سید قطب جیسے لوگ شاید اللہ کے ہاں دوہرے اجر کے مستحق ہوں جن پر طواغیت نے بھی طلم و ستم کی انتہا کی تو دوسری طرف اپنوں کے تیر بھی سہے....... سید قطب نے اپنے الفاظ کو اپنے خون سے سینچا....... اور اپنے ان کے الفاط زندہ جاوید ہو گئے .
سید کی مشہور ترین کتاب "معالم فی الطریق" ہے، اسی کتاب کی عبارتوں کو بنیاد بنا کر ان پر مقدمہ نامی ڈھونگ رچایا گیا اور شہید کیا گیا. کتا سید کی فکر کا ملخص سمجھ لیں ۔
لنک دے رہا ہوں ، فکری کجی کا دعودار کوی ھای اگر کسی غلطی سے مطلع فرما سکے تو کیا ہی ات ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ خدارا جن کی دن رات مخالفت فرماتے ہیں ان کی فکر کو پڑھ کے ھی دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی برقی کتابیں
https://manhajahlussunah.wordpress.com/2011/09/11/دور-جدید-کی-تکفیری-تحریکوں-کا-جائزہ-حص/
بعض سلفی وغیرسلفی علماء کا کہنا ہے کہ مصر میں تکفیر کی تحریک کا آغاز اخوانی تحریک کے رہنما سید قطب شہید کی تحریروں سے ہوا۔ علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں :
فی ھذة المرحلة ظھرت کتب الشھید سید قطب ‘ التی تمثل المرحلة الأخیرة من تفکیرہ ‘ والتی تنضح بتکفیر المجتمع’ وتأجیل الدعوة الی النظام الاسلامی بفکرة تجدید الفقہ وتطویرہ ‘ واحیاء الاجتھاد’ وتدعوا لی العزلة الشعوریة عن المجتمع’ وقطع العلاقة مع الآخرین…ویتجلی ذلک أوضح ما یکون فی تفسیر ‘فی ظلال القرآن’ فی طبعتہ الثانیة وفی ‘معالم الطریق’ ومعظمہ مقتبس من الظلال.”(أولیات الحرکة السلامیة : ص ١١٠)
”اس مرحلے میں سید قطب کی وہ کتابیں سامنے آئیں، جو سید قطب کے فکر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کر رہی تھیں اور ان کتابوں میں اسلامی معاشروں تکفیر، نظام اسلامی کے قیام کی دعوت کو مؤخر کرنا اور فقہ اسلامی کی تجدید، تشکیل اور اجتہاد کے احیاء کی دعوت کو مقدم کرنا مترشح ہوتا ہے۔ اسی طرح سید قطب کی یہ کتابیں اسلامی معاشروں سے شعوری علیحدگی اور اپنے کے علاوہ سے قطع تعلقی کی دعوت دیتی ہیں… اور یہ تمام افکار ان کی تفسیر ‘فی ظلال القرآن’ کے دوسرے ایڈیشن میں وضاحت سے موجود ہیں اور ان کی کتاب ‘معالم الطریق’ میں بھی ہیں اور اس کتاب کا اکثر حصہ ان کی تفسیر فی ظلا ل القرآن ہی پر مشتمل ہے۔”
شیخ ابو حسام الدین طرفاوی نے بھی اپنی کتاب
الغلو فی التکفیر میں تکفیری فکراور تحریک کی بنیاد سید قطب شہید کو قرار دیا ہے جبکہ محمود عزت کا کہنا ہے کہ سید قطب کا آخری کلام مسلمان معاشروں کی تکفیر نہ کرناتھا۔ جہاں تک سعودی سلفی علماء کا سید قطب شہید کے بارے رائے کا معاملہ تو اکثر کبار سلفی علماء سید قطب شہید کو جلیل القدر صحابہ کرام پرطعن، انبیاء کے لیے غیر مناسب کلمات کے استعمالات، وحدت الوجود کے قائل ہونے، حلول کے عقیدے کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر کرنے، صفات باری تعالی میں تحریف، مسلمان معاشروں کی تکفیر، مسئلہ جبر میں جبریہ کی تقلید، کلمہ توحید کی غلط تفسیر، عقیدے میں خبر واحد بلکہ خبر متواتر کابھی انکار، قرآن کو اللہ کی مخلوق قرار دینا، میزان کا انکار، اشتراکیت کا قائل ہونے، روح کو ازلی قرار دینے، بتوں اور قبر پرستی کے شرک کو شرک اکبر نہ سمجھنا، رؤیت باری تعالی، صفت ید، صفت وجہ اور استواء علی العرش کی باطل تاویلات پیش کرنا، صفت کلام سے مراد اللہ کا ارادہ لینا، نبوی معجزات کی توہین اور عقیدہ الولاء و البراء میں غلو سے متہم کرتے ہوئے بدعتی شمار کرتے ہیں۔
