شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا شمار ان نابغہ روزگار ، پر اثر ومتاثرکن شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے راقم کو اہل حدیث ہونے کے بعد سب سے زیادہ متاثر کیا بلکہ علمائے اہل حدیث میں اپنے اصولوں کے لئے بے لچک رویے کی بدو لت وہ میرے لئے ایک آئیڈیل شخصیت کی حیثیت اختیار کرگئے۔اپنے اصولوں پر کوئی سودا نہ کرنے والے اور جسے حق سمجھا اس پر ملامتوں کی پرواہ کئے بغیر ڈٹ جانے والے ہی بجا طور پرا س لائق ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے اللہ کے لئے محبت کریں اور انکو اپنا آئیڈیل بنائیں۔اسکے برعکس وہ علماء جو مصلحتوں کی بدولت اپنے افکار تبدیل کرتے رہتے ہیں وہ بہت جلد عوام میں اپنی قدر اور عزت کھو دیتے ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی اپنی بے پناہ خوبیوں کی بدولت معاصرین علمائے اہل حدیث میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
میں نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ کر ، انکی تقریریں سن کر اور ان سے گفتگو کرکے اپنے ذہن میں انکی شخصیت کا جو خاکہ بنایا ہے اور اپنی محبوب شخصیت کے حوالے سے میرے ذہن میں جو خوبصورت یادیں موجود ہیں اس سے پہلے کہ ان یادوں کے حسین نقش ذہن کے پردہ سے محو ہوجائیں سوچا کہ انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے محفوظ کرلوں۔
بطور تنبیہ عرض ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے متعلق میرے جو بھی نظریات اور تصورات ہیں چونکہ وہ میرے ذاتی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں جو میں نے انکی تحاریراور تقاریر وغیر ہ سے اخذ کئے ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ میں انکے بار ے میں کوئی دعویٰ کروں اور وہ تصویر کا صرف ایک رخ ہواور میں اس دعویٰ میں غلطی پر ہوں۔اس لئے تمام احباب کا میری تحریر کے کل مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ میں نے حتی الواسع کوشش کی ہے کہ میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے متعلق جو بھی رائے قائم کروں اس رائے کی بنیاد اور مآخذ بطور حوالہ درج کردوں تاکہ میرے نقطہ نظر سے اختلاف کم سے کم ہو۔
اس تمہید کے بعد اب عرض ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے کیونکہ تقلیدی جکڑ بندیوں کی وجہ سے اسے جان بوجھ کر علم سے دور رکھا جاتا ہے اس لئے اپنے دور تقلید میں راقم الحروف بھی علم اور تحقیق سے ناواقف تھابس مفتی صاحب نے صحیح یا غلط جو بھی فرمادیا وہی دوسرے مقلدین کی طرح ہمارے لئے بھی کافی اور حجت ہوتا تھا۔اہل حدیث ہونے کے بعد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ کر معلوم ہوا کہ علم کیا ہے اور تحقیق کس چڑیا کا نام ہے۔بعد میں جب کثرت مطالعہ کی وجہ سے رد باطل پر مضامین لکھنے کے قابل ہوا اورباقاعدہ اس کام کا آغاز کیاتومحسوس اور غیرمحسوس طریقہ سے حافظ رحمہ اللہ کے اندازتحریر کو ہی نقل کیا۔ کیونکہ رد باطل پر تحریر کیسے لکھی جاتی ہے حوالہ کیسے دیا جاتا ہے ،اہل باطل پر حجت کیسے قائم کی جاتی ہے، سب کچھ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہی سیکھاتھا۔ اس لئے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو اپنا غائبانہ استاد تسلیم کرتا ہوں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے میری بے پناہ محبت اور والہانہ لگاؤکا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص علمائے اہل حدیث پر بالعموم اور زبیرعلی زئی پر بالخصوص تنقید یا اعتراض کرتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے اور فوراً دفاع کی فکر لاحق ہوجاتی ہے بلکہ اس وقت تک چین ہی نہیں آتا جب تک ان پر کئے گئے غلط اعتراض اور ناجائز تنقید کا حسب استطاعت جواب نہ دے دیا جائے۔اسکی وجہ مسلکی تعصب نہیں بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا جو اسے عیب دار کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردے گا۔(سنن ترمذی)
