- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
محترم، بات سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ فقط اعتراضات پر توجہ رکھیں گے تو اپنا تماشا بنوائیں گے فقط۔" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"
اس تشریح میں کہاں لکھا ہے کہ یہ صرف حالات جنگ کی بات یہاں تو صرف دشمن کی بات ہی ہے اور مسلمانوں کے دشمن کون ہیں یہ آپ جیسے صاحب علم سے پوشیدہ نہیں ہوگا اور میں انھیں دشمن کی وجہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ انٹر نیٹ تو انھیں دشمنوں کا ہے پھر اس پر قرآن کی اشاعت کرکے اور آپ اس کی حمایت کرکے قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
چلیں، آپ اس بات کو ذرا واضح کر دیں کہ :
اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے
سے آپ کو کیا سمجھ آتا ہے؟
قرآن کوئی تلوار جیسا ہتھیار ہے کہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسی تلوار کو تم پر استعمال کر سکتے ہیں؟
کوئی دشمن قرآن کو مسلمانوں ہی کے خلاف کیسے استعمال کر سکتا ہے، ذرا اپنی تشریح پیش فرما دیں۔
اوپر آپ مان چکے ہیں کہ یہ ممانعت حالت جنگ کی وجہ سے ہے، اسی لئے آپ نے جہاد کے ہمیشہ جاری رہنے والی حدیث پیش کی۔ اب پھر آپ خاص حالات کے منکر ہو رہے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہمارے خلاف فقط حدیث ہی بطور الزام پیش نہیں کر رہے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ حدیث سنی کتب کی ہو، اور اس کی تشریح وہ ہو جو اہل تشیع اپنی مرضی سے کریں اور پھر آپ اس تشریح کی بنیاد پر اعتراض ایسے کرتے ہیں گویا یہ حدیث ہی کا مفاد ہے۔
اگر حدیث ہماری کتابوں میں ہے تو تشریح بھی وہی معتبر مانئے جو ہمارے علماء کرتے ہیں۔ اور پھر اس پر اعتراض بنتا ہو تو بصد شوق کیجئے۔ اور ہمارے علماء اس حدیث کی جو تشریح کرتے ہیں وہ اوپر صحیح بخاری کی امیج کی صورت میں پیش کر دی گئی ہے۔