• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث دل

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم بھائی! درج بالا آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد وحی یعنی کتاب اللہ (بمعہ اپنی تشریح یعنی سنت کے) ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ رسی کٹ گئی ہے، پہلے اسے جوڑنا ہوگا۔ پھر اسے تھاما جائے گا۔
آپ کہتے ہیں کہ زمین بنجر ہے، پہلے صفائی کرنی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

عجیب!!!

نہیں میرے بھائی! کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں کوئی کمی وکجی نہیں اور نہ ہی آ سکتی ہے۔ نہ وہ بنجر ہیں، نہ ان کی صفائی کی ضرورت ہے۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العٰلمین نے لی ہے۔

﴿ إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ٩ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
﴿ لا يَأتيهِ البـٰطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ ۖ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ٤٢ ﴾ ۔۔۔ سورة فصلت


لہٰذا کتب وسنت کے جڑنے کا انتظار کرنے (لیت ولعل) کی بجائے، فوری طور پر اسے تھامنے سے ہی اتحاد واتفاق ممکن ہے وگرنہ نہیں!!!


متفقہ پینل کی ہی بات کر رہا ہوں وہ کتاب اللہ (بمعہ سنت) ہی ہیں۔
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّـهِ وَاليَومِ الـٔاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ٥٩ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (59)
قاری صاحب !
میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو عقل سلیم عطا کرے۔
اگر میں آپ کی پوسٹ پر تبصرہ کروں گا تو شاید اسے آپ کی شان عالی میں بے ادبی تصور کیا جائے گا۔
لہذ میری پوسٹ کے جواب میں آپ کا یہ درج بالا مراسلہ آپ کے فہم اور بصیرت کا ثبوت ہے۔
اللہ تعالی آپ کے حال پر رحم فرمائے۔
شکریہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائیں!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
پچھلے دنوں دل میں شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ عالم تیار کرنے کے لیے دارالعلوم اور مدارس ہیں، اصلاح نفس کے لیے خانقاہیں بنائی گئیں،
خانقاہیں اصلاح نفس کے لئے نہیں بلکہ نفس میں بگاڑ کے لئے قائم کی گئیں اور جن لوگوں نے قائم کیں انکے دل میں صوفیت کی بیماری تھی۔ اصلاح نفس کا کام مدارس اور مساجد میں ہوتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قاری صاحب !
میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو عقل سلیم عطا کرے۔
اگر میں آپ کی پوسٹ پر تبصرہ کروں گا تو شاید اسے آپ کی شان عالی میں بے ادبی تصور کیا جائے گا۔
لہذ میری پوسٹ کے جواب میں آپ کا یہ درج بالا مراسلہ آپ کے فہم اور بصیرت کا ثبوت ہے۔
اللہ تعالی آپ کے حال پر رحم فرمائے۔
بھائی اگر آپ کے سائن میں یہ بات موجود نہ ہوتی کہ "90 فی صد اختلاف انسان کے لب ولہجے سے جنم لیتا ہے۔" تو شاید میں یہ بات نہ کرتا۔ جب ہم ایک بات کے داعی یا مبلغ ہوتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اگر آپ کے اس جواب کا ہم تجزیہ کریں تو تقریبا ہرلائن میں ایک ایسی بات موجود ہے جسے ایسا لب ولہجہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اختلاف بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

پہلی لائن میں یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو عقل سلیم عطا کرے، کہنے کو یہ ایک دعا ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جب اختلاف میں کسی کو یہ جملہ کہا جائے تو وہاں یہ دعا نہیں بلکہ طنز شمار ہوتا ہے۔

دوسری لائن میں یہ ہے کہ میں آپ کی پوسٹ پر تبصرہ کروں گا تو آپ کی شام عالی میں بےادبی تصور کیا جائے گا، یہ بھی ایک ایسا جملہ ہے جسے آپ کا مخاطب طنز سمجھ سکتا ہے۔

تیسری لائن کا جملہ آپ کا درج بالا مراسلہ آپ کے فہم اوربصیرت کا ثبوت ہے، اسے بھی مخاطب کیا سمجھے گا؟ طنز؟

