• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں


حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا شمار ان نابغہ روزگار ، پر اثر ومتاثرکن شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے راقم کو اہل حدیث ہونے کے بعد سب سے زیادہ متاثر کیا بلکہ علمائے اہل حدیث میں اپنے اصولوں کے لئے بے لچک رویے کی بدو لت وہ میرے لئے ایک آئیڈیل شخصیت کی حیثیت اختیار کرگئے۔اپنے اصولوں پر کوئی سودا نہ کرنے والے اور جسے حق سمجھا اس پر ملامتوں کی پرواہ کئے بغیر ڈٹ جانے والے ہی بجا طور پرا س لائق ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے اللہ کے لئے محبت کریں اور انکو اپنا آئیڈیل بنائیں۔اسکے برعکس وہ علماء جو مصلحتوں کی بدولت اپنے افکار تبدیل کرتے رہتے ہیں وہ بہت جلد عوام میں اپنی قدر اور عزت کھو دیتے ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی اپنی بے پناہ خوبیوں کی بدولت معاصرین علمائے اہل حدیث میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔

میں نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ کر ، انکی تقریریں سن کر اور ان سے گفتگو کرکے اپنے ذہن میں انکی شخصیت کا جو خاکہ بنایا ہے اور اپنی محبوب شخصیت کے حوالے سے میرے ذہن میں جو خوبصورت یادیں موجود ہیں اس سے پہلے کہ ان یادوں کے حسین نقش ذہن کے پردہ سے محو ہوجائیں سوچا کہ انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے محفوظ کرلوں۔

بطور تنبیہ عرض ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے متعلق میرے جو بھی نظریات اور تصورات ہیں چونکہ وہ میرے ذاتی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں جو میں نے انکی تحاریراور تقاریر وغیر ہ سے اخذ کئے ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ میں انکے بار ے میں کوئی دعویٰ کروں اور وہ تصویر کا صرف ایک رخ ہواور میں اس دعویٰ میں غلطی پر ہوں۔اس لئے تمام احباب کا میری تحریر کے کل مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ میں نے حتی الواسع کوشش کی ہے کہ میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے متعلق جو بھی رائے قائم کروں اس رائے کی بنیاد اور مآخذ بطور حوالہ درج کردوں تاکہ میرے نقطہ نظر سے اختلاف کم سے کم ہو۔

اس تمہید کے بعد اب عرض ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے کیونکہ تقلیدی جکڑ بندیوں کی وجہ سے اسے جان بوجھ کر علم سے دور رکھا جاتا ہے اس لئے اپنے دور تقلید میں راقم الحروف بھی علم اور تحقیق سے ناواقف تھابس مفتی صاحب نے صحیح یا غلط جو بھی فرمادیا وہی دوسرے مقلدین کی طرح ہمارے لئے بھی کافی اور حجت ہوتا تھا۔اہل حدیث ہونے کے بعد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ کر معلوم ہوا کہ علم کیا ہے اور تحقیق کس چڑیا کا نام ہے۔بعد میں جب کثرت مطالعہ کی وجہ سے رد باطل پر مضامین لکھنے کے قابل ہوا اورباقاعدہ اس کام کا آغاز کیاتومحسوس اور غیرمحسوس طریقہ سے حافظ رحمہ اللہ کے اندازتحریر کو ہی نقل کیا۔ کیونکہ رد باطل پر تحریر کیسے لکھی جاتی ہے حوالہ کیسے دیا جاتا ہے ،اہل باطل پر حجت کیسے قائم کی جاتی ہے، سب کچھ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہی سیکھاتھا۔ اس لئے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو اپنا غائبانہ استاد تسلیم کرتا ہوں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے میری بے پناہ محبت اور والہانہ لگاؤکا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص علمائے اہل حدیث پر بالعموم اور زبیرعلی زئی پر بالخصوص تنقید یا اعتراض کرتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے اور فوراً دفاع کی فکر لاحق ہوجاتی ہے بلکہ اس وقت تک چین ہی نہیں آتا جب تک ان پر کئے گئے غلط اعتراض اور ناجائز تنقید کا حسب استطاعت جواب نہ دے دیا جائے۔اسکی وجہ مسلکی تعصب نہیں بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا جو اسے عیب دار کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردے گا۔(سنن ترمذی)

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو مسلک اہل حدیث وراثت میں ملتا ہے ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو دوسرے مسالک چھوڑ کر اہل حدیث مسلک سے اپنا رشتہ اور ناطہ جوڑتے ہیں بڑے زور و شور اور جوش جذبہ کے ساتھ اس مسلک کی اشاعت و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور انکی خدمات الگ ہی ان کی اس مسلک سے والہانہ محبت و الفت کی پتا دیتی ہیں۔ کیونکہ جو چیز از خود حاصل ہوجائے اس کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے جو شوق، محنت،جستجو اور مشقت سے حاصل کی گئی ہو۔یہی صورتحال حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے ساتھ بھی تھی کہ انہوں نے چونکہ حنفی مسلک کو خیرباد کہہ کر اہل حدیث مسلک اختیا ر کیا تھا اس لئے کم وقت میں جو عظیم خدمات اس مسلک حق ، مسلک اہل حدیث کے لئے سرانجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گی اور انکے اخروی درجات کی بلندی کا باعث ہونگی۔ ان شاء اللہ

ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اہل حدیث ہونے کا سبب بننے والے دلچسپ واقعہ کے متعلق رقم طراز ہیں: محترم شیخ صاحب شروع میں اپنے والد محترم کی وجہ سے حنفیوں سے متاثر تھے کیونکہ ان کے والد جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔شیخ محترم صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے چچا صاحب نے انہیں ایک مرتبہ صحیح بخاری عنایت کی اور کہا کہ بیٹا حدیث کی یہ کتاب صحیح ترین کتاب ہے آپ اس کا مطالعہ کریں لیکن اس پر عمل نہ کرنا۔شیخ صاحب فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا کہ جب بخاری شریف حدیث کی سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے تو پھر اس پر عمل سے کیوں روکا جارہا ہے؟ چناچہ میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا اور جہاں رفع الیدین کا ذکر آیا میں نے اپنے طو ر پر رفع الیدین کرنا شروع کردیا۔(ماہنامہ دعوت اہل حدیث،شمارہ نمبر 151، جنوری2014،صفحہ 38 )

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی یاد میں مذکورہ بالا اسی واقعہ کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ذوالفقار علی طاہر حفظہ اللہ اپنے مضمون’’وکیل مسلک اہل حدیث کی رحلت‘‘ میں لکھتے ہیں: آپ رحمہ اللہ ابتداء میں اہل حدیث نہیں تھے لیکن آپ کو مطالعہ کا شوق تھا ۔یہی شوق آپ کے قبول حق کا باعث بنا۔1972 تا 1974 کے دوران آپ نے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا وحی (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنا اثر دکھایا اورآپ رحمہ اللہ نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا اور بڑے جذبہ و ولولہ سے اس مسلک کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا۔ (ماہنامہ دعوت اہل حدیث)

خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے تبدیلی مسلک کی وجہ بننے والے واقعہ کی جانب یوں اشارہ کرتے ہیں: میں بذات خود پٹھانوں کے ایک غیر اہل حدیث خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، میں جب چھوٹا نابالغ بچہ تھاتو میرا ایک رشتہ دار ،جو ہمارے گاؤں میں دیوبندیوں کا سردار،سخت انتہاء پسند تبلیغی ہے،اس نے امام بخاری رحمہ اللہ کو ماں،بہن کی گالیاں دی تھیں۔صحیح بخاری کی محبت نے مجھے کھینچ لیا اور میں نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔(دیکھئے :ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 23،صفحہ 40)

دوران مضمون اپنے ہدایت پانے کے بارے میں حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ایک اور مقام پر سپرد قلم کیا : میں کوئی پیدائشی اہل حدیث نہیں ہوں بلکہ میرا تعلق پٹھانوں کے اس خاندان سے ہے جو اپنے آپ کو حنفی سمجھتے ہیں اور تقلید پر گامزن ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور تقلید کے اندھیروں سے نکال کر کتاب و سنت کی روشن شاہراہ پر چلا دیا۔والحمدللہ۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3،صفحہ528)

اہل حدیثوں میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حدیث کے خلاف جاہلانہ اعتراضات و پروپیگنڈہ کو نظر انداز کرکے باطل کو اپنی موت آپ مرنے دینا چاہیے اور اپنے قیمتی وقت کو ایسی غیرصحت مندانہ سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔بعض الناس کا یہ خیال اس وجہ سے غلط ہے کہ جہالت کو نظر انداز کرنے سے جہالت گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔ علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے بھی بریلویت سے متعلق یہی غلطی کی تھی کہ اسے جہالت سمجھ کر نظرانداز کردیا تھا اور سمجھا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے علم بڑھے گا بریلویت اپنی موت آپ مرجائے گی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بریلویت گھٹنے کے بجائے کسی عفریت کی طرح بڑھ گئی۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں بریلویت کے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا،بریلویت چونکہ جہالت کی پیداوار ہے،اس لیے جوں جوں جہالت کا دور ختم ہوتا چلا جائے گا، توں توں بریلویت کے افکاربھی ختم ہوجائیں گے۔مگر جب میں نے دیکھا کہ بریلوی حضرات بدعات اور شرکیہ امور کی نشرواشاعت میں متحد ہوکرجدوجہد میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے حال ہی میں ’’حجاز کانفرس‘‘ کے نام سے بہت سے اجتماعات بھی منعقد کرناشروع کردیے ہیں،جن میں وہ کتاب و سنت کے متبعین کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں ’’گستاخانہ رسالت‘‘اور دوسرے القاب سے نواز رہے ہیں ، تو مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اور جدید طبقہ کو یہ بارور کروانے کے لئے کہ اسلام توہم پرستی اور دوسرے جاہلانہ افکار سے بری ہے،اور کتاب و سنت کی تعلیمات عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں۔عوام کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے میں نے ضروری سمجھا کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کی جائے جو ’’بریلویت‘‘ اور ’’اسلامی تعلیمات‘‘ کے درمیان فرق کو واضح کرے، تاکہ شریعت اسلامیہ کو ان عقائد سے پاک کیا جاسکے جو اسلام کے نام پر اس میں داخل ہوگئے ہیں۔(بریلویت،تاریخ وعقائد، صفحہ 24,23)

الحمدللہ! حافظ زبیرعلی زئی رحمہ ایک ذہین اور زیرک انسان تھے انھوں نے علامہ احسان والی غلطی نہیں دہرائی اور دین کے نام پر پھیلائی گئی جہالت کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بروقت باطل کی صحیح رگ پر ہاتھ رکھا اور دیوبندی مذہب میں بہت بڑا مقام رکھنے والے مغالطہ باز امین اوکاڑی کی تلبیسات اور مکروفریب کاپردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ اس سے پہلے امین اوکاڑوی کی انتہائی جاہلانہ باتوں اورغیرعلمی اعتراضات کا علمائے اہل حدیث کی جانب سے ناقابل التفات قرار دے کرکوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔

امین اوکاڑوی باقاعدہ عالم نہیں تھا بلکہ جاہل تھا لیکن اس جاہل کو دیوبندیت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہو ا وہ کسی باقاعدہ اور مستند دیوبندی عالم کے حصہ میں بھی نہیں آیا۔دیوبندیت میں یہ حیران کن مقام پانے کا سبب امین اوکاڑوی کا اہل حدیث سے شدید بغض تھا۔اور اسی بغض اور نفرت کے نتیجہ میں امین اوکاڑوی نے اہل حدیث کے خلاف تحریروں کی صورت میں جہالت کے جو انبار لگائے دیوبندی آج بھی اس جہالت کے ڈھیر پر نازاں ہیں اور اس سے استفادہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔چونکہ علمائے اہل حدیث کی جانب سے امین اوکاڑوی کے افکار و نظریات اور اعتراضات کو جہالت کی پیداوار سمجھ کر مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا تھااور اس کا سبب بھی واضح ہے کہ اسلام میں اہل علم اور علماء کی عزت اور مقام بہت بلند ہے جس کے پیش نظر خود اللہ رب العالمین نے اہل علم کوجاہلوں کے منہ لگنے سے روک دیا ہے اور انکو دور ہی سے سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔چناچہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’ وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا‘‘ اورجاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام(سورۃ الفرقان:63)

امین اوکاڑوی کے ملفوظات کے ساتھ علمائے اہل حدیث کا یہ امتیازی سلوک ایک لحاظ سے اس لئے بھی درست تھا کہ امین اوکاڑی کے پھیلائے ہوئے مضحکہ خیز اور جہالت میں ڈوبے ہوئے مغالطات و اعتراضات اتنے گھٹیا تھے کہ ان کا جواب دینا عالمانہ شان کے خلاف سمجھا گیاجس کی بنا پر دیوبندی امین اوکاڑوی کے ناقابل شکست ہونے کی شدید غلط فہمی میں گرفتار ہوگئے۔دیوبندی فرقے کی جانب سے دیوبندیت کو ترک کرکے جماعت اہل حدیث میں نئے نئے داخل ہونے والوں کو امین اوکاڑی کے جاہلانہ مغالطات، تحریفات، کذبات اور فریب کاریوں کے ذریعہ گمراہ کرنے کے سبب اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ امین اوکاڑوی کی جہالت کوپوری طرح بے نقاب کیا جائے ۔ اگرچہ امین اوکاڑوی کی تحریروں اور بھونڈے اعتراضات کی علمی سطح پر ٹکے کی بھی حیثیت نہیں تھی لیکن یہی جاہلانہ مغالطات سادہ لوح عوام کی گمراہی کا سبب بن رہے تھے کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو مسلک اہل حدیث کی جانب مائل ہوئے لیکن امین اوکاڑوی کی کتابیں اور تحریریں پڑھنے کے بعد واپس اپنے مسلک کی طرف لوٹ گئے۔اس لئے وقت کا اہم ترین تقاضا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے تاکہ متلاشیان حق کے سامنے اوکاڑوی اعتراضات، مغالطات کی دیوار باقی نہ رہے اور وہ بغیر کسی روکاوٹ کے حق تک رسائی پا سکیں۔
الحمدللہ ! حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس ضرورت اور تقاضہ کو محسوس کیااور علمائے اہل حدیث کی جواب نہ دینے کی پالیسی اور حکمت عملی کے خلاف انہوں نے باقاعدہ اس شاطرکے اہل حدیث کے خلاف پھیلائے گئے مغالطات اور زہر آلودپروپیگنڈہ کا جواب دیا اور اس اور اس جیسے باطل پرستوں کے تعاقب کا باقاعدہ آغاز کیا۔اوراس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں اوراہل حدیث کے متعلق ’’ان چھوئی‘‘ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والوں جیسے زبیرصادق آبادی حفظہ اللہ کے لئے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کاعظیم پلیٹ فارم مہیاکیاتاکہ یہ انتہائی اہم اور عظیم کام سر انجام پاسکے اورانکے بعد بھی انکی فکر کو آگے بڑھاتا رہے ۔اللہ کے فضل و کرم سے ’’الحدیث‘‘ کے پلیٹ فارم سے مسلسل باطل افکار و نظریات کی بیخ کنی کا کام جاری و ساری ہے۔

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ اپنے مجلے کے ذریعے احادیث اور راویوں کی تحقیق کا علمی کام دلچسپ اور دلنشین انداز میں عام عوام کے لئے متعارف کروایا۔ورنہ اس سے پہلے تو جو کتب عوام کے لئے چھاپی جاتیں تھیں ان میں راویوں کے متعلق کلام اور احادیث کی تحقیق کے کام کو عوام کے لئے کارآمد نہ جان کر حذف کردیا جاتا تھا۔حافظ موصوف کا یہ علمی اندازعوام و خواص میں اس قدر مقبول ہوا کہ دیوبندی اور بریلوی بھی علم حدیث سے کوئی نسبت نہ رکھنے کے باوجود یہ انداز اپنانے پر مجبور ہوگئے۔لیکن ان میں اور زبیرعلی زئی رحمہ اللہ میں بنیادی اور جوہری فرق یہ رہا کہ حافظ صاحب خدمت حدیث اور احقاق حق میں یہ انداز اپناتے تھے اور بریلوی اور دیوبندی خود کو اپنے مذہب کے خلاف آنے والی صحیح احادیث کے رد و جواب کے لئے یہ علمی اندازاختیار کرنے پر مجبور پاتے تھے۔ جب حافظ رحمہ اللہ کی کاوشوں کی بدولت عام عوام تحقیقی اور علمی کام کے ذائقہ سے متعارف ہونے لگی تو انہیں تقلیدیوں کے پرانے اور گھسے پٹے تقلید ی حربوں سے بہلانہ ممکن نہ رہا کیونکہ جب کسی انسان کو تحقیق کا ذائقہ لگ جائے تو اسے تقلید میں مزہ نہیں آتا اس لئے مجبوراً آل تقلید کو بھی اپنا انداز فریب بدلنا پڑا۔چناچہ اس کا سہرابھی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے سر جاتا ہے کہ انکی بدولت پہلی مرتبہ اہل حدیث اور آل تقلید کی عوامی سطح پر تحقیق حدیث کا شور سنا گیا۔

حافظ صاحب کے تحقیقی اور علمی کام سے عوام کی اصلاح ہونے کا احساس خود حافظ صاحب رحمہ اللہ کو بھی تھا چناچہ جب ایک رضاخانی فیصل خان بریلوی نے اعتراض کیا کہ ’’زبیرعلیزئی کی یہ عادت ہے کہ کسی بحث پر اتنے غیرمتعلقہ حوالے پیش کرتے ہیں کہ عوام الناس اس سے مرغوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ تو اس اعتراض کے جواب میں زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: یہ جھوٹا الزام ہے،تاہم اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ میرے تحقیقی مضامین اور کتابوں سے عوام الناس کی اصلاح ہورہی ہے۔والحمدللہ۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 207)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دوسرو ں کے برعکس صرف اپنی تحقیق پر اعتماد کیا اور مسلک اہل حدیث کے ازسرنو مطالعہ و تحقیق کے بعد اہل حدیث کے بہت سے مسلمات کا انکار کیا اور ان پر اعتراض اٹھایا۔جس کی وجہ سے دیگر علمائے اہل حدیث کی جانب سے جہاں کچھ امور پر ان کی مخالفت کی گئی وہیں انکے تحقیقی کام پر انکی بھرپور ستائش بھی کی گئی۔ مثلاً

1۔ چار دن کی قربانی کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جو فی زمانہ اہل حدیث کا شعار اور پہچان بن چکا ہے لیکن حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس مسلمہ مسئلہ کا انکار کرتے ہوئے تین دن کی قربانی کو راجح قرار دیا۔اس سلسلہ میں حافظ صاحب کے اخلاص کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ موصوف اہل حدیثوں میں انتشار کو ناپسند فرماتے تھے لیکن تحقیق کے بعد جو مسئلہ حق ثابت ہوا اس سے پیچھے ہٹنا بھی گوارا نہ تھا۔ اس کے لئے انہوں نے ایک انتہائی مناسب اور پسندیدہ طریقہ اختیار فرمایا۔اور مضمون لکھ کرمستند علمائے اہل حدیث کی خدمت میں ارسال کردیا۔جب کئی ماہ تک کسی بھی اہل حدیث عالم کی جانب سے کوئی جواب یا اعتراض موصول نہیں ہوا تو پھر انہوں نے باقاعدہ اس مسئلہ کوسپرد رسالہ کردیا۔چناچہ خود اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خرم صاحب نے مجھے ایک مفصل خط لکھ کر قربانی کے دنوں کی تحقیق کا مطالبہ کیا تھا لہٰذا میں نے اس خط کے جواب میں ایک تحقیقی مضمون لکھا جسے بعد میں کئی علمائے اہل حدیث (حفظہم اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں بھیج دیا ۔ جب کئی مہینوں تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو ۲ مئی ۲۰۰۷والے مضمون ’’قربانی کے تین دن ہیں‘‘کو خرم صاحب کے مسلسل مطالبہ اشاعت کے بعد ماہنامہ الحدیث حضرو عدد۴۴جنوری ۲۰۰۸ میں شائع کردیا۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات ،جلد سوم، صفحہ 261)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا تحقیقی میدان میں یہ طرز عمل انکے خلوص، احتیاط اور امانت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شیخ اگر چاہتے تو دوسرے لوگوں کی طرح کسی سے مشورہ کئے بغیر بھی اپنا مضمون منظر عام پر لا سکتے تھے جس سے ایک انتشار کی کیفیت پیدا ہوجاتی لیکن شیخ نے چاہا کہ معتبر علمائے اہل حدیث کی اس مسئلہ پر رائے لے لی جائے تاکہ اگر اس مسئلہ پرکسی کے پاس کوئی معقول اعتراض ہوتو اس کی روشنی میں پہلے ہی اپنے موقف کی اصلاح کرلی جائے ۔یہ بہت بڑی خوبی تھی جو زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میں پائی جاتی تھی۔ ایسے علماء جو اپنی اصلاح کی اس قدر فکر میں رہتے ہوں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

اکثر لوگو ں کا حال یہ ہے کہ اختلاف کرتے وقت مخالف کا احترام ہی بھول جاتے ہیں اور اگر مسئلہ میں گنجائش کا کوئی پہلو بھی نکلتا ہو تو اسے یکسر نظرانداز کرکے اپنے موقف کو بالکل صحیح اور مخالف کے موقف کو بالکل غلط قرار دے دیتے ہیں۔الا ماشاء اللہ
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بہت انصاف پسند انسان تھے ۔انکی دیانتداری کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے چار دن کی قربانی کے موقف سے اختلاف کیا لیکن مخالفین کے موقف کو یکسر غلط اور باطل قرار نہیں دیا بلکہ انہیں اجتہادی غلطی کا مرتکب قرار دے کر انکے خلوص اور دین داری کا اعتراف کیا چناچہ ایک دیوبندی کے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں: مذکورہ علماء نے روایات و آثار کو مد نظر رکھتے ہوئے جو موقف اختیار کیا ہے وہ ہمارے نزدیک مرجوع ہے اور یہ ان کی اجتہادی خطا ہے۔دوسرے انہوں نے روایت مذکورہ کو صحیح سمجھ کر اس سے استدلال کیا ہے اور اسے کسی صحیح صریح دلیل کے خلاف پیش نہیں کیا او ر نہ ہی دوغلی پالیسی کا ارتکاب کیا ہے۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات، جلد6،صفحہ 455)

2۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا شمار اہل حدیث کی مسلمہ اور مستند شخصیات میں ہوتا ہے لیکن حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے نواب صاحب کے بیٹے سید محمد علی حسن خان کی اپنے والد کی بابت گواہی پر اعتماد کرکے نواب صاحب کے اہل حدیث ہونے کا انکار کیا اور انہیں تقلید نہ کرنے والا حنفی کہا۔قابل غور بات یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے محمد علی حسن خان کی جس کتاب یعنی ماثر صدیقی (موسوم بہ سیرت والا جاہی) میں درج بیان پر بھروسہ کیا ہے۔یہ کتاب ہی سرے سے غیر معتبر اور مشکوک ہے کیوں کہ اس کتاب کو کوئی اہل حدیث مکتبہ شائع نہیں کرتا بلکہ اس کتاب کی اشاعت کا بیڑہ دیوبندیوں نے ہی عرصہ درازسے اٹھا رکھا ہے۔ جو دال میں کچھ کالا ہونے کا بین ثبوت ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریروں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ نواب صدیق حسن خان کو اہل حدیث تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں غیرمقلد حنفی کہتے تھے۔ اس پر ان کی متعدد تحریریں اور ایک ویڈیو بیان بھی گواہ ہے۔مثلاً حافظ صاحب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : نواب صدیق حسن خان صاحب (تقلید نہ کرنے والے)حنفی تھے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر42،صفحہ 13)
اور اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں صدیق حسن خان کے نام کے ساتھ دعائیہ کلمات جیسے رحمہ اللہ وغیرہ کبھی استعمال نہیں کئے تھے اور نہ ہی حافظ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں صدیق حسن خان سے متعلق اپنے اس مشہور موقف سے رجوع کیا تھا۔لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی وفات کے بعدرسالے ماہنامہ الحدیث میں صدیق حسن خان کے بارے میں شائع ہونے والے حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ میں صدیق حسن خان کے نام کے ساتھ بار بار رحمتہ اللہ علیہ اور رحمہ اللہ کے دعائیہ کلمات استعمال کئے گئے ہیں۔(دیکھئے: ماہنامہ اشاعۃالحدیث، شمارہ نمبر115، صفحہ 17، علامہ نواب صدیق حسن خان کے بارے میں ایک جھوٹا قصہ)

یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالے کے مدیر اور حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید حافظ ندیم ظہیر نے اپنے استاد کی تحریر میں ان کی وفات کے بعد یہ تصرف کیا ہے اور صدیق حسن خان کے نام کے ساتھ دعائیہ کلمات کا اضافہ کردیا ہے۔اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس مسئلہ میں اپنے استاد کے مخالف ہوں اور انکی تحقیق حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق سے مختلف ہو۔واللہ اعلم

اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے راقم الحروف نے حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی زندگی میں انہوں (ندیم ظہیر)نے صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی بعض تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ انکے استاد یعنی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا موقف غلط فہمی پر مبنی ہے لہٰذا انہوں نے حافظ زبیرعلی زئی کو مشورہ دیا کہ صدیق حسن خان کے بیٹے کی گواہی پر اعتماد نہ کریں کیونکہ وہ مشکوک ہے اور براہ راست صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی تصنیفات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں۔چناچہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے صدیق حسن خان کی خود نوشت کا بعض مقامات سے سرسری سا مطالعہ کرنے کے بعد مذکورہ بالا فتویٰ میں جو انکی وفات کے بعد شائع ہوا صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے اور خود ہی انکے نام کے ساتھ رحمہ اللہ کے دعائیہ کلمات استعمال کئے ہیں۔

حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی اس گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ صدیق حسن خان کی بعض کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرلیتے تو یقیناًصدیق حسن خان کے بارے میں اپنے اس مشہور موقف سے اعلانیہ رجوع کرلیتے لیکن زندگی نے باقاعدہ رجوع کی مہلت نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کوئی وصیت وغیرہ کی۔

3۔ شاہ ولی اللہ علمائے اہل حدیث کے درمیان مسلکی اعتبار سے متنازعہ رہے ہیں کچھ علماء انہیں اہل حدیث قرار دیتے ہیں اور کچھ علماء انکی علمی خدمات کے اعتراف کے باوجود انہیں حنفی کہتے ہیں لیکن اسکے باوجود کسی اہل حدیث نے کبھی ان سے کھل کر اظہار براء ت نہیں کیا۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ شاہ ولی اللہ سے کھل کر بے زاری اور براء ت کا اظہار کیااور انہیں تقلید کرنے والے بدعتیوں کی صف میں کھڑا کیا۔تقلید بدعت ہے اور مقلدین بدعتی ،اس لئے بدعتی کی تعظیم سے بچنا چاہیے کیونکہ حدیث کے مطابق بدعتی کی عزت اوراس سے محبت دین اسلام کوہی ڈھا دینے کا سبب ہے۔اس لئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بدعتیوں کی عزت اور توقیر نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے: اہل بدعت کی کوئی عزت و توقیر نہیں ہے بلکہ ان سے براء ت ایمان کا مسئلہ ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلد دوم،صفحہ 112)

بدعتی کے بارے میں ان دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک مقام پر شاہ ولی اللہ کا توہین آمیز اور طنزیہ اندا ز میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شاہ ولی اللہ التقلیدی کا قول بھی بلا دلیل ہے۔(تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ، صفحہ 98)

تقلید سے متعلق اپنی تصنیف میں اسی انداز سے شاہ ولی اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اوکاڑوی صاحب نے شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی التقلیدی کی پوری عبارت معہ ترجمہ و حوالہ نقل نہیں کی۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 69)

غرض یہ کہ حافظ رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفات میں جہاں جہاں بھی شاہ ولی اللہ کا ذکر و تذکرہ کیا ہے اسی انداز سے کیا ہے جس سے شاہ ولی اللہ سے بے زاری اور براء ت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

4۔ یزید سے متعلق اہل حدیث میں یہ مشہور چلا آرہا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے سپاہ سالار ہونے کی وجہ سے وہ بخاری کی اس حدیث کا صحیح مصداق ہیں جس میں قسطنطنیہ پر حملہ آور پہلے لشکر کی بخشش اور مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اہل حدیث کے اس عمومی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اس کی تردید کی اوراپنے دلائل کی بنیاد پر دعویٰ کیاکہ یہ موقف خلاف واقع ہے اور یزید کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے سے پہلے بھی چونکہ وہاں دوسرے صحابہ کی سپاہ سالاری میں کئی حملے ہوچکے تھے اس لئے یزید کو صحیح بخاری کی حدیث میں موجود بشارت کا مصداق قرار دینا درست نہیں۔

5۔ بہت سارے لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں اور صرف کچھ گنے چنے اور مخصوص لوگ ہی اس بات پر مطلع ہیں کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ قربانی کے دنوں کے مسئلہ کی طرح طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پربھی جماعت اہل حدیث کے متفقہ نظریہ سے بالکل جداگانہ اور مختلف موقف رکھتے تھے۔لیکن انکی معاملہ فہمی اور احتیاط کی بھرپور داد دینی چاہیے کہ وہ صرف اور صرف اس غرض کے پیش نظر اپنے موقف کو منظر عام پر لانے سے رکے رہے کہ اس سے اہل حدیثوں کے درمیان جنگ جدل کا ایک نیا محاذ کھل جائے گااور مخالفین کے ہاتھ بھی ایک زبردست شوشہ آجائے گا جو اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور انہیں مطعون کرنے میں ان کا معاون و مددگار ہوگا۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو اس بات کا بھی بخوبی احساس تھا کہ وہ جماعت اہل حدیث میں جو مقام و مرتبہ حاصل کرچکے ہیں اس مقام پر پہنچ کر ان کی زرا سی بے احتیاطی اہل حدیثوں کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تمام مسائل میں کمال احتیاط کا مظاہرہ کرنا اور ہر معاملہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا انکی احساس ذمہ داری اور مسلک اہل حدیث سے محبت و لگاؤ کی روشن دلیل ہے۔ اس احتیاط کے باوجود دیوبندیوں کو حافظ صاحب کے اس موقف کی بھنک پڑ گئی تھی۔اس لئے وہ آئے روز مختلف ذرائع اور مختلف سوالوں کے ذریعے انکا موقف جاننے کی جستجو میں رہتے تھے۔لیکن حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی طلاق ثلاثہ پر کسی سائل کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ہمارے اس دعویٰ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے آل تقلید اور اہل حدیث کے مابین تقریباً تمام ہی معرکتہ الآراء مسائل پر ایک نئے انداز سے تحقیق پیش کی ۔جیسے تقلید، رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام،تراویح، قیام نماز میں ہاتھ باندھنے کی حالت وغیرہ لیکن حیرت انگیز طور پرمجلس واحدہ کی طلاق ثلاثہ جس پر آل تقلید اور اہل حدیث ایک لمبے عرصہ سے مناقشے، مناظرے اور مجادلے کرتے چلے آرہے ہیں اس پر کچھ نہیں لکھا حتی کہ ان کے فتوؤں میں بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں پر کوئی فتویٰ نہیں ملتا۔

حافظ زبیر علی زئی اہل حدیث کے طلاق ثلاثہ پر دلائل سے مطمئن نہیں تھے اور انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا کمزور موقف تھا۔ راقم الحروف کو علم ہوا ہے کہ طلاق ثلاثہ پریہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کاوہ موقف تھاجو ابھی تحقیق کے مراحل سے گزر رہا تھا اور اس موقف کا حق ہونا ابھی ان پر پوری طرح واضح نہیں ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ حافظ رحمہ اللہ اس مسئلہ پر بات چیت کو ناپسند فرماتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے اس مسئلہ کو منظر عام پر نہیں لائے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ پوری طرح محقق ہو کر ان پر واضح حق ثابت ہوجاتا تھا تو پھر وہ اسے بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ شیخ زبیر علی زئی کی یاد میں اپنے مضمون ’’میرے شیخ، میرے محسن، میرے مربی فضیلۃ الشیخ محدث العصر علامہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ہمارے شیخ حق و صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہو جاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی اور وہ اس معاملہ میں کسی بھی لومۃ لائم کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے اور بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند

(ماہنامہ دعوت اہل حدیث،شمارہ نمبر 151، جنوری2014،صفحہ 36 )

6۔ حافظ زبیرعلی زئی داڑھی کے بارے میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا اور قینچی نہ لگانا افضل ہے تاہم ایک مشت سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے۔واللہ اعلم۔(موطاامام مالک،صفحہ 605)

علمائے اہل حدیث کی اکثریت کی رائے اسکے سراسر برعکس ہے،مثلاً عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ اکثر اپنے خطبات میں فرماتے ہیں کہ : داڑھی کا ایک بال بھی کاٹنا پوری داڑھی منڈوانے کے مترادف ہے۔

ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کے آثار صحابہ کے متعلق علمائے اہل حدیث کہتے ہیں کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی داڑھی نہیں کٹوائی نہ ہی اطراف سے اور نہ ہی لمبائی میں اور نہ ہی کٹوانے کی اجازت دی، اس لئے اس کے برخلاف صحابہ کا عمل حجت نہیں کیونکہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے صحابہ کا نہیں۔جیسے فضیلۃ الشیخ صہیب احمد حفظہ اللہ داڑھی سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ان احادیث کو پڑھ کر میرے خیال میں(لاالہ الااللہ)کے بعد (محمد رسول اللہ) کہنے والا مسلمان یہ بات کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ فلاں یوں کہتا ہے اور فلاں صحابی کا یہ فعل تھااس کا یہ قول تھا۔ بلاشبہ صحابہ جیسی شخصیات نبی کے بعد نہ دنیا میں آئیں ہیں اور نہ آئیں گی۔لیکن نبی کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے صحابہ کا نہیں۔صحابی کو صحابی بھی ہم تب ہی مانتے ہیں جب اس کی ایمان کی حالت میں نبی سے ملاقات ہو تو معلوم ہوا کہ نبی کی ذات کے بغیر تو صحابی بن بھی نہیں سکتا تو نبی کے مقابلے میں اس کی بات کیسے قبول کریں گے۔(مومن کا تاج داڑھی،صفحہ 33)

اسی طرح ماہنامہ الحدیث میں شائع ہونے والے مضمون ’’بالوں کے احکام‘‘ میں ابراہیم بن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنا بالکل غلط ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی جاتی ہے وہ ان کا اپنا عمل ہے اور ان کا عمل دین میں دلیل نہیں بنتا۔صحابی کا اپنا قول اور اپنا عمل دلیل نہیں بنتاصحابی رضی اللہ عنہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قو ل و عمل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب تقریر بیان کریں تو وہ دلیل ہے صحابی کا اپنا عمل اور قول دلیل نہیں جب یہ دلیل نہیں تواس سے گنجائش کیسے ملی؟ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر27،صفحہ56,55)

بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اس سلسلے میں رقمطراز ہیں: اس کے علاوہ بعض صحابہ سے حج کے موقع پر داڑھی سے کچھ بال کاٹنے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن اولاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے اور مطلقاً چھوڑ دینے کا حکم ہے اس کے خلاف کسی کا قول یا عمل قابل قبول نہیں ہوسکتا۔(اسلام میں داڑھی کا مقام،صفحہ 31)

صاحب تحفۃ الاحوذی عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض لوگ ابن عمر،عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے آثار سے استدلال کرتے ہیں کہ قبضہ سے اوپر کاٹ دینی چاہیے۔یہ استدلال ضعیف اور کمزور ہے۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل شدہ مرفوع احادیث اس کی نفی کرتی ہیں، ان میں مطلق چھوڑنے کا حکم ہے۔پس ان احادیث کے مقابلہ میں ان آثار اور اقوال سے دلیل اخذ کرنا صحیح نہیں ۔(تحفۃ الاحوذی،جلد4،صفحہ 11)

مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ آثار کی بنیاد پر ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا ذاتی عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔حدیث مرفوع کے مقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ....صحیح بات یہی ہے کہ حدیث نبوی کے مقابلے میں اثر صحابی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔(تفہیم دین،صفحہ 100)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے موقف کے برعکس قریب قریب تمام اہل حدیث علماء کا منہج یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کے بالمقابل موقوفات صحابہ کو ناقابل حجت قرار دے کر نظر انداز کردیتے ہیں۔خصوصاً اس صورت میں جب اثر صحابی مرفوع حدیث کے بظاہر خلاف نظر آتا ہوجیسا کہ داڑھی کے معاملے میں علمائے اہل حدیث کی کچھ امثال ماقبل بیان کی گئی ہیں۔

راقم کے نزدیک مطلقاًیہ منہج صواب معلوم نہیں ہوتااور پھر یہ طریقہ کار اہل حدیث کے ایک مستند اصول سے بھی ٹکراتا ہے اور وہ اصول قرآن و حدیث کو سلف صالحین کے فہم سے سمجھنے کا ہے۔یہ قیمتی اور بنیادی اصول اہل حدیث مذہب میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔حافظ زبیرعلی زئی اس اصول کی بابت فرماتے ہیں: سلف صالحین کا فہم وہ مشعل ہے جس کی وجہ سے آدمی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر40،صفحہ8)

فہم سلف کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ اگر کوئی شخص نصوص شرعیہ سے کوئی نیا اور انوکھا استدلال کرتا ہے تو اس استدلال کی صحت کے لئے ضروری اور لازمی ہے کہ سلف میں سے کسی نے اس کی موافقت و تائید کی ہووگرنہ وہ استدلال ناقابل التفات ہے۔اہل بدعت کے ایک ایسے ہی انوکھے استدلال کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حسن حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ روزانہ اذان سے پہلے کچھ کلمات کہتے تھے،اس سے بعض اہل بدعت یہ استدلال کرتے ہیں کہ اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھنا جائز ہے، حالانکہ کتاب و سنت سے استدلال کے لئے سلف صالحین کے فہم کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، اگر اس حدیث کا یہ مطلب ہوتا تو سلف صالحین میں سے کوئی تو اس کا قائل یا فاعل ہوتا۔!!(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر121،صفحہ 60)

حافظ رحمہ اللہ صاحب ایک مقام پر فرماتے ہیں: خوش قسمت ہے وہ شخص جو کتاب و سنت یعنی قرآن و حدیث پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے۔(اختصارعلوم الحدیث،صفحہ 8)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھااس لئے قرآن و سنت کے مفاہیم کو ان مبارک ہستیوں سے زیادہ کوئی جاننے اور سمجھنے والا نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی صحابی کے ایسے فعل کوبھی جس پر دیگر صحابہ نے کوئی نقد یا اعتراض نہ کیا ہو صرف احادیث کے مخالف ہونے کی بنیاد پر رد کردیں اورفہم صحابی کو یہ کہہ کر کوئی اہمیت نہ دیں کہ موقوفات صحابہ حجت نہیں؟!!

اس سلسلے میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جب اہل بدعت اپنے مشرکانہ عقائد اور بدعی افعال کے لئے قرآن و حدیث کی نصوص سے نت نئے اور انوکھے استدلالات کرتے ہیں تو انہیں لگام دینے کے لئے ہمارے پاس فہم سلف صالحین کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ اسی حقیقت کا اعتراف فرماتے ہوئے حافظ صاحب رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں: منافقین اور اہل بدعت بھی کتاب اللہ سے استدلال کرتے ہیں ، لہٰذا کتاب وسنت کا صرف وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین سے ثابت ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر84،صفحہ 4)
تو اس بنا پر کم ازکم آثار اور موقوف روایات کو اتنی اہمیت تو دی جانی چاہیے کہ اگر صحابہ میں اس بات کا کوئی مخالف موجود نہ ہو تو اسے تسلیم کرتے ہوئے مسائل میں کچھ گنجائش ہی دے دی جائے اورکم ازکم اس عمل کاجواز ہی تسلیم کرلیا جائے۔

تنبیہ: یاد رہے کہ اگر صحابہ کرام کے اقوال و افعال غلط فہمی اور لاعلمی کی بدولت ہوں جیسا کہ یہ ایک معلوم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات صحابہ سے بھی دلائل مخفی رہ جاتے تھے یا بعض اوقات وہ دلائل بھول بھی جاتے تھے اور اسی بھول اور لاعلمی میں ان سے ایسے افعال و اقوال سرزد ہوجاتے تھے جو نصوص کے خلاف ہوتے تھے تو ایسی صورت میں انکے افعال و اقوال حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے یقیناقابل حجت نہیں۔ لیکن اگر لاعلمی کا امکان نہ ہو اوردلائل کی معرفت اور مکمل علم ہونے کے باوجود کسی صحابی کا کوئی عمل بظاہر حدیث کے خلاف نظر آتا ہو تو اس فعل صحابی اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تطبیق و توفیق دینا ہی حق و صواب ہے وگرنہ دوسری صورت میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ صحابی نے جان بوجھ کر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے جبکہ ہمارا ایما ن اور عقیدہ ان نفوس قدسیہ کے بارے میں یہ ہے کہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ حدیث کے خلاف عمل نہیں کرسکتا۔ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں فہم سلف کی روشنی ہی میں اپنے عمل اور عقیدہ کی بنیاد استوار کرنی چاہیے، اسی میں نجات ہے وگرنہ گمراہی ہے۔
حافظ زبیرعلی زئی فرماتے ہیں: تمام صحیح و ثابت روایات کو جمع کرکے ان کا مفہوم سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کی گہری کھائیوں میں جاگریں گے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر45،صفحہ 43)

پس معلوم ہوا کہ کتاب وسنت کو ذاتی فہم سے سمجھنے اوراس میں عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے بذریعہ فہم سلف صالحین سمجھنا ہی محفوظ ترین راستہ ہے۔اہل حدیث کے ایک اہم اصول کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے حافظ محمد زبیررحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں: اہل حدیث کے نزدیک اگر کسی امتی کا کوئی قول یا فعل قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہو، سلف صالحین سے بھی اس کی مخالفت ثابت ہو اور تطبیق ممکن نہ ہوتو یہ قول و فعل ہرگز حجت نہیں،بلکہ ایسی حالت میں قرآن وحدیث پر ہی عمل کیا جائے گا اور ایسے تمام اقوال و افعال کو چھوڑ دیا جائے گا۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر112،صفحہ 22)

اس عبارت کامخالف مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی امتی کا کوئی فعل یا قول کتاب و سنت کے صریح مخالف ہو لیکن اس میں تطبیق وتوفیق ممکن ہواور سلف سے بھی اس قول و فعل کی مخالفت ثابت نہ ہوتو قابل قبول ہوسکتا ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو اس امت کے افضل ترین لوگ یعنی صحابہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ سلف صالحین کی مخالفت نہ ہونے کی صورت میں ان کے’’ خلاف کتاب وسنت اقوال و افعال‘‘ کو مطلقاً رد کرنے کے بجائے اس میں تطبیق کی کوشش کی جائے۔شرعی دلائل کو آپس میں ٹکرانے کے بجائے ان کے درمیان تطبیق دینے کا راستہ اور طریقہ ہی حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ تھا،چناچہ لکھتے ہیں: اس تطبیق و توفیق سے تمام دلائل پر عمل ہوجاتا ہے اور کوئی تعارض باقی نہیں رہتا اور یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ راستہ انتہائی پسندیدہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے قرآن وحدیث و اجماع و آثار سلف سب پر عمل ہوجائے اور کسی قسم کا تعارض اور ٹکراؤباقی نہ رہے ۔جو لوگ دلائل شرعیہ کو آپس میں ٹکرادیتے ہیں ان کی یہ حرکت انتہائی قابل مذمت ہے۔(نصر الباری فی تحقیق جزء القراء ۃ للبخاری صفحہ 32)
اسی لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ احادیث سے ثابت کسی عمل کے بالمقابل کسی ثابت شدہ اثرکے سامنے آنے کی صورت میں سلف صالحین کے فہم،قول اور فعل کا اعتبار کرتے ہوئے انہیں آپس میں ٹکرا کر رد کرنے کے بجائے حدیث رسول اور اثر صحابی میں حتی الامکان توفیق و تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات آثار سلف خصوصاًموقوف صحابی کے ذریعہ حدیث کی تخصیص اور حد بندی کرتے ہیں۔اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں۔

۱۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جبکہ دو ہاتھ سے مصافحہ کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا اس کے برعکس کچھ آثار میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا ثبوت پایا گیا ہے جس کا اعتبار کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ افضل ہے۔ اسی طرح بعض آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ بھی جائز ہے۔(مثلاً دیکھئے صحیح بخاری قبل،ح: ۶۲۶۵)۔(موطا امام مالک،صفحہ 374)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اسی بات کو اپنے مجلے میں بھی فقہ الحدیث کے تحت درج کیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح بخاری میں ہے کہ ’’وصافح حماد بن زید ابن المبارک بیدیہ‘‘ اور حماد بن زید نے ابن المبارک سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔(کتاب الاستئذان باب الاخذ بالیدین قبل ح۶۲۶۵)
لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھو ں سے مصافحہ کرتا ہے تو بھی جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ عام مرفوع احادیث سے استنباط کرتے ہوئے صرف ایک (دائیں)ہاتھ سے ہی مصافحہ کیا جائے ۔واللہ اعلم......اس مسئلہ میں تشدد کرنا صحیح نہیں ہے۔جس کی جو تحقیق ہے وہ اس پر عمل کرلے، ان شاء اللہ عنداللہ ماجور ہوگا۔
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر18،صفحہ 4)

۲۔ کالا خضاب لگانے کی ممانعت صحیح حدیث سے ثابت ہے لیکن اس کے بالمقابل کچھ آثار ایسے موجود ہیں جن میں کالا خضاب کے استعمال کا ذکر موجود ہے چناچہ اسی بناپر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کالے خضاب کے استعمال کے جواز کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے: بعض آثار سے کالا خضاب لگانے کا جواز بھی ملتا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ کالے خضاب سے اجتناب کیا جائے۔(شمائل ترمذی،صفحہ 89)
یہاں صرف آثار کی وجہ سے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کالے خضاب کے استعمال کو ناجائز،حرام اور حدیث کی مخالفت قرار نہیں دیا صرف اس عمل کے مرجوع ہونے کا فیصلہ سنایا ہے۔

۳۔ پانی پینے کے بعد کسی مخصوص دعا کے پڑھنے کا کوئی ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں ہے لیکن صرف حسن بصر ی رحمہ اللہ جو کہ ایک مشہور تابعی تھے، سے ثابت ہے کہ وہ پانی پینے کے بعد ایک مخصوص دعا’’الحمدللہ الذی سقاناہ عذباً فراتاًبرحمتہ ولم یجعلہ ملحاً اٗجا جاًبذنوبنا‘‘ پڑھتے تھے۔ خیرالقرون کے امام حسن بصری رحمہ اللہ کے صحیح اثر سے ثابت اس عمل کا اعتبار کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے پانی پینے کے بعد مذکورہ مخصوص دعا کو جائز و صحیح قرار دیا ہے۔ چناچہ اپنے قلم سے لکھتے ہیں: پانی پینے کے بعد یہ (مذکورہ) دعا پڑھنا امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت ہے ...لہٰذا پانی پینے کے بعد آثار سلف صالحین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھنا جائز ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،صفحہ 12)

۴۔ اسی طرح خطیب کا منبر پر بیٹھ کر السلام علیکم کہنا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے لیکن اس عدم ثبوت پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس غیرثابت شدہ عمل کو بدعت اس لئے نہیں کہاکہ سلف صالحین میں سے صرف ایک تابعی سے یہ عمل ثابت ہے ، ملاحظہ ہو: حافظ صاحب رحمہ اللہ بقلم خود لکھتے ہیں: کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ خطیب منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو السلام علیکم کہے....میرے علم کے مطابق ثقہ تابعی امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ثابت ہے کہ وہ جب منبر پر چڑھ جاتے تو لوگوں کو سلام کہتے اور لوگ ان کا جواب دیتے تھے ....خیرالقرون کے اس عمل سے معلوم ہواکہ خطبہ سے پہلے خطیب کا لوگوں کو سلام کہنا جائزہے،لہٰذا اسے بدعت کہنا غلط ہے اور اگر اس حالت میں سلام نہ کہے تو بھی بالکل صحیح ہے۔ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر84،صفحہ 11,10)

۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی احادیث سے ثابت ہے کہ داڑھی سے کسی قسم کا تعارض نہ کیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک سے بھی داڑھی کٹوانا ثابت نہیں لیکن اس کے باوجود صحابہ کے کچھ آثار ایسے ہیں جن سے صحابہ کا حج کے موقع پر ایک مشت سے زائد داڑھی کے بال کٹوانے کا عمل پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے۔ اب صحابہ کے اس عمل کو احادیث کے مخالف قرار دینے کے بجائے یہ کہنا حق ہے کہ صحابہ نے احادیث سے یہی سمجھا کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوائی جاسکتی ہے یعنی صحابہ کا فہم داڑھی کی احادیث کے متعلق یہی ہے جو انکے ذاتی عمل سے ثابت ہوتا ہے۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے انہیں آثار کی رعایت کرتے ہوئے مشت سے زائد داڑھی کے بال کٹوانے کو جائز قرار دیا ہے، لکھتے ہیں: ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا اور رخساروں کے بال لینا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل قینچی نہ لگائی جائے۔واللہ اعلم۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر27،صفحہ57)

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اس بارے میں تفصیل سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: جن احادیث میں داڑھیاں چھوڑنے، معاف کرنے اور بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، ان کے راویوں میں ایک راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں...سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے وقت اپنی داڑھی کا کچھ حصہ (ایک مشت سے زیادہ کو) کاٹ دیتے تھے...کسی صحابی سے سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ پر اس سلسلے میں انکار ثابت نہیں ہے۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت صحابی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت بھی کریں...مسئلہ یہ نہیں کہ صحابی کا عمل دلیل ہے یا نہیں؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا کون سافہم معتبر ہے۔وہ فہم جو چودھویں پندرھویں صدی ہجری کا ایک عالم پیش کررہا ہے یا وہ فہم جو صحابہ،تابعین وتبع تابعین اور محدثین کرام سے ثابت ہے؟!
ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ، تابعین، تبع تابعین و محدثین اور قابل اعتمادعلمائے امت سے ثابت ہے۔ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی،تابعی،تبع تابعی،محدث یا معتبر عالم نے ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا حرام یا ناجائز نہیں قرار دیا ۔حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خلاصہ یہ ہے ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر27،صفحہ57,56)

حافظ زبیرعلی زئی سے پہلے حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے صحابہ کے عمل اور احادیث پر انکے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے داڑھی کی کم ازکم جائز مقدار ایک مشت تسلیم کی ہے،فرماتے ہیں: مذکورہ بالا عبارات اور احادیث میں نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کم ازکم ایک قبضہ کی مقدار رکھنا لازمی ہے۔(مقالات محدث گوندلوی ،صفحہ 374)

اس بحث سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہو کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اور اس موقف کے حاملین ہر ثابت شدہ اثر کو اگرچہ وہ خلاف حدیث ہی کیوں نہ ہو مطلقاً قبول کرلیتے ہیں بلکہ اسکے قبول کی کچھ شرائط ہیں ،سابقہ سطور میں جن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

پہلی شرط یہ ہے کہ صحابی کو اپنے فعل و قول کے خلاف وارد شدہ احادیث کا بخوبی علم ہو یعنی صحابی کے اس فعل یا قول کا سبب متعلقہ احادیث سے لاعلمی نہ ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ صحابہ میں سے کوئی اس فعل و قول کا مخالف نہ ہو یعنی وہ فعل اور قول شاذ نہ ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ وہ فعل یا قول صحابی کے سوء فہم کانتیجہ نہ ہو یعنی ان کا تفرد نہ ہو۔
اورچوتھی شرط یہ ہے کہ اس قول وفعل کی قرآن وحدیث سے توفیق و تطبیق ممکن ہو۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں تو صحابی کا قول یا فعل احادیث صحیحہ کے مقابلے میں کسی کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا اثر مرفوع حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر47،صفحہ45)

ایک جگہ اور لکھتے ہیں: یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں صحابی وغیرہ کا قول رد ہو جاتا ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر46،صفحہ42)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ زبیر علی زئی ایک اصول پرست شخص ہونے کی وجہ سے تھوڑے سخت واقع ہوئے تھے اس لئے بعض اوقات اظہار رائے کرتے ہوئے کسی بھی مصلحت اور حکمت کی شکار نہیں ہوتے تھے اور دو ٹوک انداز میں جو کچھ ان کے دل میں ہوتا تھااور جس بات کو صحیح سمجھتے تھے کسی کی ناراضگی کی کوئی پرواہ کئے بغیر بیان کردیتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک سلفی فورم ’’اردو مجلس‘‘ پرمیرا اہل حدیث بھائیوں سے علامہ اقبال کے متنازعہ اشعار پر گرماگرم بحث و مباحثہ جاری تھا ۔علامہ اقبال کے بعض اشعار سے متعلق میر ا نقطہ نظر اور دعویٰ عقیدہ توحید سے متصادم اور اسلامی روح کے منافی ہونے کا تھاجبکہ ہمارے دیگر بھائیوں کا موقف اسکے برعکس تھا۔اس سلسلہ میں جب میں نے تھوڑی بہت تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسے اشعار کہنے کا سبب یہ تھا کہ علامہ اقبال مسلکاً بریلوی تھے اور صوفیانہ مزاج رکھتے تھے۔فورم کے بعض اہل حدیث بھائیوں نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں صوفی ضرور تھے لیکن آخری عمر میں صوفیت سے تائیب ہوکر اہل حدیث ہوگئے تھے۔جب علامہ اقبال کا مسلک مجھ پر مشتبہ ہوگیا تو اصل بات و حقیقت جاننے کے لئے میرے ذہن میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی کا نام نہیں آیا کیونکہ میرے خیال سے اپنے وسیع مطالعہ اور تحقیقی مزاج رکھنے کے سبب وہی میرے سوال کا صحیح جواب دے سکتے تھے۔اس سلسلے میں جب میں نے بذریعہ ٹیلیفون ان سے رابطہ قائم کیا اور پوچھا کہ بعض لوگ علامہ اقبال کو صوفی کہتے ہیں اور کچھ حضرات کا خیال انکے آخری عمر میں اہل حدیث ہوجانے کا ہے تو اس بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے؟ اس سوال کے جواب میں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے مجھے بری طرح جھاڑ دیا اورکوئی جواب دیے بغیر رابطہ منقطع کردیا۔میں اس غیر متوقع صورتحال پر ہکا بکا رہ گیا۔اپنی بے عزتی کے خیال پر میرے گال شرم سے گرم و سرخ ہوگئے۔میں حیران و پریشان سوچتا رہ گیا کہ آخر میں نے کونسا ایسا ممنوع، متنازعہ یا نازک مسئلہ چھیڑ دیا جس پر حافظ صاحب نے اتنا سخت رد عمل ظاہر کیا۔بعد میں جب میرے کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے اپنا غم غلط کرنے کے لئے اردو مجلس کے خصوصی زمرہ میں جہاں صرف اہل حدیث حضرات ہی کو رسائی حاصل تھی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے رویے کی اہل حدیث ساتھیوں سے شکایت کی۔ شیخ صاحب سے قربت رکھنے والے بعض بھائیوں نے مجھے بتایا اکثر مخالفین شیخ سے ٹیلیفون پر الٹے سیدھے سوالات کرکے تنگ کرتے رہتے ہیں اور میرے سوال سے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوکر یہی سمجھے کہ میں نے بھی انہیں پریشان کرنے کے لئے یہ سوال کیا ہے اس لئے انہوں نے جوا ب میں سختی کا مظاہرہ کیا وگرنہ عمو ماً انکا رویہ اچھا ہوتا ہے۔اسکی تصدیق یوں ہوئی کہ پرانے زخم مندمل ہونے کے بعد میں نے ان سے کئی بار رابطہ کیا تو انہوں نے بہت محبت سے بات کی۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے تفصیلی حالات جاننے کے بعد احساس ہوا کہ اس طرز گفتگو میں حافظ صاحب کافی حدتک حق بجانب تھے کیونکہ جن حالات سے وہ دوچار تھے اسکا یہی تقاضہ تھا۔حافظ صاحب نے رد باطل کے تحت خصوصاً دیوبندی مذہب کے بطلان اور تردید کا جو مستقل سلسلہ شروع کر رکھا تھا اس نے دیوبندیوں کادن کا چین اور رات کی نیندیں اڑادی تھیں اور دیوبندی ایوانوں میں زلزلہ برپا تھا۔دیوبندی ہروقت اس ٹوہ اور فکر میں رہتے تھے کہ کسی طرح زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی کوئی ایسی بات ہاتھ آجائے کہ جس کی بنیاد پر انکے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاسکے۔ دیوبندی اپنی مطلب برآوری کے لئے بار بار ٹیلیفون پر شیخ سے الٹے سیدھے سوال کرتے تھے اور بدتمیزی کرتے تھے ۔اسی سبب کسی انجان سے ٹیلیفون پر بات کرتے وقت کسی ناگوار سوال یا بات پر بعض اوقات ان کا لہجہ سخت ہوجاتا تھا۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ دیوبندیوں کی ان اوچھی حرکتوں اور انکی منشاء کو خوب سمجھتے تھے اسی لئے کوئی فتویٰ دیتے وقت یا کسی مسئلہ یا بات پراپنی رائے کا اظہار کرتے وقت کمال احتیاط کا مظاہرہ فرماتے تھے۔

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی حق گوئی اور رد باطلہ نے مجھے ایسا گرویدہ کیا کہ میرے اندر ان سے مختلف انداز سے رابطہ میں رہنے کی خواہش نے جنم لیا۔پہلے پہل الحدیث رسالے میں حافظ صاحب کا موبائل نمبر اور ان سے رابطے اور سوالات کے لئے مخصوص اوقات کار درج ہوتے تھے۔فضل اکبر کاشمیری نائب مدیر الحدیث لکھتے ہیں: حافظ زبیرعلی زئی صاحب سے بذریعہ فون روزانہ صبح ۸ تا ۱۱ بجے مسائل پوچھے جاسکتے ہیں۔دیگر اوقات میں فون سننے کے لئے معذرت خواہ ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 20، صفحہ26 )
پھر بعد میں شیخ کی بے پناہ مصروفیت اور لوگوں کے فون پر تنگ کرنے جیسے غلط رویہ کے سبب یہ سلسلہ بند ہوگیا اور رسالے سے موبائل نمبر حذف کردیے گئے۔جب یہ دروازہ بند ہوا تو میں نے خط کتابت کے ذریعے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔میں جوابی لفافے کے ساتھ خطوط بھیجتا تھا اور عام سوالات کرتا تھا کیونکہ میرا مقصد سوال پوچھنا نہیں بلکہ جواب کی صورت میں انکے خطاب کے احساس سے خوشی حاصل کرنا، انکے ہاتھ کی لکھی تحریروں کودیکھ کرخوش ہونا اور ان تحاریر کو جمع کرنا تھا۔ میرے تین خطوط کے جواب تو شیخ نے دئیے لیکن اسکے بعدجوابی لفافہ ارسال کرنے کے باوجود چوتھے اور پانچویں خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا شاید انہیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ میں انکا وقت ضائع کررہا ہوں۔مجھے اس رابطہ کے ٹوٹنے کا بہت قلق ہوالیکن یہ سوچ کر دل بہلا لیا کہ شیخ صاحب اتنی مصروف شخصیت ہیں اور ہمہ وقت تحقیقی کاموں میں مصرف رہتے ہیں تو انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں۔ وہ تمام خطوط لفافوں سمیت آج بھی میرے پاس کسی سرمایے کی طرح محفوظ ہیں۔

میری بہت بڑی خواہش تھی کہ میرا کوئی مضمون میرے محبوب رسالے ’’الحدیث‘‘ میں شائع ہوتا لیکن رسالے کے بلند معیار کی بدولت کبھی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے آخری دور میں، میں نے بعض ایسے مضامین لکھ لئے تھے جن کی وجہ سے میری کچھ امید بندھی تھی کہ شاید ان میں سے کوئی ایک آدھ مضمون ’’الحدیث‘‘ کی زینت بن سکے۔اس غرض سے میں نے اپنا ایک مضمون’’آپ کا جوتا،آپ کاسر‘‘ زبیرصادق آبادی حفظہ اللہ کی خدمت میں بھیجاکہ شاید انکی بدولت میری خواہش بر آئے کیونکہ یہ رسالے کے معاونین میں شامل تھے۔ زبیر صادق آبادی حفظہ اللہ نے مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد پسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس مضمون کا عنوان نامناسب ہے اسے تبدیل کرنا ہو گا۔اور حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سعودی عرب گئے ہوئے ہیں انکی واپسی تک انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ مضمون کی اشاعت کا آخری فیصلہ انہیں کا ہوگا۔پھراس کی نوبت ہی نہیں آئی کہ سعودی عرب سے واپسی کے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی انکی بیماری اور پھر انکی وفات کا سانحہ ہوگیا۔انااللہ واناالیہ راجعون!

اہل حدیث ہونے کے فوراً بعد سب سے پہلے میں نے جس ماہنامہ کو پڑھنا شروع کیااور جس کے تحقیقی انداز نے مجھے بہت متاثر بلکہ گرویدہ کرلیا وہ ’’ماہنامہ الحدیث حضرو‘‘ تھا۔ میں نے اس کے مطالعہ کے دوران واضح طور پر محسوس کیا کہ بعض اوقات حافظ موصوف علامہ البانی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے نام کے ساتھ احترام والے یا دعائیہ کلمات نہیں لکھتے اور کافی سخت انداز سے انکی غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کا احساس ایک اور شخص نے بھی کروایا جو ہماری مسجد میں نماز پڑھنے آتا تھا اور خود کو اہل حدیث کہتا تھا لیکن اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے کافی مشکوک تھا اس نے کہا کہ زبیرعلی زئی صاحب علامہ البانی پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں اور اس تنقید کے ذریعے وہ فوری اور سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انکی حیثیت علامہ البانی رحمہ کی قد آور شخصیت کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ چونکہ مجھے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے حسن ظن تھا اس لئے میں نے انکا دفاع کرنا چاہا لیکن اس شخص نے رسالے الحدیث سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے متعلق کچھ مقامات کی نشاندہی کی جس میں حافظ صاحب کا اندازکافی سخت محسوس ہوا۔
مثال کے طور پر ایک جگہ حافظ صاحب علامہ البانی رحمہ اللہ کے نام کے ساتھ دعائیہ کلمات لکھے بغیر ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لیکن البانی صاحب نے اس کی روایت کو حسن کہا۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر60،صفحہ 6)
ایک اور جگہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی غلطی کی سختی کے ساتھ نشاندہی کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: بلکہ شیخ البانی نے ابوقلابہ کی معنعن حدیث ہر ہاتھ صاف کرلیا۔البانی نے کہا...الخ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر67،صفحہ 22)

مندرجہ ذیل حوالے میں ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ صاحب کے لہجے کی سختی اور کڑواہٹ کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: راقم الحروف نے علامہ معلمی کا قول ان لوگوں کے خلاف پیش کیا تھا جو البانی صاحب کو بہت بڑا محقق سمجھ کر ان کی ہر بات کو حرف آخر جانتے ہیں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 244)

بطور فائدہ عرض ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اولین استاذہ میں سے ’’حاجی اللہ دتہ‘‘ بھی شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ پر انکے شذوذ کی بنا پر سخت اور کڑی تنقید کرتے تھے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے استاد کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: حاجی صاحب شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیحات سے شدید اختلافات رکھتے تھے اور انہیں شیخ رحمہ اللہ کے بعض تفردات پر بھی اعتراض تھا،حاجی صاحب کے استاد محترم ابو السلام محمد صدیق السر گودھوی رحمہ اللہ بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے تفردات پر تنقید کرتے تھے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر1،صفحہ 41)

حافظ محمد زبیر رحمہ اللہ خود بھی شیخ البانی رحمہ اللہ پر تنقید اوران سے اختلاف رکھتے تھے، ایک بریلوی نے جب حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا کہ زبیرعلی زئی بھی ناصر الدین البانی سے اپنے ماہنامہ الحدیث میں استفادہ وغیرہ کرتے ہیں ،تو زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس بات کو ’’بالکل جھوٹ‘‘قرار دیتے ہوئے لکھا: شیخ البانی اور ان سے بعض مسائل ،رجال اور روایات میں اختلاف ہے اور یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے، اس میں بریلویوں کو گھسنے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ آپ لوگ اپنی اوقات میں ہی رہیں تو آپ کے لئے بہتر ہے۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 251)

اہل حدیث ساتھی کی نشاندہی اوردلیل کے ساتھ اس بات کو جان لینے کے بعد کہ حافظ صاحب کا رویہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے ساتھ امتیازی ہے ، میں خاموش ہو رہا لیکن اصل صورتحال جاننے کے لئے میں نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو خط لکھا اور پوچھا: میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں ایک محدث کی صحیح تعریف کیا ہے؟ میں جب آپ کو محدث کہتا ہوں تو کچھ لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اور آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ علامہ البانی پر غیر ضروری تنقید کرکے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔برائے مہربانی اس مسئلہ کو واضح کردیں ۔تاکہ میں آپکا صحیح علم کی روشنی میں دفاع کرسکوں۔اسکے جواب میں زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے القاموس الوحید کے حوالے سے محدث کی تعریف لکھ دی اور دوسری بات کے بارے میں لکھا: اس پر مزید بحث فضول ہے۔

اس خط کے بعد والے الحدیث کے شماروں میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا علامہ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں رویہ واضح طور پر تبدیل ہوا اور انہوں نے احترام سے انکا ذکر کرنا شروع کیا۔اور ان سے اختلاف کرتے ہوئے بھی اپنا اندازشائستہ رکھا۔مجھے یقین ہے کہ میرے خط کے ذریعے اس مسئلہ کی نشاندہی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی اس غلطی کی درستگی کا سبب بنی تھی۔ان شاء اللہ
اور یہ بات تو سب ہی کو معلوم ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اپنی غلطی واضح ہوجانے کے بعد اسکے اعتراف ، رجوع اور اپنی اصلاح میں بالکل بھی دیر نہیں کرتے تھے۔حافظ زبیر علی زئی خود فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت میں تضاد و تعارض ثابت کردے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اعلانیہ رجوع کروں گا،توبہ کروں گااور جو حق بات ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں ، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے تو اسی میں دنوں جہانوں کی کامیابی ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد دوم،صفحہ 260)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دلائل کے میدان میں شکست کا منہ دیکھنے کے بعد اہل حق کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنا اہل باطل کا پرانا وطیرہ اور طریقہ کار ہے۔ دیوبندی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اپنے خلاف کام سے اس قدر پریشان تھے کہ انہوں نے بارہا حافظ صاحب کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ان پر حملہ آور ہوئے لیکن اللہ رب العالمین نے مخالفین کی تدبیر کو ناکام بنا کرشیخ محترم کو محفوظ و مامون رکھا۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے راقم الحروف سے ایک ٹیلیفونک گفتگو میں یہ انکشاف کیا کہ انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے دیوبندیوں نے ان پر تین قاتلانہ حملے کروائے جن میں سے ایک حملے میں انکا ڈرائیوربھی زخمی ہوا لیکن وہ محفوظ رہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کا نام لئے بغیر انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھاہے: مجھ پر قاتلانہ حملے کرنے والوں سن لو! جب تک میری جان میں جان ہے، جسم میں روح ہے، ہاتھ، زبان، آنکھ، کان اور دماغ کی طاقت ہے میں قرآن و حدیث اور اجماع کا دفاع کرتا رہوں گا، مسلک اہل حدیث کا دفاع کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر23، صفحہ41)

اپنی تحریروں کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی احتیاط کمال درجے کو پہنچی ہوئی تھی۔جہاں مخالفین ٹکٹکی باندھ کر ان کی جانب متوجہ ہوں اور ہر وقت اس فکر اور ٹوہ میں رہیں کہ یہاں حافظ زبیرعلی زئی کوئی غلطی کریں اور وہاں وہ اعترضات کا پہاڑ کھڑا کرکے طعن و تشنیع کی صورت میں بدلہ لینے کی اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کریں وہاں انتہائی احتیاط ہی مطلوب ہوتی ہے۔

دیوبندی مذہب اور جھوٹ کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ہر دیوبندی عالم بے دریغ اور کثرت سے جھوٹ بولتا ہے اتنی کثرت سے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انکے ہاں دفاع مذہب اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے جھوٹ بولنا کار ثواب ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے مختصر مضامین کے ذریعے دیوبندی اکابرین و اصاغرین کے جھوٹ بے نقاب کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھاجس سے دیوبندی بری طرح خائف تھے اور حافظ صاحب کی کسی کمزوری کی تلاش میں سرگرداں تھے تاکہ لوگوں کی توجہ کا رخ پھیر کر اپنے خلاف ہونے والے کام کی شدت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدنامی کے اثرت کو کچھ کم کرسکیں۔لیکن جب دیوبندیوں کو حافظ زبیرعلی زئی کی کوئی ایسی کمزوری نہیں ملی تو دیوبندیوں نے خود کو پستی میں گراتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی اور دیگر اہل حدیث علماء کی کتابوں میں نادانستہ ہونے والی ٹائپنگ و کتابت کی غلطیوں کو حافظ صاحب اور دیگر اہل حدیث کے جھوٹ اور تحریفات بنا کر پیش کرنا شروع کردیاتاکہ ان کے اور انکے اکابرین کے اکاذیب سے لوگوں کا دھیان ہٹ جائے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ دیوبندیوں کی اس گھٹیا حرکت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تحریر لکھتے وقت مصنف سے بعض اوقات سہواً غلطیاں ہوہی جاتی ہیں اور کاتب، کمپوزر اور ناسخ سے بھی بہت سی اخطاء و اوہام کا صدور ہوتا ہے اور اس طرح جتنی بھی کوشش کریں، کتاب اور تحریر میں کچھ نہ کچھ غلطیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ بعض دیوبندی حضرات ایسی غلطیوں کو جھوٹ، اکاذیب اور افتراء ات کا نام دیتے ہیں ۔(تحقیقی ،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد سوم، صفحہ 548)

ایک اور مقام پر زبیرعلی زئی رحمہ اللہ غلطی اور جھوٹ کا فرق واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: یاد رہے کہ حافظ قرآن کا تلاوت میں بھول جانا،نادانستہ زبان و قلم سے کسی خلاف واقعہ یا غلط بات کا وقوع، بھول چوک ، کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیاں جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ جھوٹ اسے کہتے ہیں جو جان بوجھ کر ، کسی مقصد کے لئے خلاف واقعہ و خلاف حقیقت بولا جائے۔(قرآن و حدیث میں تحریف،صفحہ 10)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کی کتابوں سے تقریباً پچاس عدد غلطیاں پیش کرکے ان دغاباز دیوبندیوں کو دعوت فکر دی ہے کہ اگر علمائے اہل حدیث کی کتابوں میں کتابت کی غلطیاں جھوٹ ہیں تو تم سب سے بڑے جھوٹے ہو جن کی کتابیں ایسی ہی غلطیوں سے بھری پڑی ہیں۔چناچہ حافظ صاحب نے لکھا:یہ پچاس حوالے اس لئے پیش کئے ہیں تاکہ دیوبندیوں کو آئینہ دکھایا جائے کہ کمپوزنگ ، کتابت اورتحریر کی نادانستہ غلطیاں جھوٹ نہیں ہوتیں۔(تحقیقی ،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد سوم، صفحہ 559)

لیکن جھوٹ کی گاڑی پر اپنا مذہبی کاروبار چلانے والے ان دیوبندیوں کا تعلق اس بے انصاف گروہ سے ہے جو اپنے اکابرین کی ’’دفاع مذہب‘‘ میں کی گئی تحریفات اور اپنے من سے عبارات گھڑ کر انکے کلام اللہ اور فرمان رسول ہونے کا دعویٰ کرنے کی انتہائی ناپاک جسارت کو بھی بڑی معصومیت سے کتابت کی غلطی کہہ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب مخالفین کی نادانستہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو بھی تحریف اور جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہوئے بالکل بھی شرم وحیا محسوس نہیں کرتے۔

جھوٹ بولنا، مغالطہ دینا، فریب کاری ایک ایسا فن ہے جسے مقلدین خصوصاً دیوبندی نقطہ عروج پر لیجانے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں اور کافی حد تک اپنی کوششو ں میں کامیاب بھی ہیں۔امین اوکاڑوی نے مغالطہ کے فن میں وہ کمال پیدا کیا کہ اسے بجا طور پر اس فن کا امام کہا جاسکتا ہے۔اب اس کی ذریت امین اوکاڑوی کی تلبیسات اور مغالطات سے استفادہ کرتے ہوئے فریب کاری، دھوکہ بازی اور کذب بیانی میں نئے نئے طریقے ایجاد کرکے ترقی کی نئی شاہراہوں پر گامزن ہے۔