سید قطب شہید کے عقیدے اور منہج کو بدعتی قرار دینے پر سعودی عرب کی فتوی کمیٹی اور ہیئہ کبار العلماء کے رکن شیخ صالح الفوزان کا رسالہ
براء ة علماء الأمة من تزکیة أھل البدعة والمذمة کے نام سے موجودہے۔علاوہ ازیں مدینہ یونیورسٹی کے استاذ شیخ ربیع المدخلی نے بھی کئی ایک کتب میں سید قطب شہید پر رد کیا ہے اور اس بارے ان کی مفصل کتاب
أضواء سلامیة علی عقیدة سید قطب وفکرہ ایک معروف کتاب ہے۔علاوہ ازیں معروف سعودی عالم شیخ عبد اللہ الدویش کی بھی سید قطب کے رد میں کافی تحریریں موجود ہیں جن میں سے
المورد العذب الزلال فی التنبیہ علی أخطأ الظلال ایک اہم تحریر ہے۔شیخ ابو عبد الرحمن الراجحی نے سید قطب کے عقائد کے رد میں ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھاجو عرب دنیا میں بہت معروف ہوا یہ قصیدہ
الھائیة فی بیان عقیدة سید قطب البدعیة کے نام سے مشہور ہے۔
لیکن ہم یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی شیء اس دنیا میں شر محض نہیں ہے۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ میں عقیدے کے بگاڑ کے باوجود بہت سی خوبیاں تھیں اور دین اسلام کے لیے ان کی قربانیاں ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مقامات پر اگرچہ واقعتاً سید قطب کے عقیدے میں کجی محسوس ہوتی ہے لیکن بعض مقامات پر ناقدین کی طرف سے سید قطب شہید رحمہ اللہ کی عبارتوں کو کھینچ تان کر ان کے کھاتے میں وہ الزام بھی ڈال دیے جاتے ہیں جو ان کے عقائد معلوم و محسوس نہیں ہوتے ہیں۔بہر حال سید قطب شہید ایک داعی، مصلح اور ادیب تھے اور اس اعتبار سے ان کا مقام مسلم اور قابل تعریف ہے لیکن انہیں ایک فقیہ یا مجتہد کے مقام پر فائز کرنا یا عقیدہ جیسے محتاط علم میں ان کو رہنما بنانا خود ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور عوام الناس کے ساتھ بھی۔
ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بعض سلفی نوجوان یاطلبۃ العلم، کبار علماء کے اس قسم کے رد کو کسی شخصیت کو رگیدنے یا مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں حالانکہ علماء کا مقصد کسی شخص کی ذات کو گندا کرنا نہیں ہوتا۔ عام طور پربعض نوجوان جذباتی قسم کے متشدد سلفیہ کا یہ منہج بن چکا ہے کہ کسی بھی داعی، مصلح یا خادم دین کے بارے انہیں عقیدے یامنہج کی کسی خرابی کا علم ہوتا ہے تو وہ اس داعی یا مصلح کی پوری شخصیت ہی کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نوجوان سلفی نظریاتی تشدد کا نتیجہ ہے کہ آج سلفیہ کئی ایک جماعتوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہے ہیں ۔اور یہ سب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ انبیاء و رسل کے علاوہ اس عالم بشری میں کوئی بھی معصوم نہیں ہے اورہر کوئی خطا کا پتلا ہے لہذا کسی کی فکری خطا یا عقیدے کے بگاڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ان کی من جملہ دینی خدمات یا اوصاف حسنہ ہی کا رد کر دیں ۔ قرآن مجید تو یہود تک کے بعض اوصاف پر ان کی تعریف کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ومن أھل الکتاب من ا ن تأمنہ بقنطاریؤدہ الیک.(آل عمران : ٧٥)
مصر میں بھی اگرچہ قانون سازی کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف ردعمل کی صورت میں تکفیر کی تحریک کا باقاعدہ آغاز سید قطب شہید کی تحریروں کی روشنی میں بیسیویں صدی عیسوی کی سترکی دہائی میں ہوا۔ مصر میں تکفیر کا دوسرا مرحلہ ‘جماعت المسلمین’ سے شروع ہواجنہیں
