اگر اس حدیث کو آپ کی فہم( یعنی یہ ارشاد خاص الخاص صحابہ سے تھا )کے مطابق بھی لیا جائے تب بھی آپ نہیں مانے گے وہ کیسے وہ میں آپ سے عرض کئے دیتا ہوںاگر اس حکم کو بھی دیکھا جائے اور جو حدیث ہمارے بھائی عامر یونس نے لکھی ہے ان کے اندر تضاد نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کے اندر الفاظ یہ ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں گی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین سے نہ جاملیں اور کچھ قبائل بتوں کی پوجا نہ کرنے لگ جائیں ۔
ان دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہین ہے کیونکہ پہلی جو عامر صاحب نے لکھی اس کا مفہوم واضح ہے قرب قیامت کے لوگ نہ کہ صحابہ کرام کیونکہ حدیث کے الفاظ کے اندر بعید کا زمانہ ہے نہ کہ قریب کا اور جو حدیث بہرام صاحب نے لکھی ہے یہ خاص الخاص صحابہ کو کہا ہے اور یقینا ہمارا ایمان ہے کہ کوئی ایک صحابی بھی مشرک نہ تھا اور نہ شرک میں مبتلا ہوا اور یہی صحیح مفہوم ہے ۔باقی واللہ اعلم بالصواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
وإنيلستُأخشى عليكم أن تُشْرِكوا ، ولكني أخشى عليكم الدنيا وتنافسوها .
اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اندیشہ خاص الخاص صحابہ سے نہ تھا کہ وہ شرک کرنے لگے گے لیکن خاص الخاص صحابہ سے اس بات کا اندیشہ ضرور تھا کہ وہ دنیا کے مال دولت کے لالچ مبتلاء ہوجائیں گے !!!!!
اب اس صحیح حدیث کو آپکے فہم کے تحت مان لینے سے اور بھی بڑی آفت آجائے گی کیا اب بھی آپ اس بات پر اسرار فرمائیں گے کہ اس حدیث کو آپ کے فہم کے مطابق سمجھا جائے یا پھر اس حدیث کے بعض کو مانے گے اور بعض کا انکار کریں گے ؟؟؟؟