الیاس گھمن کی زیرادارت شائع ہونے والے سہہ ماہی مجلہ ’’قافلہ حق‘‘ کے ایک دیوبندی لکھاری ’’علامہ ذہبی‘‘ نے اس رسالہ میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے خلاف ایک مضمون لکھا جس میں جھوٹ کی تعداد بڑھانے کا ایک انوکھا مگر شرمناک اور گھٹیاطریقہ ایجا دکیا۔ جو نہ صرف ان دیوبندیوں کے تحقیقی میدان میں تہی دامن ہونے اورعلمی طور پر یتیم ہونے کا پول کھول رہا ہے بلکہ یہ ترکیب خود انہی کو جھوٹابھی ثابت کررہی ہے۔
حافظ زبیرعلی زئی کے رسالے’’الحدیث‘‘ میں اکثر کبھی کسی دیوبندی اکابر و عالم کے پچاس جھوٹ اور کبھی سو جھوٹ کبھی دس جھوٹ شائع ہوتے تھے اس طرح یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا پھر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے الگ سے ایک کتاب بنام ’’آل تقلید کے تین سو جھوٹ‘‘ بھی لکھی۔ اس کے جواب میں اتنی بڑی تعداد میں اہل حدیث کے جھوٹ جمع کرنا دیوبندیوں کے لئے ’’مشن امپوسبل‘‘ تھا۔لہٰذا اس کے حل کے لئے دیوبندیوں کے’’ علامہ ذہبی ‘‘نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ کے مضامین سے دو چار جملوں کا انتخاب کیا اور اپنے تئیں انھیں جھوٹ بارور کروا کے ایک جملے کو 47( سینتالیس ) مرتبہ من وعن نقل کیااور ایک ہی جملے کو سینتالیس مرتبہ دہرا کر اسے سینتالیس جھوٹ کہہ دیا اس طرح انھوں نے دو چار جملوں کی بار بار تکرارکو100( سو) کی تعداد تک پہنچا کر خوب بغلیں بجائیں کہ ہم نے غیرمقلدوں کے سو جھوٹ گھڑ لئے۔ دیوبندیوں کے ان علامہ ذہبی کے اپنے مضمون میں کی گئی یہ حرکت اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ قاری کو پڑھتے ہوئے غصہ کے بجائے ہنسی آجاتی ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ علم ،اخلاق اور سچائی کے قحط سے دوچار دیوبندیت اپنے’’علامہ ذہبی‘‘ کی اس نئی ایجاد سے مستقبل میں خوب استفادہ کرے گی۔

دیوبندیوں کے اس نئے طریقہ واردات کے مطابق اگر اہل حدیث انکے جھوٹ جمع کرنے اور گننے پر آئیں تو گنتی ختم ہوجائے گی لیکن آل دیوبند کے قرآن و حدیث پر بولے ہوئے جھوٹ ختم نہیں ہونگے۔لیکن اہل حدیثوں کو ایسا شرمناک طریقہ اختیار کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ دیوبندی اکابرین ویسے بھی اپنی تصانیف میں جھوٹ کا ایک عظیم ذخیرہ چھوڑ کر گئے ہیں جو انکی رسوائی اور بدنامی کے لئے قیامت تک کے لئے کافی ہے۔ان شاء اللہ

شیخ محترم حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے مستقل بنیادوں پر مستقل مزاجی کے ساتھ رد باطل کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا اس پر دیوبندیوں کو سخت تشویش اور تکلیف تھی۔جب باوجود کوشش کے دیوبندی اسکا توڑ نہیں کرسکے اور نہ ہی کوئی ایسی بات یا خامی تلاش کرسکے جس پر رائی کا پہاڑ بناتے تو انہوں نے گھٹیا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نادانستگی میں ہونے والی کتابت کی غلطیوں کو کذب سے تعبیر کرنے اور اسکی بنیاد پر علمائے اہل حدیث بشمو ل حافظ زبیر علی زئی پر سب و شتم اور طعن و تشنیع کا بہانہ ڈھونڈ ہی لیااور کتابت کی غلطیوں کو جھوٹ اور تحریف بنا کر حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے ایک ضخیم کتاب’’ تنبیہ الضالین علی تحریف الضالین‘‘ لکھ ماری۔کذب و افتراء کی دنیا میں یہ بھی دیوبندیوں کی نئی پیشکش و ایجادہے کیونکہ کتابت کی غلطیوں کو نہ تو کوئی کذبات میں شمار کرتا ہے اور نہ ہی انکی بنیاد پر کسی کو جھوٹا کہا جاتا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسی طرح کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ سے رہ جانے والی غلطیوں کو کوئی بھی جھوٹ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ان سے محفوظ رہنابہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ جھوٹ تو وہ ہے جو ذاتی مفاد کے لئے جان بوجھ کر بطور استدلال بولا جائے جیسے انوار خورشید دیوبندی نے صف بندی کا مذاق اڑاتے ہوئے گردن سے گردن ملانے والی’’ حدیث‘‘ گھڑ لی ہے اور اپنی کتاب’’حدیث اور اہلحدیث‘‘ کو جھوٹی اور مردود روایات سے استدلال کرتے ہوئے بھردیا ہے۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3،صفحہ 527)

یہی وجہ ہے کہ ہر مصنف اکثر و بیشتر اپنی تصانیف میں اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا نظر آتا ہے کہ کوئی بھی انسان غلطی اور خطاء سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتا اس لئے اسکی تصنیف میں کتابت وغیرہ کی غلطی رہ جانے کا امکان ہے اس لئے قارئین سے گزارش کی جاتی ہے کہ دوران مطالعہ نظر آنے والی غلطی کی نشاندہی کردیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اسکی تصحیح کردی جائے۔

دیوبندی عالم ابو القاسم محمد رفیق دلاوری رقمطراز ہیں:میں نے اپنی ناچیز استعداد کے مطابق کوشش کی ہے کہ واقعات کو ان کے صحیح رنگ میں پیش کروں۔تاہم میرا گمان ہے کہ کتاب غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔اس لئے اہل نظر سے ملتمس ہوں کہ جو جو اغلاط دیکھیں ازراہ عنایت مجھے مطلع کردیں۔تاکہ اگر اشاعت ثانی کی نوبت آئے تو ان کی اصلاح کردوں۔(ائمہ تلبیس،صفحہ 14)

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق و حواشی کے ساتھ شائع ہونے والی موطا کے ’’حرف اول‘‘ میں انکے شاگرد رشید حافظ ندیم ظہیرحفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: آخر میں عرض ہے کہ ہر قسم کی احتیاطی تدابیر کے باوجود غلطی کا احتمال بہر صورت رہتا ہے لہٰذا دوران مطالعہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور مطلع کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کی جاسکے۔(موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم،صفحہ 34)

خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام کی جلد اول کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: مصنف،کمپوزراور مراجعت کرنے والے جتنی بھی محنت کریں ، کوئی نہ کوئی خطااور لغزش رہ ہی جاتی ہے لہٰذا اگر کسی شخص نے اس کتاب میں کسی غلطی کی نشاندہی کی اور اپنے موقف کو دلیل سے ثابت کردیا تو میرا اعلان ہے کہ اعلانیہ اپنی غلطی سے رجوع کروں گا، کیونکہ باطل میں ضد اورجھگڑے سے حق کی طرف رجوع کرنے میں ہی خیر ہے۔( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،جلد اوّل، صفحہ 26)

کسی ایسی خامی اور کمزوری کی بنیاد پر مخالفین کو نشانہ پر رکھ لینا جس سے خود معترض کا بچنا بھی ممکن نہ ہو بلکہ وہ خود اس غلطی اور کمزوری کا شکار ہو۔ معترض کی اخلاقی پستی اور مزاج کی کمینگی کا آئینہ دار ہے۔اسی لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کی پچاس عدد غلطیاں یا سہو جمع کرکے آل دیوبند کو دعوت فکر د ی ہے اگر علمائے اہل حدیث کی کتابوں میں رہ جانے والی نادانستہ غلطیاں تمہارے نزدیک اکاذیب ہیں تو اپنی ایسی ہی غلطیوں پر تم کیا کہتے ہو؟ آل تقلید کا یہ دیوبندی فرقہ اس قدر ظالم اور نا انصاف گروہ ہے جو دوسروں کی آنکھوں کے تنکوں پر ہی نظر رکھتے ہیں،اپنی آنکھ کے شہتیرکی جانب نظر کرنے سے نہ تو انہیں کوئی غرض ہے اور نہ دلچسپی۔دوسروں کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ کی غلطیوں پر کذب کذب کا شور مچانے والے اپنے اکابرین کی قرآن و حدیث میں کئی گئی واضح تحریفات کو بھی بڑی آسانی سے سہو یا سبقت قلم کا نتیجہ قرار دے کر دوسروں سے امید رکھتے ہیں کہ مخالفین ان کی تلبیسات ، تاویلات، دجل و فریب کو آنکھ بند کرکے بلا دلیل تسلیم کرلیں جبکہ یہ خود دوسروں کے سہو اور مراجعت میں رہ جانے والی غلطیوں کو بھی بخشنے کے لئے تیار نہیں۔سعید احمد پالن پوری دیوبندی صاحب ایضاح الادلہ میں لکھتے ہیں: ایضاح الادلہ کے تمام ایڈیشنوں میں بجز آخری ایڈیشن کے،ایک آیت کریمہ کی طباعت میں افسوسناک غلطی ہوگئی تھی ۔بے لگام غیرمقلدین سے کتاب کا جواب نہ بن سکا تو اسی کو ہوّ ا بنا کر کھڑا کرکیا کہ مصنف نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے، حالانکہ وہ سبقت قلم تھی یا سہو کتابت تھا۔(ایضاح الادلہ،صفحہ44 )

دیکھیں سعید احمد پالن دیوبندی اپنے اکابر محمود الحسن دیوبندی کی دانستہ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قرآنی آیت میں کی گئی تحریف کو کتابت کی غلطی نہ ماننے پر کس طرح اہل حدیثوں پر گرج برس رہے ہیں۔حالانکہ جان بوجھ کر دفاع مذہب میں کی گئی اس قرآنی تحریف کا طباعت کی غلطی ہونامقلدین کا بدترین اور سیاہ ترین جھوٹ ہے۔کیونکہ خود محمود الحسن دیوبندی اپنے ہاتھوں سے اس گھڑی ہوئی آیت کو’’مسئلہ تقلید‘‘میں دلیل کے طور پر پیش کرکے اہل حدیثوں کو دعوت غورو فکر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ آیت بھی تو قرآن میں موجود ہے پھر تمھیں قرآن میں یہ آیت کیوں نظر نہیں آتی؟! چناچہ محمود الحسن دیوبندی قرآن کی آیت گھڑنے کے بعد فرماتے ہیں: آپ نے آیت ’’ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر‘‘ تو دیکھ لی ۔اور یہ آپ حضرات کو اب تک معلوم نہ ہوا کہ جس قرآن مجید میں یہ آیت ہے اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالا معروضہ احقر بھی ہے۔(ادلہ کاملہ،صفحہ 18، طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)

پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد محمود الحسن دیوبندی تقریباً چالیس سال زندہ رہے اور انکی چالیس سالہ حیات میں یہ کتاب تین مرتبہ اسی طرح شائع ہوئی لیکن نہ تو خود مصنف کو اور نہ ہی انکے ہم مذہبوں کو اس غلطی کا احساس اور ادراک ہوا ۔ ستم تو یہ ہے کہ اس تحریف کو قریب قریب سو سال کا طویل ترین عرصہ گزر جانے کے بعد جب اہل حدیث نے زور شور سے اس تحریف کے خلاف آواز بلند کی تو بدنامی اور رسوائی کے خوف سے دیوبندیوں نے چاروناچار اس تحریف کو کتابت کی غلطی کہہ کر جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی ورنہ ایک صدی بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے جس میں ہزاروں لوگ پیدا ہو کر مر کھپ جاتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ سو سال تک دیوبندی گونگے، بہرے اور اندھے بنے رہے نہ تو انہیں اپنے اکابر کی قرآنی تحریف نظر آئی ، نہ انکی سماعت سے اس شیطانی حرکت کی بابت کوئی آوازٹکرائی اور نہ ہی انہوں نے اس کا اعتراف کرنے اونہ ہی اس ’’دانستہ غلطی ‘‘ کوسدھارنے کی کوئی ضرورت محسوس کی؟! ان باتوں کا ایک ہی جواب ہے وہ یہ کہ دیوبندی و حنفی مذہب میں جھوٹی حدیثیں گھڑنا اور خود ساختہ قرآنی آیات تیار کرنا معمول کی بات ہے اور حمایت مذہب ان مقلدین سے یہ سنگین جرم کرواتی آئی ہے اور انکے اکابرین اور فقہاء یہودیوں کی عملی تصویر بنے ہوئے سماوی کتب میں تحریف، حد ک و اضافہ کی بیماری کا ہمیشہ سے شکارچلے آئے ہیں۔

پس حقیقت یہ ہے کہ محمود الحسن دیوبندی کی تحریف قرآن کوئی غلطی یا سہو نہیں تھابلکہ تقلید کو سند جواز عطا کرنے کے لئے یہ انکا سوچا سمجھا کارنامہ تھااس لئے آج دیوبندیوں کا اسے کتابت کی غلطی قرار دینا ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ہے۔ عامر عثمانی دیوبندی نے بھی اس ’’سہو یاافسوسناک غلطی یا کتابت کی لغزش‘‘ کا ان الفاظ سے پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ چناچہ موصوف اپنے ’’شیخ الہند ‘‘کی اس حرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کتابت کی غلطی اس لئے نہیں کہی جاسکتی کہ حضرت شیخ الہند کا استدلال ہی اس ٹکڑے پر قائم ہے جو اضافہ شدہ ہے اورآیت کا اسی اضافہ شدہ شکل کا قرآن میں موجود ہونا وہ شدومد سے بیان فرمارہے ہیں۔اولی الامر کے واجب الاتباع ہونے کا استنباط بھی اسی سے کررہے ہیں اور حیرت در حیرت ہے جس مقصد کے لئے یہ اصل آیت نازل ہوئی تھی ان کے اضافہ کردہ فقرے اور اس کے استدلال نے بالکل الٹ دیا ہے۔(تجلی دیوبند، نومبر 1962، صفحہ 61,62)

حیرت ہے !اسکے بعد بھی آل دیوبند اپنے اکابر کی قرآن میں تحریف کی اس جراء ت اور بے باکی کو غلطی اور سہو تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔سچ ہے کہ انکے ضمیر مردہ ہیں جن میں غیرت اور شرم کی کوئی معمولی چنگاری بھی باقی نہیں۔ایسے بے شرموں اور مکذبین کی جانب سے، جن کی دست درازیوں سے قرآن اور احادیث بھی محفوظ نہیں اہل حدیثوں پر کذبات کے جھوٹے الزامات کی وقعت اور حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔کیونکہ دوسرے کو جھوٹا کہنے اور ثابت کرنے سے پہلے خود سچا ہونا ضروری ہے۔ورنہ جو پہلے ہی سے ثابت شدہ جھوٹے ہوں انکے مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی حیثیت چور مچائے شور سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے؟

لیکن اسکے باوجود بھی چونکہ یہ ہٹ دھرم قسم کے دیوبندی کسی صورت اپنی نامعقول حرکتوں سے باز آنے والے نہیں تھے اس لئے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ دیوبندیوں کے اس منافقانہ، متعصبانہ اور دوغلے رویے کی وجہ سے اپنی تحریروں میں بہت زیادہ محتاط ہوگئے تھے یہی وجہ ہے کہ ماہنامہ ’’الحدیث‘‘کا مسودہ اپنی اشاعت سے تقریباًتین ماہ قبل ہی حافظ صاحب کے پاس موجود ہوتا تھا جس کی حتمی اشاعت تک بار بار جانچ پڑتال اور مراجعت کی جاتی تھی تاکہ رسالے میں طباعت کی کوئی غلطی نہ رہ جائے۔مجلہ الحدیث کی انتظامیہ کی طرف ایک اعلان شائع کیا گیا جس کے آغاز میں لکھا گیاکہ : قارئین کرام! رسالہ ’’الحدیث‘‘ میں علمی و تحقیقی معیار کے ساتھ ساتھ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ (مراجعت) پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر22 ، صفحہ2 )

زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی اسی احتیاط اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ رسالہ’’ الحدیث‘‘ میں طباعت کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

رسالے کے علاوہ اپنی کتب کی پروف ریڈنگ کا بھی زبیرعلی زئی صاحب خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔جس کی وجہ سے مجلے کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی کافی حد تک طباعت کی غلطیوں اور خطاؤ ں سے پاک و مبرا ہیں۔یہ ساری محنتیں، جتن اور کوششیں صرف اس لئے تھیں کہ مخالفین کے ہاتھ کوئی ایسی بات و غلطی نہ لگے جس کو بنیاد بنا کروہ اہل حدیث خصوصاً زبیرعلی زئی کے خلاف فضول اور زہریلا پروپیگنڈہ کرسکیں۔بے پناہ علمی مصروفیات کے باوجود اپنی کتابوں،فتاوؤں اور تحریروں وغیرہ میں اتنی اعلیٰ درجے کی احتیاط اور اہتمام ہمیں کسی اور عالم کے ہاں نہیں ملتا۔یہ حافظ موصوف رحمہ اللہ کا ہی خاصہ تھا۔ اس خاص الخاص اہتمام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اہم کام حافظ رحمہ اللہ خود کرتے تھے ۔ مجلہ الحدیث میں حافظ شیر محمد کی جانب سے ’’کمپوزنگ کی غلطیاں‘‘ کے عنوان سے ایک اعلان شائع ہوا تھاجس کا متن یہ ہے: عام قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ الحدیث:۶ کا شمارہ استاد محترم حافظ زبیرعلی زئی کی غیرموجودگی میں چھپا تھاجس میں کمپوزنگ کی غلطی سے یہ عبارت چھپ گئی۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر23،صفحہ 46)

اس اعلان سے واضح ہے کہ ’’الحدیث‘‘ کی پروف ریڈنگ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ خود کرتے تھے۔اس سلسلے میں ایک اور حوالہ پیش خدمت ہے جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب اپنی تحریروں اور مجلے کی پروف ریڈنگ اور غلطیوں کی درستگی میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور اکثر اوقات یہ کام اپنی نگرانی میں کرواتے تھے جیسے کہ انکے بیٹے حافظ معاذ علی زئی اپنے والد محترم سے متعلق اپنی یاداشت نقل کرتے ہوئے انکے روز مرہ کا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ناشتے کے بعد اکثر اوقات کمپیوٹر پر کمپوزر سے خود غلطیاں لگواتے تھے۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر115، صفحہ 47)
تنبیہ: اگر یہ عبارت طباعت و کتابت کی غلطی نہیں تو خالص دیہاتی انداز میں لکھا ہوا جملہ ہے جس کے معنی ہیں’’کمپوزر سے خود غلطیاں درست کرواتے تھے‘‘ واللہ اعلم

اپنی تحریروں اور کتابوں کی پروف ریڈنگ خود کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی حافظ صاحب اس کام میں اپنے ساتھیوں سے بھی مدد لیتے تھے جیسے کہ حافظ صاحب کی یہ عبارت اس پر گواہ ہے: خاص طو رپر میرے عزیز بھائی حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ اور برادرم ابوخالد عبدالمجید حفظہ اللہ کو دنیا و آخرت میں اجر عظیم اور جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اس عظیم کتاب کی تسوید اور پروف ریڈنگ میں میرے ساتھ تعاون کیا۔آمین۔(اختصار علوم الحدیث،صفحہ 10)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے تحریری کام کی کثرت اور تحقیقی کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے اکثر پروف ریڈنگ ، مراجعت، غلطیوں کی درستگی اور مفید اضافہ جات کا یہ اہم کام حافظ صاحب کے خاص اور قابل اعتماد شاگرد جناب حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے ہاتھوں بھی سرانجام پاتا تھا جن کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ایک جگہ بیان کیا تھا کہ مجھے اپنے شاگرد ندیم ظہیر پر پورا اعتماد ہے اور میرا اوران کا منہج ایک ہی ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے تحقیقی کام میں حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی محنت بھی شامل حال رہی ہے۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کی شکل میں جو علمی اور تحقیقی کام کے عظیم سلسلہ کا آغاز کیا تھااب حافظ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد اس کی ادارت کی اہم ترین ذمہ داری بھی حافظ ندیم ظہیر کے کندھوں پر ہے جسے وہ خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔والحمدللہ
وکیل ولی قاضی صاحب اپنے مضمون ’’دورہ سندھ کی چند یادیں‘‘ میں حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی بابت لکھتے ہیں: آپ شیخ رحمہ اللہ کے حقیقی معنوں میں علمی وارث ہیں اور شیخ رحمہ اللہ کی روایات کے بنیادی راوی بھی ہیں،نیز شیخ رحمہ اللہ کا جتنا بھی کام ہے آپ کی نظر ثانی کے بعد ہی منصہ شہود پر آیا ہے۔راقم کو شیخ رحمہ اللہ نے بتایا تھا کہ میرا جو بھی علمی کام ہے وہ حافظ ندیم چیک کرتے ہیں اور میں نے انہیں مکمل اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ جو چاہیں تبدیلی کریں...یعنی آپ شیخ رحمہ اللہ کے منہج کو سب سے بہتر جاننے اور سمجھنے والے ہیں......نیز شیخ رحمہ اللہ کی عظیم الشان نشانی ماہنامہ الحدیث کے مدیر بھی ہیں۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ نمبر119،صفحہ38,37)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
محدثین کا طریقہ کار تھا کہ معاصرین کے بارے میں کلام کرتے تھے اور انکے ثقہ یا غیرثقہ ہونے کو ضبط تحریر میں لے آتے تھے تاکہ آنے والوں کے لئے آسانی ہو اور وہ جان لیں کہ دین کن ہاتھوں سے لے رہے ہیں۔بالکل اسی طرز پر محدث دوراں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اپنے معاصرین کے بارے میں کلام کیا ہے اور انکے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی تفصیل بیان کی ہے۔جس دوران معاصرین پر جرح و تعدیل کا یہ کام جاری تھا اس دوران ایک جگہ اس کا اظہار کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: راقم الحروف کو علم اسماء الرجال سے والہانہ لگاؤ ہے، اس سلسلے میں’’انوار السبیل فی میزان الجرح والتعدیل‘‘ نامی کتاب لکھ رہا ہوں جو کہ معاصر علماء وغیرہم کی جرح وتعدیل پر ہے، میں نے بہت سے شیوخ سے جرح و تعدیل کے سوالات کئے تھے جن میں مولانا محب اللہ شاہ رحمہ اللہ برسرعنوان ہیں، آپ اسماء الرجال کے بہت ماہر اور عدل و انصاف سے کام لینے والے تھے ۔ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر2، صفحہ 36)

یہ اہم کام وہ اپنی زندگی ہی میں بہت پہلے مکمل کرچکے تھے لیکن اسکے منظر عام پر آنے کی نوبت اس لئے نہیں آسکی کہ انکے شاگردوں نے ایسے کام کے منصہ شہود پر لانے کی شدیدمخالفت کی تھی۔ انکے شاگردوں کا کہنا یہ تھا کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ اس طرز کا کام کیا جائے اور اسے منظر عام پر لایا جائے بلکہ ایسا کام پریشانی کا باعث ہوگا۔ جبکہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا موقف یہ تھا جب محدثین یہ کام کرتے رہے تو ہمیں ایسا کام کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ بہرحال شاگردوں کے مسلسل انکار اور مخالفت کی وجہ سے یہ اہم ترین کام گوشہ گمنامی میں پڑا رہا۔ اب جبکہ حافظ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کا تمام مطبوع اور غیرمطبوع تحریری سرمایہ انکے شاگردوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوچکا ہے جو پہلے ہی ایسے کام کرنے اور اسکو شائع کرنے کے مخالف تھے لہٰذا اب ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ہم شیخ کے اس قیمتی کام سے کبھی واقفیت اور استفادہ حاصل کرسکیں گے۔

حافظ زبیر صادق آبادی جو ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کے مستقل لکھاری ہیں انکی تحقیقی تحریریں راقم الحروف کو بہت پسند ہیں۔ ایک مرتبہ اچانک ’’الحدیث‘‘ میں انکی تحریروں کا سلسلہ رک گیا جس پر راقم کو تشویش ہوئی اور اصل صورتحال معلوم کرنے کے لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے رابط کیاتو انہوں نے فرمایا کہ زبیر صادق صاحب نے صحابی رسول سے متعلق اپنا ایک موقف پیش کیا تھا جو انہیں سخت ناگوار گزرا اور انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انکے مضامین بند کردیے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اب ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ زبیر صادق آبادی نے نہ صرف ان سے معذرت کی ہے بلکہ اپنے موقف سے بھی رجوع کرلیا ہے اس لئے انکے مضامین کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کردیا گیا ہے۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ اصولوں کے بہت پکے تھے اور دینی معاملات میں غلط بات کسی کی بھی برداشت نہیں کرتے تھے اور اس سلسلے میں انکا رویہ اپنو ں اور بیگانوں سے یکساں ہوتا تھا۔

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کی کیفیت کیسی ہو یعنی چھوڑے جائیں یا باندھے جائیں اس کے متعلق احادیث میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذاوضع الیدین بعدالرکوع یا ارسال الیدین بعد الرکوع خالصتاً ایک اجتہادی مسئلہ ہے اس لئے ہر شخص کو اپنی تحقیق پر عمل کرنا چاہیے۔ برصغیر پاک وہند میں وضع الیدین بعد الرکوع کا مسئلہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ سے پہلے کہیں نہیں ملتا غالباً بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ہی پاکستان میں اس مسئلہ کے بانی ومبانی ہیں۔بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اس خاص مسئلہ میں انکی تحقیق سے متاثر ہوکر رکوع کے بعد ہاتھ باندھتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے مزید تحقیق کی وجہ سے اس مسئلہ سے رجوع کرلیا تھا اور رکوع کے بعد قیام میں ارسال کرنا شروع کردیا تھا اور اس عمل کو راجح قرار دیتے تھے۔لہٰذالکھتے ہیں: رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھے چاہئیں یا نہیں ، اس مسئلہ میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھیں جائیں۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر1، صفحہ 11)

حافظ زبیرعلی زئی صاحب اپنے استاد محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: سید بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے اور آپ ہاتھ چھوڑنے ،ارسال الیدین کے قائل تھے۔ان دنوں میں راقم الحروف کی تحقیق بھی ہاتھ باندھنے (وضع الیدین) کی تھی ، اس کے باوجود آپ نے اپنی کتاب ’’نیل الامانی و حصول الآمال‘‘ بھیجی تاکہ میں اس پر تبصرہ لکھوں، تاہم بعض وجوہ کی رو سے یہ تبصرہ نہ لکھا جاسکا، بعد میں راقم الحروف کی تحقیق بدل گئی اور اب میں رکوع میں ہاتھ چھوڑنے کو راجح سمجھتا ہوں اور اسی پر عمل ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 2، صفحہ 35)

جب حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے امین اوکاڑوی کی زندگی میں اسکے خلاف ’’امین اوکاڑوی کا تعاقب‘‘ لکھ کر اسکی دھوکہ دہیوں کو عوام الناس کے سامنے آشکار کیا تو انتہائی گندی فطرت کے حامل اور دیانت اور امانت سے کوسوں دور امین اوکاڑوی نے اپنی کتابوں میں بہت سی ایسی عبارات کوچپ چاپ بغیر کسی وضاحت کے تبدیل اور حذف کردیاجن پر اعتراض کیا گیا تھا۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو اندازہ تھا کہ امین اوکاڑوی کی زریت بھی اسے رستے پر چلے گی اس لئے اسکے سدباب کے لئے انہوں نے مخالفین کا حوالہ دیتے وقت ان کی کتابوں کی طبع کی تاریخ بھی شامل کرنا شروع کردی۔اور پھر ایسا ہی ہوا کہ دیوبندیوں نے اپنے علماء کی متنازعہ عبارتوں کو تحریف و حذف کا نشانہ بنانا شروع کیا پھران تحریف شدہ عبارتوں کو اصل قرار دے کر اہل حدیثوں پر کذب کا الزام لگانا شروع کردیا کہ دیکھو ہمارے عالم کی کتاب میں تو سرے سے وہ عبارت ہی موجود نہیں جس کا حوالہ زبیرعلی زئی نے اپنی کتاب میں دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی نے دیوبندی علماء پرجھوٹ بولا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ پر اللہ اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ انکے حوالوں میں کتابوں کے طبع کے سن و تاریخ کی موجودگی نے اس گھٹیادیوبندی حربہ پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے بلکہ انکا محرف اور جھوٹا ہونا ثابت کردیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ: حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے جہاں سے ملے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔(الحدیث) اسکے مقابلے پر دیوبندی وہ فرقہ ہے جواپنی مطلب برآوری اور دفاع مذہب کے لئے جہاں سے جو بھی بری خصلت، بری چیز، بری بات ملے بخوشی اختیار کرلیتا ہے اور اسے اپنی گمشدہ متاع جانتا ہے۔جیسے حدیث اور سنت کا اختراعی نظریہ منکرین حدیث کا ہے اور دیوبندی اکابرین کا موقف اس کے خلاف ہے لیکن متاخرین دیوبندیوں نے جب منکرین حدیث کے اس نظریہ کو مفید مطلب جانا تو فوراً اختیار کرلیا ۔

اسی طرح رافضیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ جیسے ہی مخالفین انکی کسی کتاب کی عبارت کا حوالہ دینے لگتے ہیں وہ فوراً اس میں تحریف کرکے اصل عبارت پیش کرنے والے کو جھوٹا کہنے لگتے ہیں۔مسلمان کہلانے والوں میں شاید ہی کوئی فرقہ ایسا ہو جس نے اپنی کتابوں میں اس کثرت سے تحریفات کی ہوں جتنی رافضیوں نے اپنی کتابوں میں کی ہیں اب چونکہ رافضیوں کا یہ حربہ بے ضمیر لوگوں کے لئے بڑا ہی دلکش اور وقتی طور پرمخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے بڑا ہی موثر ہے لہٰذا یہاں بھی دیوبندیوں نے رافضیوں کے نقش قدم پر چلنے میں زرا بھی دیر نہیں کی بلکہ رافضیوں کے مقابلے میں خود کو اس خصلت کا زیادہ حق دار جانا کیونکہ جس طرح اچھی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے وہ اسے جہاں پاتا ہے لے لیتا ہے اسی طرح بری بات،بری خصلت دیوبندیوں کی گمشدہ چیز ہے لہٰذا انہیں یہ جہاں نظر آتی ہے اختیار کرلیتے ہیں۔

حافظ رحمہ اللہ نہ صرف دیوبندیوں اور بریلویوں کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے بلکہ ان کا موقف اہل باطل مثلاً دیوبندیوں اور بریلویوں کو سلام نہ کرنے کا بھی تھا۔ بدعتیوں کے ساتھ تعامل کے معاملے میں حافظ صاحب کا موقف بہت واضح اور دو ٹوک تھاجو انکے مقالات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ حدیث کی رو سے بدعتی کی تعظیم کے حق میں نہیں تھے جبکہ بدعتیوں کو سلام کرنا اور انکے پیچھے نماز ادا کرنا انکی تعظیم کرنا ہی ہے جو کہ اس صحیح حدیث کی مخالفت ہے جسے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔چناچہ حافظ صاحب رقمطراز ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،صفحہ11)

راقم الحروف نے ایک مرتبہ بذریعہ خط حافظ صاحب سے دیوبندیوں اور بریلویوں کو سلام کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ دریافت کیا تھا۔ خط کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: مجھے اہل حدیث ہوئے تین،چار سال ہوچکے ہیں ۔لیکن باوجود مطالعہ،انٹرنیٹ سرچنگ اور علمائے کرام سے ملاقات کے ایک مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا، وہ مسئلہ گمراہ اور بدعتی فرقوں کو سلام کرنے کا ہے۔میری تحقیق کے مطابق اس مسئلہ میں دو قسم کے علمائے کرام ہیں ، ایک وہ جو ہر مسلمان چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ،اسکو سلام کرنے اور اسکے سلام کا جواب دینے کو جائز رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو صرف اسی کے لئے سلام کو جائز کہتے ہیں جو ہدایت کی پیروی کررہا ہو۔گمراہ فرقوں کے بارے میں ایک موقف یہ بھی ہے کہ جو شرک میں مبتلا ہے اسکو ہرگز سلام نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے سلام کا جواب دیا جائے۔لیکن جس کی گمراہی کم درجے کی ہو اسے ضرورت کے تحت سلام کیا جاسکتا ہے، مثلاً اگر اسے حق کی دعوت دینی ہو یاسلام نہ کرنے کی صورت میں کسی فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس میں صواب کیا ہے؟ خاص طور پر دیوبندی اور بریلوی فرقوں کے ساتھ ہمیں کیسا سلوک کرنا چاہیے برائے مہربانی تفصیلی جواب دے دیں۔

اسکے جواب میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: اس سوال کا جواب میری کتاب ’’بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم‘‘ میں ہے۔ کسی طرح اس کتاب کو حاصل کرکے پڑھ لیں۔(بحوالہ مکتوب)

جب میں نے اس کتاب کوحاصل کرکے پڑھا تو مجھے اس کتاب میں صراحتاً اپنے مسئلہ کا جواب نہیں ملا۔ لیکن اس میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ دیوبندیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں: دلائل مذکورہ اور دیگر دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دیوبندیت ایک گمراہ فرقہ ہے۔سلفی علماء نے دیوبندیوں کا بدعتی ہونا دلائل و براہین سے ثابت کیا ہے۔(بدعتی کے پیچھے نماز کاحکم، صفحہ 29)

جب ان سے سوال ہو ا کہ کیا دیوبندی عقیدے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہے؟ تو انہوں نے سلف کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا: ائمہ اہل سنت کے ان اقوال سے معلوم ہو اکہ جس شخص کی بدعت شدید اور خطرناک ہو تو اسکے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے ۔اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،صفحہ 11)

اس پوری کتاب میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کو شدید اور خطرناک بدعتی ثابت کیا ہے۔جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے: ان سطور سابقہ سے صاف ظاہر ہے کہ دیوبندی حضرات اہل بدعت ہیں اور جہمیہ کی طرح ان کی بدعت شدید اور خطرناک ہے لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،صفحہ 34)

اندازہ کرلیں کہ جب بدعت کبری کے مرتکبین دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں تو انہیں اور ان سے بھی خطرناک عقائد والے بدعتی بریلویوں کو سلام کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ حافظ صاحب نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے: عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،صفحہ 12)

راقم الحروف نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے کلام سے جو مسئلہ استنباط کیا ہے بعد میں دوران مطالعہ یہی مسئلہ خود ان کے اپنے الفاظ میں بھی مل گیا۔ملاحظہ ہو حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں: سنن ترمذی کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ نے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (بدعت کبریٰ والے)اہل بدعت کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔جب سلام کا جواب مشروع نہیں ہے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر39،صفحہ 5)

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک دیوبندیوں اور بریلویوں کے پیچھے نماز جائز نہیں اور نہ ہی انہیں سلام کرنا اور انکے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا رد باطلہ پر کثیر کام دیوبندیوں کے خلاف ہے جبکہ بریلویوں کے خلاف کیا گیا کام برائے نام ہے۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب خود دیوبندی مسلک سے اہل حدیث مسلک کی طرف آئے اس لئے دیوبندی مسلک سے آگاہی زیادہ تھی اور انکی کتابوں پر نظر بھی گہری تھی لیکن بریلویوں کی کتب سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔اسی لئے ان کے خلاف کام بھی بہت کم ہے۔

حنفی مذہب کی مستند کتابوں کی رو سے مقلد پر قول امام کو ماننا واجب ہے اور قول امام سے کسی صورت روگردانی درست نہیں چاہے وہ کتاب وسنت کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔چونکہ حنفی مذہب باطل مذہب ہے اس لئے اس مذہب کے پیروکار بوقت ضرورت اپنے افکار و نظریات اور اصول وغیرہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اتنی تیزی سے اور جلدی طوائف اپنے یار نہیں بدلتی جتنی جلدی اور تیزی سے حنفی اپنے اصول بدل لیتا ہے۔پہلے حنفیوں پر امام کا ہر قول حجت تھا بعد میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم حنفی مذہب کا صرف مفتی بہاقول ہی تسلیم کرتے ہیں اور صرف غیرمنصوص مسائل میں ہی ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔ حنفیوں کے وقت کے ساتھ بدلتے انداز کو دیکھتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے تقلید کی ایک نئی تعریف وضع کی جو انکے احوال کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقم کرتے ہیں: جدید مقلدین کے طرز عمل کی رو سے ’’کتاب وسنت کے مخالف و منافی قول ماننے کو تقلید کہتے ہیں۔(دین میں تقلید کا مسئلہ،صفحہ80 )

اس سے قبل تقلید کی یہ جدید اور مناسب تعریف حافظ عبدلمنان نور پوری رحمہ اللہ نے کی تھی جیسا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں: تقلید بلا دلیل کی تمام قسمیں غلط و باطل ہیں لیکن تقلید کی یہ قسم انتہائی خطرناک اور گمراہی ہے ۔یہی وہ قسم ہے جس کی اہل حدیث و سلفی علماء و عوام سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارے استاد حافظ عبدالمنان نورپوری ، اس تقلید کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: ’’تقلید یعنی کتاب وسنت کے منافی کسی قو ل و فعل کو قبول کرنا یا اس پر عمل پیرا ہونا ‘‘(احکام ومسائل ،ص۵۸۱)۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 23)

بطور فائدہ عرض ہے کہ سہہ ماہی مجلے ’’اہل الحدیث،ملتان‘‘ کے مدیر و بانی شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ بھی تقلید کی ہمیشہ یہی تعریف کرتے ہیں اور انہوں نے بھی یہ تعریف اپنے استاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ ہی سے اخذ کی ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے رد باطل کے کام کو ایک نیا اسلوب اور ڈھنگ دیا جو انکے کام کو باقی علمائے اہل حدیث کی علمی کوششوں سے ایک الگ، منفرد اور ممتاز درجہ عطاء کرتا ہے۔اسی سلسلے میں ان کا ایک علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ صدیوں سے حنفیوں اور اہل حدیثوں کے مابین اختلاف کا باعث بننے والے بعض معرکتہ الآرا فروعی مسائل جیسے تقلید، رفع الیدین، آمین بالجہر، قراء ت خلف الامام اور تراویح وغیرہ پر ایسی کتابیں تصنیف کیں جو مکمل اور جامع ہیں اور ہر کتاب اپنے موضوع پرایک انسائکلو پیڈیا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی یہ تصنیفات قاری کو اس موضوع پر دیگر کتب کے مطالعہ سے بے نیاز کردیتی ہیں خاص طور پر باطل پرستوں کے پھیلائے گئے شکوک شبہات کے ازالے کے لئے یہ تصنیفات لاجواب ہیں۔حافظ صاحب نے ایک موضوع پر باطل پرستوں کے تمام دلائل ایک جگہ یکجا کرکے ان سب کے جوابات دے دئے ہیں۔اس طرح قاری جب ان کتب کا مطالعہ کرتا ہے تو بخوبی جان لیتا ہے کہ اس موضوع پر اہل باطل کے پاس کون کون سے اور کتنے نام نہاد دلائل ہیں اور ان سب کے معقول جوابات کیا ہیں اس طرح قاری کو ایک ہی موضوع پر دیگر کتابوں کی طرف رجوع اور انکی ورق گردانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ مسئلہ تراویح سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں: ’’تراویح‘‘ کے موضوع پر اس کتاب کو آپ ان شاء اللہ ان تمام کتابوں کے رد کے لئے کافی پائیں گے جنھیں تقلید پرستوں نے اپنے اپنے نظریات کی تائید کے لئے لکھ اور پھیلا رکھا ہے۔(تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ،صفحہ 14)

اسی طرح مرد و زن کے طریقہ نمازکے فرق پر لکھے گئے اپنے ایک مختصر مگر جامع مضمون بنام’’مردو عورت کی نماز میں فرق اورآل تقلید‘‘ کی بابت حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس مضمون میں آل تقلید کے تمام دریافت شدہ شبہات کا جوا ب آگیا ہے۔والحمدللہ۔ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر13،صفحہ31 )

تقلید کے موضوع پراپنی ایک جامع تصنیف کے بارے میں حافظ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قارئین کرام! مسئلہ تقلید میں رب نواز دیوبندی کے اعتراضات و بیت العنکبوت کا مسکت و مدلل جواب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘ میں موجود ہے، لہٰذا اصل کتاب کا مکمل مطالعہ کریں۔آپ پر آل دیوبند کے اکاذیب، افتراء ات اور مغالطات کا باطل ہونا خود بخود واضح ہوجائے گا۔ان شاء اللہ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ 33)

ہر موضوع پر حافظ صاحب رحمہ اللہ کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ باطل پرستوں کے ماضی سے لے کر اب تک تمام دریافت شدہ مغالطات و شبہات کا ازالہ کرکے ایک ایسی کتاب لکھی جائے جو قاری کی تسلی و تشفی کے لئے کافی ہو اور اس موضوع پر قاری کو کسی اور کتاب کی تلاش کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ اپنے ایک مضمون کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ راقم الحروف کے تحقیقی مضمون ’’التاسیس فی مسئلۃ التدلیس‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کریں یا اگر مطالعہ کیا تھا تو دوبارہ مطالعہ کریں،آ پ ان شاء اللہ منکرین تدلیس کے تمام شبہات اور وساوس کے مسکت جوابات پائیں گے۔(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ228 )

ایک ہی موضوع پرتمام متعلقہ مسائل اور اہل باطل کے شکوک و شبہات کا احاطہ کرلینا اور موضوع کو جامعیت عطاکرنا، حق بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم کام و دینی خدمت ہے جو حافظ موصوف رحمہ اللہ کے حصہ میں آئی۔ یہاں رفع الیدین کے موضوع پر شیخ کی مایہ ناز تصنیف ’’نور العنین فی مسئلہ رفع الیدین‘‘ کا ذکرکرنابھی مناسب ہے کہ شیخ نے اس موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے منکرین رفع الیدین کے ادنی سے ادنی اعتراض کا بھی ٹھوس اور مدلل جواب دے کر اس موضوع پر بحث و تحقیق سے اہل حدیث کو بے فکر کردیا ہے ۔انہوں نے اس موضوع کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جس میں زرا سی بھی تشنگی باقی رہنے دی ہواور نہ ہی مخالفین کے پاس ایسا کوئی مغالطہ اور فریب باقی رہنے دیا جس کے ذریعے وہ کسی مسلمان کو اپنے دام فریب میں لا سکیں۔والحمدللہ
شیخ محترم نے یہ لاجواب اور شاہکار کتاب اس وقت تصنیف کی جب آپ ابھی صرف طالب علم تھے۔چناچہ خود ہی لکھتے ہیں: میری زمانہ طالب علمی کی لکھی ہوئی کتاب’’نورالعینین فی اثبات رفع الیدین‘‘میں غلطی سے درج ذیل عبارت چھپ گئی ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر23،صفحہ 57)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ’’اکاذیب آل دیوبند‘‘ کے نام سے ایک منفرد کتاب تصنیف کی ہے جو کہ اب تک غیرمطبوع ہے۔ اس میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے جو اسلوب اپنا یا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دیوبندی اکابر کا نام اور اسکا واضح اور صریح جھوٹ لکھا ہے ۔اس سلسلے میں بعض حوالے تو ایسے درج کئے ہیں جن میں دیوبندی اکابرین نے خود اپنے منہ سے اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کیا ہواہے۔ پھر دیوبندیوں کی زبانی اس اکابر کا تعارف اور دیوبندیت میں اس کا مقام ومرتبہ درج کیا ہے پھر اس دیوبندی اکابر کی بعض اہم اور مشہور تصانیف کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اسکی کتابوں سے اس اکابر کے بعض اہم عقائدو نظریات پیش کئے ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کتاب کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: ان وعیدوں کے باوجود بہت سے لوگ مسلسل دن رات اکاذیب و افتراء ات گھڑتے اور سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے دیوبندی حضرات نے کذب و افترا کو اپنا شیوہ و شعار بنا رکھا ہے۔راقم الحروف نے اس کتاب میں بعض دیوبندی ’’علماء‘‘اور مصنفین کے بعض اکاذیب (جھوٹ)اور افتراء ات باحوالہ جمع کرکے عوام و خواص کی عدالت میں پیش کردئیے ہیں تاکہ کذابین کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجائے۔نیز کذابین کا تعارف اور ان سے متعلقہ بعض ضروری معلومات بھی لکھ دی ہیں جن سے مفتریوں کی سیرت اور عقائد ظاہر ہوجاتے ہیں۔(اکاذیب آل دیوبند،صفحہ 5)

راقم الحروف نے اس کتاب کا 160 صفحات پر مشتمل جو نامکمل نسخہ دیکھا ہے اس میں تقریباً دس دیوبندی اکابرین و علماء کا تعارف اور ان کے جھوٹ بیان کئے گئے ہیں جبکہ اصل کتاب اس سے کہیں ضخیم ہے۔
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے اکاذیب اور علمی مقام سمجھنے کے لئے دیکھئے میری کتاب ’’اکاذیب آل دیوبند‘‘(قلمی ص 180 تا187) ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر16 ،صفحہ36)

اس حوالے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب 180 صفحات سے بھی متجاوز ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک انتہائی منفرد اور قیمتی کتاب ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک خطرناک بھی اس لئے حافظ رحمہ اللہ کو مشورہ دیا گیاکہ اسے اپنے نام کے بجائے فرضی نام سے شائع کروادیں لیکن انہوں نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیااور نہ ہی کوئی اشاعتی ادارہ اس کتاب کی اشاعت پر تیار ہوا۔نہ جانے یہ کتاب کب شائع ہوگی اور ہوگی بھی یا نہیں؟

بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ علمائے اہل حدیث کی کتنی ہی کتابیں ایسی ہیں جو باطل پرستوں کے خوف کی وجہ سے یا تو منصہ شہود پر نہیں آتیں یا پھر شائع ہونے کے بعد بند ہوجاتی ہیں۔ علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ کی تقریباً تمام ہی کتابوں پر پابندی عائد ہے اگرچہ چوری چھپے شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن اعلانیہ شائع نہیں ہوسکتیں۔ارشاداللہ مان حفظہ اللہ نے حنفی بریلویوں کے رد میں’’تلاش حق‘‘ نامی کتاب لکھی تھی ۔ جس کی ایک عبارت کو لے کر بریلویوں نے اس قدر احتجاج کیا کہ بالآخر کتاب کی اشاعت پر ہی پابندی لگوادی۔ بعد میں مجبوراً اس کتاب کا نام تبدیل کرکے اور متنازعہ عبارت حذف کرکے اسے شائع کرنا پڑا۔اسی طرح مبشر احمد ربانی کی ایک بہترین کتاب ’’کلمہ گو مشرک‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب تھی۔جو اب اس نام سے شائع نہیں ہورہی بلکہ کسی مصلحت یا خوف کی بناء پر اس کتاب کا نام تبدیل کرکے ’’کلمہ گو مسلمان اور شرک‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔دارلاندلس نے الولاء والبراء کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب بعنوان’’دوستی اور دشمنی‘‘ شائع کی تھی جو اپنی اشاعت کے فوراً بعد ہی مارکیٹ سے ایسی غائب ہوئی جیسے ’’دارلاندلس ‘‘کو کسی نے اس کتاب کی اشاعت پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہوں۔اسی طرح ایک بہترین کتاب ’’رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا‘‘ جس کے مصنف حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ہیں اور اسے زیور طباعت سے ’’دارلسلام‘‘نے آراستہ کیا ہے، ایک عرصہ سے شائع ہونا بند ہوگئی ہے شاید اسکی اشاعت بھی کسی نامعلوم مصلحت یا انجانے خوف کا شکار ہوگئی ہے۔واللہ اعلم
راقم الحروف کو مستند ذرائع سے علم ہوا ہے کہ دارلسلام کے لاہور ہیڈکوارٹر میں اس موثر کتاب(رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا) کی اشاعت رکوانے کے لئے مخالفین کی جانب سے باقاعدہ فون کرکے دھمکیاں دی گئی تھیں۔جس پر دارلسلام نے آمنا وصدقناکہتے ہوئے کتاب کی اشاعت روک دی ہے۔
ماضی میں علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ کی شیعہ و اہل بیت کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کا نام تبدیل کرکے اسے زیور طباعت سے آراستہ کیا گیا ہے۔شیعوں کے رد میں مکہ مکرمہ کے عالم ڈاکٹر عثمان بن محمد ناصری آل خمیس کی پاکستان میں شائع ہونے والی کتاب ’’آئینہ ایام تاریخ‘‘ کا نام بدل کرنامعلوم وجوہات کی بنا پر ’’صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ‘‘ کردیا گیا ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ سید طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’دیوبندیت‘‘ کی مزید اشاعت عرصہ دراز سے رکی ہوئی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ اہل حدیثوں کو خوف کی بنا پر مصلحتوں کا شکار ہونے سے بچائے۔آمین

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا انداز تھا کہ اپنی تحریروں میں اکثر اوقات اپنی ایسی کتابوں کے حوالے بھی دیتے تھے جو قلمی اور غیرمطبوعہ ہوتی تھیں اوران کتابوں تک ان کے علاوہ کسی اور کی رسائی اور پہنچ نہیں ہوتی تھی۔جیسے ایک مقام پر حافظ صاحب رقمطراز ہیں: میں نے یہ جتنے حوالے پیش کئے ہیں دیوبندیوں کی اصل کتابوں سے خود نقل کرکے پیش کئے ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی بے شمار حوالے ہیں جن میں سے بعض کے لئے میری کتاب’’اکاذیب آل دیوبند‘‘کا مطالعہ مفید ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر23،صفحہ 45)
اب یہاں شیخ صاحب جس کتاب کے مطالعہ کو مفید قرار دے رہے ہیں وہ آج تک شائع ہی نہیں ہوئی۔

شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شیخ ربیع نے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی جو گستاخی کی تھی اس سے علانیہ توبہ کرلی ہے۔یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔شیخ ربیع کا مختصر اور جامع ذکر میں نے انوار السبیل فی میزان الجرح و التعدیل میں لکھا ہے (ص۶۷)۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر11،صفحہ41 )
اس تحریر میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اپنی جس قیمتی تصنیف کا حوالہ دیا ہے وہ ان کی زندگی ہی میں مکمل ہوجانے کے باوجود آج تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکی۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی غیرمطبوعہ تصنیفات میں اپنی نوعیت کی انتہائی منفرد اور نایاب تصنیف ’’الاسانیدالصحیحۃ فی اخبار الامام ابی حنیفۃ‘‘ بھی ہے جس کے حوالے وہ اکثر اپنی تحریروں میں دیتے رہتے تھے۔مثلاً

حافظ صاحب نے ایک جگہ لکھا: امام احمد سے امام ابوحنیفہ کی توثیق و تعریف قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ جرح ہی جرح ثابت ہے جس کی تفصیل میری کتاب ’’الاسانیدالصحیحۃ فی اخبار الامام ابی حنیفۃ‘‘ میں درج ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر27،صفحہ 21)

ایک مقام پر حافظ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ سند صحیح ہے،دیکھئے الاسانید الصحیحہ (ص۲۴۲)۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر7،صفحہ15)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: محمد بن سعدالصوفی بذات خود ضعیف ہے،دیکھئے تاریخ بغداد (ج۵ص۳۲۳) و الاسانیدالصحیحہ (ص۵۹)۔ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر7،صفحہ14)

اسی طرح لکھتے ہیں: تفصیل کے لئے الاسانید الصحیحہ کا مطالعہ مفید ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 219)

ان حوالہ جات میں چونکہ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ تحقیق کے لئے اپنی کتاب کی جانب رجوع کی دعوت دے رہے ہیں اورچونکہ عام طور پرمصنف عوام الناس کے سامنے صرف اپنی مطبوعہ کتابوں کے ہی حوالے پیش کرتا ہے اس لئے میری دانست میں یہ کتاب بھی شائع شدہ تھی لیکن مجھے مارکیٹ میں کہیں مل نہیں رہی تھی۔بس یہی بات جاننے کے لئے جب میں نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے ٹیلیفونک رابطہ قائم کیا اور پوچھا کہ یہ کتاب کہاں دستیاب ہے جس کا حوالہ آپ اپنی تحریروں میں دیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کتاب شائع نہیں ہوئی اور اگر آپ یہ کتاب دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو آپکو حضرو تشریف لانا پڑے گا،پہلے ہم آپکے ہاتھ باندھیں گے پھر کتاب دکھائیں گے تاکہ آپ کتاب لے کر نہ بھاگ جائیں اور یہ بھی کہا کہ میری زندگی میںیہ کتاب شائع نہیں ہوسکتی، میری موت کے بعد ہی یہ کتاب شائع ہوگی۔

اس کتاب میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے 100(ایک سو)سے زائد محدثین کے حوالوں سے ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف ہونا ثابت کیا ہے۔جیسا کہ خود ہی فرماتے ہیں: بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے)امام صاحب پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،جلد اول،صفحہ 189)
اللہ سے دعا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کی فوری سبیل پیدا فرمادے۔آمین یا رب العالمین
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، بہت ہی عرق ریزی اور محنت سے مضمون ترتیب دیا گیا ہے ، اور حافظ زبیر علی زئی صاحب کی ’’ عالمانہ شخصیت ‘‘ کے مختلف پہلوؤں پر ایک بہترین معلوماتی اور تحقیقی تحریر ہے ۔
شاہد بھائی آپ نے ورڈ سے مضمون کاپی کیا ہے جس کی وجہ سے فونٹ ذرا چھوٹا ہے ، اگر اس کی فارمیٹنگ وغیرہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ ’’ سیلکٹ آل ‘‘ کرکے ایڈیٹر کے بائیں طرف موجود ’’ ٹی ایکس ‘‘کو ایک دفعہ دبا لیں اور پھر فارمیٹنگ وغیرہ کریں ، تو قارئیں کافی مشقت سے بچ جائیں گے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ابتداء میں وکیل سلفیت علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ کی مایہ نازکتاب اللمحات کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ کے بارے میں موقف برحق اور موجودہ دور کے عام علمائے اہل حدیث کے برعکس بہت سخت تھاحتی کہ انہیں ابوحنیفہ کے مسلمان ہونے میں بھی شک تھا(اس بات کا راقم الحروف کے پاس تحریری ثبوت موجود ہے لیکن اسے خلاف مصلحت جانتے ہوئے پیش کرنے سے قاصر ہے)لیکن بعد میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق بدل جانے یا مصلحت وقت کی وجہ سے ابوحنیفہ کے بارے میں انکے خیالات میں تغیر پیدا ہوگیا تھااور رویے میں کافی نرمی آگئی تھی اور وہ ابوحنیفہ کو کم ازکم عالم تسلیم کرنے لگے تھے ،چناچہ لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ عالم تھے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر60،صفحہ 26)

حافظ صاحب اہل حدیث کے عقیدہ کے تحت لکھتے ہیں: ہم تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مسلمین مثلاً امام مالک،امام شافعی،امام احمد بن حنبل ، امام ابوحنیفہ ، امام بخاری، امام مسلم،امام نسائی، امام ترمذی، امام ابوداود، امام ابن ماجہ وغیرہم رحمہم اللہ سے محبت اور پیار کرتے ہیں اور جو شخص ان سے بغض رکھے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر3،صفحہ 5)

فائدہ: حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے ایک ویڈیو بیان میں اہل حدیث کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ اہل حدیث اس کو کہتے ہیں جوقرآن و حدیث اور اجماع کو حجت سمجھتا ہے اور قرآن و حدیث پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرتا ہے اور اسی طرح سارے صحابہ کرام سے محبت کرتا ہے ،صحابہ کرام کی گستاخی نہیں کرتاجتنے بھی ثقہ تابعین تھے اور تبع تابعین تھے جو ثقہ تھے قابل اعتماد ،ان سے محبت کرتا ہے،ان کا احترام کرتا ہے۔(یوٹیوب پرویڈیو دیکھئے0 Questions Sheikh Zubair Ali Zai 4،3:18 )

یہاں کسی شخص کے اہل حدیث ہونے کے لئے حافظ صاحب نے ثقہ تابعین اور ثقہ تبع تابعین سے محبت کی شرط لگائی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ کے غیر ثقہ ہونے پر حافظ صاحب نے خود ایک کتاب لکھی ہے چناچہ ثابت ہوا کہ ابوحنیفہ سے نہ تو محبت رکھنا ضروری ہے اور نہ ان سے بغض رکھنے والے سے بغض رکھنا جائز ہے۔ بلکہ اصحاب ابی حنیفہ سے بغض رکھنے پر ثواب حاصل ہونے کا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بطور رضامندی نقل کیا ہے ،دیکھئے:رقم فرماتے ہیں: امام اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد سے پوچھا: ’’یو جر الرجل علیٰ بغض اصحاب ابی حنیفۃ؟‘‘ کیا آدمی کو اصحاب ابی حنیفہ سے بغض پر کوئی ثواب ملے گا؟ انھوں نے فرمایا: ’’ای واللہ‘‘ ہاں ضرور ملے گا، اللہ کی قسم!(ماہنامہ اشاعۃالحدیث، شمارہ نمبر104،صفحہ 22)

تنبیہ: مندرجہ بالا حوالہ نقل کرنے سے پہلے ایک جگہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: امام احمد اصحاب ابی حنیفہ سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ...الخ۔(ماہنامہ اشاعۃالحدیث، شمارہ نمبر108،صفحہ 20)
عرض ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اگر اصحاب ابی حنیفہ سے نفرت کرتے تھے توان کے امام، ابوحنیفہ سے بھی محبت نہیں کرتے تھے بلکہ ابوحنیفہ کی تعریف احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں صرف جرح ہی جرح ثابت ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ابوحنیفہ سے نفرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابوحنیفہ کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اصحاب ابی حنیفہ سے بغض رکھنے پر ثواب حاصل ہونے میں ابوحنیفہ کی ذات بھی ضرور بالضروربلکہ بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جس راستے پر امام چل رہا تھا اس راستے پر چلنے کی وجہ سے اسکے شاگردوں اور متبعین سے بعض رکھنا تو باعث ثواب ہو اور امام سے نہ ہو؟
پس معلوم ہوا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ سے محبت کرنے اور ان سے بغض رکھنے والے سے بعض رکھنے کو اہل حدیث کاعقیدہ قرار دینا خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اپنے اصول سے غلط و مردود ہے۔

راقم الحروف کے نزدیک حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی ابوحنیفہ سے متعلق رویے میں آنے والی تبدیلی کا سبب تحقیق ہر گز نہیں تھی کیونکہ ابوحنیفہ کی تعریف و توصیف کے بارے میں منقول روایات اکثر ضعیف اور غیر ثابت شدہ ہیں جو پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں اسکے برعکس ابوحنیفہ کی مذمت والی روایات اکثر صحیح اور ثابت شدہ ہیں جنھیں حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی اپنی تحریروں میں جا بجا پیش کرتے رہے ہیں۔اس حقیقت کے پیش نظر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مصلحت کے سبب حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کی تعریف کرنے پر مجبور تھے۔ایک عام شخص بھی علماء کی اس مجبوری کو باآسانی محسوس کرسکتا ہے کہ اگر ابوحنیفہ سے متعلق حقائق بیان کئے جائیں تو عام مقلدین اس عمل سے متنفرہوکر داعی کی کوئی صحیح بات بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور یوں دین کی دعوت شروع ہونے سے پہلے ہی اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔یعنی ابوحنیفہ کو موضوع سخن بنانا عام مقلدین کی ہدایت میں بڑی روکاوٹ بن جاتا ہے اس لئے عام علمائے اہل حدیث اس موضوع پر قلم اٹھانے سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں تاکہ فتنے کے بغیردعوت و تبلیغ کا کام جاری رہے۔

عوام الناس کے سامنے ابوحنیفہ کی بابت اصل حقائق بیان نہ کرنے کی مجبوری کو ماضی کے اس واقعہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ سخاوی نے لکھا ہے کہ بعض حنفیہ نے حافظ ابن حجرالعسقلانی رحمہ اللہ سے پوچھا: ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کتنی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنھم سے ملاقات کی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: صرف انس (بن مالک رضی اللہ عنہ)سے۔پوچھنے والے نے کہا: ہمارے علماء تو سات یا چودہ تک یہ تعداد پہنچاتے ہیں ؟تو حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’من یقدرینازعکم وانتم اصحاب السیف والرمح والخوذۃ؟ والذی اٗ عرفہ ما قلتہ لک‘‘ تمہارے ساتھ کون اختلاف کرسکتا ہے ۔تم تو تلوار ،نیزے اور لوہے کے خود(یعنی حکومت واقتدار)والے ہو؟! جو میں جانتا ہوں وہ میں نے تجھے بتا دیا ہے۔(الجواہروالدررللسخاوی ۳/۹۸۶)

پس معلوم ہوا کہ ماضی میں بھی نام نہاد علماء ابوحنیفہ کوعظیم المرتبت ثابت کرنے کے لئے سفید جھوٹ بولتے تھے اور اس جھوٹ کو ڈنڈے کے زور پر لوگوں سے منوایا جاتا تھا۔اسی طرح آج کی صورتحال بھی ماضی کی صورتحال سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔حنفیوں کی اکثریت ہونے کے سبب آج بھی علماء فتنے اور ایذا رسانی کے خوف اور مجبوری یا مصلحت کی بناپر ابوحنیفہ کو مجتہد و امام وغیرہ ماننے پر مجبور ہیں وگرنہ محدثین ابوحنیفہ کی گمراہی پر متفق تھے۔

اس قحط الرجال کے دور میں بھی وقتاً فوقتاًا یسے جراء ت مندپیدا ہوتے رہے ہیں جو کسی کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر اور ہر طرح کی مصلحت پرستی کو بالائے تاک رکھتے ہوئے حق کی آواز بلند کرتے رہے ہیں،یہ علیحدہ بات ہے کہ زنگ آلود ذہنوں کو یہ آواز اجنبی اور ناقابل توجہ محسوس ہوتی ہے۔ ہردور کی طرح ماضی قریب میں بھی جب کسی اہل حدیث نے یہ کام کرنے کی کوشش کی تومقلدین کے علماء نے اپنی عوام کے ساتھ اپنے امام ابوحنیفہ کے کردار کی نقاب کشائی پر وہ شور برپا کیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔دراصل آل تقلید باطل پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنی عوام کو یہ بارور کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ ابوحنیفہ کی دیانت،امانت، ثقاہت،فقاہت مسلمہ ہے اور ان کا ’’امام اعظم‘‘ ہونا بھی یقینی ہے جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب بیچارہ جو بھی اہل حدیث ابوحنیفہ کے علمیت کے سرٹیفیکٹ کو جالی ثابت کرنے کے لئے صحیح روایات کی روشنی میں کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز معلوم ہوتی ہے جس پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس کی اپنی علمیت پر سوالیہ نشان قائم ہوجاتا ہے اور دعوت دین کے کام کو ’’بریک ‘‘ لگ جاتے ہیں،پس اسی نقصان سے بچنے کے لئے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بھی ابوحنیفہ پر سخت کلام کرنے سے رک گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ عن المحدثین ابوحنیفہ کے ضعف پر لکھی گئی اپنی کتاب کی اشاعت سے بھی رک گئے تھے کہ ان کی زندگی میں کتاب کی اشاعت سے انکی جان کو خطرات اور دعوتی کام میں روکاوٹ پیدا ہونے کا قوی اندیشہ تھا۔

خلاصہ یہ کہ ابوحنیفہ پر بغیر کسی شدید ضرورت کے کلام علماء کی نظر میں خلاف مصلحت ہے جو دعوتی میدان میں فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتا ہے ۔حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی اس بات کو سمجھتے تھے اور مصلحت کا خاص خیال رکھتے تھے اسی لئے بعض اوقات ضرورتاً بھی محدثین کی ابوحنیفہ پر جرح نقل کرتے ہوئے جان بوجھ کر عربی عبارت کا ترجمہ نہیں کرتے تھے تاکہ بات عوام الناس کی پہنچ سے دور اورعلماء تک محدود رہے ۔ مثال کے طور پر ابوحنیفہ پر جرح کی عربی عبارت پیش کرنے کے بعد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ عبارت بہت شدید جرح ہے اور راقم الحروف نے حافظ ابونعیم کی عبارت مذکورہ کا ترجمہ جان بوجھ کر نہیں کیا، کیونکہ عوام کو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر78،صفحہ 48)

حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ایک جگہ ابوحنیفہ پر سفیان ثوری کی شدید جرح مقلدین کی ناراضگی کے ڈر سے پیش نہیں کی، چناچہ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بقلم خود لکھتے ہیں: عصام بن یزید(جبر)رحمہ اللہ کی روایت میں ابوحنیفہ پر سفیان ثوری کی شدید جرح ثابت ہے،جسے میں یہاں اس وجہ سے نقل نہیں کرتا کہ کہیں فیصل خان حلیق ناراض نہ ہوجائے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 218)

عمومی طور پر ابوحنیفہ پر محدثین کی جروحات نقل کرنے سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ہر ممکن احتراز کرتے تھے،صرف احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ادا کرنے کے لئے مجبوراً اور ضرورتاً ہی ان کا قلم حرکت میں آتا تھا۔ابوحنیفہ پر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جرح پر مشتمل کچھ روایات نقل کرنے کے بعدحافظ صاحب لکھتے ہیں: میں اس موضوع پر کچھ بھی نقل نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر داڑھی منڈے دنیا دار نے مجھے مجبور کردیا کہ سلف صالحین کے چند حوالے پیش کروں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 219,218)

اسکے علاوہ ٹیلیفون پر بھی ابوحنیفہ سے متعلق پوچھے گئے کسی حساس سوال کا جواب نہیں دیتے تھے۔ایک مرتبہ راقم نے موبائل فون پر حافظ صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ محدثین ابوحنیفہ کی مذمت کرتے ہیں اور متاخرین علماء ان کی تعریفیں کرتے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟ اورمحدثین اور متاخرین میں سے کس کا موقف درست ہے؟ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایسے سوالات کے جواب ٹیلیفون پر نہیں دیتااس کے جواب کے لئے آپکوخود حضروآنا پڑے گااور مجھ سے ملاقات کرنی ہوگی پھر میں اس سوال کا تفصیلی جوا ب دوں گا۔

مندرجہ بالا چار حوالے حافظ صاحب کی جانب سے ابوحنیفہ کے بارے میں روا رکھی جانے والی احتیاط پسندی پرواضح روشنی ڈالتے ہیں۔

ابوحنیفہ کے بارے میں اس مصلحت پسندی اور احتیاط کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر آل تقلید نے حافظ زبیرعلی زئی پر ابوحنیفہ کی گستاخی کا الزام عائدکیا ہے۔ابواحمدمحمد عمر ایم اے دیوبندی نے حافظ صاحب پر ابوحنیفہ کے بارے میں غیرمحتاط زبان استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے لکھا: زبیر صاحب کے بعض ماہانہ مضامین میں امام ابوحنیفہؒ کی بابت جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کو نقل کرنے سے مجھے شرم آتی ہے۔(چھپے راز،۳/۱۰)
اس الزام کے جواب میں حافظ محمد زبیررحمہ اللہ نے فرمایا: یہ بیان بھی جھوٹ،افتراء اور تلبیس ہے۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر102،صفحہ19)

اسی طرح ظہور احمد دیوبندی نے حافظ محمد زبیررحمہ اللہ پر ابوحنیفہ کو بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا ہے: جس قول کی سند اس قدر خرابیوں اور عیوب کا خزانہ ہو اس کو صحیح کہنا علی زئی جیسے لوگوں کا ہی کام ہوسکتا ہے جن کا مقصد محض امام اعظم ابوحنیفہؒ اور آپ کے اصحاب کو بدنام کرنا ہے۔(تلامذہ،صفحہ 251,250)

مقلدین احناف کے انہیں طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے حافظ زبیرعلی زئی ابوحنیفہ کے متعلق محدثین کے مذمتی اقوال نقل کرکے ان پر براہ راست تبصرہ کرنے کے بجائے محدثین کے حوالے سے تبصرہ کرتے تھے ،مثال کے طور پر سفیان ثوری رحمہ اللہ کے نزدیک ابوحنیفہ غیرثقہ اورضعیف تھے حالانکہ خود حافظ صاحب کے نزدیک بھی ابوحنیفہ کی حیثیت ایک ضعیف ، غیرثقہ اور مجروح راوی کی ہی تھی لیکن سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ابوحنیفہ پر غیر ثقہ کی جرح نقل کرنے کے بعد زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں: ۱:سفیان ثوری امام ابوحنیفہ کو غیر ثقہ سمجھتے تھے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 216)

اسی طرح امام سفیان ثوری کے حوالے سے لکھتے ہیں: امام سفیان ثوری امام ابوحنیفہ کو ضعیف سمجھتے تھے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 217)

اس طرح کی روایات پر خود اپنی رائے کا براہ راست اظہار کئے بغیربذریعہ محدثین تبصرہ کرنے کا مقصد مقلدین کی مذمت سے بچنا ہی تھا کیونکہ مقلدین کا وطیرہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ کی مذمت کرنے والے محدثین کو چھوڑ کر اقوال محدثین کے ناقل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں اور بیچارا ناقل جو اس معاملے میں بالکل بے قصور ہوتا ہے، پر تبرا کرکے اپنے دل کی بھٹراس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لئے ایک بریلوی سے خطاب کرتے ہوئے حافظ صاحب لکھتے ہیں: دوسرے یہ کہ ہمیں کیوں برا سمجھتے ہو ! امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ پر فتویٰ لگاؤ جو امام ابوحنیفہ کو غیرثقہ سمجھتے تھے۔!(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 220)

اب کچھ ایسے حوالے پیش خدمت ہیں جن سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے ابوحنیفہ کے بارے میں موقف اور رائے پر روشنی پڑتی ہے:

1۔ جب شبیر احمددیوبندی نے ابوحنیفہ کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے لکھاکہ: ’’اور آپ کے امام و اعلم ہونے پر اجماع اکثری ہے اور اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے‘‘ تو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے جواب دیا: قربان جائیں ایسے اجماع کے جس سے امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری،امام مسلم اور جمہور محدثین خارج ہیں بلکہ غزالی جیسے صوفی نے بھی لکھ دیا ہے کہ ’’واما ابوحنیفۃ فلم یکن مجتھداً۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر92،صفحہ 43)
پس مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو ’’امام و اعلم‘‘ تسلیم نہیں کرتے تھے۔

2۔ حافظ محمد زبیررحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے بارے میں بطور رضامندی لکھا ہے: بے شک حلیق،حنیف قریشی اور غلام مصطفی نوری وغیرہم کے نزدیک امام ابوحنیفہ کو ضعیف کہنا غلط ہے،لیکن امام سفیان ثوری،امام مالک،اما م شافعی،امام احمد بن حنبل،امام بخاری اور امام مسلم وغیرہم کے نزدیک امام ابوحنیفہ بلاشک و شبہ مجروح تھے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 217)
حافظ صاحب نے بذریعہ کبار محدثین ابوحنیفہ کے مجرو ح ہونے کی بات کوبریلویوں پر بطور حجت پیش کیا ہے اور چونکہ حافظ صاحب نے ابوحنیفہ کے مجروح ہونے کی بات پر ادنیٰ سا اختلاف بھی ظاہر نہیں کیاجو اس بات کا ثبوت ہے کہ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ خود بھی ابوحنیفہ کو مجروح سمجھتے تھے اور اس معاملے میں کبار محدثین کے ہمنوا اور موید تھے۔

تنبیہ: کسی شخص یا اشخاص کا نظریہ یا موقف نقل کرکے مصنف کا اس سے اختلاف نہ کرنامصنف کے اس نظریے یا موقف سے ہمنوائی وتائید کی زبردست دلیل ہے ۔جیسے حافظ صاحب خود لکھتے ہیں: شیخ الاسلام سراج الدین عمر بن ارسلان البلقینی(متوفی ۸۰۵ھ)نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی تردید نہیں کی،لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصول مذکور کی موافقت ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 180)
اسی طرح کے کچھ مزید حوالے آئندہ ملاحظہ فرمائیں۔

3۔ حافظ زبیرعلی زئی ابوحنیفہ کو ثقہ و صدوق بھی نہیں مانتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ کسی ایک صحیح روایت سے بھی ابوحنیفہ کی ثقاہت و صدق ثابت نہیں ہے۔لہٰذا شیخ زبیر لکھتے ہیں: میرے علم کے مطابق خیرالقرون کے زمانے (۸۰ ھ سے لے کر ۳۰۰ ھ تک) میں کسی ایک مستند و قابل اعتماد محدث و عالم دین سے امام ابوحنیفہ کی مطلقاًصریح توثیق ثابت نہیں ہے۔اگر کوئی شخص مطلقاً ثقہ و صدوق کا ایک صریح حوالہ دور مذکور سے باسند صحیح پیش کردے تو ہم اس کے ازحد ممنوں ہوں گے۔یاد رہے کہ بے سند حوالوں یا الزامی جواب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر73،صفحہ 13)
حافظ صاحب کے اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خیر القرون میں ابوحنیفہ کے غیرثقہ ہونے پر اجماع تھا۔قابل غور بات یہ ہے کہ جس شخص کے غیر ثقہ اور غیر صدوق ہونے پر سلف صالحین کا اتفاق ہو وہ شخص اس لائق کہاں کے اسے مسلمانوں کا ’’امام‘‘ تسلیم کیا جائے؟!

4۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: سلف صالحین سے مراد صحیح العقیدہ ثقہ و صدوق عندالجمہور علمائے اہل سنت ہیں اور تمام اہل بدعت اس جماعت سے خارج ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر98،صفحہ 6)
ابوحنیفہ کے ثقہ و صدوق نہ ہونے کی وجہ سے کیا اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ حافظ صاحب کے نزدیک ابوحنیفہ اہل سنت کی جماعت سے خارج تھے اور ان کا شمار سلف صالحین میں نہیں ہوتا تھا؟

5۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ ایک جگہ ارقام فرماتے ہیں: اہل حدیث کے نزدیک تمام صحابہ کرام،ثقہ و صدوق عندالجمہور صحیح العقیدہ تابعین، تبع تابعین اور اتباع تبع تابعین ائمہ ہدیٰ ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر98،صفحہ 13)
یہاں حافظ زبیر رحمہ اللہ نے ثقہ و صدوق تابعین،تبع تابعین کو ائمہ ہدیٰ قرار دیا ہے ۔ائمہ ہدیٰ کی اس فہرست سے ابوحنیفہ صاحب خارج ہیں کیونکہ خود حافظ صاحب کے نزدیک بھی ابوحنیفہ جو کہ تبع تابعی تھے ثقہ و صدوق نہیں تھے۔پس جب ابوحنیفہ ائمہ ہدیٰ میں شامل نہیں تھے تو ان کا شمار ائمہ ضلالت میں ہوگا کیونکہ ہمارے علم کے مطابق ہدایت اور ضلالت کے مابین کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔

محمدزبیرعلی زئی رحمہ اللہ اسی بات کو ایک اور جگہ پر قدرے تفصیلاً بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: میرے نزدیک سلف صالحین کے مختلف طبقات ہیں، مثلاً صحابہ کرام، تابعین،تبع تابعین اور اتباع تبع تابعین تین سو سالہ زمانہ خیرالقرون،چھٹی صدی ہجری تک زمانہ تدوین حدیث اور اس کے بعد نویں صدی ہجری تک کے علمائے اسلام ۔صحابہ کے بعد ہر طبقے کے ہرفرد کے لئے صحیح العقیدہ اور ثقہ و صدوق عندالجمہور ہونا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ ضعیف و مجروح،نیز اہل بدعت یعنی گمراہوں کو جمہور میں ہرگز شمار نہیں کیا جاتا، بلکہ ان لوگوں کا وجود اور عدم وجود ایک برابر ہے۔
(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر112،صفحہ9)
حافظ صاحب کی اس عبارت سے بھی اظہر من الشمس ہے کہ نو صدیوں کے سلف صالحین میں شمار ہونا تو دور کی بات انکے نزدیک ابوحنیفہ کسی قطار و شمار میں نہیں تھے بلکہ ان کا ہونا نہ ہونا ایک برابر تھا کیونکہ ابوحنیفہ عندالجمہور ضعیف و مجروح راوی تھے۔

6۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: امام شافعی کے مجتہد ہونے پر اجماع ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں آل بریلی، آل دیوبند کے ’’حجۃ الاسلام‘‘ ابوحامد محمد بن محمد بن محمد الغزالی (م۵۰۵ھ) نے لکھا ہے: ’’واماابوحنیفۃ فلم یکن مجتھداً لانہ کان لا یعرف اللغۃ....وکان لا یعرف الاحادیث‘‘الخ اور ابوحنیفہ تو مجتہد نہیں تھے کیونکہ وہ لغت نہیں جانتے تھے...اور وہ احادیث نہیں جانتے تھے۔الخ (المنخول من تعلیقات الاصول ص۵۸۱طبع بیروت و شام)
غزالی سے صدیوں پہلے امام سفیان بن سعیدالثوری،شریک بن عبداللہ القاضی اور حسن بن صالح نے فرمایا: ’’ادر کنا ابا حنیفۃ و ما یعرف بشی من الفقہ..‘‘ ہم نے ابوحنیفہ کو پایا ہے(یعنی دیکھا ہے) اور وہ فقہ میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مشہور نہیں تھے۔الخ۔
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ30)
مندرجہ بالا حوالہ جات اور اسی طرح کے دوسرے حوالے نقل کرنے کے بعد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کسی قسم کی تردید نہیں کی اور نہ ہی کسی اور مقام پر ان سے ان حوالہ جات کے خلاف کچھ ثابت ہے جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب کے نزدیک ابوحنیفہ مجتہد بھی نہیں تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ کسی کے کلام کو نقل کرنا پھر اس سے اختلاف نہ کرنااور اس پر سکوت اختیارکرنا ناقل کی جانب سے اس نقل شدہ کلام کی تائیداور موافقت ہوتی ہے۔ جیسا کہ خود حافظ زبیرعلی رحمہ اللہ نے علماء کی نقول کو اختلاف نہ کرنے کی صور ت میں اتفاق کی دلیل بتایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

حافظ صاحب لکھتے ہیں: مشہور محدث ابوبکر البیہقی رحمہ اللہ (متوفی ۲۶۴ھ) نے امام شافعی کا مذکورہ کلام نقل کیا اور اس پر سکوت کے ذریعے سے اس کی تائید فرمائی۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر81،صفحہ 16)

دوسری جگہ لکھتے ہیں: امام شافعی کی کتاب الرسالہ میں تدلیس والے مذکورہ قول کو مشہور محدث بیہقی نے نقل کرکے کوئی جرح نہیں کی بلکہ خاموشی کے ذریعے سے اس کی تائید فرمائی۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 172)

ایک اورجگہ پھر لکھتے ہیں: عمر بن رسلان البلقینی (متوفی۸۰۵ھ)نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح میں تدلیس کے بارے میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی مخالفت نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصول مذکور کی موافقت ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر81،صفحہ 25,24)

7۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو فقیہ تسلیم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: فقیہ ہونے کے لحاظ سے چاروں امام.....برحق تھے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر64،صفحہ 15)

پھر ایک جگہ خود ہی صحیح سند کے ساتھ ایک ایسا حوالہ پیش کرتے ہیں جس میں ابوحنیفہ کے فقیہ ہونے کا انکار ہے۔ دیکھئے حافظ صاحب رحمہ اللہ بقلم خود لکھتے ہیں: امام سفیان بن سعیدالثوری،شریک بن عبداللہ القاضی اور حسن بن صالح نے فرمایا: ’’ادر کنا ابا حنیفۃ و ما یعرف بشی من الفقہ..‘‘ ہم نے ابوحنیفہ کو پایا ہے اور وہ فقہ میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مشہور نہیں تھے۔الخ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ30)
ان دو باتوں میں سے ایک بات یقینی غلط ہے یا تو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک ابوحنیفہ فقیہ تھے یا پھر بطور رضامندی نقل کئے گئے کبار علماء کے حوالے کے مطابق ابوحنیفہ ،زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک فقیہ نہیں تھے۔راقم الحروف کے نزدیک ثانی الذکر بات درست ہے کیونکہ ابوحنیفہ کے فقیہ ہونے پر سلف صالحین سے کوئی صحیح دلیل منقول نہیں اگر کسی ایک آدھ سلف سے ایسا ثابت بھی ہے تو جمہور سلف صالحین کے مخالف ہونے کی وجہ سے لائق التفات نہیں۔

8۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے پوچھے گئے ایک سوال ’’ہمارے اسلاف اور علمائے اہل سنت سے مراد کون لوگ ہیں؟‘‘ کا جواب زبیرعلی زئی نے اس طرح دیا ہے: اسلاف سے مراد اہل سنت کے متفقہ سلف صالحین ہیں۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر113،صفحہ 12)
اس کے بعد حافظ صاحب نے اہل حدیث کے اسلاف میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا ذکر کیا ہے، پھر تمام ثقہ تابعین کا ذکر کیا ہے اسکے ساتھ مشہور اور کبار تابعین کے نام بھی بطور مثال درج کئے ہیں ،اسکے بعد تمام ثقہ تبع تابعین کا ذکر خیر کے ساتھ چند مشہور و کبار تبع تابعین کے نام بھی لکھے ہیں اسی طرح دوسری اور تیسری صدی ہجری کے ثقہ و صدوق علمائے اہل سنت کا ذکر اور انکے نام ، اسکے بعد چوتھی صدی ہجری، پانچویں صدی ہجری، چھٹی صدی ہجری،ساتویں صدی ہجری،آٹھویں صدی ہجری اور نویں صدی ہجری کے تمام ثقہ وصدوق علماء کو الگ الگ عنوانین کے تحت ذکر کرکے اہل حدیث کے سلف صالحین میں شمار کیا ہے اور ہر صدی کے مشہور و ثقہ علماء و محدثین اور ائمہ کے ناموں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔(دیکھئے: اشاعۃ الحدیث کا شمارہ نمبر 113او ر صفحہ14,13,12)

مندرجہ بالا حوالے میں قابل غور بات یہ ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے قریب قریب تمام مشہور اور کبارتابعین،تبع تابعین، محدثین اور ائمہ کا بمع نام تذکرہ کرنے کے باوجود ابوحنیفہ کا نام کہیں بھی نہیں لکھاجبکہ امام شافعی ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کاناموں کے ساتھ تذکرہ بھی کیا ہے۔اس حوالے سے یہ حقیقت بے غبار ہو کر سامنے آتی ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک نہ تو ابوحنیفہ اہل سنت تھے اور نہ ہی انکا شمار اہل حدیث کے اسلاف اور سلف صالحین میں ہوتا تھا۔

9۔ حافظ محمد زبیررحمہ اللہ امام بخاری کا کلام نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام بخاری نے صحیح بخاری کی ایک ذیلی کتاب (جس میں کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا ذکر ہے)کے تحت لکھا : ’’باب مایذکرمن ذم الرای و تکلف القیاس‘‘ باب :رائے کی مذمت اور قیاس کے تکلف کا ذکر۔(کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب ۷ قبل ح۷۳۰۷)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتاب وسنت کے خلاف رائے پیش کرنا گمراہوں کا کام ہے،لہٰذا اہل الرائے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اہل الرائے کے ایک امام کا اپنی کتاب میں نام لینا بھی گوارا نہیں کیابلکہ ’’بعض الناس‘‘کہہ کر رد کیا اور اپنی دوسری کتابوں(التاریخ الکبیرا ورالضعفاء الصغیر)میں اسماء الرجال والی جرح لکھ دی تاکہ سند رہے۔
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر88،صفحہ 10)
اس حوالے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو کتاب وسنت کے خلاف رائے پیش کرنے والا اور گمراہ شخص سمجھتے تھے۔اور راقم الحروف کا دعویٰ ہے کہ امام بخاری کی اس عبارت کو نقل کرنے والے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا بھی عقیدہ یہی تھا کہ ابوحنیفہ گمراہ ہے۔ اس اجمالی دعویٰ کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کا انداز یہ تھا کہ جب بھی وہ کسی کا حوالہ نقل کرتے تھے اور انہیں اس حوالے یا اس حوالے کے کسی حصہ سے اختلاف ہوتا تھا تو وہ مندرجہ ذیل تین طرح سے اس اختلاف کا اظہار فرماتے تھے۔

۱۔ اگرتحریریا مضمون کسی اور کا ہوتا تو حاشیہ میں اپنا اختلاف ذکر کرتے ہیں ، جیسا کہ اس کی وضاحت ’’الحدیث‘‘ کے شمارے نمبر ۱۴ میں اس طرح موجود ہے: واضح رہے ادارے کا مضمون نگا ر سے متفق ہونا ضروری ہے بصورت دیگر حاشیہ میں وضاحت کردی جائے گی۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر14،صفحہ 2)
ایک اور جگہ اس کی وضاحت یوں مندرج ہے: ماہنامہ الحدیث میں ہر تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری ہے اور اختلاف کی صورت میں صراحتاً یا اشارتاً وضاحت کردی جاتی ہے۔یاد رہے کہ مضمون نگار اور اس کی دیگر تحریروں وغیرہ سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد دوم ،صفحہ 112)
اسکے علاوہ بھی جن علماء کی مفید کتابیں حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ترجمہ کی ہیںیا ان پر تعلیق وغیرہ لکھی ہیں ان کتابوں میں بھی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کسی عبارت سے اختلاف کی صورت میں حاشیہ میں اس کا رد یا تردید یا اختلاف کی ضروری وضاحت کردی ہے۔

۲۔ اگر تحریر یا مضمون حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا خود اپنا ہوتا تو وہ کسی حوالے سے کلی یا جزوی اختلاف کی صورت میں اس حوالے سے متصل فوراًبعد ہی بطور تنبیہ تحریری شکل میں اپنے اختلاف کو ظاہر کرکے اس کی وضاحت کردیتے تھے تاکہ کوئی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اس نقل شدہ حوالے سے انکے مکمل متفق ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے:
حافظ محمد زبیر نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک عبارت متعدد جگہ نقل کی ہے اور ا س کے اکثری حصہ سے استدلال کیا ہے اور اسے بطور حجت پیش کیا ہے لیکن آخر ی حصہ سے اختلاف کیا ہے۔ عبارت یہ ہے: ’’الحمدللہ رب العالمین، اٗ ما البخاری و اٗ بوداودفا مامان فی الفقہ من اٗھل الاجتہاد، و اٗمامسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن خزیمۃ و ابو یعلیٰ والبزار ونحوھم فھم علیٰ مذہب اٗھل الحدیث، لیسوامقلدین لو احد بعینہ من العلماء، ولا ھم من الائمۃ المجتہدین علی الاطلاق‘‘ بخاری اور ابوداود تو فقہ کے امام (اور)مجتہد(مطلق) تھے ۔رہے امام مسلم ، ترمذی،نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ، ابو یعلیٰ اور البزار وغیرہم تو وہ اہل حدیث کے مذہب پر تھے،علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے ،مقلدین نہیں تھے،اور نہ مجتہد مطلق تھے۔(مجموع فتویٰ ،جلد20،صفحہ 40)
مذکورہ عبارت نقل کرنے اور بطور حجت پیش کرنے کے بعداس کے آخری حصہ سے اختلاف کرتے ہوئے حافظ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: تنبیہ: شیخ الاسلام کا ان کبار ائمہ حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’نہ مجتہد مطلق تھے‘‘محل نظر ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ،صفحہ 51)

۳۔ تیسری اور آخری صورت یہ تھی کہ اگرحافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو اپنے نقل کئے گئے حوالے پر اعتراض بھی ہوتا اورتحریری طور پراس اعتراض کی وضاحت بھی مطلوب نہ ہوتی تووہ نقل شدہ عبارت کے اختلافی حصہ پر لائن لگا کر اس جملے یا عبارت سے اپنی لا تعلقی اور براء ت ظاہر کردیتے تھے۔حافظ صاحب نے اپنے مقالات میں اس بات کی وضاحت یوں کی ہے: ماہنامہ الحدیث حضرو میں بعض اوقات اگر کسی تحریر سے اختلاف ظاہر کرنا مقصود ہو یا کسی غلطی کی طرف تنبیہ ہو تو عبارت کے اوپر ایک لکیر(۔۔۔)کھینچ کر اشارہ کردیا جاتا ہے یا کبھی عبارت کو واوین(’’ ‘‘) میں لکھ دیا جاتا ہے۔(تحقیقی ، اصلاحی اور علمی مقالات ،جلد دوم،صفحہ 112)

اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ چونکہ حافظ صاحب نے امام بخاری کا ابوحنیفہ کے بارے میں کلام نقل کرنے کے بعد کسی بھی طرح اس سے اختلاف ظاہر نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ محمد زبیررحمہ اللہ کو اپنی نقل کردہ عبات سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے ۔ اس لئے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات بالقین کہہ سکتے ہیں کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے خود کے نزدیک بھی ابوحنیفہ گمراہ شخص تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ کسی کا قول نقل کرنے کے بعد اگر مصنف اس کی تردید نہ کرے تو مصنف کااپنا نظریہ بھی وہی ہوتا ہے۔جب بیہقی رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کرکے خاموشی اختیار کی تو حافظ صاحب نے اس خاموشی کو اس بات کا ثبوت بنایا کہ بیہقی رحمہ اللہ کا اپنا مسلک بھی انکے نقل کردہ قول کے مطابق ہے۔دیکھئے: حافظ محمد زبیررحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام شافعی کی کتاب الرسالہ میں تدلیس والے مذکورہ قول کو مشہور محدث بیہقی نے نقل کرکے کوئی جرح نہیں کی بلکہ خاموشی کے ذریعے سے اس کی تائید فرمائی....معلوم ہوا کہ امام بیہقی کا بھی یہی مسلک ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 172)

سرفراز خان صفدر دیوبندی کا اصول نقل کرتے ہوئے حافظ صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے: جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے اختلاف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔(تفریح الخواطر فی رد تنویر الخواطر ص۲۹)
اس دیوبندی اصو ل پر اضافہ کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: تنبیہ:ہمارے نزدیک یہ اس صورت میں ہے جب اسی مصنف سے اس کے مقابلے میں کوئی صریح دلیل یا جمہور محدثین کی مخالفت موجود نہ ہو۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلدششم،صفحہ 121)
پس حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اپنے تسلیم شدہ اصول کی روشنی میں بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ابوحنیفہ کو گمراہ سمجھتے تھے کیونکہ نہ تو ابوحنیفہ کا گمراہ ہونا جمہور محدثین کے خلاف ہے اور نہ ہی خود زبیرعلی زئی نے ابوحنیفہ کے گمراہ نہ ہونے کی صراحت اپنی کسی تحریر یا مضمون میں کی ہے۔

10۔ اما م سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ابوحنیفہ کی مذمت میں شدید جروحات نقل کرنے اورانہیں مقلدین پر بطور حجت پیش کرنے کے بعد زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: تنبیہ: ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں، انھیں نیک اور اہل الرائے کا فقیہ سمجھتے ہیں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 218)
زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اس بیان کی حیثیت ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے وگرنہ قرآن و حدیث کے بالمقابل اپنی رائے پیش کرنے والے اہل الرائے سلف صالحین کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور گمراہ تھے۔بعض صحابہ نے بھی رائے کی سخت مذمت بیان کی ہے اس لئے ابوحنیفہ کو اہل الرائے کا فقیہ تسلیم کرنا ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف ہر گز نہیں بلکہ صرف طفل تسلی ہے۔زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ کو نیک تسلیم کرنا بھی بے سود ہے کیونکہ جمہور سلف صالحین کی روایات اسکی بھرپور نفی کرتی ہیں اور حافظ صاحب رحمہ اللہ یہ بات علی الاعلان خودکہتے ہیں کہ جمہور سلف صالحین کے خلاف کسی کی بات بھی قابل قبول نہیں اور نہ ہی اکابرین کے مقابلے میں اصاغرین کی رائے لائق تسلیم ہے۔مثال کے طور پر جب ایک مقلد نے ابن حجررحمہ اللہ کا ایسا قول جو امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف سے متصادم تھا،پیش کیا تو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں لکھا: بعد میں آنے والے حافظ ابن حجر کی بات مانیں یا امام شافعی کی؟(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 242)
ہم بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ حافظ صاحب آپ کی بات مانیں اور ابوحنیفہ کو نیک تسلیم کریں یا جمہور سلف صالحین جیسے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بات مانیں جوآپ سے صدیوں پہلے گزرے اور ابوحنیفہ کو امت کا سب سے بڑا منحوس کہتے تھے؟؟؟
امام ابواسحاق الفزاری رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ سفیان ثوری نے فرمایا: اس امت میں ابوحنیفہ سے زیاد منحوس کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔(السنۃ: ۲۵۲ وسندہ حسن)
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے مذکورہ اصول کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ آگے بھی آرہی ہے۔

11۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 218)
حافظ صاحب کا یہ بیان کس حدتک درست ہے اسکے جائزہ میں خود حافظ زبیرعلی رحمہ اللہ کا ایک حوالہ پیش خدمت ہے،لکھتے ہیں: ہمارے دل میں تمام اکابر اہل سنت مثلاً صحابہ ،ثقہ تابعین، ثقہ تبع تابعین، ثقہ محدثین اور علمائے حق مثلاً مولانا مبارکفوری رحمہم اللہ کا بہت احترام ہے۔والحمدللہ۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 251)
ابوحنیفہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک غیر ثقہ تبع تابعی تھے،حافظ صاحب کی کئی تحریریں اس بات پر گواہ ہیں۔حافظ صاحب کے اس حوالے اور اس جیسے دیگر حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب صرف ثقہ تبع تابعین کا ہی احترام کرتے تھے ،لہٰذا ثابت ہوا کہ حافظ صاحب ابوحنیفہ کا دل سے احترام نہیں کرتے تھے کیونکہ ابوحنیفہ غیرثقہ تھے۔

12۔ حافظ محمد زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: عہد قدیم میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کرام کا آپس میں اختلاف تھا ، جمہور ایک طرف تھے اور بعض دوسری طرف تھے لیکن ہمارے دور میں اہل حدیث تو امام ابوحنیفہ کو عالم سمجھتے اور مانتے ہیں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد دوم،صفحہ 128)
اس حوالے سے یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ جمہور سلف صالحین ابوحنیفہ کوامام تو کجا عالم بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اور زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے اپنے منہج اور اصولوں سے یہ بھی ظاہر وباہر ہے کہ جمہور سلف صالحین کے مقابلے میں قلیل سلف صالحین کا موقف بے وزن ہوتا ہے(اسکی تفصیل و دلائل آگے آرہے ہیں۔ان شاء اللہ)۔ جب یہ طے ہے کہ جمہور سلف صالحین ابوحنیفہ کو عالم تسلیم نہیں کرتے تھے تو اس دور کے علمائے اہل حدیث کا ابوحنیفہ کو عالم سمجھنا اور ماننا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے یہ جدید موقف مردود ہے۔

13۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: مذکورہ چاروں اماموں کو برحق ماننے کے دو معنی ہوسکتے ہیں:
۱: یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جمہور سلف صالحین کا اختلاف ہے ،جس کی تفصیل التاریخ الکبیرللبخاری،الکنیٰ للامام مسلم،الضعفاء للنسائی،الکامل لابن عدی،الضعفاء للعقیلی،المجروحین لابن حبان اور میری کتاب’’الاسانیدالصحیحہ فی اخبارالامام ابی حنیفہ‘‘میں ہے۔ پانچویں صدی ہجری سے لے کر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء(محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،جلد اول ،صفحہ 188)

مذکور ہ بالا عبارت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں
۱۔ ائمہ ثلاثہ (یعنی امام مالک، امام شافعی،امام احمد بن حنبل) کی فقاہت اور امامت پر امت کا اتفاق ہے جبکہ ابوحنیفہ کی فقاہت اور امامت متنازعہ اور مختلف فیہ ہے۔
۲۔ ابوحنیفہ کے بارے میں جمہور سلف صالحین ایک طرف اور متاخرین علماء دوسری طرف ہیں۔
۳۔ پانچویں صدی ہجری سے پہلے تک ابوحنیفہ کو فقیہ اور امام تسلیم نہیں کیا جا تا تھا۔
۴۔ ابوحنیفہ کو امام اور فقیہ ماننا متاخرین کا فیصلہ ہے متقدمین کا نہیں۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے یہاں جمہوراور کبار سلف صالحین کے مسلک کو چھوڑ کر متاخرین علماء کے مسلک کو ترجیح دی ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے جو کہ خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی اپنی تحریروں اور تصریحات کی رو سے مرجوع اور مردود ہے۔حافظ صاحب رحمہ اللہ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کوکوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے اور نہ ہی اکابرین کے مقابلے میں اصاغرین کی بات کی کوئی حیثیت تسلیم کرتے تھے جس کی کچھ تفصیل یہ ہے:

