• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاضر و ناظر صرف اللہ کی ذات ہے. حاضر ناظر ہونا کسی نبی،رسول کی صفت نہیں

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310

جناب حنان بن عاصم صاحب

سوال ہے کہ جو عقیدہ حاضر و ناظر کا آپ کا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے بارے میں ہے

- کیا باقی انبیا کرام کے بارے میں بھی یہی ہے - کیا ان کی روحیں بھی اسی طرح دنیا میں زمان و مکان کی قید سے آزاد گھومتی پھرتی ہیں -؟؟؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ثابت کیجیے اور اگر نا میں ہے - تو اس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم اور دوسرے انبیا ء بشریت میں ایک دوسرے سے مختلف تھے -

قرآن میں تو الله کا ارشاد ہے -


وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ سوره الفرقان ٢٠
اور ہم نے تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے -


یعنی نبی کریم صل الله علیہ وسلم اور باقی انبیاء کرام ایک دوسرے سے مختلف نہیں تھے -

ترمزی کی جو حدیث آپ نے بیان کی ہے قرانی نص کے خلاف ہے. احدیث نبوی کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ حدیث جو قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو رد کر دی جائے گی - روح کی تجدید سے متعلق قرآن میں الله کا واضح ارشاد پاک ہے-


وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ سورۃ المومنون ۱۰۰
اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے


نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب قیامت قائم ہو گی تو سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی -اور میں لوگوں میں سب سے پہلے اٹھایا جاؤں گا - (متفق علیہ)-

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی روح اس وقت سب سے اعلی مقام پر عالم بالا میں موجود ہے اور قیامت کے دن واپس آپ صل الله علیہ وسلم کے جسم میں ڈالی جائے گی-قرآن میں الله کا ارشاد ہے

-
أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي سوره الفجر
ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح - اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی -پس میرے بندو ں میں شامل ہوجا - اور پھر میری جنت میں داخل ہوجا


جب کہ شہید کے بارے میں الله کا بیان ہے کہ :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سوره ال عمران ١٢٩
وہ جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔


الله کے انبیا ء شہدا سے افضل ہوتے ہیں- اس لئے ان کا اپنے رب کا ہاں اس سے بھی بلند مرتبہ ہوتا ہے -اور یہ قرانی اصول نہیں کہ انبیاء کی ارواح اپنے اعلی مقام کو چھوڑ کر ادنی مقام کی طرف یعنی دنیا میں تشریف لائیں-


میرے خیال میں حنان بھائی کا عقیدہ یہ نہیں ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اس مضمون کا حوالہ دیا ہے مضمون آخر تک پڑھیں۔۔۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
محمد علی جواد صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے، تمام ماتریدیوں، بریلویوں اور بدعتی حنفیوں، کے یہاں عقیدے کے باب میں کچھ غیر معمولی حدیثوں کے سواسب غیر معتبر ہے، چہ جائکہ ان کے حق میں اپنے ہی اصول کے خلاف ایک ضعیف اثر صحابیہ معتبر ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
ہم محفل میلاد کے موقع پر کرسی حضورﷺ کے لئے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے بیٹھنے کے لئے رکھتے ہیں۔ صلوٰۃ و سلام کے وقت اس لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باادب بارگاہ رسالتﷺ میں سلام پیش کیا جائے اور ذکر رسولﷺ کی تعظیم اور ادب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ پر نہیں بلکہ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حضورﷺ کی آمد کے لئے کھڑے نہیں ہوتے۔