جماعة التکفیر والھجرة کا نام دیا گیا۔ اس جماعت کی ابتداء حسن البناء کی قائم کردہ جماعت’الخوان المسلمون’کے ان راکین سے ہوئی جنہیں حکومت مصر کی طرف سے پابند سلاسل کیا گیااور ان پر معاصر حکام کی طرف سے شدید ظلم و ستم ہوا۔١٩٦٧ء میں جیل میں قید اخوانیوں کے لیے جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ اخوانی کارکنان صدرکی تائید و حمایت کریں ۔ اکثر اخوانی اراکین نے اپنے آپ کو مجبور اور حالت اکراہ میں سمجھتے ہوئے صدر کی تائید کر دی جبکہ نوجوانوں کی ایک جماعت نے اس تائید سے انکار کر دیا اور صدر اور اس کے حواریوں حتی کہ ان اخوانیوں کو بھی مرتد قرار دیا جو صدر کی تائید کر چکے تھے۔نوجوانوں کی اس جماعت نے یہ بھی کہا کہ جو ان مرتدین کو مرتد نہ کہے وہ بھی مرتد ہو جائے گا۔ ان نوجوانوں کے امام اس وقت انجینئر علی اسماعیل تھے۔ علی اسماعیل نے بعد میں اپنے افکار اور نظریات سے توبہ کر لی ۔
ان کے بعد شکری مصطفی نے ان نوجونواں کی قیادت سنبھال لی اور تنظیم کو بیعت کی بنیادوں پر منظم کیا۔ شکری مصطفی کے دور میں اس جماعت کے افکار و نظریات میں تشدد اور بھی بڑھ گیا اور جو بھی جماعت سے علیحدہ ہوتا تو اس کو وہ ایک طرف تو جسمانی سزا دینا اپنا حق سمجھتے تھے اور دوسری طرف اس کی تکفیر بھی کرتے تھے۔٣٠مارچ ١٩٧٨ء کوحکومت مصر کی طرف سے شکری مصطفی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ شکری مصطفی کے بعد اس جماعت کی قیادت ماہر عبد اللہ زناتی نے سنبھال لی۔ اس جماعت کے بنیادی عقائد میں تکفیر اور ہجرت شامل ہے۔ تکفیر کے اصول کے تحت یہ ان حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ یہ حکمرانوں کے علاوہ ان مسلمان معاشروں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر راضی ہوں یا انہیں ووٹ دیں یا کسی طرح سے بھی ان کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ ان علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ جماعت تمام مسلمانوں کے لیے اپنے امام سے بیعت کو واجب قرار دیتی ہے جس مسلمان تک ان کے امام کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس کی بیعت نہ کرے تو اس مسلمان کی بھی وہ تکفیر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نکل جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہے۔ اپنے ہجرت کے اصول کے تحت انہوں نے تمام اسلامی معاشروں کو دور جاہلیت کے معاشرے قرار دیا اور ان سے قطع تعلقی کا حکم جاری کیا ۔ اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں ہے کیونکہ یہ جاہلی معاشرے ہیں اور جاہلی معاشرے کو اللہ کے رسول نے ایمان کی دعوت دی لہذا ان مسلمان معاشروں کو بھی مکہ کے جاہلی معاشرے پر قیاس کرتے ہوئے صرف ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ اس جماعت کے بعض اکابرین کو پھانسی چڑھا دیا گیا، بعض نے اپنے افکار سے رجوع کر لیا اور بعض مختلف علاقوں اور بلاد اسلامیہ میں منتشر ہو کر اپنا یہ فکر پھیلانے لگ گئے۔
(الموسوعة المیسرة ‘ جماعات غالیة ‘ جماعة التکفیر والھجرة)
