محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام علیکم -ہر شخص کے لئے خاموشی کا حکم کہا آپ نے، تو پھر ثابت ہوچکا محمد علی جواد صاحب خود آپ کی زبانی کہ کسی بھی نماز میں مقتدی امام کی قراءت صرف سن سکتا ہے خود قرآن بلکل پڑھ نہیں سکتا ۔ اس بات کی تائد اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
1
عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فسمع ناسایقرؤن مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفقہوا اما آن لکم ان تعقلوا واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امرکم اللہ۔
تفسیر طبری جلد9
حضرت یسیر بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو،جب قرآن کریم کی قراءۃ ہوتی ہو تو تم اس کی طرف توجہ کرو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
2
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالٰی واذا قری القران فاستمعوا لہ و انصتوا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ
کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالٰی کے ارشاد واذا قری القرآن۔الآیۃ کے متعلق مروی ہے کہ یہ فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
3
عن ابن عمر قال کانت بنو اسرائیل اذا قراءت اسمتھم جاوبوھم فکرہ اللہ ذٰلک لہذہ الامۃ قال واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔
الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور جلد3
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے امام جب قراءت کرتے تھے تو بنی اسرائیل ان کی مجاوبت کرتے تھے ،اللہ تعالٰی نے یہ کام اس امت کے لئے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو۔
4
عن عبداللہ بن المغفل فی ھذہ الآیۃ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا قال فی الصلوٰۃ۔
کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ آیت کریمہ واذا قری القرآن کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
5
قال ابن تیمیۃ الحرانی وذکراحمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذالک فی الصلوٰۃ وذکرالاجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال الجہر۔
فتاوٰی کبری جلد2صفحہ168
نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز اس پر بھی اجماع نقل کیا ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قراءت کررہا ہو تو مقتدی پر قراءت واجب نہیں ۔
6
عن ابو موسٰی قال علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا قمتم الی الصلوٰۃ فلیؤمکم احد کم و اذا قراء الامام فانصتوا۔
مسند احمد جلد4 صفحہ415
حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی، فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک نمہارا امام بنے اور جب وہ امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
اور فاتحہ قرآن ہے ویسے ہی جیسے باقی ایک سو تیرہ سورتیں ہیں ۔ تو اسے پڑھنا بھی امام کا ہی حق ہے مقتدی کا نہیں ۔
شکریہ
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
امام کی قرانی آیات کی قرأت کی وقت مقتدی کو خاموش رہنا ضروری ہے - لیکن سوره الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے - اگر ہم قرآن کی سوره الاعراف کی آیت کو دلیل بنا کر یہ کہیں کہ امام کی قرآت کے وقت کچھ بھی پڑھانا جائز نہیں - تو پھر یہ جو آیت نماز قصر سے متعلق ہے اس میں صرف دشمن کے خوف سے نماز قصر کا حکم ہے - تو پھر آپ امن کے حالات میں سفر کے دوران نماز قصر کیوں پڑھتے ہیں -ملاحظہ قرآن کی آیت جس میں نماز قصر دشمن کے خوف سے مشروط ہے -
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا سوره النساء ١٠١
اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں نماز میں سے کچھ کم کر دو اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے بےشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں-
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سوره الاعراف کی آیت وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - نماز میں مقتدی پر امام کی قرآت کے وقت خاموش رہنے پر ایک دلیل ہے - توسوال ہے کہ پھر آپ احناف سری نمازوں میں جن میں امام آہستہ آواز میں قرآن کی قرآت کرتا ہے اس میں آپ سوره الفاتحہ خلف الامام کے قائل کیوں نہیں؟؟؟ - کیوں کہ اس میں تو قرآت سنائی ہی نہیں دیتی - اور سوره الاعراف کی آیت میں مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم اس بنا پر ہے کہ قرانی آیات غور سے سنی جائیں -