- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
نام :حافظ خضر حیات ، کلیۃ القرآن الکریم
میں یا تو اپنے گاؤں کی مسجد میں ناظرہ قرآن پڑہتا رہا ہوں یا پھر اپنے اس جامعہ میں بعد میں آگیا تھا ۔ اس کے علاوہ کسی جامعہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔
مجھے اس جامعہ میں لانے والے( بلکہ دوسرے لفظوں میں اصلا دینی تعلیم کی طرف راغب کرنے والے ) استاد محترم قاری نعمان مختار لکھوی صاحب حفظہ اللہ و یرعاہ ہیں ۔ اس حوالے سے میں ( اور میرے والدین) ان کا انتہائی شکرگزار ہوں ۔ جزاه الله خيرا كثيرا كثيرا كثيرا
جامعہ میں میں نے 9سال تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ـ 2002ء تا 2010ء
تفصیل کچھ یوں ہے :
دوسال میں حفظ القرآن اور اس کی دہرائی مکمل کی۔
حفظ میں میرے استاد قاری اشرف صاحب رحمہ اللہ وجعل الجنۃ مثواہ ہیں ۔ اللہ ان کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنائے ۔
اور ہمیں ان کا نام روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
قاری صاحب اگر چہ حفظ القرآن کے استاد تھے ۔ لیکن ان کی شفقت اور محبت بعد میں بھی میرے ساتھ رہی ۔ چنانچہ حفظ کے بعد کتب میں داخلہ لینے میں ان کی تربیت اور ان کی رغبت ہی اصل محرک تھی ۔ افسوس کہ ان کی زندگی نےوفا نہ کی اور میں ابھی ثانیہ کلیہ بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ (آج میں جانتا ہوں یا اللہ جانتا ہے کہ مجھے کتنی تڑپ ہے کہ ان کو ملوں اور ان کو بتاؤں کے آپ کی تربیت اور دعاؤوں کی وجہ سے اللہ نے آپکی خواہشات کو کس طرح پورا کیاہے ۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ ۔۔)
حفظ کے بعد 2003ء کے اواخر میں جامعہ کے شعبہ کتب میں داخلہ ہوگیا۔
دوسال میں تجوید کے ساتھ ساتھ بنیادی علوم مثلا صرف و نحو اور دیگر چھوٹی چھوٹی کتب کو پڑہنے کا موقعہ ملا ۔
اس کے بعد 3سال میں قراءات سبعہ و عشرہ کی تکمیل کےساتھ ساتھ دیگر علوم بھی حاصل کرنے کا موقعہ ملا چند اہم کتب جو اس فترہ میں پڑہیں بعض یہ ہیں : حدیث میں مشکوۃ المصابیح ، سنن النسائی ، سنن ترمذی اور ان سے پہلے بلوغ المرام اور نخبۃ الاحادیث وغیرہ ۔
نحو و صرف میں ہدایۃ النحو ، علم الصیغہ ، التحفۃ السنیۃ شرح ابن عقیل (منتخب) اور اس سے پہلے علم النحو اور علم الصرف اور کتاب النحو وغیرہ
اصول حدیث میں اطیب المنح ، تیسیر مصطلح الحدیث ، ضوابط الجرح والتعدیل ( کچھ حصہ)
اس کے علاوہ دیگر علوم میں پڑھی جانے والی کتب میں سے فقہ السنۃ ، ، البدایہ ، مقدمہ اصول التفسیر ، عقیدہ واسطیہ ، او رنیل المرام ، اصول فقہ پر ایک نظر ، اصول الشاشی وغیرہ ہیں۔
6 اور 7 سال میں سنن ابوداؤود ( بعض) مسلم (بعض) بخاری (منتخب ابواب ) اور اسی طرح عقیدہ طحاویہ مباحث فی علوم القرآن ، مسائل وراثت اور الہدایہ وغیرہ پڑہنے کا موقعہ ملا ۔
جامعہ ہی میں رہتے ہوئے جامعہ کے ایک شعبہ کلیۃ العلوم الاجتماعیۃ کی معاونت سے میٹر ک اور ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا ۔
آخری سال میں عشرہ کبری کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جاننے کا موقعہ ملا ۔
قاری نعمان صاحب اور قاری اشرف صاحب کے علاوہ دیگر اساتذہ جن سے فیضیاب ہو نے کا موقعہ میسر آیا ان کے نام بالترتیب یوں ہیں :
1۔قاری خالد فاروق صاحب 2۔ قاری عارف بشیر صاحب 3۔قاری عبد السلام عزیزی صاحب
4۔ قاری فیاض صاحب 5۔ قاری حمزہ صاحب 6۔ قاری انس نضر صاحب
7۔ قاری گل خاں صاحب 8۔ قاری ابراہیم میر محمدی صاحب 9۔ مولانا ابراہیم شاہین صاحب
