بلا تبصرہ !!!
برا بن مالک بھائی آج کی یہ خبر بھی اہمیت کی حامل ہے، غور کریں ذرا
یہ آپ کی خبر تھی
بھائی یہ لیں ایک اور دلیل آ گئی ہے۔
جس جاوید منشی کا نام لیا جا رہا ہے اُس نے خود ہی جیل سے تردید کر دی ہے ۔ پورا متن یہ ہے۔
مولانا شوکت کے قتل میں ملوث نہیں۔ قیدی جاوید منشی
مجھ سے رابطہ کیے بغیر تحقیقاتی کمیٹی نے بیان جاری کیا، لشکر طیبہ کی رپورٹ جھوٹ ہے۔ جیل سے بیان جاری
[LINK=http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2011-08-28/page-9]مکمل خبر کے لیے رونامہ نواےوقت 2011-08-28 ملاحضہ فرمائیں[/LINK]
جاوید منشی نے لشکر رپورٹ مسترد کردی
کہا وہ مولانا شوکت قتل سازش میں ملوث نہیں
سرینگر// مولانا شوکت احمد شاہ کی ہلاکت میں مبینہ طور ملوث قرار دئیے گئے محبوس حریت پسند جاوید احمد منشی عرف بل پاپا نے لشکر طیبہ کی روپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق جمعیت صدر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث نہیں ہیں۔ اُدھر جاوید منشی کے اہل خانہ نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ بل پاپا سے کوئی رابطہ کئے بغیر ہی کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی نے بیان جاری کردیا جس کے نتیجے میں انہیں سخت ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ سینٹرل جیل سرینگر میں نظر بند جاوید احمد منشی عرف بل پاپا ولد غلام احمد منشی ساکنہ شہید گنج سرینگر حال متھن چھانہ پورہ نے اپنی والدہ کے ذریعے میڈیا کیلئے جاری کیا ہے۔جاوید منشی کے چھوٹے بھائی نے اس بیان کی ایک کاپی کے این ایس کو دی جس میں جاوید منشی نے مولانا شوکت مرحوم کی ہلاکت سے متعلق لشکر طیبہ کی رپورٹ کی پُر زور اور صاف الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (جاوید منشی ) مولانا شوکت احمد شاہ کی ہلاکت میں کسی بھی طرح ملوث نہیں ہے ۔ بل پاپا نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ پولیس نے ان کو ایک سازش کے تحت جمعیت اہلحدیث کے سابق صدر مولانا شوکت احمد شاہ کے قتل میں پھنسایا ہے ۔جاوید منشی نے اخبارات میں کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی لشکر طیبہ کی رپورٹ کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے ۔ انہوںنے کہا ہے کہ میرا کردار ایک کھلی کتاب کی طرح حریت پسندوں کے سامنے ہے ، اس لئے اس طرح کے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہوں ۔ جاوید منشی عرف بل پاپا نے مزید کہا ہے کہ وہ تحریک آزادی کے ساتھ محبت رکھنے والے عوام اور مخلوص حریت پسند قیادت کو اس طرح کے جھوٹے الزامات پر کان نہیں دھرنا چاہیے ۔ جاوید منشی نے واضح کیا ہے کہ آج تک کسی بھی تحقیقاتی کمیٹی نے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا اور نا ہی ان سے مولانا شوکت احمد شاہ کے قتل کے بارے میں کوئی پوچھ تاچھ کی ہے ۔ انہوںنے کہا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی طرف سے میڈیا میں جاری کردہ بیان اور ان پر عائد الزامات یکطرفہ ہیں اس لئے وہ ان کو مسترد کرتے ہیں ۔
جاوید منشی نے لشکر رپورٹ مسترد کردی (KashmirUzma.net) 27 RAMAZAN 1432 AH SRINAGAR 28 AUGUST 2011 : 11:33:19
کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی نے لشکرطیبہ کی رپورٹ جاری کردی
مولانا شوکت قتل کیس
جاوید منشی ملزم قرار
عید کے بعدکیس کے دیگر پہلوئوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ
نیوز ڈیسک
سرینگر//مولانا شوکت قتل کی انکوائری کر رہی ’’کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی‘‘ نے لشکر طیبہ کی طرف سے موصولہ رپورٹ میڈیا کیلئے جاری کردی جس میں لشکر طیبہ نے اس معاملے کی تحقیقات میں اپنی طرف سے مکمل تعاون کی پھر یقین دہانی کراتے ہوئے جاوید منشی عرف بل پاپاکومولانا کے قتل کااہم ملزم قرار دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی کی ایک اہم نشست جمعیۃ منزل بربرشاہ سرینگر میں زیر صدارت صدر جمعیۃ اہلحدیث جموںوکشمیر غلام رسول ملک منعقد ہوئی۔ جس میں میرواعظ کشمیر و حریت کانفرنس (ع) چیئرمین مولانا محمد عمر فاروق،امیر جماعت اسلامی جموں کشمیر شیخ محمد حسن ،چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ محمد یاسین ملک ،چیئرمین اسلامک اسٹیدی سرکل جموں کشمیر ڈاکٹر محمد یوسف العمر،سرپرست اعلیٰ جمعیۃ حمایت اسلام جموں کشمیر مولانا شوکت حسین کینگ ،سرپرست اعلیٰ اتحاد المسلمین جموں کشمیر مولانا محمد عباس انصاری،سربراہ انجمن شرعی شیعان جموں کشمیر آغا سید حسن الموسوی الصفوی ،کے علاوہ جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ عبدالرحمان بٹ ، جماعت اسلامی جموںوکشمیر کے ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی لون اور میرواعظ کے پرنسل سیکرٹیری مولانا سعید الرحمان شمس بھی شامل تھے۔ حریت کانفرنس (گ) کے نمائندہ جانب الطاف احمد شاہ صاحب نجی مجبوری کی وجہ سے باجازت شرکت نہ کرسکے۔ نشست میںمولانا شوکت احمد شاہ کے قتل کے سلسلے میں ہورہی تحقیقاتی عمل کی پیش رفت کا بھرپور جائزہ لیا گیا اور اس بارے میں مختلف اطراف سے جمع شدہ رپورٹوں کو زیر بحث لایا گیا۔ چونکہ کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی نے پہلے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ شہید شوکت کے قتل ناحق کی ہر سطح پر تحقیقات ہوگی ۔ جس میں عسکریت کا دائرہ بھی شامل ہوگا۔عسکری محاذ پر بھی تحقیقات کا کام ہوا اور اب تک لشکر طیبہ جموںوکشمیر اور تحریک المجاہدین جموںوکشمیر نے اس سلسلے میں باضابطہ رپورٹیں کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی کو دی ہیں۔ ان رپوٹوں کو بھی نشست میں زیر بحث لایا گیا ۔ اور اتفاق رائے سے طے پایا کہ فی الوقت لشکر طیبہ کی طرف سے موصول شدہ رپورٹ بذریعہ میڈیا عوام کے سامنے رکھا جائے۔ تحریک مجاہدین کی رپورٹ کو بھی عنقریب عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔چیئرمین کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی اور صدر جمعیۃ اہلحدیث غلام رسول ملک کی طرف سے موصولہ بیان کے مطابق لشکر طیبہ کی طرف سے موصول شدہ تحقیقاتی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے،’’ جب مولانا شوکت احمد شاہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تب ہم نے قوم سے وعدہ کیا تھا ہم قاتلوںکو بے نقاب کریں گے اور وہ جہاں بھی ہوں اُن سے شہید مولانا کا انتقام لیں گے۔ ہمارا ابتدائی خیال تھا کہ بھارتی فوج اور اداروں نے تحریک کو کمزور کرنے اور آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے مولانا کو شہید کیا ہے۔ہمارے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ قاتل ہمارے ہی لوگ نکل آئیں گے۔ پروفیسر رمضان شہید کی طرح مولانا شوکت صاحب کی شہادت بھی ہماری ہی صفوں کے غداروں کے ہاتھوں ہوئی۔‘‘رپورٹ میں مزید بر آں لکھا گیا ہے کہ’’ ہم نے جلد ہی اپنی تحقیقات مکمل کرلی تھی مگر اس وجہ سے خاموش تھے کہ آپ قائدین کے کام پر اثر نہ پڑے اور کمیٹی کی تحقیق کسی جانب داری کا رنگ نہ اختیار کرلے۔ ہم آپکے معاون ہیں۔ ہم اپنی تحقیق آپ کے حوالے کررہے ہیں۔ آپ محترم قائدین تحریک کے حق میں جو بھی بہتر سمجھیں فیصلہ کریں اور ہمارے لئے جو بھی حکم ہو ہم حاضر ہیں۔ہم نے اپنی تحقیق تین مختلف پہلوئوں سے کی ہے۔(۱) کشمیری انڈین جیل میں موجود اسیران (حال ہی میں رہا ہوکر آئے ہیں) ابو قتال بھائی ۔(۲) کشمیر میں مجاہد فیلڈ کمانڈر عبداللہ یونی بھائی ۔(۳) آپریشنل کمانڈر (مظفرآباد) حنظلہ عدنان بھائی۔‘‘رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ ’’ محمد عمران جو کہ کشمیر کی جیلوں میں فدائی کے نام سے جانا جاتا ہے گذشتہ ماہ سرینگر جیل سے رہا ہوکر ہمارے پاس آیا ۔ یہ ایک سیدھا سادہ مجاہد ہے اور سیاسی عمل اور اسکی باریکیوں کو نہیں جانتا ۔ اس بھائی نے آتے ہی کہا کہ آپ سیاسی لوگوں کا ساتھ دے کر غلطی کررہے ہیں۔ ان میںاکثر لوگ انڈیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ان ناموں میں اس نے کمیٹی کے کچھ قابل احترام ممبران کا نام بھی لیا جب اس سے استفسار کیا گیا کہ یہ باتیں اسے کس نے بتائیں ہیں تو اس نے سرینگر جیل میں مقید جاوید منشی ( بل پاپا) کا نام لیا ۔ جاوید منشی نے قتال فدائی کو بتایا کہ مولانا شوکت ؒ کو ہم نے مارا ہے۔ اور جلد ہم یاسین ملک صاحب اور دیگر لوگوں کو بھی قتل کریں گے۔ جاوید منشی نے فدائی کو یہ بھی کہا کہ پاکستان جاکر امیر جماعت الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید حفظ اللہ تعالیٰ کو بھی بتائو کہ یہ سیاسی لوگ غلط ہیںان کے جنازے نہ پڑھائیں اور لشکر طیبہ والوں کو بتادو کہ وہ ان غلط لوگوں کی حمایت نہ کریں۔‘‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ’’ جاوید منشی نے گرفتار ی کے بعد لشکر طبیہ کے سوپور کے ذمہ دار عبداللہ یونی کا نام لیا ہے کہ اس نے اس کارروائی میں میری مدد کی ہے۔ اس نے ڈاکٹر قاسم صاحب اسیر سینٹر ل جیل سرینگر کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ معاملے کی تحقیق پیچیدہ ہو جائے اور تحقیق یہ رنگ اختیار کرے کہ مولانا کے قتل میں ان کے ہم مسلک لوگ ہی ملوث ہیں اور تمام قابل ذکر افراد کو معاملے میں ملوث کردیا جائے۔جب عبداللہ یونی سے تحقیق کی گئی تو اُس نے بتایا کہ جب جاوید منشی کے ساتھ میرا رابطہ تھا تب اس نے مولانا شوکت ؒ کے قتل کے بارے میں بات کی تھی تو میں نے سختی سے روکا کہ یہ درست نہیں۔ پھر بعد میں بعض معاملات میں منشی کی مشکوک حرکات اور خیانتوں پر اسکا مواخذہ کرنا چاہا تو وہ مجھ سے بھاگنے لگا۔ جب سختی سے پیچھا کیا تو وہ بھاگ گیا۔ اور اجب اس نے یہ منحوس عمل سرانجام دیا تو اس کے بعد انتقاماً میرا نام لے دیا تاکہ لشکر طبیہ کو ملوث کیا جاسکے ۔ رابطہ رہنے کے دوران میں اس سے یا کسی بھی دوسری تنظیم سے جس قسم کا جب بھی تعاون کیا وہ تحریک اور جہاد کے فائدے کے لئے کیا ۔ اور جب اسکے مذموم مقاصد کا پتہ چلا تب ہر قسم کا تعاون بند کردیا۔‘‘ آپریشنل کمانڈرز کا حوالہ دیتے ہوئے لشکر طیبہ نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ ’’مولانا شوکت شہید ؒ کیس میں جن ملزمان کے نام آرہے ہیں ان میں دو لوگ جاوید احمد منشی ولد عبدالرحمان اور نثار احمد کا نام بھی ہے۔ ان دونوں کو میرے ساتھ متعارف کروانیوالا ابو عمیر (TM)کا ہے۔ ابو عمیر شیخ جمیل الرحمن کا دائیاں ہاتھ ہے۔ مظفرا ٓباد میںرہتا اور TMکا آپریشن کا کام کرتا ہے۔عمیر نے ہمیں درخواست کی کہ میرے پاس کام کرنے والے لوگ ہیں آپ میری مدد کریں میں کاروائیاں کرونگا اس بنیاد پر ہم نے محتاط رہتے ہوئے اسکی مدد کی اس طریقہ سے ان TMکے فیلڈ میں کام کرنے والے لوگوں سے تعارف ہوا ۔ ان میں سے ایک گروپ کا امیر جاوید مشنی تھا جبکہ ثانی الذکر شخص نثار احمد دوسرے گروپ میں شامل تھا ۔ان گروپس کے ساتھ تقریباً ایک سال تک رابطہ رہا ہے ۔ عمیر کی نظر میں جاوید منشی بہت اہمیت رکھتا ہے اور اندروادی کے تمام معاملات وہ اسی بندے کے ساتھ ڈیل کرتا ہے یا اس طر ح کہہ لیں جاوید عمیر کا دائیاں ہاتھ ہے۔‘‘ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے ’’2010میں کچھ اسلحہ جس میں ڈیٹو نیٹر ، پسٹل ، گرنیڈ ، RCشامل ہیں عمیر کے ذریعے سے لانچ ہوا اور وہ جاوید کے پاس ہی گیا ۔ بارود بنانے کے لئے انہوں نے ہم سے تقریباً ایک لاکھ روپے لئے اور بارود بنایا ۔ لیکن بعد میں بہانہ کردیا کہ وہ بارود اور سامان ضائع ہوگیا ہے پکڑا گیا ہے ۔ عمیر اپنے پاکستان کے معاملات بھی جاوید منشی کو بتاتا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے یہ شیخ جمیل الرحمن سے ناراض تھا اور اسکی کوشش تھی کہ جاوید کو پاکستان لایا جائے اور TMکی ذمہ داری اسکو سونپی جائے۔ ہمیں عمیر نے اپنے سب فیلڈ میں آپریشنل لوگوں کا ریکاڑدیا تھا اسکے مطابق نثار احمد الگ گروپ میں تھا۔‘‘رپوٹ کے مطابق ’’جاوید منشی اور نثا ر احمد اگر یہ وہی نثار احمد ولد عبدالقادر گنائی آف بیروہ بڈگام ہے جو عمیر کے رابطے میں ہے تو پھر انکا آپس میں رابطہ سوائے عمیر کے کوئی اور نہیں کروا سکتا ۔ ہمارے کوائف کے مطابق نثار احمد مکمل تربیت یافتہ ہے ۔اگر یہ بندہ وہی ہے جس پر مولانا کے قتل کا الزام ہے تو عمیر کو مولانا کے قتل کا پہلے سے علم تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حکم یہ پیغام پاکستان سے جاری کیا گیا ہو۔ مولانا شوکت صاحب کی شہادت کے بعد سے عمیر بہت پریشان ہے ۔ اسکی پریشانی کی وجہ جاوید منشی اور نثار احمد کی گرفتاریاں ہیں۔جاوید منشی کے متعلق میں یہ کہوں گاکہ میرا اس گروپ کے ساتھ جب سے رابطہ ہوا ہے اس دوران بقول عمیر کے یہ 2دفعہ گرفتار ہوا اور جلد رہا ہو جاتا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس سے کچھ بارود بنانے کا سامان بھی پکڑا گیا لیکن یہ بندہ بہت جلد چھوٹ گیا ۔یقینا یہ بندہ ڈبل کراس ہوسکتا ہے۔جاوید منشی کی طرف سے ہمارے ساتھ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ یہ کپواڑہ جنگ میں بیڈ پر موجود بھائیوں کو ڈھونڈ کر ملنے آیا۔ اپنا تعارف TMکے چیف کے طور پر کرایا اور پاکستان جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بھائیوں نے پاکستان جانے کیلئے مناسب وقت پر اطلاع کرنے کا وعدہ کرکے واپس جانے کیلئے کہا ۔ جاوید مجاہدین میںگھل مل کر بھائیوں کی خفیہ موبائیل سے ویڈیو بنا کر واپس چلا گیا ۔رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ بعد پاکستان سے ہمارا ایک گروپ وصول ہوا۔ بیڈ پر موجود بھائیوں نے رابطہ کرکے پاکستان جانے کیلئے اس کو گائوں میں ملنے کا پوائنٹ دیا ۔اسی دن اس نے سب سے پہلے ہمارے 2اپرز کو گرفتار کروایا اور آرمی کو مجاہدین کے گائوں میں آنے کی اطلاع کردی۔ جب بھائی شام کو گائوں میں پہنچے تو آرمی نے گھیرا کرلیا اور جھڑپ میں دونوں مجاہد شہید ہوگئے۔ اسکے بعد جنگل میں بیڈ پر چھاپہ کروایا۔ مگر بھائی یہاں سے خیریت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے، الحمدللہ۔‘‘بیان کے مطابق’’ جموںوکشمیر میں مجاہدین لشکر طبیہ کی کفر شکن کاروائیوں اور انمٹ قربانیوں اور پھر اس قربانیوں کے باعث کشمیر ی عوام میں مجاہدین لشکر طبیہ کی عزت اور ہر دل عزیزی کے باعث بھارتی ادارے اور فوج بہت خائف ہیں اور انکی بھرپور کوشش ہے کہ کشمیر ی عوام اور تحریک کے محترم قائدین کو لشکر طیبہ سے برگشتہ کیا جاسکے۔لیکن الحمد للہ،اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کی بے لوث قربانیوںکے باعث ہماری محب کشمیری عوام کے دلوںمیں ہماری محبت قائم رکھی ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے قائم و دائم رکھے اور اس میں اضافہ فرمائے۔آمین۔‘‘لشکر طیبہ نے علیحدگی پسند لیڈران سے مخاطب ہوتے کہا ہے کہ ’’محترم قائدین کرام سے یہ بھی گزارش ہے کہ جب بھی ایسے معاملے کے باعث کوئی غلط فہمی پیدا ہورہی ہو تو دشمن کی سازش بھانپیں اور ہم سے فوراً تصدیق کرلیں تاکہ کسی بھی غلط فہمی سے بچا جاسکے۔اللہ ہمیں دین اسلام کی خدمت کیلئے اکٹھا رکھے اور ہر قسم کے انتشار اور پریشانیوں سے بچائے رکھے۔آمین‘‘اس دوران حریت (ع) چیر مین میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ عید الفطر کے فوراً بعد کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی طلب کی جائیگی جس میں لشکر طیبہ کی طرف سے موصولہ رپورٹ اور اس کیس کے دیگر پہلوٗوں کا جائزہ لیا جائیگا۔
کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی نے لشکرطیبہ کی رپورٹ جاری کردی (KashmirUzma.net) 27 RAMAZAN 1432 AH SRINAGAR 28 AUGUST 2011 : 11:37:22
مولانا شوکت قتل، سرینگر میں تین گرفتار
مولانا شوکت کو جمعہ کے روز مسجد کے گیٹ پر ہلاک کیا گیا تھا
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مقامی پولیس نے سنیچر کو دعویٰ کیا ہے کہ آٹھ اپریل کو بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے مذہبی رہنما مولانا شوکت کے قتل کی سازش کا منصوبہ یہاں سرگرم ایک مذہبی و سیاسی گروپ صوت الحق نے کئی مسلح تنظیموں کے تعاون سے ہی بنایا تھا۔
علیٰحدگی پسند جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس دعویٰ کا جائزہ لینے کے بعد ہی اپنا ردعمل ظاہر کرینگے۔
انسپکڑ جنرل پولیس شِوموراری سہائے نے سنیچر کو پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ اس سلسلے میں انہوں نے نثار احمد خان عرف اسحاق، عبدالغنی ڈار عرف عبداللہ غزالی اور جاوید احمد منشی عرف بِل پاپا کوگرفتار کیا ہے۔
سرینگر کی نواحی بستی چھانہ پورہ کے رہنے والے سابق مسلح شدت پسند جاوید منشی نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ جاوید نے لشکر طیبہ کمانڈر عبداللہ اونی سے کچھ بارودی مواد لیا اور کچھ مقامی طور پر حاصل کیا۔ بم بنانے کے بعد چھانہ پورہ کے ہی نثار احمد خان کو مسجد کے باہر رکھنے اور اسے ریموٹ کنٹرول سے اُڑانے کا کام سونپا گیا
انسپکڑ جنرل پولیس شِوموراری سہائے:مسٹر سہائے نے اس موقع پر ایک تحریری بیان بھی جاری کیا جس کے مطابق سابق مسلح شدت پسند اور صوت الحق کے صدر عبدالغنی ڈار نے سرینگر سینٹرل جیل میں قید ایک علیٰحدگی پسند رہنما عاشق حسین فکتو عرف ڈاکڑ قاسم کے ساتھ ملاقات کے دوران قتل کا منصوبہ ترتیب دیا تھا۔
پولیس سربراہ کا کہنا تھا: ’سرینگر کی نواحی بستی چھانہ پورہ کے رہنے والے سابق مسلح شدت پسند جاوید منشی نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ جاوید نے لشکر طیبہ کمانڈر عبداللہ اونی سے کچھ بارودی مواد لیا اور کچھ مقامی طور پر حاصل کیا۔ بم بنانے کے بعد چھانہ پورہ کے ہی نثار احمد خان کو مسجد کے باہر رکھنے اور اسے ریموٹ کنٹرول سے اُڑانے کا کام سونپا گیا۔‘
مسٹر سہائے نے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی کو انجام دینے کے دوران یہ سبھی افراد پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں مقیم درجن بھر مسلح تنظیموں کے اتحاد جہاد کونسل کے جنرل سیکرٹری جمیل الرحمٰن کے ساتھ رابطے میں تھے۔علحیدگی پسندوں نے اس قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی
پولیس کا کہنا ہے کہ صوت الحق دراصل جمیعت اہل حدیث کی حریف جماعت ہے اور گرفتار کیےگئے افراد بیک وقت صوت الحق اور جمیعت اہل حدیث کے ساتھ وابستہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’دو سال سے مولانا شوکت کو صدارت کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن تنظیمی انتخابات میں وہ جیت جاتے تھے اور بالآخر انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔‘
پولیس کے مطابق بعض علیحدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ مولانا کی نزدیکیاں بھی ان کے حریفوں کو ناپسند تھیں۔ آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔
واضح رہے کہ مولانا شوکت آٹھ اپریل کو اُس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب وہ سرینگر کی ایک مسجد میں خطاب کے لیے جا رہے تھے کہ مسجد کے دروازہ پر رکھا گیا بارودی مواد زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔
جمیعت اہل حدیث کے صدر مولانا شوکت کی ہلاکت کی بیشتر سیاسی و سماجی حلقوں نے یکساں شدت کے ساتھ مذمت کی ہے۔ حریت کانفرنس کے دھڑوں، لبریشن فرنٹ اور دوسری جماعتوں نے جمعہ کے روز لال چوک میں اس سلسلے میں مشترکہ تحقیات کا عہد کیا اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں مقیم درجن مسلح تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی تعاون طلب کیا۔
عسکری گروپوں نے پہلے ہی اپنے بیانات میں اس قتل کے لیے حکومتی ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم علیحدگی پسند رہنماؤں نے قاتل کو ’دونوں طرف ڈھونڈنے‘ کا اعلان کیا ہے۔
PROXY:BBC Urdu - نڈیا - مولانا شوکت قتل، سرینگر میں تین گرفتار