نے لکھ ہے
"امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہی مسلک جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام وتبع تابعین وائمہ دین کا ہے،"
جناب نے جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام و تبع تابعین کرام اور ائمہ دین پر یہ بہت بڑا بہتانِ عظیم گھڑا ہے ۔جناب کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ صرف اور صرف "تین" صحابہ کرام تین تابعین عظام،تین تبع تابعین کرام اور چاروں ائمہ دین سے صحیح سند کے ساتھ اپنا یہ جھوٹا دعوی(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) ثابت کر دیں تو جناب سچے ورنہ سلف صالحین پر جھوٹ گھڑنے سے توبہ کر لیں۔
اپنا دعویٰ یاد رکھیں(امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) یہ الفاظ ! ہیر پھیر چکر بازی نہیں
میرے بھائی آپ ذرا اس حدیث کی تشریح کر دیں - آپ کی عین نوازش ہو گی

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ "​
( صحيح بخاري وصحيح مسلم )​

ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ۔​
 
Top