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو مسلک اہل حدیث وراثت میں ملتا ہے ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو دوسرے مسالک چھوڑ کر اہل حدیث مسلک سے اپنا رشتہ اور ناطہ جوڑتے ہیں بڑے زور و شور اور جوش جذبہ کے ساتھ اس مسلک کی اشاعت و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور انکی خدمات الگ ہی ان کی اس مسلک سے والہانہ محبت و الفت کی پتا دیتی ہیں۔ کیونکہ جو چیز از خود حاصل ہوجائے اس کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے جو شوق، محنت،جستجو اور مشقت سے حاصل کی گئی ہو۔یہی صورتحال حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے ساتھ بھی تھی کہ انہوں نے چونکہ حنفی مسلک کو خیرباد کہہ کر اہل حدیث مسلک اختیا ر کیا تھا اس لئے کم وقت میں جو عظیم خدمات اس مسلک حق ، مسلک اہل حدیث کے لئے سرانجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گی اور انکے اخروی درجات کی بلندی کا باعث ہونگی۔ ان شاء اللہ
ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اہل حدیث ہونے کا سبب بننے والے دلچسپ واقعہ کے متعلق رقم طراز ہیں: محترم شیخ صاحب شروع میں اپنے والد محترم کی وجہ سے حنفیوں سے متاثر تھے کیونکہ ان کے والد جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔شیخ محترم صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے چچا صاحب نے انہیں ایک مرتبہ صحیح بخاری عنایت کی اور کہا کہ بیٹا حدیث کی یہ کتاب صحیح ترین کتاب ہے آپ اس کا مطالعہ کریں لیکن اس پر عمل نہ کرنا۔شیخ صاحب فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا کہ جب بخاری شریف حدیث کی سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے تو پھر اس پر عمل سے کیوں روکا جارہا ہے؟ چناچہ میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا اور جہاں رفع الیدین کا ذکر آیا میں نے اپنے طو ر پر رفع الیدین کرنا شروع کردیا۔(ماہنامہ دعوت اہل حدیث،شمارہ نمبر 151، جنوری2014،صفحہ 38 )
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی یاد میں مذکورہ بالا اسی واقعہ کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ذوالفقار علی طاہر حفظہ اللہ اپنے مضمون’’وکیل مسلک اہل حدیث کی رحلت‘‘ میں لکھتے ہیں: آپ رحمہ اللہ ابتداء میں اہل حدیث نہیں تھے لیکن آپ کو مطالعہ کا شوق تھا ۔یہی شوق آپ کے قبول حق کا باعث بنا۔1972 تا 1974 کے دوران آپ نے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا وحی (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنا اثر دکھایا اورآپ رحمہ اللہ نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا اور بڑے جذبہ و ولولہ سے اس مسلک کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا۔ (ماہنامہ دعوت اہل حدیث)
خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے تبدیلی مسلک کی وجہ بننے والے واقعہ کی جانب یوں اشارہ کرتے ہیں: میں بذات خود پٹھانوں کے ایک غیر اہل حدیث خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، میں جب چھوٹا نابالغ بچہ تھاتو میرا ایک رشتہ دار ،جو ہمارے گاؤں میں دیوبندیوں کا سردار،سخت انتہاء پسند تبلیغی ہے،اس نے امام بخاری رحمہ اللہ کو ماں،بہن کی گالیاں دی تھیں۔صحیح بخاری کی محبت نے مجھے کھینچ لیا اور میں نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔(دیکھئے :ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 23،صفحہ 40)
دوران مضمون اپنے ہدایت پانے کے بارے میں حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ایک اور مقام پر سپرد قلم کیا : میں کوئی پیدائشی اہل حدیث نہیں ہوں بلکہ میرا تعلق پٹھانوں کے اس خاندان سے ہے جو اپنے آپ کو حنفی سمجھتے ہیں اور تقلید پر گامزن ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور تقلید کے اندھیروں سے نکال کر کتاب و سنت کی روشن شاہراہ پر چلا دیا۔والحمدللہ۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3،صفحہ528)