10۔ مولانا شاکر محمود صاحب 11۔ مولانا شفیع طاہر صاحب 12۔ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب
13۔ مولانا رحمت اللہ ارشد سالک صاحب 14۔ مولانا اسحاق طاہر صاحب 15۔ مولانا شفیق مدنی صاحب
16۔ مولانا زید احمد صاحب ( شفاہ اللہ) 16۔ مولانا عبد الرشید خلیق صاحب 17۔ مولانا رمضان سلفی صاحب
18۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب 19۔ شیخ الحدیث مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب 20۔ مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب
21۔ شیخ التفسیر مولانا عبد السلام فتحپوری صاحب وغیرہم حفظہم اللہ و متعنا بطول حیاتہم ۔
میں نے جامعہ میں ساتویں کلاس تک پڑہا او رآٹھویں کلاس شروع ہونے سے پہلے پہلےجامعہ کی کوششوں اور اساتذہ و والدین کی دعاؤوں سے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہوگیا ۔
میرے ساتھیوں میں سے عبد المنان ، انوار الحق ، عبد اللہ عزام اور محمود سیاف قابل ذکرہیں۔
ہم سے آگے پڑہنے والے متمیزین میں سے احسان الہی ظہیر ، آصف جاوید ، قاری ظہیر صاحب ، قاری شفیق صاحب ، قاری علی صاحب اور طاہر الاسلام عسکری صاحب وغیرہم ہیں ۔( ان میں سے بعض فراغت کے بعد جامعہ میں بطور استاد مقرر ہیں )
ہم سے بعد پڑہنے والے ساتھیوں میں سے قاری اظہر ، عنایت اللہ ، عبد الماجد ، عبد الرحمن ، عبد المجید اور فرمان مشتاق وغیرہ اپنی ذہانت و فطانت میں مشہور ہیں ۔
اللہ تعالی ہمارے اس جامعہ کو اسلاف کے نہج پر چلائے اور عصر حاضر کے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی توفیق دے ۔ اللہ اس کے منتظمین اور مہتممین اوراساتذہ کو لمبی عمریں عطا کرے اور ان سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لے ۔
میں یا تو اپنے گاؤں کی مسجد میں ناظرہ قرآن پڑہتا رہا ہوں یا پھر اپنے اس جامعہ میں بعد میں آگیا تھا ۔ اس کے علاوہ کسی جامعہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔
مجھے اس جامعہ میں لانے والے( بلکہ دوسرے لفظوں میں اصلا دینی تعلیم کی طرف راغب کرنے والے ) استاد محترم قاری نعمان مختار لکھوی صاحب حفظہ اللہ و یرعاہ ہیں ۔ اس حوالے سے میں ( اور میرے والدین) ان کا انتہائی شکرگزار ہوں ۔ جزاه الله خيرا كثيرا كثيرا كثيرا
جامعہ میں میں نے 9سال تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ـ 2002ء تا 2010ء
تفصیل کچھ یوں ہے :
دوسال میں حفظ القرآن اور اس کی دہرائی مکمل کی۔
حفظ میں میرے استاد قاری اشرف صاحب رحمہ اللہ وجعل الجنۃ مثواہ ہیں ۔ اللہ ان کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنائے ۔
اور ہمیں ان کا نام روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
قاری صاحب اگر چہ حفظ القرآن کے استاد تھے ۔ لیکن ان کی شفقت اور محبت بعد میں بھی میرے ساتھ رہی ۔ چنانچہ حفظ کے بعد کتب میں داخلہ لینے میں ان کی تربیت اور ان کی رغبت ہی اصل محرک تھی ۔ افسوس کہ ان کی زندگی نےوفا نہ کی اور میں ابھی ثانیہ کلیہ بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ (آج میں جانتا ہوں یا اللہ جانتا ہے کہ مجھے کتنی تڑپ ہے کہ ان کو ملوں اور ان کو بتاؤں کے آپ کی تربیت اور دعاؤوں کی وجہ سے اللہ نے آپکی خواہشات کو کس طرح پورا کیاہے ۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ ۔۔)
حفظ کے بعد 2003ء کے اواخر میں جامعہ کے شعبہ کتب میں داخلہ ہوگیا۔