۱۔ حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں: ان کے علاوہ اور بھی کئی حوالے ہیں، جنھیں قائلین کے متاخر ہونے کی وجہ سے پیش کرنے کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر99،صفحہ25)
ثابت ہوا کہ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کے حوالے اس قابل بھی نہیں کہ انہیں پیش بھی کیا جاسکے۔

۲۔ ایک اور جگہ رقمطراز ہیں: ہیثمی کا اس روایت کے راویوں کو ثقہ قرار دینا حجاج مجہول کی وجہ سے غلط ہے اور سیوطی متاخرین میں سے تھے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ 10)
یہاں سیوطی کے صرف متاخر ہونے کی وجہ سے انکے حوالے کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

۳۔ اسی طرح لکھتے ہیں: ان دو دلیلوں اور قول دار قطنی کے مقابلے میں خطیب وغیرہ متاخرین کے حوالے بے کار و مردود ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر35،صفحہ 58)

۴۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے موقف( متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کے حوالے پیش کرنا غلط ہے) کے بارے میں واضح طور پر لکھتے ہیں: حافظ ذہبی وغیرہ متاخرین سے محمد بن الحسن الشیبانی کی تعریف مذکور ہے لیکن یہ تین وجہ سے مردود ہے....۲: یہ کبار علماء مثلاً امام احمد اور امام ابن معین وغیرہما کے خلاف ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،صفحہ 31)
مودبانہ عرض ہے کہ جب محمد بن الحسن الشیبانی کے حق میں متاخرین علماء کی تعریفات کبار علماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں تو ابوحنیفہ کے حق میں متاخرین علماء کی تعریفات کیوں مردود نہیں جبکہ وہ تعریفات بھی کبار علماء کے خلاف ہیں؟؟؟

۵۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: دوم یہ کہ حافظ ہیثمی متاخرین میں سے ہیں اور ا ن کی یہ تحسین جمہور محدثین و اکابر علماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،صفحہ 36)
مقرر عرض ہے کہ خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے متاخرین سے ابوحنیفہ کی تعریف و تحسین نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے حالانکہ یہ تحسین اور تعریف جمہور محدثین اور اکابر علما ء کے خلاف ہے تو پھر یہ مردود کیوں نہیں؟؟؟

۶۔ ایک جگہ حافظ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: عرض ہے کہ حاکم اور ہیثمی کے حوالے جمہور محدثین اور کبار علماء مثلاً امام احمد، امام یحییٰ بن معین اور امام فلاس وغیرہم کے مقابلے میں کس طرح پیش ہوسکتے ہیں؟ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر54،صفحہ 11)
ہم بھی یہی عرض کررہے ہیں کہ ابوحنیفہ کی تعریف و توصیف اور امامت و فقاہت کے ثبوت میں متاخرین کے حوالے جمہور محدثین اور کبار علماء مثلاً امام احمد بن حنبل، امام شافعی ، امام مالک،امام بخاری، امام سفیان ثوری وغیرہم کے مقابلے میں کس طر ح پیش ہوسکتے ہیں ؟؟؟

۷۔ ایک روایت پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اعتراض کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس وجہ سے ٹھکرا دیا کہ حافظ ذہبی سے بڑے محدث ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کا فیصلہ حافظ ذہبی کے برخلاف تھا۔ جب دو محدثین میں کسی بات پر اختلاف ہوجاتا تو حافظ صاحب ان میں سے بڑے اور متقدم محدث کی بات کو ترجیح دیتے تھے۔ چناچہ حافظ صاحب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: رہا ابو قلابہ کی روایت پر حافظ ذہبی کی طرف سے تدلیس کا اعتراض تو یہ دو وجہ سے مردود ہے: اول: حافظ ذہبی سے زیادہ بڑے امام اور متقدم محدث ابو حاتم الرازی نے ابوقلابہ کے بارے میں فرمایا ’’لایعرف لہ تدلیس‘‘ اور ان کا تدلیس کرنا معروف(معلوم) نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر73،صفحہ 24)
عجیب بات ہے کہ جب چھوٹے کے مقابلے میں بڑے اور متاخر کے مقابلے میں متقدم علماء و اماموں کی بات قابل ترجیح ہے تو ابوحنیفہ کے معاملے میں کبار محدثین کی جروحات ناقابل التفات کیوں؟

۸۔ جب یزید کے بارے میں صحابی اور تابعی میں اختلاف ہوا توحافظ زبیرعلی زئی صاحب رحمہ اللہ نے لکھا: جب صحابی رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ یزید شرابی ہے اور نمازیں بھی ترک کردیتا ہے تو صحابی کے مقابلے میں تابعی کی بات کون سنتا ہے؟(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر107،صفحہ 15)
مذکورہ اصول کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جب تابعین،تبع تابعین اور اتباع تبع تابعین ابوحنیفہ کی مذمت اور ان پر جرح کررہے ہیں توایسی بڑی ہستیوں کے مقابلے میں بعد کے علماء کی ابوحنیفہ کے متعلق تعریف و توصیف کی باتیں کیوں سنی اور بطور حجت پیش کی جارہی ہیں؟ اپنے اصولوں کی لاج رکھتے ہوئے یہ کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ ابوحنیفہ پرجمہور سلف صالحین کی مذمت کے بالمقابل قلیل اور متاخر سلف کے تعریفی اقوال منسوخ ،مردوداور ناقابل التفات ہیں؟؟؟

اسی طرح جب بعض علماء جیسے حماد اور قتادہ کا قول صحابہ اورتابعین کے خلاف آیا تو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: صحابہ اور کبار تابعین کے مقابلے میں ان اقوال کی کیا حیثیت ہے؟ (تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد چہارم،صفحہ 74)
ہم پوچھتے ہیں کہ جب اکابر کے مقابلے میں اصاغر کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر آپ ابوحنیفہ کے متعلق متاخر علماء کے اقوال کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟؟؟

۹۔ ایک اہم اصول بیان کرتے ہوئے حافظ محمد زبیر رقمطراز ہیں: اس اصول کی رو سے ظہور و نثار کا حافظ گوندلوی،مولانا مبارکپوری اور مولانا رحمانی وغیرہم کے اقوال جمہور کی توثیق یا جرح کے مقابلے میں پیش کرنا غلط ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر98،صفحہ 24)
کیا راقم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اسی اصول پرجمہور محدثین کی ابوحنیفہ پر شدید جروحات کے مقابلے میں ابوحنیفہ کے حق میں اصاغرین اور متاخرین کے تعریفی و توصیفی اقوال نقل کرنا اور انہیں بطور حجت پیش کرنا کیوں غلط نہیں ہے؟؟؟

۱۰۔ بعض اہل حدیث علماء نے لاعلمی کی بنا پر ابن عربی کی تعریف وتوصیف کی ہے جس کا جواب دیتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ظہور احمد صاحب نے حاجی امداد اللہ اور گنگوہی صاحبان کی عبارات کا جواب دینے کے بجائے میاں نذیر حسین دہلوی،فضل حسین بہاری،نواب صدیق حسن، حافظ عبداللہ روپڑی، وحیدالزماں حیدرآبادی، ابراہیم سیالکوٹی، فیاض علی اور عبدالسلام مبارکپوری سے ابن عربی کی تعریف میں کچھ عبارات نقل کردی ہیں جو چار وجہ سے مردود ہیں....سوم: ان علماء کی تاویلات ان سے بڑے اور جمہور علماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔مثلاً امام بلقینی، العز بن عبدالسلام، ابوحیان الاندلسی، ابن کثیر، ابن تیمیہ، ابن حجر العسقلانی او ر محدث بقاعی وغیرہم نے ابن عربی پر شدید جرح کر رکھی ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر54،صفحہ 30)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اگر ابوحنیفہ کے معاملے میں بھی مذکورہ اصول کو مدنظر رکھا جاتا تو انہیں امام و عالم تسلیم کرنے کی نوبت نہ آتی اور نہ ہی کبار اور جمہور محدثین کا دامن چھوڑ کر متاخرین علماء کے موقف کو راجح قرار دینے کی ضرورت پڑتی۔
تلک عشرۃ کاملۃ

مذکورہ بالادس عدد حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک جب کوئی بات متقدمین، کبار علماء اور جمہور سلف صالحین سے ثابت ہوجائے تو اسکے خلاف متاخرین علماء کے ہر طرح کے حوالے بے کار،مردود اور ناقابل التفات ہوتے ہیں۔ اس طرح ثابت ہواکہ ابوحنیفہ کے معاملے میں حافظ صاحب کا متقدمین اور کبار سلف صالحین کے برخلاف متاخرین کے منہج کو راجح قرار دینا انکی اپنی تحریروں کی روشنی میں خود بخود مردود ہوجاتا ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دیوبندی باطل شرائط کے ساتھ اہل حق سے کثرت سے سوالات کرتے رہتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں اور اہل حدیث انکے نامعقول سوالوں کے جواب دینے کے لئے۔
اس طرح کی حرکات کے ذریعے دیوبندی اپنے باطل مذہب کا بطلان چھپانا چاہتے ہیں اوراس سے پہلے کہ کوئی اہل حدیث ان سے کوئی سوال کرے اور اسکے معقول جواب کی عدم پیشکش پر دیوبندی شرمندہ اور رسواء ہوجائیں۔اس شرمندگی اور رسوائی سے بچنے کے لئے دیوبندی پہلے ہی اہل حدیث پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں اور شرائط ایسی عائد کرتے ہیں جن کا پورا ہونا محال ہوتا ہے۔اسکی ایک مثال امین اوکاڑوی دیوبندی کا یہ سوال اور مطالبہ ہے:
ہمارا مطالبہ: یہ ہے کہ غیرمقلدین اپنے قول اور فعل کے مطابق آیت یا حدیث پیش کریں۔تکبیر تحریمہ کی رفعیدین کے بارے میں اجماع ہے۔کوئی اختلاف نہیں۔اختلافی رفعیدین میں غیر مقلدین دو سجدوں سے اٹھ کر دوسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں رفعیدین نہیں کرتے اور اس نہ کرنے کو سنت موکدہ متواترہ کہتے ہیں اور دو رکعتوں سے اٹھ کر تیسری رکعت کے شروع میں رفعیدین کندھوں تک کرتے ہیں۔ اس کو سنت موکدہ متواترہ دائمہ کہتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔اسی طرح ہر رکعت میں ایک رکوع ہوتا ہے۔ اور اس کے شروع میں اٹھ کر رفعیدین کندھوں تک کرتے ہیں۔ اس کو سنت موکدہ متواترہ دائمہ کہتے ہیں۔ اور اس کے بغیر نماز کو باطل مانتے ہیں۔اور ہر رکعت میں سجدے دو ہوتے ہیں۔انکے اول اور آخر چار جگہ رفعیدین نہیں کرتے۔اور اسی کو سنت موکدہ متواترہ دائمہ کہتے ہیں۔ اسی طرح آٹھوں سجدوں میں بھی رفعیدین نہیں کرتے۔ اور آٹھوں سجدوں کے درمیان بھی رفعیدین نہیں کرتے۔ اس طرح چار رکعت نماز میں دو سجدوں سے کھڑے ہو کر ۲ رفعیدین نہیں کرتے۔ چار رکوع کے اندر ۴ رفعیدین نہیں کرتے ۸ سجدوں کے اول آخر ۱۶ جگہ رفعیدین نہیں کرتے۔آٹھ سجدوں کے اندر آٹھ جگہ رفع یدین نہیں کرتے۔ آٹھ سجدوں کے درمیان چار جگہ رفع یدین نہیں کرتے۔ گویا ترک ۲+۴+۱۶+۴=۲۸جگہ ہے۔ اور فعل ۹ جگہ ہے۔گویا رفع یدین کے فعل اور ترک میں تقریباً ۳:۱ ہے۔ اس لئے پہلے تین حدیثیں ترک کی پیش کرینگے۔ ہر حدیث میں ۲۸ جگہ ترک گنوائیں گے، پھر ایک حدیث فعل کی دکھائیں گے اور اس میں ۹ جگہ کا اثبات و دوام دکھائیں گے۔ پھر دوسری تقریر میں ۱۳ احادیث مزید ترک کی اور ایک حدیث فعل کی دکھائیں گے۔ اور فعل و ترک کی ہر حدیث میں یہ حکم سنت موکدہ متواترہ دائمہ دکھائیں گے اور یہ کہ فعل و ترک کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔(تجلیات صفدر، جلد4 ، رفع یدین کی چار روایات کی تحقیق،صفحہ 117)

رفع الیدین کی ایک حدیث کے بارے میں امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اس فارق الدنیا والی روایت میں رفعیدین کا لفظ دکھادے جس میں ۹ کا اثبات اور ۱۸ کی نفی ہو تو ہم مبلغ ایک لاکھ روپے انعام دیں گے۔(تجلیات صفدر، جلد4 ،صفحہ 119)

حالانکہ اس سوال میں امین اوکاڑوی نے جو شرط عائد کی ہے وہ اس قدر باطل اور ناانصافی پر مبنی ہے کہ اگرترک رفع الیدین کو ثابت کرنے کے لئے اسی شرط کے ساتھ پلٹ کر یہی سوال ان سے کردیا جائے تو یہ قیامت تک اس کا جواب نہیں دے سکیں گے۔دیوبندی حضرات اتنے دوغلے اور دہرا معیار رکھنے والے لوگ ہیں کہ دوسروں سے سوالات کرتے وقت جو شرائط یہ خود عائد کرتے ہیں اگرمخالف بھی اسی شرط کے ساتھ ان سے سوال کرلے تو یہ اسے دھوکہ،فریب اور کفار کا طریقہ کہہ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امین اوکاڑوی دیوبندی نے ایک جگہ لکھا ہے: مدعی سے خاص دلیل کا مطالبہ کرناکہ یہ خاص قرآن سے دکھاؤیا خاص ابوبکرؓ وعمرفاروقؓ کی حدیث دکھاؤ یا خاص فلاں فلاں کتاب سے دکھاؤیہ محض دھوکہ اورفریب ہے۔(مجموعہ رسائل،جلد1،صفحہ197 )

امین اوکاڑوی صاحب مزید لکھتے ہیں: مدعی سے بھی دلیل کا مطالبہ تو کیا جاسکتا ہے مگر خاص کا مطالبہ جائز نہیں ہوتا۔یہ تو کافروں کا طریقہ تھا۔(مجموعہ رسائل،جلد4،صفحہ120)

اہل حدیث علماء عرصہ دراز سے مسلسل دیوبندیوں کے ہر طرح کے سوالوں کے جوابات دیتے چلے آرہے ہیں لیکن ان سے پلٹ کرسوال نہیں کرتے جس کی وجہ سے دیوبندیوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور وہ سوا ل کرتے نہیں تھکتے ۔ دیوبندیوں کی کثرت سے سوالات کرنے کی یہ بدعادت چھڑوانے کے لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے یہ حل پیش کیا کہ انکے سوال کا جواب دینے کے بعدپلٹ کر ان سے بھی سوال کیا جائے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اہل حدیث کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر یہ لوگ آپ سے سوال کریں تو صاف کہہ دیں کہ ایک سوال کرو، ایک سوال ہم کریں گے۔تم جواب دو اور ہم جواب دیں گے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر23، صفحہ46 )

حافظ صاحب نے دیوبندیوں کا دماغ درست کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ اہل حدیث کا کام صرف تمہارے سوالوں کا جواب دینا ہی نہیں ہے بلکہ اہل حدیث بھی سوال کرسکتے ہیں ،امین اوکاڑوی کے اہل حدیث سے دوسو سوالات کے جواب میں دیوبندیوں سے دو سو دس سوالات کئے ہیں۔اس کتاب کے آغاز میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: بعض آل دیوبندکی طرف سے اہل حدیث کے سامنے سوالات ہی سوالات پیش کئے جاتے ہیں اور یہ مطالبہ کیاجاتا ہے کہ ان کے جوابات دو۔ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی(حیاتی)نے دو سو سوالات کا ایک کتابچہ لکھا تھالہٰذا اہل حدیث کی طرف سے تمام تقلیدی دیوبندیوں کی ’’جناب‘‘ میں دو سو دس (۲۱۰)سوالات پیش خدمت ہیں اور یہ وہ سوالات ہیں جن کا تعلق ایمان اور عقیدے سے ہے۔ہر اہل حدیث بھائی کو چاہیے کہ اگر تقلیدی حضرات اس سے سوالات کریں تو وہ بھی اتنے ہی سوالات پیش کرے جتنے وہ حضرات پیش کرتے ہیں۔(آل دیوبند سے دو سو دس (۲۱۰)سوالات،صفحہ 1)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ صبح یا نماز فجر میں اٹھنے کے لئے الارم وغیرہ کا استعمال کبھی نہیں کرتے تھے بلکہ بغیر کسی الارم کے خود ہی مطلوبہ وقت پر جاگ جاتے تھے۔ یمن کے سفر کے اپنے احوال کا تذکرہ کرتے ہوئے حافظ صاحب اپنی اس صلاحیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ابو ھشام منصور اپنے موبائل پر صبح پانچ بجے کا الارم لگانا چاہتے تھے۔میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں ان شاء اللہ انہیں پانچ بجے بغیر الارم کے اٹھا دوں گاجیسا کہ گذشتہ رات میں نے انہیں مقرر شدہ وقت پر اٹھادیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطافرمائی ہے کہ سوتے وقت جس ٹائم اٹھنے کا ارادہ ہوتواسی وقت آنکھ کھل جاتی ہے۔شدید بیماری وغیرہ کی بعض حالتیں کبھی کبھار مستثنیٰ ہیں،(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 11، صفحہ39 )

حافظ صاحب رحمہ اللہ اپنے ساتھ دوسروں کی بھی فکر کرتے تھے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی اور بھلائی میں پیش پیش رہتے تھے۔وہ جس طرح خود دین پر عمل کرتے تھے انکی خواہش تھی کہ دوسرے بھی اس طرح دین پر عمل پیرا ہوجائیں۔اس طرح کا ایک واقعہ خود ان ہی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: ابوھشام اور ابوعقیل عمرانیوں سے مہمان خانے میں باتیں کرتے رہے ۔رات تین بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ابوھشام اور ابوعقیل کمرے میں اپنے اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے باتیں کررہے ہیں۔میں السلام علیکم کہہ کر انہیں بتایا کہ تین بجنے میں پانچ منٹ باقی ہیں۔وہ یہ سن کر بھی ایک دوسرے سے باتیں ہی کرتے رہے۔تھوڑی دیر بعد میں نے کہا: ’’کیا آپ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں گے؟‘‘ میری یہ بات سن کر وہ سمجھ گئے اور چپ ہوکر سوگئے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 12، صفحہ45 )

۲۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے تلمیذابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ بیان فرماتے ہیں: محمد نعیم شاہد آف موڑ کھنڈا نے مجھے بیان کیا کہ ہوش والے دن میں شیخ محترم کی تیمارداری کے لئے گیا تو شیخ صاحب نے میرے چہرے پر ہاتھ رکھا اور اشارہ کیا کہ اب تو داڑھی کو معاف کردیں۔تو میں نے اسی وقت وعدہ کیا اس پر شیخ صاحب نے خوشی کا اظہار کیا۔

۳۔ اہل حدیثوں کو نصیحت کرتے ہوئے حافظ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اہل حدیث کو چاہیے کہ تحقیقی راستہ اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن مجید، احادیث صحیحہ،اجماع ثابت اور اجتہاد مثلاً آثار سلف صالحین پر عمل کرتے رہیں، ضعیف اور مردود روایات کو دور پھینک دیں۔ادلہ اربعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر بات باتحقیق و باحوالہ پیش کریں تو دیوبندی ہوں یا غیر دیوبندی،آل تقلید ہوں یا کوئی بھی غیر اہل حدیث ہو وہ اہل سنت یعنی اہل حدیث،اہل حق کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا اور یہ دعوت دن رات پھیلتی جارہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جائے گی۔ان شاء اللہ العزیز۔(تحقیقی ،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3،صفحہ 527)

۴۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ مختلف دھڑوں میں تقسیم شدہ اہل حدیثوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اورانہیں الگ الگ تنظیموں،پارٹیوں اور جماعتوں کی رکنیت اور چنگل سے آزاد کروایا جائے کیونکہ وہ اہل حق کی ان تنظیموں اور جماعتوں کے وجود کو قرآن کی آیت کی رو سے غلط سمجھتے تھے، لہٰذا لکھتے ہیں: پارٹیوں،مروجہ تنظیموں اور کاغذی جماعتوں کا وجو(ولاتفرقوا)اور (ولاتختلفوا) کی رو سے غلط ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،صفحہ 10)
اور اسی عظیم مقصد کے لئے حافظ صاحب مسلسل کوشاں تھے۔ اسی مقصد کو بیان کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: تمام پارٹیوں اور تنظیموں سے علیحدہ رہ کر اہل حق کو متحد کرکے ایک جماعت بنانا وہ عظیم مقصد ہے جس کے لئے ہم دن رات کوشاں ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر34،صفحہ 3)

۵۔ راقم الحروف دینی مسائل جاننے کے لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو جوابی لفافے کے ساتھ خط لکھتا تھا جس میں ہمیشہ ’’السلام علیکم‘‘ کو ’’سلام علیکم‘‘ لکھتا تھا۔اور حافظ صاحب رحمہ اللہ جواب دیتے وقت اپنے قلم سے اسکی تصحیح کرکے اسے ’’السلام علیکم‘‘ لکھ دیتے تھے اور اسکے علاوہ بھی الفاظ کی دیگر غلطیوں کو درست کرکے بھیج دیتے تھے۔

۶۔ اپنے اہل سنت بھائیوں سے درخواست کرتے ہوئے حافظ صاحب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: آخر میں اہل سنت بھائیوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ ضعیف او رمردود روایات کو کلیتاً چھوڑدیں بلکہ صحیح اور ثابت روایات کو اپنا منہج اور نصب العین بنائیں۔اگر آپ نے یہ منہج اختیار کرلیا تو یاد رکھیں کہ آپ کے مقابلے میں تمام فرقے مثلاً خوارج، شیعہ، جہمیہ،مرجیہ،معتزلہ،قدریہ،جبریہ، نواصب اور منکرین حدیث وغیرہ ہمیشہ ناکام رہیں گے۔ان شاء اللہ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر87،صفحہ29)

۷۔ اہل حدیث کے نزدیک قرآن و حدیث کے مقابلے میں ہر شخص کی بات مردود ہے۔اہل حدیث کے اس بنیاد ی اصول کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے نئے نئے مسلک اہل حدیث سے جڑنے والے حضرات کے ساتھ عموماً یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو بذریعہ سلف صالحین سمجھنے کے بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انکی عقل اور سلف صالحین کے فہم کا آپس میں ٹکراؤ ہو جائے تو اہل حدیث کے اس (مذکورہ)بنیادی اصول کا حوالہ دے کر فہم سلف کو ٹھکرادیتے ہیں۔ایسے نوزائیدہ اہل حدیثوں کی تربیت کے لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کثرت سے اپنی تحریروں میں یہ بات لکھتے تھے کہ اہل حدیث کا منہج شریعت کو سلف صالحین کے فہم کے ذریعہ سمجھنا ہے ناکہ اپنی ذاتی عقل و فہم سے۔جیسے لکھتے ہیں: کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جوراسخ فی العلم علماء یعنی ثقہ و صدوق سلف صالحین سے ثابت ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر51،صفحہ 5)
اور فرماتے ہیں: سلف صالحین کے فہم کے مقابلے میں ذاتی انفرادی فہم کو دیوار پر دے مارنا چاہیے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر42،صفحہ 11)
اوراس کے ساتھ ساتھ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کس کا قول قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کس کا نہیں یہ کام بھی عام اور جاہل عوام کا نہیں بلکہ اس تصفیہ کا حل بھی سلف صالحین کے فہم اور فیصلہ کی روشنی ہی میں ہوگا۔اس سلسلے میں حافظ صاحب تنبیہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو لیکن ہر ایرے غیرے کو خلاف قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لئے سلف صالحین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر53،صفحہ8)

ان تمام واقعات و حوالہ جات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو اپنے مسلمان بھائیوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی کس قدر فکر تھی۔
 
Last edited:
Top