اہل حدیثوں میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حدیث کے خلاف جاہلانہ اعتراضات و پروپیگنڈہ کو نظر انداز کرکے باطل کو اپنی موت آپ مرنے دینا چاہیے اور اپنے قیمتی وقت کو ایسی غیرصحت مندانہ سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔بعض الناس کا یہ خیال اس وجہ سے غلط ہے کہ جہالت کو نظر انداز کرنے سے جہالت گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔ علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے بھی بریلویت سے متعلق یہی غلطی کی تھی کہ اسے جہالت سمجھ کر نظرانداز کردیا تھا اور سمجھا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے علم بڑھے گا بریلویت اپنی موت آپ مرجائے گی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بریلویت گھٹنے کے بجائے کسی عفریت کی طرح بڑھ گئی۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں بریلویت کے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا،بریلویت چونکہ جہالت کی پیداوار ہے،اس لیے جوں جوں جہالت کا دور ختم ہوتا چلا جائے گا، توں توں بریلویت کے افکاربھی ختم ہوجائیں گے۔مگر جب میں نے دیکھا کہ بریلوی حضرات بدعات اور شرکیہ امور کی نشرواشاعت میں متحد ہوکرجدوجہد میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے حال ہی میں ’’حجاز کانفرس‘‘ کے نام سے بہت سے اجتماعات بھی منعقد کرناشروع کردیے ہیں،جن میں وہ کتاب و سنت کے متبعین کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں ’’گستاخانہ رسالت‘‘اور دوسرے القاب سے نواز رہے ہیں ، تو مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اور جدید طبقہ کو یہ بارور کروانے کے لئے کہ اسلام توہم پرستی اور دوسرے جاہلانہ افکار سے بری ہے،اور کتاب و سنت کی تعلیمات عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں۔عوام کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے میں نے ضروری سمجھا کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کی جائے جو ’’بریلویت‘‘ اور ’’اسلامی تعلیمات‘‘ کے درمیان فرق کو واضح کرے، تاکہ شریعت اسلامیہ کو ان عقائد سے پاک کیا جاسکے جو اسلام کے نام پر اس میں داخل ہوگئے ہیں۔(بریلویت،تاریخ وعقائد، صفحہ 24,23)
الحمدللہ! حافظ زبیرعلی زئی رحمہ ایک ذہین اور زیرک انسان تھے انھوں نے علامہ احسان والی غلطی نہیں دہرائی اور دین کے نام پر پھیلائی گئی جہالت کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بروقت باطل کی صحیح رگ پر ہاتھ رکھا اور دیوبندی مذہب میں بہت بڑا مقام رکھنے والے مغالطہ باز امین اوکاڑی کی تلبیسات اور مکروفریب کاپردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ اس سے پہلے امین اوکاڑوی کی انتہائی جاہلانہ باتوں اورغیرعلمی اعتراضات کا علمائے اہل حدیث کی جانب سے ناقابل التفات قرار دے کرکوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔
امین اوکاڑوی باقاعدہ عالم نہیں تھا بلکہ جاہل تھا لیکن اس جاہل کو دیوبندیت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہو ا وہ کسی باقاعدہ اور مستند دیوبندی عالم کے حصہ میں بھی نہیں آیا۔دیوبندیت میں یہ حیران کن مقام پانے کا سبب امین اوکاڑوی کا اہل حدیث سے شدید بغض تھا۔اور اسی بغض اور نفرت کے نتیجہ میں امین اوکاڑوی نے اہل حدیث کے خلاف تحریروں کی صورت میں جہالت کے جو انبار لگائے دیوبندی آج بھی اس جہالت کے ڈھیر پر نازاں ہیں اور اس سے استفادہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔چونکہ علمائے اہل حدیث کی جانب سے امین اوکاڑوی کے افکار و نظریات اور اعتراضات کو جہالت کی پیداوار سمجھ کر مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا تھااور اس کا سبب بھی واضح ہے کہ اسلام میں اہل علم اور علماء کی عزت اور مقام بہت بلند ہے جس کے پیش نظر خود اللہ رب العالمین نے اہل علم کوجاہلوں کے منہ لگنے سے روک دیا ہے اور انکو دور ہی سے سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔چناچہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’ وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا‘‘ اورجاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام(سورۃ الفرقان:63)