بعد از وصال تصرف فرمانا
حدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں
(ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)
ف: حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں۔ اس بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بعد از وصال ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے حیات کی ضرورت ہے لہذا حضورﷺ بعد از وصال بھی حیات ہیں۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضورﷺ وصال کے بعد بھی اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی طاقت سے جب چاہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں۔
حاضر وناظر کے متعلق اکابر شارحین اور علمائے اسلام کا عقیدہ
شارح بخاری علامہ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اور شارح موطا علامہ امام زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی ظاہری زندگی اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ اپنی امت کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور آپ کو ان احوال ونیات وعزائم و خواطر وخیالات کی بھی معرفت و پہچان ہے اور اﷲ کے اطلاع فرمانے سے یہ سب کچھ آپ پر ایسا ظاہر ہے جس میں کوئی خفا و پردہ نہیں
(شرح مواہب لدنیہ جلد 8 ص 305)
شارح مشکوٰۃ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ علماء امت میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آپﷺ بحقیقت حیات دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں اور متوجہان آنحضرتﷺ کو فیض پہنچاتے اور ان کی تربیت فرماتے ہیں
(حاشیہ اخبار الاخیار صفحہ نمبر155)
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق
اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔
تنبیہ
اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم گرامی حاضر وناظر ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کو مجازی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حاضر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو، جب اﷲ تعالیٰ حواس اور نگاہوں سے پاک ہے تو یقیناًاسے حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر نہیں کہا جاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
''لاتدرکہ الابصار'' آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔
اسی طرح ناظر کا بھی اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ناظر مشتق ہے۔
نظر سے اور نظر کا حقیقی معنی یہ ہے:
النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشئی وروئیۃ
کسی چیز کو دیکھنے اور ادراک کرنے کے لئے آنکھ اور بصیرت کو پھیرنا
حقیقی معنی کے لحاظ سے ناظر اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ جب اعضاء سے پاک ہے تو حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کو ناظر کہنا ممکن ہی نہیں، اسی وجہ سے لاینظر الیہم یوم القیمۃ کی تفسیر علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یوں کی
لایعطف علیہم ولایرحم
کہ اﷲ تعالیٰ کفار پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا۔
مقام توجہ
جب اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر وناظر کہنا ہی ممکن نہیں تو واویلا کس بات کا کہ حضورﷺ کو حاضر وناظر ماننے سے شرک لازم آئے گا۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند وبالا ہے۔ ہم نبی کریمﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق اور رب کریم کا محتاج سمجھ کر جتنی بھی آپ کی تعریف کریں، اﷲ تعالیٰ سے برابری لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ معبود، خالق اور غنی ہے۔
ہاں ان کو فکر ہوسکتی ہے جن کے نزدیک خدا کا علم محدود ہے وہ معاذ اﷲ مخلوق اور محتاج ہے۔ یقیناًان کے نزدیک نبی کریمﷺ کی زیادہ شان ماننے سے اﷲ تعالیٰ کی برابری لازم آئے گی۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارا اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ''برتر از خیال اوقیاس و گمان وہم'' اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو خیال و قیاس و گمان و وہم سے بالاتر ہے۔
اب فرق واضح ہوا کہ اﷲ تعالیٰ مکان، جسم، ظاہر طور پر نظر آنے، حواس سے مدرک ہونے کے بغیر ہر جگہ موجود ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے وہ حاضر ہے اور اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کرنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے۔ نبی کریمﷺ اپنے مزار شریف میں اپنی جسمانیت کے ساتھ موجود ہیں ۔آپ کی امت اور اس کے اعمال و احوال آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اپنے حواس سے امت کے اعمال و احوال کو ادراک کررہے ہیں۔
اگر نبی کریمﷺ کی شان ناپسند ہو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ جسم، مکان، حدوث و امکان حواس میں آنے اور حواس کے ذریعے ادراک کرنے سے پاک ذات اور جسم، مکان، حدوث، امکان حواس میں آنے اور حواس سے ادراک کرنے کی محتاج ذات میں کوئی محتاج برابری کا ذرہ بھر بھی تماثل نہیں۔
محمد شہزاد قادری ترابی :: ماہانہ تحفظ جنوری 2011

پیارے بھائی اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور مجھے اس حدیث کی صحت بھی معلوم کرنی ہے ۔ براہ کرم آپ مجھے اس کا جواب ضرور دیں۔

حدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں
(ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حنان بھائی بہت خوبصورت انداز میں آپ نے بات کی ۔میں یہاں پر اہل علم حضرات سے خصوصی گذارش کرونگا کہ کہ
حنان صاحب کی اس وضاحت کے بعد بریلوی احباب کو مشرک کہنا جائز ہے؟
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔
حنان بھائی آپ سے کچھ سوال پوچھنے ہیں ،ذرا اسکی وضاحت آ جائے۔
 

ارشد

رکن
شمولیت
دسمبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
ہم محفل میلاد کے موقع پر کرسی حضورﷺ کے لئے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے بیٹھنے کے لئے رکھتے ہیں۔ صلوٰۃ و سلام کے وقت اس لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باادب بارگاہ رسالتﷺ میں سلام پیش کیا جائے اور ذکر رسولﷺ کی تعظیم اور ادب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ پر نہیں بلکہ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حضورﷺ کی آمد کے لئے کھڑے نہیں ہوتے۔