چوتھا جملہ کہ اللہ آپ کے حال پر رحم فرمائے بھی دعائیہ کی بجائے مخاطب کے نزدیک طنزیہ جملہ ہی شمار ہو گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ انس صاحب درست ہیں اور آپ غلط، یا انس صاحب تنقید سے بالاتر ہیں، یہ پوسٹ کرنے سے مقصود صرف یہی ہے کہ جو چیز آپ نے سائن میں لگائی ہے، اگر آپ اس کی پابندی نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ آپ سے ہر گز نہیں سیکھ پائیں گے۔ اپنے سائن میں یہ عبارت لگانے سے آپ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دل میں یہ خیال آیا کہ فورمز پر بہت سے ظاہری اختلافات کی وجہ عجلت ہے۔ اگر انسان ٹھہراو اور سکون سے مباحثہ یا مکالمہ کرے تو کافی اختلافات ازخود ختم ہو جائیں گے۔ اسے ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گا۔ میں نے ایک پوسٹ کی جو کہ درج ذیل تھی:
ایک صاحب کو دعا کرتے سنا تھا کہ اے اللہ مجھ سے نبیوں والا کام لے لے۔ دعا پسند آئی، اس کے بعد سے اکثر یہ دعا مانگتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ نبیوں والا کام کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی ہر خیر کا کام کرتے تھے، دعوت، تعلیم، تربیت، جہاد، خدمت خلق وغیرہ۔ جب بھی یہ سوال پیدا ہوا تو ہمیشہ دل میں یہی آتا ہے کہ نبیوں والے کام سے مراد دعوت کا کام ہے کہ ان کی زندگی کا غالب حصہ دعوت وتبلیغ میں گزرتا ہے۔ واللہ اعلم
پچھلے دنوں دل میں شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ عالم تیار کرنے کے لیے دارالعلوم اور مدارس ہیں، اصلاح نفس کے لیے خانقاہیں بنائی گئیں، مجاہدین کی تیاری کے معسکرات وجود میں آئے، خدمت خلق کے لیے ویلفیئر ٹرسٹ بنے لیکن داعی تیار کرنے والے ادارے نظر نہیں آتے۔ ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے کہ جس میں ایک سال، چھ ماہ، چار ماہ، تین ماہ، ماہانہ اور ہفتہ وار کورسز کی بنیاد پر داعی تیار کیے جائیں۔ دعوت دینے کا نہ صرف نبوی طریقہ سکھایا جائے بلکہ اس کا پریکٹیکل بھی کروایا جائے۔ دعوت دینے میں جو ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے، اسے تربیت کے ذریعے دور کیا جائے۔ زمانے کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک داعی میں دعوت کے ممکنہ جدید وسائل سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ مدعو کی نفسیات، مخاطبین کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے گفتگو اور دعوت کے اسالیب میں تبدیلی وغیرہ جیسی علمی وفکری نکات کو زیر بحث لایا جائے وغیرہ۔ یعنی دعوت کو باقاعدہ ایک منظم سائنس کے طور متعارف کروایا جائے۔
اس پر ہمارے ایک بھائی نے تبصرہ فرمایا:
مگر یہ تمام ادارے دعوت کا بھی کام کرتے ہیں۔
میں نے یہ پوسٹ پڑھی تو دل میں پہلے پہل خیال پیدا ہوا کہ اس کا جواب لکھوں اور ذہن میں یہ جواب تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی بنیاد دعوت کا کام کرنے کے لیے رکھی گئی ہو یعنی اداروں کے قائم کرنے کے مقاصد دعوت کے علاوہ کچھ اور تھے۔