امین اوکاڑوی کے ملفوظات کے ساتھ علمائے اہل حدیث کا یہ امتیازی سلوک ایک لحاظ سے اس لئے بھی درست تھا کہ امین اوکاڑی کے پھیلائے ہوئے مضحکہ خیز اور جہالت میں ڈوبے ہوئے مغالطات و اعتراضات اتنے گھٹیا تھے کہ ان کا جواب دینا عالمانہ شان کے خلاف سمجھا گیاجس کی بنا پر دیوبندی امین اوکاڑوی کے ناقابل شکست ہونے کی شدید غلط فہمی میں گرفتار ہوگئے۔دیوبندی فرقے کی جانب سے دیوبندیت کو ترک کرکے جماعت اہل حدیث میں نئے نئے داخل ہونے والوں کو امین اوکاڑی کے جاہلانہ مغالطات، تحریفات، کذبات اور فریب کاریوں کے ذریعہ گمراہ کرنے کے سبب اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ امین اوکاڑوی کی جہالت کوپوری طرح بے نقاب کیا جائے ۔ اگرچہ امین اوکاڑوی کی تحریروں اور بھونڈے اعتراضات کی علمی سطح پر ٹکے کی بھی حیثیت نہیں تھی لیکن یہی جاہلانہ مغالطات سادہ لوح عوام کی گمراہی کا سبب بن رہے تھے کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو مسلک اہل حدیث کی جانب مائل ہوئے لیکن امین اوکاڑوی کی کتابیں اور تحریریں پڑھنے کے بعد واپس اپنے مسلک کی طرف لوٹ گئے۔اس لئے وقت کا اہم ترین تقاضا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے تاکہ متلاشیان حق کے سامنے اوکاڑوی اعتراضات، مغالطات کی دیوار باقی نہ رہے اور وہ بغیر کسی روکاوٹ کے حق تک رسائی پا سکیں۔
الحمدللہ ! حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس ضرورت اور تقاضہ کو محسوس کیااور علمائے اہل حدیث کی جواب نہ دینے کی پالیسی اور حکمت عملی کے خلاف انہوں نے باقاعدہ اس شاطرکے اہل حدیث کے خلاف پھیلائے گئے مغالطات اور زہر آلودپروپیگنڈہ کا جواب دیا اور اس اور اس جیسے باطل پرستوں کے تعاقب کا باقاعدہ آغاز کیا۔اوراس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں اوراہل حدیث کے متعلق ’’ان چھوئی‘‘ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والوں جیسے زبیرصادق آبادی حفظہ اللہ کے لئے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کاعظیم پلیٹ فارم مہیاکیاتاکہ یہ انتہائی اہم اور عظیم کام سر انجام پاسکے اورانکے بعد بھی انکی فکر کو آگے بڑھاتا رہے ۔اللہ کے فضل و کرم سے ’’الحدیث‘‘ کے پلیٹ فارم سے مسلسل باطل افکار و نظریات کی بیخ کنی کا کام جاری و ساری ہے۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ اپنے مجلے کے ذریعے احادیث اور راویوں کی تحقیق کا علمی کام دلچسپ اور دلنشین انداز میں عام عوام کے لئے متعارف کروایا۔ورنہ اس سے پہلے تو جو کتب عوام کے لئے چھاپی جاتیں تھیں ان میں راویوں کے متعلق کلام اور احادیث کی تحقیق کے کام کو عوام کے لئے کارآمد نہ جان کر حذف کردیا جاتا تھا۔حافظ موصوف کا یہ علمی اندازعوام و خواص میں اس قدر مقبول ہوا کہ دیوبندی اور بریلوی بھی علم حدیث سے کوئی نسبت نہ رکھنے کے باوجود یہ انداز اپنانے پر مجبور ہوگئے۔لیکن ان میں اور زبیرعلی زئی رحمہ اللہ میں بنیادی اور جوہری فرق یہ رہا کہ حافظ صاحب خدمت حدیث اور احقاق حق میں یہ انداز اپناتے تھے اور بریلوی اور دیوبندی خود کو اپنے مذہب کے خلاف آنے والی صحیح احادیث کے رد و جواب کے لئے یہ علمی اندازاختیار کرنے پر مجبور پاتے تھے۔ جب حافظ رحمہ اللہ کی کاوشوں کی بدولت عام عوام تحقیقی اور علمی کام کے ذائقہ سے متعارف ہونے لگی تو انہیں تقلیدیوں کے پرانے اور گھسے پٹے تقلید ی حربوں سے بہلانہ ممکن نہ رہا کیونکہ جب کسی انسان کو تحقیق کا ذائقہ لگ جائے تو اسے تقلید میں مزہ نہیں آتا اس لئے مجبوراً آل تقلید کو بھی اپنا انداز فریب بدلنا پڑا۔چناچہ اس کا سہرابھی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے سر جاتا ہے کہ انکی بدولت پہلی مرتبہ اہل حدیث اور آل تقلید کی عوامی سطح پر تحقیق حدیث کا شور سنا گیا۔
حافظ صاحب کے تحقیقی اور علمی کام سے عوام کی اصلاح ہونے کا احساس خود حافظ صاحب رحمہ اللہ کو بھی تھا چناچہ جب ایک رضاخانی فیصل خان بریلوی نے اعتراض کیا کہ ’’زبیرعلیزئی کی یہ عادت ہے کہ کسی بحث پر اتنے غیرمتعلقہ حوالے پیش کرتے ہیں کہ عوام الناس اس سے مرغوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ تو اس اعتراض کے جواب میں زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: یہ جھوٹا الزام ہے،تاہم اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ میرے تحقیقی مضامین اور کتابوں سے عوام الناس کی اصلاح ہورہی ہے۔والحمدللہ۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 207)
Last edited: