دل میں یہ خیال آیا کہ فورمز پر بہت سے ظاہری اختلافات کی وجہ عجلت ہے۔ اگر انسان ٹھہراو اور سکون سے مباحثہ یا مکالمہ کرے تو کافی اختلافات ازخود ختم ہو جائیں گے۔ اسے ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گا۔ میں نے ایک پوسٹ کی جو کہ درج ذیل تھی:
ایک صاحب کو دعا کرتے سنا تھا کہ اے اللہ مجھ سے نبیوں والا کام لے لے۔ دعا پسند آئی، اس کے بعد سے اکثر یہ دعا مانگتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ نبیوں والا کام کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی ہر خیر کا کام کرتے تھے، دعوت، تعلیم، تربیت، جہاد، خدمت خلق وغیرہ۔ جب بھی یہ سوال پیدا ہوا تو ہمیشہ دل میں یہی آتا ہے کہ نبیوں والے کام سے مراد دعوت کا کام ہے کہ ان کی زندگی کا غالب حصہ دعوت وتبلیغ میں گزرتا ہے۔ واللہ اعلم
پچھلے دنوں دل میں شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ عالم تیار کرنے کے لیے دارالعلوم اور مدارس ہیں، اصلاح نفس کے لیے خانقاہیں بنائی گئیں، مجاہدین کی تیاری کے معسکرات وجود میں آئے، خدمت خلق کے لیے ویلفیئر ٹرسٹ بنے لیکن داعی تیار کرنے والے ادارے نظر نہیں آتے۔ ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے کہ جس میں ایک سال، چھ ماہ، چار ماہ، تین ماہ، ماہانہ اور ہفتہ وار کورسز کی بنیاد پر داعی تیار کیے جائیں۔ دعوت دینے کا نہ صرف نبوی طریقہ سکھایا جائے بلکہ اس کا پریکٹیکل بھی کروایا جائے۔ دعوت دینے میں جو ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے، اسے تربیت کے ذریعے دور کیا جائے۔ زمانے کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک داعی میں دعوت کے ممکنہ جدید وسائل سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ مدعو کی نفسیات، مخاطبین کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے گفتگو اور دعوت کے اسالیب میں تبدیلی وغیرہ جیسی علمی وفکری نکات کو زیر بحث لایا جائے وغیرہ۔ یعنی دعوت کو باقاعدہ ایک منظم سائنس کے طور متعارف کروایا جائے۔
اس پر ہمارے ایک بھائی نے تبصرہ فرمایا:
مگر یہ تمام ادارے دعوت کا بھی کام کرتے ہیں۔
میں نے یہ پوسٹ پڑھی تو دل میں پہلے پہل خیال پیدا ہوا کہ اس کا جواب لکھوں اور ذہن میں یہ جواب تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی بنیاد دعوت کا کام کرنے کے لیے رکھی گئی ہو یعنی اداروں کے قائم کرنے کے مقاصد دعوت کے علاوہ کچھ اور تھے۔
بہر حال کسی وجہ سے یہ پوسٹ نہ کر سکا لیکن اس موضوع پرسوچ وبچار جاری تھی کیونکہ وہ مزاج کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ بعد ازاں یہ خیال آیا کہ یہ تمام ادارے بحی تو دعوت کا کام کرتے ہیں اگرچہ ان کا غالب کام دعوت نہیں ہے۔ ان کا جزوی کام دعوت ہے۔ اس اعتبار سے میری بات بھی درست تھی اور میرے بھائی کی بھی طور درست تھی۔ میں ان اداروں کی کلی حیثیت کو دیکھ رہا تھا جبکہ وہ ان جزوی کام کو بھی دیکھ رہے تھے۔ بلاشبہ ہر ادارہ کئی قسم کے کام کرتا ہے لیکن اس کا تشخص اس کا غالب کام ہی ہوتا ہے جیسا کہ مدارس اسلامیہ ہمارے ہاں بڑی سطح پر ویلفیئر کا کام بھی کرتے ہیں کہ مفت تعلیم، کھانا اور رہائش مہیا کرتے ہیں لیکن ان کا اصل تشخص یا اصل کام یا اصل امتیاز علوم دینیہ کی درس وتدریس ہے۔ پس میری مراد بھی یہ تھی کہ دعوت کا ایک ایسا ادارہ ہو کہ جس کا امتیازی کام دعوت ہو اور میرے بھائی کا مقصد یہ تھا کہ وہ بھی دعوت کا کام کرتے ہیں، اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو، یا کسی درجے میں بھی ہو، اس کا انکار نہیں ہونا چاہیے۔
پھر یہ پوسٹ بھی کسی وجہ سے نہ کر سکا لیکن سوچ وبچار جاری تھی اور تیسرے مرحلے میں یہ خیال آیا کہ مجھے کسی قسم کی جوابی پوسٹ نہیں کرنی چاہیے کہ کبھی کبھار انسان کے پاس جواب ہو بھی تو انسان کو اپنی تربیت کے لیے جواب نہیں دینا چاہیے۔ میں نے سوچا مجھے اپنے مخاطب کی بات میں ایسا مثبت غور کرنا چاہیے کہ مجھے اس کی بات پرحکمت نظر آنے لگے، چاہے ایسا وقتی طور ہی ہو، اور عجیب بات ہے کہ یہ غور وفکر اس بات پر منتج ہوا کہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے مخاطب کی بات درست تھی اور مجھے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے اپنے اس سارے سوچ وبچار کے عمل پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ ہم جواب عجلت میں دیتے ہیں اور مخاطب کے رد عمل میں سوچتے ہوئے دیتے ہیں۔ اگر ہم دو باتیں نکال دیں، ایک رد عمل اور دوسرا عجلت، تو مکالمہ ایک بہترین مکالمہ بن جائے۔
لیکن ہم سب کمزور ہیں، کسی مکالمے کو بہترین مکالمہ بنانے کے لیے دونوں طرف سے مخاطبین کا بہترین ہونا ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ دوسرے کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ وہ صالح سے زیادہ مصلح بننا چاہتا ہے تو مسائل کیسے حل ہوں؟