بعد از وصال تصرف فرمانا
حدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں
(ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)
ف: حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں۔ اس بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بعد از وصال ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے حیات کی ضرورت ہے لہذا حضورﷺ بعد از وصال بھی حیات ہیں۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضورﷺ وصال کے بعد بھی اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی طاقت سے جب چاہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں۔
حاضر وناظر کے متعلق اکابر شارحین اور علمائے اسلام کا عقیدہ
شارح بخاری علامہ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اور شارح موطا علامہ امام زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی ظاہری زندگی اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ اپنی امت کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور آپ کو ان احوال ونیات وعزائم و خواطر وخیالات کی بھی معرفت و پہچان ہے اور اﷲ کے اطلاع فرمانے سے یہ سب کچھ آپ پر ایسا ظاہر ہے جس میں کوئی خفا و پردہ نہیں
(شرح مواہب لدنیہ جلد 8 ص 305)
شارح مشکوٰۃ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ علماء امت میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آپﷺ بحقیقت حیات دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں اور متوجہان آنحضرتﷺ کو فیض پہنچاتے اور ان کی تربیت فرماتے ہیں
(حاشیہ اخبار الاخیار صفحہ نمبر155)
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق
اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔
تنبیہ
اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم گرامی حاضر وناظر ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کو مجازی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حاضر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو، جب اﷲ تعالیٰ حواس اور نگاہوں سے پاک ہے تو یقیناًاسے حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر نہیں کہا جاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
''لاتدرکہ الابصار'' آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔
اسی طرح ناظر کا بھی اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ناظر مشتق ہے۔
نظر سے اور نظر کا حقیقی معنی یہ ہے:
النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشئی وروئیۃ
کسی چیز کو دیکھنے اور ادراک کرنے کے لئے آنکھ اور بصیرت کو پھیرنا
حقیقی معنی کے لحاظ سے ناظر اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ جب اعضاء سے پاک ہے تو حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کو ناظر کہنا ممکن ہی نہیں، اسی وجہ سے لاینظر الیہم یوم القیمۃ کی تفسیر علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یوں کی
لایعطف علیہم ولایرحم
کہ اﷲ تعالیٰ کفار پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا۔
مقام توجہ
جب اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر وناظر کہنا ہی ممکن نہیں تو واویلا کس بات کا کہ حضورﷺ کو حاضر وناظر ماننے سے شرک لازم آئے گا۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند وبالا ہے۔ ہم نبی کریمﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق اور رب کریم کا محتاج سمجھ کر جتنی بھی آپ کی تعریف کریں، اﷲ تعالیٰ سے برابری لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ معبود، خالق اور غنی ہے۔
ہاں ان کو فکر ہوسکتی ہے جن کے نزدیک خدا کا علم محدود ہے وہ معاذ اﷲ مخلوق اور محتاج ہے۔ یقیناًان کے نزدیک نبی کریمﷺ کی زیادہ شان ماننے سے اﷲ تعالیٰ کی برابری لازم آئے گی۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارا اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ''برتر از خیال اوقیاس و گمان وہم'' اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو خیال و قیاس و گمان و وہم سے بالاتر ہے۔
اب فرق واضح ہوا کہ اﷲ تعالیٰ مکان، جسم، ظاہر طور پر نظر آنے، حواس سے مدرک ہونے کے بغیر ہر جگہ موجود ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے وہ حاضر ہے اور اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کرنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے۔ نبی کریمﷺ اپنے مزار شریف میں اپنی جسمانیت کے ساتھ موجود ہیں ۔آپ کی امت اور اس کے اعمال و احوال آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اپنے حواس سے امت کے اعمال و احوال کو ادراک کررہے ہیں۔
اگر نبی کریمﷺ کی شان ناپسند ہو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ جسم، مکان، حدوث و امکان حواس میں آنے اور حواس کے ذریعے ادراک کرنے سے پاک ذات اور جسم، مکان، حدوث، امکان حواس میں آنے اور حواس سے ادراک کرنے کی محتاج ذات میں کوئی محتاج برابری کا ذرہ بھر بھی تماثل نہیں۔
محمد شہزاد قادری ترابی :: ماہانہ تحفظ جنوری 2011

پیارے بھائی اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور مجھے اس حدیث کی صحت بھی معلوم کرنی ہے ۔ براہ کرم آپ مجھے اس کا جواب ضرور دیں۔

حدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں
(ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)
اسکا مطلب آپ ﷺ اپنے امتیوں کے گناہوں کہ موقعوں پر بھی حاضر ہوتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں(معاذ اللہ آپ ﷺ کیسی کیسی بدکاریوں کا مشاہدہ کرنا پڑھتا ہوگا)اور آپﷺ کو ظاہر ہے تکلیف ہوتی ہوگی امت کی سیاکاری دیکھ کر۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک چلیگا۔ آپﷺکو یہ تکلیف ہی معیسر ہے یا امت کا حال درست کرنے پر بھی اختیار دیا ہے اللہ نے؟؟؟
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
بریلوی مسلک مشہور عالم ہزاروی صاحب فرماتے ہیں:۔
حضور (ص) کے حاضر و ناظر ہونے سے کیا مراد ہے؟
موضوع: حاضر و ناظر | عقائد
سوال پوچھنے والے کا نام: ہاشم مقام: انڈیا
سوال نمبر 1474:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہر جگہ حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں، درست نہیں؟ اس سے متعلق جو اشکال میرے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے اولیاء کرام سے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے مختلف مقامات پر حالتِ بیداری میں فخرِ دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا۔ مثال کے طور پر علامہ سیوطی علیہ الرحمہ سے متعلق یہ مشہور ہے کہ انہوں نے 70 مرتبہ حالتِ بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا۔ دریافت طلب بات یہ ہے کہ اگر کوئی اللّہ کے ولی حضور کا دیدار حالتِ بیداری میں کسی مقام پر کرتے ہیں تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ حضور اس مقام پر بذاتِ خود تشریف لے کر گئے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں‌ تفصیلاً وضاحت فرمائیں
جواب:
حاضر و ناظر قرآن و حدیث کی روشنی میں
بد قسمتی سے مسلمانوں میں ذرا ذرا سی بات پر مذہب و مسلک تیار ہو جاتے ہیں، اختلافات کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور یہ اختلافات بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، اگر تھوڑا سا خوف خدا و شرم رسول کا احساس ہو تو ایسے کئی اختلافات جو عدم تدبر، عدم رواداری اور احساس ذمہ داری کے فقدان سے پیدا ہوتے ہیں مٹ جائیں اور نسل نو ذہنی پراگندگی سے محفوظ ہو جائے۔ زیرغور مسئلہ حاضر و ناظر کو ہی لیجئے، ''حاضر و ناظر'' کی لفظی ترکیب قرآن میں ہے نہ کسی حدیث میں۔ قرآن و سنت میں یہ اﷲ کا نام بتلایا گیا ہے نہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور نہ ہی کسی اور نبی کا اﷲ تعالیٰ کے تمام اسمائے گرامی توقیفی ہیں کہ قرآن و سنت سے ثابت ہوتے ہیں، اس لئے اسماء الحسنیٰ کی فہرست میں اس شکل ترکیبی میں کہیں نہ پائیں گے۔ ہاں قرآن و سنت میں اس مفہوم کے لئے لفظ شاہد، شہید وغیرہ کا استعمال ہوا ہے، اگر حاضر و ناظر کو شاہد و شہید کا مترادف مانیں تو اس مفہوم کی مناسبت سے اﷲ پر اس کا بولنا صحیح ہو گا'
كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًاo
(الفتح، 48 : 28)
اسی معنی میں آیا ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ لفظ ''حاضر و ناظر'' قرآن و سنت میں کہیں بھی اﷲ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ شاہد و شہید کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو اب گزارش یہ ہے کہ یہ الفاظ جیسے قرآن و سنت میں اﷲ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً
وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
النسائ، 4 : 41
''اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔''
إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ
المزمل، 73 : 15
''بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بھیجا ہے جو تم پر (اَحوال کا مشاہدہ فرما کر) گواہی دینے والا ہے۔''
تو اگر اﷲ تعالیٰ کے لئے لفظ حاضر و ناظر شاہد و شہید کے معنی کے طور پر بولا جاتا ہے تو اسی دلیل سے یہ لفظ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی بولنا صحیح ہو گا بالکل اسی طرح جس طرح قرآن میں اﷲ تعالیٰ کے لئے سمیع بصیر کے کلمات استعمال ہوئے اور ہر انسان کے لئے بھی یہی کلمات استعمال ہوئے۔
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاo
(الدهر، 76 : 2)
ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا۔ اﷲ تعالیٰ کے لئے رؤف و رحیم کے وصف بیان ہوئے پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال ہوئے۔ دیکھو سورہ توبہ آخری حصہ، پھر یہی شاہد و شہید کا لفظ مسلمانوں کے لئے استعمال ہوا۔
وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ
البقره، 2 : 282
''اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو۔''
وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا
يوسف، 12 : 26
''اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے (جو شیر خوار بچہ تھا) گواہی دی۔''
پس لفظ شاہد و شہید جس طرح اﷲ کے لئے آیا ہے اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام مسلمانوں کے لئے بھی قرآن و سنت میں استعمال ہوا۔ یونہی سمیع، بصیر، علیم، حلیم، عالم، خبیر، رقیب وغیرہ کلمات تینوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں لہٰذا لفظی اشتراک عقلاً و شرعاً منع نہیں۔ حاضر و ناظر میں بھی اشتراک لفظی ہے۔ ہاں اس حقیقت کو ایک لمحہ کے لئے بھی نظرانداز نہ کیا جائے کہ اشتراک لفظی کے باوجود خالق و خلق میں یہ صفات الگ الگ معنی و حیثیت سے پائی جاتی ہیں۔ اﷲ، اﷲ ہے، بندہ، بندہ ہے۔ خالق کی ہر صفت ذاتی، غیر متبدل، قدیم اور واجب جبکہ مخلوق کی ذات بھی اس کے بنانے سے ہے اور صفات بھی، کسی کی اپنے آپ نہ ذات نہ صفات، سب عطا و فیضان ہے اور عکس جمیل ہے ذات و صفات باری تعالیٰ کا۔
