:
امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں محمد بن حمید راوی ہیں اور اس کو صحیح کہا ہے اور البانی نے بھی اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے
(۱۳۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ابن ماجہ (صحیح عند ابن ماجہ و البانی وفیھا راوی محمد بن حمید)
عمر بن ہارون کے بارے میں امام ترمذی، امام بخاری اور دیگر محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
(شرح۲۷۶۲) ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ: مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، أَوْ قَالَ: يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ يَقُولُ: الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ قُتَيْبَةُ: قُلْتُ لِوَكِيعٍ: مَنْ هَذَا ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.(ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں ( یعنی بخاری کو عمر بن ہارون ) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے ( اپنے استاد ) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ ( جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے ) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى427) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ . [تاريخ جرجان (ص: 317) ].
یعنی جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں کو چوبیس رکعات تراویح اورایک رکعات وترپڑھائی۔
یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔
پہلی علت:
عبد الرحمن بن عطاء بن أبي لبيبة
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 336]۔
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
عبد الرحمن بن عطاء [الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 633]
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
ممن لا يحتج به فيما ينفرد به فكيف فيما خالفه فيه من هو أثبت منه [الاستذكار 4/ 83]
نیز کہا:
ليس عندهم بذلك وترك مالك الرواية عنه وهو جاره وحسبك بهذا[التمهيد لابن عبد البر: 17/ 228]۔
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أدخله البخاري في الضعفاء وقال الرازي يحول من هناك[الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 97]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق فيه لين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3953]
تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به[تحرير التقريب: رقم3953]۔
دوسری علت:
عمر بن هارون
امام عبد الرحمن بن مهدى رحمه الله (المتوفى198)نے کہا:
لَمْ تكن لَهُ قيمة عندي[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 57 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
تَرَكوا حَديثِه[الطبقات الكبير لابن سعد 9/ 378]۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عمر بن هارون كذاب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن حبان نے ابن معین کی تائید کرتے ہوئے کہا:
والمناكير في روايته تدل على صحة ما قال يحيى بن معين فيه[المجروحين لابن حبان: 2/ 91]۔
امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
كان كذابا [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15 واسنادہ ضعیف]۔
امام ابن المبارك رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
هو كذاب[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15واسنادہ ضعیف]۔
نوٹ: امام صالح بن محمد اور ابن مبارک رحمہاللہ کے اقوال کی سند ضعیف ہے لیکن ابن معین رحمہ اللہ کا قول بسند صحیح ثابت ہے اورابن حبان نے بھی ان کی تائیدکی ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لا اروى عنه شيئا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔
امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
عمر بن هارون: لم يقنع الناس بحديثه[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 355]۔
امام عجلى رحمه الله (المتوفى:261)نے کہا:
عمر بن هارون بن يزيد الثقفي ضعيف [تاريخ الثقات للعجلي: 2/ 171]۔
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
الناس تركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي مَتْرُوك الحَدِيث بَصرِي[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 84]۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 194]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن يروي عن الثقات المعضلات ويدعى شيوخا لم يرهم[المجروحين لابن حبان: 2/ 90]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي، ضعيف[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 16]۔
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي عَن بن جريج وَالْأَوْزَاعِيّ وَشعْبَة الْمَنَاكِير لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 113]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
عمر بن هارون البخلي ليس بشيء في الحديث[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 176]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
واه اتهمه بعضهم [الكاشف للذهبي: 2/ 70]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك وكان حافظا[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4979]۔
تیسری علت:
محمد بن حميد الرازی۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فِيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 69]
امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
محمد بن حميد الرازي: كان رديء المذهب، غير ثقة.[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 350]۔
أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277)نے کہا:
هذا كذاب[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 739]۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے اسے ضعفاء میں ذکرکیا:
محمد بن حميد الرازي۔۔۔[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 61]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات[المجروحين لابن حبان: 2/ 303]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وثقه جماعة والاولى تركه[الكاشف للذهبي: 2/ 166]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
محمد بن حميد بن حيان الرازي حافظ ضعيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5834 ]۔
خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص٣٣٤].
نیز دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ٣٠١ ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
جابررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت:
جابررضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ ، جابررضی اللہ عنہ ہی سے منقول صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ، کیونکہ جابررضی اللہ عنہ نے بسندصحیح منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح پڑھائی، چنانچہ:
امام بن خزيمة رحمہ اللہ(المتوفى311) نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» [صحيح ابن خزيمة 2/ 138 رقم 1070]۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں امیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔
تحقیق: شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