مصر میں تکفیر کی اس تحریک کا زوال تیسرے مرحلے میں الاخوان کے مرشد عام شیخ حسن الھضیبی سے شروع ہوا ۔ انہوں نے ‘دعاة لا قضاة’کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں اخوانیوں کو مسلمان معاشروں اور عمومی تکفیر سے منع کیا۔ انہوں نے اپنی تحریک کے اراکین میں اس بات کو اجاگر کیا کہ ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی۔ شیخ نے یہ واضح کیا کہ اخوانیوں کا اصل کام لوگوں کی اصلاح ہے نہ کہ ان پر فتوے لگانا اور ان کے کفر کے فیصلے جاری کرنا۔ علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب
ظاھرة الغلو فی التکفیرمیں اس کتاب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب نے اخوانیوں کو ان کے صحیح منہج اور کام کا احساس دلایا۔
مصر کے معروف سلفی عالم دین شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ کے بارے عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی تکفیر کے قائل تھے۔ ہمارے علم کی حد تک ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں انہوں نے توحید حاکمیت کی بیان پر مصری یا عثمانی حکمرانوں کی تکفیر کی ہو۔ ہاں! ان کی بعض ایسی تحریریں ضرور موجود ہیں جس میں انہوں نے وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز قرار دینے والوں کو گمراہ قرار دیا ہے ۔شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں:
ھذہ الآثار عن ابن عباس وغیرہ ممایلعب بہ المضللون فی عصرنا ھذا من المنتسبین للعلم’ ومن غیرھم من الجراء علی الدین یجعلونھا عذرا أو باحة للقوانین الوضعیة الوثنیة الموضوعة التی ضربت علی بلاد المسلمین.”(عمدة التفسیر:جلد ١، ص ٥١٤)
” اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے ان آثار وغیرہ کی بنیاد پر ہمارے زمانے کے بعض نام نہاد اہل علم اور دین کے معاملے میں جرات کا اظہار کرنے والے کھیل تماشہ کرتے ہیں اور وہ ان آثارکو بنیاد بناتے ہوئے ان شرکیہ وضعی قوانین کو قابل عذر یا مباح قرار دیتے ہیں جو مسلمان ممالک میں نافذ کیے گئے ہیں۔‘‘
شیخ کی درج ذیل عبارت اپنے موقف میں انتہائی صریح ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ جو حضرات خلاف اسلام وضعی قوانین کے نفاذ یا ان کے مطابق فیصلوں کو مباح یا قابل عذر قرار دیتے ہیں وہ گمراہ تو کجا دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔شیخ نے اسی فعل کو ایک دوسری جگہ کفر بواح قرار دیا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں:
ان الأمر فی ھذہ القوانین الوضعیة واضح وضوح الشمس ھی کفر بواح لا خفاء فیہ.”(عمدة التفسیر : جلد١، ص١٧٤٤)
”ان وضعی قوانین کا معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایسا کفر بواح ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
وضعی قوانین کے کفریہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے اور جو ان کفریہ قوانین کے مطابق فیصلوں کو جائز، حلال یا قابل عذر سمجھے تو اس کے اس عمل کے کفر بواح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ واضح رہے کہ شیخ نے اس فعل کے فاعلین کو کافر قرار نہیں دیا ہے بلکہ اصل زور فعل کے کفریہ اور کفر بواح ہونے پر ہے۔
کسی فعل کے ‘کفریہ’ ہونے یا ‘کفر بواح’ ہونے اور اس کے فاعل کو ‘کافر’ قرار دینے میں جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ کسی فعل کو ‘کفر’ یا ‘شرک’ یا ‘کفر بواح’قرار دینے کو عرف عام میں تکفیر نہیں کہتے کیونکہ تکفیر تو ‘فاعل ِ کفر’ یا’ فاعل ِ شرک’ کی ہوتی ہے نہ کہ’ افعال کفر’ یا ‘افعال شرک’ کی۔
https://manhajahlussunah.wordpress.com/2011/09/11/دور-جدید-کی-تکفیری-تحریکوں-کا-جائزہ-حص/