بہر حال کسی وجہ سے یہ پوسٹ نہ کر سکا لیکن اس موضوع پرسوچ وبچار جاری تھی کیونکہ وہ مزاج کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ بعد ازاں یہ خیال آیا کہ یہ تمام ادارے بحی تو دعوت کا کام کرتے ہیں اگرچہ ان کا غالب کام دعوت نہیں ہے۔ ان کا جزوی کام دعوت ہے۔ اس اعتبار سے میری بات بھی درست تھی اور میرے بھائی کی بھی طور درست تھی۔ میں ان اداروں کی کلی حیثیت کو دیکھ رہا تھا جبکہ وہ ان جزوی کام کو بھی دیکھ رہے تھے۔ بلاشبہ ہر ادارہ کئی قسم کے کام کرتا ہے لیکن اس کا تشخص اس کا غالب کام ہی ہوتا ہے جیسا کہ مدارس اسلامیہ ہمارے ہاں بڑی سطح پر ویلفیئر کا کام بھی کرتے ہیں کہ مفت تعلیم، کھانا اور رہائش مہیا کرتے ہیں لیکن ان کا اصل تشخص یا اصل کام یا اصل امتیاز علوم دینیہ کی درس وتدریس ہے۔ پس میری مراد بھی یہ تھی کہ دعوت کا ایک ایسا ادارہ ہو کہ جس کا امتیازی کام دعوت ہو اور میرے بھائی کا مقصد یہ تھا کہ وہ بھی دعوت کا کام کرتے ہیں، اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو، یا کسی درجے میں بھی ہو، اس کا انکار نہیں ہونا چاہیے۔

پھر یہ پوسٹ بھی کسی وجہ سے نہ کر سکا لیکن سوچ وبچار جاری تھی اور تیسرے مرحلے میں یہ خیال آیا کہ مجھے کسی قسم کی جوابی پوسٹ نہیں کرنی چاہیے کہ کبھی کبھار انسان کے پاس جواب ہو بھی تو انسان کو اپنی تربیت کے لیے جواب نہیں دینا چاہیے۔ میں نے سوچا مجھے اپنے مخاطب کی بات میں ایسا مثبت غور کرنا چاہیے کہ مجھے اس کی بات پرحکمت نظر آنے لگے، چاہے ایسا وقتی طور ہی ہو، اور عجیب بات ہے کہ یہ غور وفکر اس بات پر منتج ہوا کہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے مخاطب کی بات درست تھی اور مجھے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں نے اپنے اس سارے سوچ وبچار کے عمل پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ ہم جواب عجلت میں دیتے ہیں اور مخاطب کے رد عمل میں سوچتے ہوئے دیتے ہیں۔ اگر ہم دو باتیں نکال دیں، ایک رد عمل اور دوسرا عجلت، تو مکالمہ ایک بہترین مکالمہ بن جائے۔

لیکن ہم سب کمزور ہیں، کسی مکالمے کو بہترین مکالمہ بنانے کے لیے دونوں طرف سے مخاطبین کا بہترین ہونا ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ دوسرے کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ وہ صالح سے زیادہ مصلح بننا چاہتا ہے تو مسائل کیسے حل ہوں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
میں نے اپنے اس سارے سوچ وبچار کے عمل پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ ہم جواب عجلت میں دیتے ہیں اور مخاطب کے رد عمل میں سوچتے ہوئے دیتے ہیں۔ اگر ہم دو باتیں نکال دیں، ایک رد عمل اور دوسرا عجلت، تو مکالمہ ایک بہترین مکالمہ بن جائے۔
لیکن ہم سب کمزور ہیں، کسی مکالمے کو بہترین مکالمہ بنانے کے لیے دونوں طرف سے مخاطبین کا بہترین ہونا ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ دوسرے کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ وہ صالح سے زیادہ مصلح بننا چاہتا ہے تو مسائل کیسے حل ہوں؟
بہت خوب ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
میں نے اپنے اس سارے سوچ وبچار کے عمل پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ ہم جواب عجلت میں دیتے ہیں اور مخاطب کے رد عمل میں سوچتے ہوئے دیتے ہیں۔ اگر ہم دو باتیں نکال دیں، ایک رد عمل اور دوسرا عجلت، تو مکالمہ ایک بہترین مکالمہ بن جائے۔
بہت ہی عمدہ بات ہے بارک اللہ فیکم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے مراقبہ نماز کا اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے مراقبہ کے ساتھ مشارطہ اور محاسبہ دو اور اصطلاحات بھی بیان کی ہیں۔ مشارطہ یہ ہے کہ صبح اٹھ کر اپنے نفس کو یہ تلقین کرے کہ آج کے دن میں یہ خیر کا کام کرنا ہے اور اس شر سے بچنا ہے۔ اور مراقبہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفس کو کی گئی اس تلقین کی دن بھر نگہداشت اور نگرانی کرے۔ محاسبہ یہ ہے کہ رات کو یہ معلوم کرنے کے لیے بیٹھے کہ جس خیر کے حصول اور شر سے اجتناب کے لیے مشارطہ کیا تھا، وہ حاصل ہوا یا نہیں۔ مولانا کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مروجہ معنی میں صوفیاء کے مراقبے کے حامی نہیں ہیں اگرچہ انہوں نے اس کا انکار بھی نہیں کیا ہے۔

