• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کے خلاف عمل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"

اس تشریح میں کہاں لکھا ہے کہ یہ صرف حالات جنگ کی بات یہاں تو صرف دشمن کی بات ہی ہے اور مسلمانوں کے دشمن کون ہیں یہ آپ جیسے صاحب علم سے پوشیدہ نہیں ہوگا اور میں انھیں دشمن کی وجہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ انٹر نیٹ تو انھیں دشمنوں کا ہے پھر اس پر قرآن کی اشاعت کرکے اور آپ اس کی حمایت کرکے قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
محترم، بات سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ فقط اعتراضات پر توجہ رکھیں گے تو اپنا تماشا بنوائیں گے فقط۔

چلیں، آپ اس بات کو ذرا واضح کر دیں کہ :
اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے
سے آپ کو کیا سمجھ آتا ہے؟
قرآن کوئی تلوار جیسا ہتھیار ہے کہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسی تلوار کو تم پر استعمال کر سکتے ہیں؟
کوئی دشمن قرآن کو مسلمانوں ہی کے خلاف کیسے استعمال کر سکتا ہے، ذرا اپنی تشریح پیش فرما دیں۔

اوپر آپ مان چکے ہیں کہ یہ ممانعت حالت جنگ کی وجہ سے ہے، اسی لئے آپ نے جہاد کے ہمیشہ جاری رہنے والی حدیث پیش کی۔ اب پھر آپ خاص حالات کے منکر ہو رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہمارے خلاف فقط حدیث ہی بطور الزام پیش نہیں کر رہے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ حدیث سنی کتب کی ہو، اور اس کی تشریح وہ ہو جو اہل تشیع اپنی مرضی سے کریں اور پھر آپ اس تشریح کی بنیاد پر اعتراض ایسے کرتے ہیں گویا یہ حدیث ہی کا مفاد ہے۔
اگر حدیث ہماری کتابوں میں ہے تو تشریح بھی وہی معتبر مانئے جو ہمارے علماء کرتے ہیں۔ اور پھر اس پر اعتراض بنتا ہو تو بصد شوق کیجئے۔ اور ہمارے علماء اس حدیث کی جو تشریح کرتے ہیں وہ اوپر صحیح بخاری کی امیج کی صورت میں پیش کر دی گئی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آج ایک فورم پر صحیح مسلم کی ایک حدیث نظر سے گذری اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہین میں آیا پہلے حدیث ملاحظ کرتے ہیں

لا تُسَافِرُوا بالقرآنِ. فإنِّي لا آمَنُ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ. في حديثِ ابنِ عُلَيَّةَ والثَّقَفِيِّ فإنِّي أخَافُ. وفِي حديثِ سُفْيانَ وحدِيثِ الضَّحَاكِ بنِ عثمانَ مَخَافَةَ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1869
خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔
ہائی لائٹ كرده الفاظ حدیث کے متن میں شامل نہیں ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہائی لائٹ كرده الفاظ حدیث کے متن میں شامل نہیں ہیں۔
لیکن آپ کی جانب سے پیش کی گئی تشریح بھی متن حدیث میں شامل نہیں پھر آپ نے کیوں پیش کی
جس طرح آپ نے کسی اور کی شرح پیش کی ایسی طرح میں نے بھی اس حدیث کی ایک راوی کی تشریح پیش کی ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میرے خیال میں آپ کی یہ شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے میل نہیں کھا رہی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے

" میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں "

اس فرمان کی شرح تو وہی صحیح ہے جو راوی حدیث نے کی ہے کہ
" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"

اور یہی آج کل ہورہا ہے
یہ آپ سے کس نے کہا کہ حدیث کی صرف وہی شرح ہوتی ہے جو اس حدیث کی سند میں موجود کوئی بھی راوی کر دے؟
حالانکہ محدثین کا معروف قاعدہ ہے:العبرة بما روى لا بما رأى
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
محترم، بات سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ فقط اعتراضات پر توجہ رکھیں گے تو اپنا تماشا بنوائیں گے فقط۔

چلیں، آپ اس بات کو ذرا واضح کر دیں کہ :
اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے
سے آپ کو کیا سمجھ آتا ہے؟
قرآن کوئی تلوار جیسا ہتھیار ہے کہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسی تلوار کو تم پر استعمال کر سکتے ہیں؟
کوئی دشمن قرآن کو مسلمانوں ہی کے خلاف کیسے استعمال کر سکتا ہے، ذرا اپنی تشریح پیش فرما دیں۔

اوپر آپ مان چکے ہیں کہ یہ ممانعت حالت جنگ کی وجہ سے ہے، اسی لئے آپ نے جہاد کے ہمیشہ جاری رہنے والی حدیث پیش کی۔ اب پھر آپ خاص حالات کے منکر ہو رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہمارے خلاف فقط حدیث ہی بطور الزام پیش نہیں کر رہے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ حدیث سنی کتب کی ہو، اور اس کی تشریح وہ ہو جو اہل تشیع اپنی مرضی سے کریں اور پھر آپ اس تشریح کی بنیاد پر اعتراض ایسے کرتے ہیں گویا یہ حدیث ہی کا مفاد ہے۔
اگر حدیث ہماری کتابوں میں ہے تو تشریح بھی وہی معتبر مانئے جو ہمارے علماء کرتے ہیں۔ اور پھر اس پر اعتراض بنتا ہو تو بصد شوق کیجئے۔ اور ہمارے علماء اس حدیث کی جو تشریح کرتے ہیں وہ اوپر صحیح بخاری کی امیج کی صورت میں پیش کر دی گئی ہے۔
آپ صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھے کہ قرآن تمام علوم کا منبع ہے
اور آج مغرب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے پاس علم ہے اور اس علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نت نئے ہتھیار بنا رہا ہے کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے تمام علوم کا منبع قرآن ان کے ہاتھ میں تھمادیا ہے اور ہمیں اس کی خبر ہی نہ ہو
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ آپ سے کس نے کہا کہ حدیث کی صرف وہی شرح ہوتی ہے جو اس حدیث کی سند میں موجود کوئی بھی راوی کر دے؟
حالانکہ محدثین کا معروف قاعدہ ہے:العبرة بما روى لا بما رأى
صرف وہی نہیں ہوتی مگر شرح ہوتی ہے !!!

لیکن جن محدیثین کا یہ قول ہے انھوں نے بھی نہیں دیکھا ہوتا
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اسماعیل بن امیہ اورلیث بن ابی سلیم ،نفع بن عمر رسول اللہ سے روایت کرتےہیں کہ آپﷺنےفرمایاکہ دشمن کی زمین کی طرف قرآن لےکرنہ جاؤ۔کیونکہ مجھےخدشہ ہےکہ دشمن اسے پکڑکر(بےحرمتی )کرگا۔اورشعبہ ،ایوب،نافع،ابن عمر نےبھی آنحضرتﷺسےاسی طرح روایت کی ہے۔یہ روایت صحیح اور مرفوع ہے۔اورفقہاکا اس پراجماع ہےسرایااورچھوٹےمعرکوں میں ارض دشمن کی طرف قرآن لےکرنہ جاؤ۔کیونکہ ان میں قرآن کےبارےمیں خدشہ ہے۔البتہ بڑےمعرکوں کےبارےمیں اختلاف ہے کیونکہ ان میں قرآن کوخطرہ نہیں ہوتا۔اس میں امام مالک  کا کہناہےکہ چھوٹےبڑےمعرکےکی تفریق نہی کی جائےگی کسی (چناچہ جب بھی جنگ ہوتو)دشمن کی زمین کی طرف قرآن لےکر نہ جاؤ۔ابوحنیفہ کافرماناہےکہ (چھوٹےمعرکےمیں )دشمن کی زمین کی طرف قرآن لےکر جانامناسب بات نہیں البتہ اگربڑاہوتو کوئی مسلہ نہیں۔اسی طرح فقہاءکااس مسلہ میں بھی اختلاف ہےکہ کافرکوقرآن کی تعلیم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟اس میں امام ابوحنیفہ کی رائےیہ ہےکہ کافرچاہےذمی (حالت امن میں)ہواورچاہےحربی (حالت جنگ میں )ہو ہرحال میں اسےقرآن اورفقہ کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
اس عبارت کی عربی بحوالہ درج ذیل ہے۔


التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (15/ 254)
وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ وَلَيْثُ بْنُ أَبِي سليم عن نفع عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسَافِرُوا بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ وَكَذَلِكَ قَالَ شُعْبَةُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَهُوَ صَحِيحٌ مَرْفُوعٌ وَأَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ أَنْ لَا يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ فِي السَّرَايَا وَالْعَسْكَرِ الصَّغِيرِ الْمَخُوفِ عَلَيْهِ وَاخْتَلَفُوا فِي جَوَازِ ذَلِكَ فِي الْعَسْكَرِ الْكَبِيرِ الْمَأْمُونِ عَلَيْهِ قَالَ مَالِكٌ لَا يُسَافَرُ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ الْعَسْكَرِ الْكَبِيرِ وَالصَّغِيرِ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يُكْرَهُ أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ إِلَّا فِي الْعَسْكَرِ الْعَظِيمِ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ وَاخْتَلَفُوا مِنْ هَذَا الْبَابِ فِي تَعْلِيمِ الْكَافِرِ الْقُرْآنَ فَمَذْهَبُ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِتَعْلِيمِ الْحَرْبِيِّ وَالذِّمِّيِّ الْقُرْآنَ وَالْفِقْهَ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
میں ایسی فی الحال کی ہی بات کررہا ہوں کہ یعنی اس وقت بقول آپ کے جب مسلمان حالت جنگ میں تو پھر اس طرح انٹر نیٹ پر قرآن کریم کا ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہونا کیا اس حدیث کے خلاف نہیں ؟
محترم میں نے آپ کی توجہ اس حدیث کے ضمن میں کشید کئے گئے خیال کی طرف مبذول کرایا ہے۔
کہ اس حدیث میں ایسی فی الحال والی کوئی بات موجود نہیں جو آپ زبردستی اس حدیث سے ایسی فی الحال والا خیال کشید کررہے ہیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آج ایک فورم پر صحیح مسلم کی ایک حدیث نظر سے گذری اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہین میں آیا پہلے حدیث ملاحظ کرتے ہیں

لا تُسَافِرُوا بالقرآنِ. فإنِّي لا آمَنُ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ. في حديثِ ابنِ عُلَيَّةَ والثَّقَفِيِّ فإنِّي أخَافُ. وفِي حديثِ سُفْيانَ وحدِيثِ الضَّحَاكِ بنِ عثمانَ مَخَافَةَ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1869
خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔

اس حدیث کو پڑھکر ایک سوال دماغ میں آیا کہ آج انٹر نیٹ پر قرآن کریم کے سوفٹ ویرز اور قرآن کریم کے تراجم مختلف زبان میں ہرکس ناکس کی دسترس میں ہیں جن میں کفار بھی شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قرآن مجید کی اشاعت انٹر نیٹ پر کرنا کہ یہ کفار کی دسترس میں چلاجائے جائز کس طرح ہوا ؟؟؟
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو میں نے اس وقت پڑھا لیکن اس میں مجھے کوئی مضبوط اعتراض نظر نہیں آیا۔ لیکن کچھ اہل حدیث کی طرف سے آمدہ جوابات نے اس تھریڈ میں پیش کردہ اعتراض کو مضبوط بنا دیا ۔
صرف ایک حدیث پیش کرکے کسی پر اعتراض کرنا کہ فلاں شخص حدیث کے مخالف ہے تو یہ طریقہ صرف اور صرف اصول حدیث سے لا علم افراد کا طریقہ ہے ۔ یہی طریقہ یہاں بہرام صاحب نے اپنایا ہے اور بعض اہل حدیث بعینہ اسی طرح احناف پر اعتراض کرتے ہیں ۔ ایک حدیث پیش کی اور احناف پر اعتراض کردیا اور ان کو حدیث کا مخالف گرداننا شروع کردیا
اہل حدیث کا نعرہ ہے کہ حدیث کے سامنے کسی امتی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حدیث سامنے رکھ کر بہرام صاحب نے جو اعتراض کیا اس کا جواب کسی اور حدیث سے ہونا چاہئیے اور چوں کہ بہرام صاحب کی پیش کردہ حدیث صحیح بھی ہے تو اس کے سامنے آپنے نعرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تاویلات ، امتیوں کے اقوال کوحدیث کے مقابل میں نہیں لانا چاہئیے
اب بہرام صاحب نے جو صحیح حدیث پیش کی اس سے یہ نقاط سامنے آتے ہیں
اولا
اس حدیث میں حالت جنگ کی کوئی بات نہیں ، اس لئیے اس حدیث کو حالت جنگ سے جوڑنا صرف قیاس ہے اور حدیث کے مقابل قیاس اہل حدیث کا منبج نہیں یا اگر کسی اور صحیح حدیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ مذکورہ حدیث حالت جنگ سے متعلق ہے تو اس صحیح حدیث کو پیش کیا جانا چاہئیے
ثانیا
اس میں قرآن کی بات ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط میں آیات لکھیں وہ مکمل قرآن نہ تھیں ۔ نیز وہ خطوط میں آیات لکھنا استثنائی حالت تھی یا یہ حدیث خاص حالات سے متعلق ہے۔ صحیح حدیث سے وضاحت کریں ۔ اپنے نعرہ کے مطابق امتیوں کے اقوال کو حدیث کے سامنے مت پیش کریں
ثالثا
آپ حضرات اکثر کہتے ہیں کہ قولی روایت فعلی روایت پر مقدم ہوتی ہے تو یہاں قرآن کے ساتھ سفر کی ممانعت (دشمن کے ہاتھ قرآن لگنے کے خوف سے ) ممانعت ہے ایک قولی روایت ہے اور خطوط لکھنے کی روایت فعلی ہے ۔ تو مقدم کون سی ہوئی ؟؟؟
رابعا
حدیث میں صرف اتنا ہے کہ اس قرآن کو دشمن نہ پالیں ۔ آگے معاذ اللہ اس کی بے حرمتی یا مذید اندازے لگانا صرف حدیث کے سامنے قیاسات ہیں جو آپ کے نعرہ کے مطابق نہیں
نوٹ : میں بہرام صاحب کی رائے سے متفق نہیں ، لیکن میں اہل حدیث بھائیوں سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنے نعرہ (حدیث کے مقابلے میں کوئی تاویل یا امتی کا قول نہیں پیش کیا جاسکتا ہے ) کے مطابق صرف قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں بہرام صاحب کے اعتراض کا جواب دیں جس کو میں نے چار نقاط میں واضح کردیا ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھے کہ قرآن تمام علوم کا منبع ہے
اور آج مغرب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے پاس علم ہے اور اس علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نت نئے ہتھیار بنا رہا ہے کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے تمام علوم کا منبع قرآن ان کے ہاتھ میں تھمادیا ہے اور ہمیں اس کی خبر ہی نہ ہو
گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر مسلم آج قرآن پر عمل کرنے کی بنا پر دنیا میں غالب ہیں؟؟؟!

نہیں بھئی! ہرگز نہیں! اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی ایمانی کمزوری (حبِ دنیا اور موت کو نا پسند کرنا) ہے۔ اگر غیر مسلم قرآن پر عمل کر رہے ہوتے تو کلمہ پڑھ چکے ہوتے اور نبی کریمﷺ کو اللہ کا آخری رسول مان چکے ہوتے۔

آج اگر ہمیں مغرب کے پاس مال ودولت یا دنیا کی نعمتیں وغیرہ نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ قرآن کی زبان میں یہ ہے:

﴿ لا يَغُرَّ‌نَّكَ تَقَلُّبُ الَّذينَ كَفَر‌وا فِى البِلـٰدِ ١٩٦ مَتـٰعٌ قَليلٌ ثُمَّ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ ۚ وَبِئسَ المِهادُ ١٩٧ ﴾ ... سورة آل عمران
تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے، (196) یہ تو بہت ہی تھوڑا فائده ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے اور وه بری جگہ ہے (197)

﴿ فَلَمّا نَسوا ما ذُكِّر‌وا بِهِ فَتَحنا عَلَيهِم أَبوٰبَ كُلِّ شَىءٍ حَتّىٰ إِذا فَرِ‌حوا بِما أوتوا أَخَذنـٰهُم بَغتَةً فَإِذا هُم مُبلِسونَ ٤٤ ﴾ ... سورة الأنعام
پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے (44)

﴿ فَلا تُعجِبكَ أَموٰلُهُم وَلا أَولـٰدُهُم ۚ إِنَّما يُر‌يدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِها فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَتَزهَقَ أَنفُسُهُم وَهُم كـٰفِر‌ونَ ٥٥ ﴾ ... سورة التوبة
پس آپ کو ان کے مال واولاد تعجب میں نہ ڈال دیں۔ اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں (55)

﴿ وَلا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلىٰ ما مَتَّعنا بِهِ أَزوٰجًا مِنهُم زَهرَ‌ةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا لِنَفتِنَهُم فيهِ ۚ وَرِ‌زقُ رَ‌بِّكَ خَيرٌ‌ وَأَبقىٰ ١٣١ ﴾ ... سورة طه
اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں فتنے میں ڈال دیں تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور باقی رہنے والا ہے (131)

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top