مخلوق کی ہر صفت اﷲ کی دی ہوئی ہے، ذاتی نہیں جبکہ خالق کی جملہ صفات ذاتی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مفہوم
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا جب قرآن و سنت سے ثابت ہو گیا تو اب اس کی نوعیت بھی سمجھ لیں۔ یہ حاضر و ناظر ہونا جسمانی نہیں۔ علمی، نظری اور روحانی ہے کہ ساری کائنات پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر ہے۔ سب کچھ اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے ہتھیلی پر رائی کا دانہ اور یہ سب کچھ عطائے خداوندی سے ہے اور ساری کائنات پر گواہی کی یہی شان ہو سکتی ہے۔
مسجد میں امامت کا مسئلہ روحانی نہیں، جسمانی ہے۔ نماز پڑھنے کے لئے روح کافی نہیں، جسم درکار ہے۔ رکوع، سجود، قیام، قومہ، قعدہ جسمانی افعال ہیں۔ ان عبادات میں امامت مشروعہ کے لئے جسم کے ساتھ امام کا حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے۔ محض روحانی طور پر کوئی امام ہو سکتا ہے نہ مقتدی، نہ اکیلا پڑھ سکتا ہے اگر مسئلہ حاضر و ناظر کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو ایسے سوالات ذہن میں آ ہی نہیں سکتے۔ یہ اس طرح کا استدلال ہو گا، کوئی قرآن سے پہلے یہ ثابت کرے کہ اﷲ سب سے بڑا حاکم ہے، سب سے بڑا عادل ہے، اس کی گواہی کافی ہے۔ پھر کہے ایسے حاکم، عادل اور گواہ کے ہوتے ہوئے کسی اور حاکم و گواہ کو کیوں مانا جائے؟ اﷲ کے رب ہوتے ہوئے کسی اور کو مربی کیوں مانا جائے؟ اﷲ کے ولی ہوتے ہوئے کسی اور کو ولی بلکہ اﷲ کے مومن ہوتے ہوئے کسی اور کو مومن کیوں مانا جائے؟ سورہ حشر میں ہے المومن اﷲ مومن ہے۔ قرآن و سنت کے کچھ حصہ پر سرسری نظر ڈال کر بڑے بڑے مسائل پر گوہر فشانی کرنا، قرآن سے ناانصافی ہے اگر کسی مسئلہ پر اظہار رائے سے پہلے اس سے مکمل واقفیت ضروری ہے تو قرآن کے لئے بھی یہی حق تسلیم کریں کہ اس پر ہر کس و ناکس کو ''ماہرانہ'' رائے زنی سے پہلے اس کے مبادیات سے واقف ہونا ضروری ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے، بقول علامہ اقبال مرحوم
ہر کسے دانائے قرآن و خبر
در شریعت کم سواد و کم نظر
امامت نماز کا تعلق امام کے جسم سے ہے۔ امام کا مقتدیوں کے آگے اپنے جسم کے ساتھ ہونا، نماز باجماعت کی صحت کے لئے شرط ہے جبکہ حاضر و ناظر کا تعلق روح و نور کے ساتھ ہے، بصیرت نبوت کے ساتھ ہے، علم کے ساتھ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز باجماعت اس لئے پڑھائی کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اقدس علیل تھا۔ آج یا پہلے جو امام نماز پڑھاتے ہیں وہ اس لئے امامت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک حاضر نہیں۔ جسم کے احکام اور ہیں، روح کے احکام اور۔ دیکھنے، سننے اور علم کا تعلق روح سے ہے لہٰذا وہ سب کچھ دیکھتے سنتے ہیں۔ ان کا دیکھنا، سننا، اعضاء و جوارح کا محتاج نہیں۔ ان کی حیات عام حیات سے اور ان کے محسوسات عام محسوسات سے بلند و بالا ہیں۔
حاضر و ناظر پر اعتراضات کا رد
حاضر و ناظر کا لفظ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں لہٰذا اس شخص کا اس بنا پر مسلمانوں کو مشرک کہنا خود مشرک بننا ہے کہ اﷲ کے مقابلہ میں خود شرک و کفر کی مشین چلاتا ہے۔ اس سے مطالبہ کریں کہ وہ یہ الفاظ قرآن و حدیث میں سے ثابت کرے ورنہ وہ سخت جھوٹا اور مستحق لعنت ہے، مفتری ہے۔ قرآن و سنت میں اس مفہوم کے لئے لفظ شاہد، شہید، اور اولی وغیرہ آئے ہیں اور یہ کلمات جس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے لئے استعمال کئے اسی طرح اپنے نبی کے لئے بھی استعمال کئے ہیں جیسے سمیع، بصیر، علیم، حلیم کے الفاظ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوئے، بندے کے لئے بھی اس جاہل سے پوچھو جو الفاظ قرآن میں موجود ہیں اور اﷲ کی صفات ہیں، جب وہ الفاظ خود اﷲ نے اپنے بندوں کے لئے بھی استعمال کئے ہیں اور تو روزانہ قرآن پڑھ سکتے ہو، جب یہ شرک نہیں تو جو لفظ قرآن و حدیث میں اﷲ کے لئے استعمال ہی نہیں ہوا اس کا استعمال نبی کے لئے کیسے شرک ہو گیا۔ یہ اسلام، قرآن اور اﷲ و رسول سب پر افتراء ہے، بہتان ہے اگر سچا ہے تو اس مطالبہ کو پورا کرے اور قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت پیش کرے۔ سچ، جھوٹ واضح ہو جائے گا ورنہ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین پڑھ کر اس پر پھونک دیں۔ یا رسول اﷲ قرآن، حدیث اور تمام صحابہ اور پوری امت کا وظیفہ رہا ہے۔ اس کو شرک قرار دینے والا خود ہی زمرہ اہل ایمان سے نکل گیا۔ اس سے پوچھو قرآن میں يا ايها النبیُّ، يا ايها الرسول، يا ايها المزمل، يا ايها المدثر، نماز میں ایہا النبیُّ جو آیا ہے اس میں اور یا رسول اﷲ کے معنی میں کیا فرق ہے کہ یہ سب جائز اور یا رسول اﷲ ناجائز؟ کیا اﷲ نے قرآن میں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں، کسی صحابی، کسی امام، چودہ سو سال میں کسی عالم، محدث، مفسر نے یا رسول اﷲ کو شرک کہا؟ اگر کہا تو ثبوت پیش کرے ورنہ ان کی علمیت یا جاہلیت اور گمراہی کا خود پتہ چل جائے گا۔ تمام صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی یا رسول اﷲ کہتے رہے۔ یہ نیا گمراہ فرقہ یہود و نصاریٰ کی پیداوار ہے۔ تحقیق کے لئے دیکھو ''مسٹرہمفرے کے اعتراضات'' ''تاریخ نجد و حجاز'' وغیرہ۔ یہ شخص جاہل، متعصب اور خارجی ہے۔ اس سے ہر مسلمان کو کلی طور پر پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ پوری تحریک ہے بیرونی سرمایہ پر سامراج کے مقاصد پورے کر رہی ہے نام مختلف پر کام ایک ہے۔