دوسال میں تجوید کے ساتھ ساتھ بنیادی علوم مثلا صرف و نحو اور دیگر چھوٹی چھوٹی کتب کو پڑہنے کا موقعہ ملا ۔
اس کے بعد 3سال میں قراءات سبعہ و عشرہ کی تکمیل کےساتھ ساتھ دیگر علوم بھی حاصل کرنے کا موقعہ ملا چند اہم کتب جو اس فترہ میں پڑہیں بعض یہ ہیں : حدیث میں مشکوۃ المصابیح ، سنن النسائی ، سنن ترمذی اور ان سے پہلے بلوغ المرام اور نخبۃ الاحادیث وغیرہ ۔
نحو و صرف میں ہدایۃ النحو ، علم الصیغہ ، التحفۃ السنیۃ شرح ابن عقیل (منتخب) اور اس سے پہلے علم النحو اور علم الصرف اور کتاب النحو وغیرہ
اصول حدیث میں اطیب المنح ، تیسیر مصطلح الحدیث ، ضوابط الجرح والتعدیل ( کچھ حصہ)
اس کے علاوہ دیگر علوم میں پڑھی جانے والی کتب میں سے فقہ السنۃ ، ، البدایہ ، مقدمہ اصول التفسیر ، عقیدہ واسطیہ ، او رنیل المرام ، اصول فقہ پر ایک نظر ، اصول الشاشی وغیرہ ہیں۔
6 اور 7 سال میں سنن ابوداؤود ( بعض) مسلم (بعض) بخاری (منتخب ابواب ) اور اسی طرح عقیدہ طحاویہ مباحث فی علوم القرآن ، مسائل وراثت اور الہدایہ وغیرہ پڑہنے کا موقعہ ملا ۔
جامعہ ہی میں رہتے ہوئے جامعہ کے ایک شعبہ کلیۃ العلوم الاجتماعیۃ کی معاونت سے میٹر ک اور ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا ۔
آخری سال میں عشرہ کبری کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جاننے کا موقعہ ملا ۔
قاری نعمان صاحب اور قاری اشرف صاحب کے علاوہ دیگر اساتذہ جن سے فیضیاب ہو نے کا موقعہ میسر آیا ان کے نام بالترتیب یوں ہیں :
1۔قاری خالد فاروق صاحب 2۔ قاری عارف بشیر صاحب 3۔قاری عبد السلام عزیزی صاحب
4۔ قاری فیاض صاحب 5۔ قاری حمزہ صاحب 6۔ قاری انس نضر صاحب
7۔ قاری گل خاں صاحب 8۔ قاری ابراہیم میر محمدی صاحب 9۔ مولانا ابراہیم شاہین صاحب
10۔ مولانا شاکر محمود صاحب 11۔ مولانا شفیع طاہر صاحب 12۔ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب
13۔ مولانا رحمت اللہ ارشد سالک صاحب 14۔ مولانا اسحاق طاہر صاحب 15۔ مولانا شفیق مدنی صاحب
16۔ مولانا زید احمد صاحب ( شفاہ اللہ) 16۔ مولانا عبد الرشید خلیق صاحب 17۔ مولانا رمضان سلفی صاحب
18۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب 19۔ شیخ الحدیث مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب 20۔ مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب
21۔ شیخ التفسیر مولانا عبد السلام فتحپوری صاحب وغیرہم حفظہم اللہ و متعنا بطول حیاتہم ۔
میں نے جامعہ میں ساتویں کلاس تک پڑہا او رآٹھویں کلاس شروع ہونے سے پہلے پہلےجامعہ کی کوششوں اور اساتذہ و والدین کی دعاؤوں سے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہوگیا ۔
میرے ساتھیوں میں سے عبد المنان ، انوار الحق ، عبد اللہ عزام اور محمود سیاف قابل ذکرہیں۔
ہم سے آگے پڑہنے والے متمیزین میں سے احسان الہی ظہیر ، آصف جاوید ، قاری ظہیر صاحب ، قاری شفیق صاحب ، قاری علی صاحب اور طاہر الاسلام عسکری صاحب وغیرہم ہیں ۔( ان میں سے بعض فراغت کے بعد جامعہ میں بطور استاد مقرر ہیں )
ہم سے بعد پڑہنے والے ساتھیوں میں سے قاری اظہر ، عنایت اللہ ، عبد الماجد ، عبد الرحمن ، عبد المجید اور فرمان مشتاق وغیرہ اپنی ذہانت و فطانت میں مشہور ہیں ۔
اللہ تعالی ہمارے اس جامعہ کو اسلاف کے نہج پر چلائے اور عصر حاضر کے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی توفیق دے ۔ اللہ اس کے منتظمین اور مہتممین اوراساتذہ کو لمبی عمریں عطا کرے اور ان سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لے ۔