• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ زبیر علی ز ئی رحم الله كا الیاس گھمن کے "بیس رکعات تراویح کے (١٥) دلائل" كا شاندار جوابات

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
الجواب : تابعی کے اس اثر سے استدلال کئی وجہ سے غلط ہے:
١ : یہ نہ تو رسول صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے اورر نہ کسی صحابی کا اثر ہے.
٢ : تابعی مذکور سے یہ ثابت نہیں کہ بیس رکعات سنت موکدہ ہیں اور ان سے کم و زیادہ جائز نہیں، لہٰذا آل تقلید کا اس سے استدلال جائز نہیں.
معذرت کے ساتھ کہ جناب جیسے اندھوں کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ فضا میں ہوا موجود ہے کے بھی دلائل کی ضرورت ہے!!!
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے لے کرگزشتہ رمضان تک مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں بیس رکعات تراویح ہیپڑھائی گئی ہیں۔

الجواب : اس اثر میں لوگوں سے کون مراد ہیں؟؟ کوئی وضاحت نہیں اور عین ممکن ہے کہ تابعین مراد ہو اور بعض تابعین کا اختلافی عمل اولہ اربعہ میں سے کوئی دلیل نہیں ہے
جناب کے ہاں تو مطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی قابل قبول نہیں صحابی اور تابعی کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔

اگر یہاں سے تقلید ثابت کرتے ہو تو ان خلفائے راشدین کے تقلید چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کیوں!! کرنی یہاں بھی حدیث کی مخالفت ہے!! ہائے رے تقلید ! تیرا بیڑا غرق!!!
فقہ کے دشمنوں کی عقول سلب ہوچکی ہیں اسی لئے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کسی ایک صحابی سے مکمل دین کے مدون کیئے جانے کا ثبوت فراہم کریں پھر یہ دعویٰ کریں۔ وگرنہ اس قسم کی “ملون” تحریروں سے سادہ لوح اور دینی علوم سے نابلد لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش مت کریں۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
معذرت کے ساتھ کہ جناب جیسے اندھوں کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ فضا میں ہوا موجود ہے کے بھی دلائل کی ضرورت ہے!!!
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے لے کرگزشتہ رمضان تک مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں بیس رکعات تراویح ہیپڑھائی گئی ہیں۔
اس کا کوئی ثبوت؟ (صحیح سند کے ساتھ اپنی بات کو ثابت کریں)

جناب کے ہاں تو مطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی قابل قبول نہیں صحابی اور تابعی کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔
اس با ت کا یا تو ثبوت پیش کریں، یا پھر مان لیں کہ یہ آپ نے جھوٹ بولا ہے۔

فقہ کے دشمنوں کی عقول سلب ہوچکی ہیں اسی لئے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کسی ایک صحابی سے مکمل دین کے مدون کیئے جانے کا ثبوت فراہم کریں پھر یہ دعویٰ کریں۔ وگرنہ اس قسم کی “ملون” تحریروں سے سادہ لوح اور دینی علوم سے نابلد لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش مت کریں۔
ہم فقہ کے دشمن نہیں، البتہ اسی فقہ جس میں قرآن و سنت کے خلاف مسائل ہوں، اس کے دشمن ضرور ہیں، باقی جو قرآن و سنت کے مطابق ہوتو پھر تو اس کے دشمن ہر گز نہیں۔


کیا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے مکمل دین مدون شدہ ثابت ہے؟ اگر ہاں تو صحیح اسانید سے اپنی بات کو ثابت کریں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس کا کوئی ثبوت؟ (صحیح سند کے ساتھ اپنی بات کو ثابت کریں)
اللہ تعالیٰ جناب کی عقل و فہم پر رحم فرمائے کل کو کہو گے کہ سعودی عریبیہ میں مسلم حکومت کی موجودگی کا ثبوت دیں!!!!!!
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
اللہ تعالیٰ جناب کی عقل و فہم پر رحم فرمائے کل کو کہو گے کہ سعودی عریبیہ میں مسلم حکومت کی موجودگی کا ثبوت دیں!!!!!!
ایسے جملے کسنے کے بجائے کچھ جواب دیں، میں نے ثبوت کس چیز کے مانگے ہیں، آپ سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی،
آپ نے کہا :


عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے لے کر
میں نے آپ سے اس بات کا باسند ثبوت مانگا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میں نے آپ سے اس بات کا باسند ثبوت مانگا۔
اس بات کی تصدیق اہل حدیث رائٹر ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور سے بھی ہوتی ہے- دیکھئے اس کا صفحہ نمبر 77 و 78 بعنوان "مسئلہ تراویح اور آئمہ و علماء حرمین شریفین"
اب جناب یہ ثبوت دے دیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے لے کر تا حال کبھی بھی مسجدِ نبوی یا مسجدالحرام میں بیس رکعات کے علاوہ کسی اور تعداد میں نماز تراویح پڑھی گئی ہو۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
اس بات کی تصدیق اہل حدیث رائٹر ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور سے بھی ہوتی ہے- دیکھئے اس کا صفحہ نمبر 77 و 78 بعنوان "مسئلہ تراویح اور آئمہ و علماء حرمین شریفین"
اب جناب یہ ثبوت دے دیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے لے کر تا حال کبھی بھی مسجدِ نبوی یا مسجدالحرام میں بیس رکعات کے علاوہ کسی اور تعداد میں نماز تراویح پڑھی گئی ہو۔
اللہ کا خوف کریں، میں نے کس چیز کی دلیل مانگی ہے؟ اور آپ کس چیز پر بات کر رہے ہیں؟ جب آپ نے یہ کہا:

عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے
اس پر میں نے کہا:

اس کا کوئی ثبوت؟ (صحیح سند کے ساتھ اپنی بات کو ثابت کریں)
محترم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دؤر میں رکعت تراویح کی بات کر ہا ہوں، نہ کہ وقتِ حاضرہ کی۔

عجیب بات ہے۔
محترم مھربانی کر کے پہلے میری پوسٹ کو پڑھ لیں میں نے کیا پوچھا ہے، پھر کسی چیز کا حوالہ دیں،
ایک اور بات یہ کہ میں نے آپ سے دلیل مانگی تھی، نہ کہ کسی کی تصدیق۔ (ویسے تصدیق کے لیئے جو آپ نے پیش کیئا ہے، وہ بھی میرے سوال کے مطابق نہیں)۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دؤر میں رکعت تراویح کی بات کر ہا ہوں، نہ کہ وقتِ حاضرہ کی۔
جناب کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے کہ موجودہ تعداد رکعات تراویح مسجدِ نبوی اور مسجدِ حرام میں (جس کا مشاہدہ ممکن ہے) کب شروع ہوئی بحوالہ تحریر فرمادیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جناب کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے کہ موجودہ تعداد رکعات تراویح مسجدِ نبوی اور مسجدِ حرام میں (جس کا مشاہدہ ممکن ہے) کب شروع ہوئی بحوالہ تحریر فرمادیں۔
مسجدِ حرام میں بھی 8 رکعت تراویح پڑھائی جاتی ہے
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مسجدِ حرام میں بھی 8 رکعت تراویح پڑھائی جاتی ہے
کب سے؟ حوالہ بھی دیں؟
مسجد نبوی کا کچھ نہیں بتایا؟
آپ کے ”لا مذہب“ بھائی نے کیا جھوٹ بولا؟
آپ کے ”لا مذہب“ بھائی ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور کے زمانہ تک کے بارے میں بھی بتا دیں؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کب سے؟ حوالہ بھی دیں؟
مسجد نبوی کا کچھ نہیں بتایا؟
آپ کے ”لا مذہب“ بھائی نے کیا جھوٹ بولا؟
آپ کے ”لا مذہب“ بھائی ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور کے زمانہ تک کے بارے میں بھی بتا دیں؟
مسئلہ تراویح اور سعودی علما
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
  1. شیخ عبداللہ بن قعود،
  2. شیخ عبداللہ بن غدیان
  3. شیخ عبدالرزاق عفیفی
  4. شیخ ابن باز


شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ

  • یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
  • مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
  • سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
  1. شیخ عبداللہ بن قعود،
  2. شیخ عبداللہ بن غدیان
  3. شیخ عبدالرزاق عفیفی
  4. شیخ ابن باز


شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ

  • یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
  • مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
  • سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
  1. شیخ عبداللہ بن قعود،
  2. شیخ عبداللہ بن غدیان
  3. شیخ عبدالرزاق عفیفی
  4. شیخ ابن باز


شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ

  • یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
  • مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
  • سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
محدث میگزین
 
Top