مولانا عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ نئے بیعت کرنے والوں کو نماز کی مشق کرواتے تھے۔ کہ دو رکعت نماز نفل اس مقصد کے ساتھ پڑھے کہ اس میں توجہ اللہ کے غیر کی طرف نہ جائے۔ یہ نفل نماز ایسے وقت میں پڑھے کہ جب دنیا کے کاموں سے فارغ ہو۔ اور اگر نماز میں غیر کی طرف توجہ چلی جاتی ہے تو دوبارہ سے نفل پڑھے۔ اس طرح کئی دن نوافل کی پریکٹس کرنے سے فرض نماز میں توجہ اللہ ہی کی طرف مبذول رہے گی۔

سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے سید عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا کہ انہوں نے مجھ سے حدیث سیکھی اور میں نے ان سے نماز سیکھی۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ سالک کی اصلاح میں اول اور آخر مراتب نماز ہی کے ذریعے طے ہوں گے۔ سورۃ مومنون کے پہلے رکوع میں اہل ایمان اور جنت الفردوس کے وارثین کی چھ صفات میں سے اول و آخر نماز ہی ہے۔ اول مرتبہ تو یہ ہے کہ اس خیال کے ساتھ نماز پڑھے کہ اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں اور یہ خیال نماز میں ہمہ وقت رہے اور انتہائی مرتبہ یہ ہے کہ اس خیال کے ساتھ نماز ادا ہو کہ میں اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہوں اور یہ خیال نماز میں ہمہ وقت رہے۔ یہ دو مراتب حدیث جبرئیل میں بیان ہوئے ہیں۔ اور نماز تمام عبادات میں اصل ہے۔ جب نماز میں ایک کیفیت حاصل ہو جائے تو دیگر عبادات میں بھی منتقل ہو گی۔ واللہ اعلم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اوپر والی پوسٹ مراقبے کے موضوع سے متعلق تھی، غلطی سے یہاں پوسٹ ہو گئی۔ بہر حال دعوت کے کام کے بارے ایک خاکہ تیار کر رہا تھا کہ دل میں یہ خیال آیا کہ دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے کام میں فرق ہے۔ دعوت پہلا درجہ ہے جبکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کے بعد کا درجہ ہے اور اس کے بعد تیسرا درجہ جہاد ہے۔

دعوت تو خیر کے کام کی طرف لوگوں کو بلانے کا نام ہے اور منت سماجت والا کام ہے جبکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی قدر سختی کا عنصر بھی شامل ہے۔ حکم دینے اور روکنے کے الفاظ میں ہی تشدید شامل ہے۔ اگر سوسائٹی میں بگاڑ زیادہ ہو اور مذہبی طبقات کی حیثیت معاشرے میں ایک اقلیت کی سی ہو تو وہاں دعوت الی الخیر کا کام ہونا چاہیے۔ اور اگر مذہبی طبقات کو سوسائٹی میں اثر ورسوخ حاصل ہے تو وہاں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام ہونا چاہیے۔

ایک بیٹا اپنے باپ کو دعوت دے سکتا ہے لیکن امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہیں کر سکتا جبکہ باپ بیٹے کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں والد کو سختی کرنے بلکہ مارنے کا بھی حکم ہے، یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے کہ جس میں ڈانٹ ڈپٹ، سختی اور مار تک بھی شامل ہے۔ اگر والد نماز نہ پڑھے تو اولاد صرف دعوت دے سکتی ہے۔
 
Top