اہل علم کی گفتگو وہ کروائے جو فتنہ ختم کرنا چاہے، جس کا مشن ہی مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا ہو وہ کیوں مناظرہ کرے گا؟ سچائی کی تشہیر ہوتی ہے، گندگی کی تشہیر نہیں ہوتی، چور کبھی تشہیر نہیں کرتے آپ بھولے ہیں۔ یہ لوگ ایک مخصوص سانچے میں ڈھل چکے ہیں ان سے آپ کا مطالبہ بھول پن ہے۔ اپنے ایمان کی حفاظت کریں، اپنی مساجد کی حفاظت کریں، اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان کی فکر کریں۔ منافق نہ پہلے ختم ہوئے نہ آئندہ ختم ہوں گے۔ وہ گندگی پھیلانے کی رات دن جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی فکر کریں۔ علماء حق سے رابطہ کریں ان موضوعات پر جاہلانہ گفتگو کی نہیں، عالمانہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ پیار و محبت سے اور جذبہ جہاد کے تحت عوام کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کریں۔ اﷲ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
عقیدہ حاضر و ناظر شرک نہیں
یا رسول اﷲ کہنا قرآن کے مطابق، حدیث کے مطابق، صحابہ، تابعین اور آج تک کے تمام اہل ایمان کی سنت اور محبت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایا علامت ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : يا ايها الرسول، يا ايها النبي، يا ايهاالمزمل، يا ايها المدثر یا رسول اﷲ کے دشمنوں کو لفظ رسول اﷲ سے تو اختلاف و انکار نہیں صرف ''یا'' حرف ندا سے چڑ ہے اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی کے ساتھ ہم ''یا'' ''حرف ندا'' قرآن سے بتا دیا۔ اگر ان میں شرم ہو تو ڈوب مریں لیکن ان میں شرم کہاں؟ ہوتی تو ایسی بے حیائی کی باتیں ہی نہ کرتے۔ جو صحابی خدمت اقدس میں حاضر ہوتا وہ یارسول اﷲ! کہہ کر ہی سلام عرض کرتا ۔ نہ کسی نے سرکار کی حیات دنیوی میں اس کے جواز میں شبہ کیا نہ وفات کے بعد۔ ان جھوٹوں سے پوچھو کسی صحابی یا تابعی یا امام نے کسی دور میں یارسول اﷲ کہنے سے روکا ہے؟ یا اسے ناجائز بتایا ہے؟ حوالہ صاف ہو۔ اگر ہماری کسی بات کو قرآن و سنت سے غلط ثابت نہ کرسکے (اور انشاء اﷲ نہ کر سکے گا) تو اس سے پوچھوں تمہیں شرک کی مشین کس نے بنا دیا ہے؟ جسے چاہو مشرک کہتے رہو۔
یہودیت و عیسائیت کا راستہ یارسول کہنا نہیں، اگر کسی میں ہمت ہے تو اس کا ثبوت پیش کرے۔ یہودیت و عیسائیت کا راستہ یہ ہے کہ
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ
التوبه، 9 : 30
''اور یہود نے کہا : عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا : مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔۔''
منافقوں اور کافروں نے کبھی یارسول اﷲ نہیں کہا۔ وہ تو ہر دور میں نبیوں کو اپنی مثل بشر کہا کرتے تھے۔
قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا
يسن، 36 : 15
''(بستی والوں نے) کہا : تم تو محض ہماری طرح بشر ہو ۔''
نبی کے غلاموں کا راستہ، محبت، اطاعت، ادب اور احترام کا راستہ ہے جبکہ منافقین کا راستہ نبی کے بغض، بے ادبی، گستاخی اور نبی سے بے ادبی کا راستہ ہے۔ قرآن نے نبیوں کے دشمنوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں فرمایا :
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَo
الفاتحه، 1 : 7
''ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا''
یارسول اﷲ اور یا علی کہنے والے مشرک نہیں ''یا امریکہ '' کہنے والا مشرک ہے ''یا گاندھی''کہنے والا مشرک ہے۔
اﷲ تعالیٰ جہلاء سے محفوظ فرمائے۔ آمین
اصطلاح حاضر و ناظر بدعت حسنہ ہے
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضہ اقدس میں اپنی حقیقی زندگی کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہے۔ جہاں جو ہوتا ہے آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ کبھی توجہ خالق کی طرف زیادہ ہو جائے تو اس طرف سے عدم توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ عد توجہ ہی ہے عدم علم نہیں۔ حاضر و ناظر جسمانی لحاظ سے نہیں روحانی و نورانی لحاظ سے ہے۔ یہ شان آپ کو خدا نے عطا فرمائی ہے۔ آپ کو شاہد و شہید کا مقام حاصل ہے اور قرآن و سنت اس پر شاہد و عادل ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور حکم میں یکتا ہے۔ نہ اس کی ذات کی طرح کوئی ذات ہے نہ صفات کی طرح کسی کی صفت، نہ اس کے حکم کی طرح کسی کا حکم، یہی توحید ہے اور اسی کے خلاف عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ یہی خلاصہ ہے اس سوال کے جواب کا۔
سنت و بدعت
قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف بدعت سیئہ ہے یعنی بری بدعت جس کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے۔
من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها اﷲ ورسوله کان عليه من الاثم مثل اثام من عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شيئا.
مشکوٰة، 30، ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2677
''جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اﷲ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہو گا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے۔''
قال رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعةً الارفع مثلها من السنه فتمسک بسنة خيرٌ من احدٰث بدعه.
مسند احمد بن حنبل، 4 / 105، الرقم : 17011
''جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے۔''
بری بدعت کی علامت
حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا :
ما ابتدع قوم بدعةً فی دينهم الا نزع اﷲ من سنتهم مثلها ثم لا يعيدها اليهم الی يوم القيامة.
دارمی، السنن، باب اتباع السنة، 1 / 58، الرقم : 98
''جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اﷲ ان کی سنت میں سے اتنی سنت ختم کر دیتا ہے۔ پھر قیامت تک اﷲ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا۔''
یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوت اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ مذموم بدعت وہ جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو۔ جو اﷲ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدہ ہو۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً ممنوع نہیں ہوتی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
من سن فی الاسلام سنةً حسنةً فَلَه اجرُها واجرُ من عمِل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيئی ومن سن فی الاسلام سنةً سيئةً کان عليه وزرها وزر من عمل بها من بعد من غير ان ينْقصَ مِن اوزارهم شئیٌ.
مسلم، الصحیح، کتاب العلم، باب من سن سنةً حسنةً اوسیئةً ومن دعا الی ھدی او ضلالۃ، 6 / 2059، الرقم : 1017
''اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی، عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے اسلام میںکوئی بری رسم ایجاد کی اس پر اس کا گناہ بھی ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے انکے گناہ میں کمی کئے بغیر۔''
نمازِ تراویح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے پہلے پورے رمضان المبارک میں مسجد میں باجماعت نمازِ تراویح کا انتظام نہیں تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمرا مسجد میں گیا۔ لوگ الگ الگ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہے اور کسی کے ہمراہ پوری جماعت نماز (تراویح) ادا کر رہی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں ان لوگوں وک ایک قاری کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہو گا۔ پھر آپنے تمام لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع فرمایا۔ پھر میں ایک رات آپ کے ہمراہ مسجد میں گیا تما م لوگ قاری کی اقتداء میں نمازِ تراویح ادا کر رہے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مالک، المؤطا، کتاب الصلوٰة فی رمضان، باب ماجاء فی قيام رمضان، 1 / 114، الرقم : 250
''یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔''
فقہائے کرام فرماتے ہیں بدعت کی پانچ قسمیں ہیں :
وهی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعانده بل نبنوع شبهه ... الخ
درالمختار مع رد المختار للشامی، 1 : 60
''1۔ حرام : جو طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشہور و معروف ہے کسی ضد سے نہیں بلکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی بناء پر اس کے خلاف عقیدہ رکھنا۔
(2) واجبہ، جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل پیش کرنا۔ علم نحو وغیرہ پڑھنا،
(3) مستحبہ جیسے (جہاد کے لئے گھوڑوں وغیرہ کے) اصطبل، تعلیمی ادارے قائم کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو صدر اول میں نہ تھا۔
(4) مکروہہ، جیسے مساجد کا رنگ و روغن
(5) مباحہ، جیسے نئے نئے لذیز مشروب و کھانے، عمدہ لباس۔''
ہر جگہ حاضر و ناظر
''حاضر و ناظر'' کی ترکیب قرآن وحدیث میں نہ اﷲتعالیٰ کے لئے استعمال ہوئی نہ کسی اور کے لئے، لہٰذا اس ترکیب پر لڑائی کرنا حماقت ہے۔ ہاں قرآن و حدیث میں لفظ شاہد، شہید وغیرہ استعمال ہوئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے لئے بھی اس کی شان کے مطاقب، رسول اﷲ کے لہے بھی آپ کی شان کے مطابق اہل ایمان کے لئے بھی ان کی شان کے مطابق۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں ہے۔ آپ روئے زمین کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی، چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان اﷲ زوی لی الارض فرايتُ مشارِقَها ومغاربَها وان امتی سيبلغ ملکها مازوی لی منها واعطيت الکنزين الاحمر والابيض.
المسلم، الصحيح، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب هلاک هذه الامة، بعضهم لبعضٍ، 6 / 2215، الرقم : 2889
''بے شک اﷲتعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی، سو میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور جتنی زمین میرے لئے سمیٹی گئی میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اور مجھے دونوں خزانے دیدیئے گئے۔ سرخ (کسریٰ، ایران کے دینار) اور سفید (قیصر روم کے درہم)۔''
یہ مشاہدہ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے ثابت ہے۔ جسم اقدس اپنے مقام پر رہتا ہے۔ کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ مشاہدہ نورانی و روحانی ہے اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ اس میں شان اقدس کی کمی نہیں۔ حقیقت اور شان رسالت کے عین مطابق۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
جنید صاحب آپ غیر متفق تو ہو گئے مگر اسکا عالمانہ بحث فرمائے۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
جنید صاحب آپ غیر متفق تو ہو گئے مگر اسکا عالمانہ بحث فرمائے۔
مفتی ہزاروی نے گھماپھرا کر کان وہیں سے پکڑلیا جہاں سے بریلوی پکڑتے ہیں کہ رسول اللہﷺ حاظرناظر ہیں۔ اور اتنے لمبے پلندے اور فاسد عقلی ڈھکوسلو میں پہلے ہمارے بھائی اپنے ہی مسلمہ اصولوں کے برخلاف صرف ایک "خواب" سے اپنا عقیدہ ثابت کرسکے تھے جوکہ اصطلاحی اعتبار سے ایک "ضعیف" "اثر" صحابیہؓ تھا جبکہ ظلم یہ ہے کہ خود اُن کے یہاں عقائد میں نہ خواب معتبر ہیں، اور نہ آثار صحابہؓ، بلکہ وہ تو عقائد میں تاویلیں کر کرکے صحیح احادیث کا بھی انکار کردیتے ہیں،لیکن حضرات اپنی اِس نام نہاد بدعت کو ثابت کرنے کے لئے سب اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر دیوانے ہوئے جارہے ہیں۔

