اس میں شک نہیں کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ والی روایت کی تصحیح میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ اور یہ اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہے۔
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت سنداً درست و ثابت ہے۔
اصل اختلاف اس مفہوم میں ہے جو اہل تشیع اس سے لیتے ہیں۔
اہل تشیع اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان سمجھتے ہیں۔ جو کہ بداہتاً باطل ہے۔
اہل تشیع سے کوئی پوچھے کہ بالفرض! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا ہی تھا تو یہ کوئی چھپانے کی چیز تو نہیں تھی ...اور نہ ہی یہ چھپانے سے چھپنے والی تھی، بلکہ یہ تو عوام کے فائدہ کی چیز اور امت مسلمہ کو وحدت کی ایک لڑی میں پرونے کا سبب تھی، تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع، عرفات، مزدلفہ، منیٰ یا بیت اللہ میں اس کا اعلان کیوں نہ کیا؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جگہوں اور مجمع عام میں اعلان کرنے سے کون سا امر مانع تھا؟
سوال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے دور،جحفہ کی ایک وادی میں،اور عین حالت سفر میں اس اعلان کرنے کا کیا مقصد تھا؟کہیں اس کا یہ معنی تو نہیں؟ بلکہ یقینا ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ اہل تشیع کا خانہ زاد ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی اعلانات کئے، مجمع عام میں کئے ہیں۔
رہا یہ امکان یا الزام کہ عین ممکن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذباللہ!ا خفا اور تکیہ سے کام لیا ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر فرمایا دیا گیا تھا کہ:
” یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ“ (مائدہ : ۶۷)...
اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اُترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام...
کیا کہا جائے کہ اس ارشاد الٰہی کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخفا اور تکیہ سے کام لیں گے ؟ ناممکن ہے، بلکہ ایسا سوچناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناصرف بدترین تہمت ہے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدترین گستاخی ہے ۔
الغرض! کیا اہل تشیع بتلاسکتے ہیں کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ اعلان غدیر خم میں کرنے کا فیصلہ کیا؟
اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا تھا تو صاف الفاظ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا نائب بنانے کی بجائے ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ میں ”مولیٰ“ جیسا مبہم لفظ جو رب، مالک، سیّد، منعم، معتق، ناصر، محب، تابع، پڑوسی، حلیف، غلام اور آزاد شدہ غلام وغیرہ مختلف معانی کا احتمال رکھتا ہے، (مرقاة، ج:۵، ص:۵۶۸) یا جو حضرت علی سے محبت، الفت، تعلق اور دوستی کی ترغیب پر دلالت کرتا ہو، کیونکر استعمال فرمایا؟
حدیث و تاریخ کے مطالعہ سے شیعہ حضرات کے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کے اس استدلال یا دوسرے الفاظ میں گپ کی قلعی کھل جاتی ہے، چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شارح مشکوٰة علامہ علی القاری اپنی مشہور کتاب” مرقات“ میں فرماتے ہیں کہ:
”اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ حضرت علی کو حضرت اسامہ نے فرمایا تھا کہ: ”آپ میرے مولیٰ نہیں، میرے مولیٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کا مولیٰ، علی بھی اس کا مولیٰ ہے “
اس سے ذرا آگے اسی صفحہ پر علامہ علی قاری علامہ شمس الدین جزری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ:
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب یمن میں تھے تو وہاں لوگوں نے حضرت علی کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“ (مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)
پھر یہ بھی یاد رہے کہ اسی قسم کے الفاظ بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں۔ مثلاً
سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
ھذا منی و انا منہ (صحیح مسلم: 131 / 2472 و دارالسلام: 6358)
یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
انت اخونا و مولانا (البخاری: 2699)
تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔
اہل عقل ہمارا مولیٰ کہنا اور تمہارا مولیٰ کہنے میں جو باریک فرق ہے، اس پر غور کریں۔
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت سنداً درست و ثابت ہے۔
اصل اختلاف اس مفہوم میں ہے جو اہل تشیع اس سے لیتے ہیں۔
اہل تشیع اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان سمجھتے ہیں۔ جو کہ بداہتاً باطل ہے۔
اہل تشیع سے کوئی پوچھے کہ بالفرض! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا ہی تھا تو یہ کوئی چھپانے کی چیز تو نہیں تھی ...اور نہ ہی یہ چھپانے سے چھپنے والی تھی، بلکہ یہ تو عوام کے فائدہ کی چیز اور امت مسلمہ کو وحدت کی ایک لڑی میں پرونے کا سبب تھی، تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع، عرفات، مزدلفہ، منیٰ یا بیت اللہ میں اس کا اعلان کیوں نہ کیا؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جگہوں اور مجمع عام میں اعلان کرنے سے کون سا امر مانع تھا؟
سوال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے دور،جحفہ کی ایک وادی میں،اور عین حالت سفر میں اس اعلان کرنے کا کیا مقصد تھا؟کہیں اس کا یہ معنی تو نہیں؟ بلکہ یقینا ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ اہل تشیع کا خانہ زاد ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی اعلانات کئے، مجمع عام میں کئے ہیں۔
رہا یہ امکان یا الزام کہ عین ممکن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذباللہ!ا خفا اور تکیہ سے کام لیا ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر فرمایا دیا گیا تھا کہ:
” یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ“ (مائدہ : ۶۷)...
اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اُترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام...
کیا کہا جائے کہ اس ارشاد الٰہی کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخفا اور تکیہ سے کام لیں گے ؟ ناممکن ہے، بلکہ ایسا سوچناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناصرف بدترین تہمت ہے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدترین گستاخی ہے ۔
الغرض! کیا اہل تشیع بتلاسکتے ہیں کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ اعلان غدیر خم میں کرنے کا فیصلہ کیا؟
اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا تھا تو صاف الفاظ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا نائب بنانے کی بجائے ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ میں ”مولیٰ“ جیسا مبہم لفظ جو رب، مالک، سیّد، منعم، معتق، ناصر، محب، تابع، پڑوسی، حلیف، غلام اور آزاد شدہ غلام وغیرہ مختلف معانی کا احتمال رکھتا ہے، (مرقاة، ج:۵، ص:۵۶۸) یا جو حضرت علی سے محبت، الفت، تعلق اور دوستی کی ترغیب پر دلالت کرتا ہو، کیونکر استعمال فرمایا؟
حدیث و تاریخ کے مطالعہ سے شیعہ حضرات کے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کے اس استدلال یا دوسرے الفاظ میں گپ کی قلعی کھل جاتی ہے، چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شارح مشکوٰة علامہ علی القاری اپنی مشہور کتاب” مرقات“ میں فرماتے ہیں کہ:
”اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ حضرت علی کو حضرت اسامہ نے فرمایا تھا کہ: ”آپ میرے مولیٰ نہیں، میرے مولیٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کا مولیٰ، علی بھی اس کا مولیٰ ہے “
اس سے ذرا آگے اسی صفحہ پر علامہ علی قاری علامہ شمس الدین جزری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ:
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب یمن میں تھے تو وہاں لوگوں نے حضرت علی کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“ (مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)
پھر یہ بھی یاد رہے کہ اسی قسم کے الفاظ بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں۔ مثلاً
سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
ھذا منی و انا منہ (صحیح مسلم: 131 / 2472 و دارالسلام: 6358)
یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
انت اخونا و مولانا (البخاری: 2699)
تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔
اہل عقل ہمارا مولیٰ کہنا اور تمہارا مولیٰ کہنے میں جو باریک فرق ہے، اس پر غور کریں۔