اب جنم میں کرم ہمارے بھائی عزمی صاحب نےمفتری ہزاروی ۔۔۔۔سوری ،مفتی ہزاروی صاحب کا فتوی لائے اب حضرت نے پہلے تو بات میں وزن بھرنے کے لئے بات کو جلبی کی طرح گول گول گھمایا، اُس سارے ڈھکوسلے میں"حقیقتاً " صرف ایک آیت سےہی استدلال کیا:

إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ، المزمل، 73 : 15

اوریہ نتیجہ نکالا کہ رسولﷺ کو شاہد بناکر بھیجا گیا ہے اِس لئے لازم ہے کہ رسول اللہﷺ قیامت تک آنے والی امت کے ہر ہر حال کو دیکھیں اور مشاہدہ کریں، اورنتیجتاً اِس سے اُن کا حاظرو ناظر ہونا ثابت ہوا، اگر مفتری ،سوری، مفتی ہزاروی کا استدلال صحیح مان لیا جائے تو ہم مندرجہ ذیل آیت سے مفتی صاحب کے اِس اصول کے مطابق رسول اللہﷺ سے بڑے حاظر ناظر ہوجائیں گے :-)
وَكَذَٰلِكَ جَعَلۡنَٰكُمۡ أُمَّةٗ وَسَطٗا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ بقرہ ۲:۱۴۳
اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم (یعنی امت محمدیہ) لوگوں (یعنی تمام سابقہ امتوں ) پر گواہ بنو

معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ صرف امت محمدیہ پر شاہد تھے، پر امت محمدیہ تمام سابقہ امتوں پر شاہد ہو کر رسول اللہﷺ سے بڑی خاظر ناظر ہو گئی، واہ کیا لطیفہ عقائد ہیں، کیا لطیفہ استدلالات ، پہلے خواب سے عقیدہ تراشہ، پھر قرآن مجید میں معنوی تحریف شروع کردی۔

آپ جاکر کیسی اچھی تفسر سے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے شاہد ہونے کے معنی اچھی طرح سمجھ لیں، مفتی صاحب کے ڈھکوسلہ کوتو میں کھول ہی چکاہوں، آپ اُس کے قائل ہوئے تو توہین رسالت کے مرتکب ہوجائیں گے:-)

علامہ ابن کثیرؒ بقرہ ۲:۱۴۳کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

(قرآن مجید دوسری آیت سے بات شروع کر ہوئے)​
تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔ الحج ۲۲:۷۸​
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت (وکذلک جعلناکم )الخ کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا (بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟ یہ کہیں گے ہاں، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی (قرآن کے ذریعہ) کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان (وکذلک) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے (یعنی صحابی ؓ نے یہ نہیں کہا کہ پوشیدگی کا علم تو آپ کو روحانی طور پر ہے، اور آپﷺ شاہد ہونے کی بنا سب جانتے ہیں بلکہ غیب کے علم کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اُن پر نکیر نہیں فرمائی ، کہ منکر (جو کہ آپ کے مطابق کفر تک پہنچتی ہے) دیکھ کر رسول اللہ ﷺ پر نکیر واجب تھی ، )لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے (وکذلک) الخ مسند احمد میں ہے۔ ابوالاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو​
 
Top