• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کے خلاف عمل

شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
نوٹ : میں بہرام صاحب کی رائے سے متفق نہیں ، لیکن میں اہل حدیث بھائیوں سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنے نعرہ (حدیث کے مقابلے میں کوئی تاویل یا امتی کا قول نہیں پیش کیا جاسکتا ہے ) کے مطابق صرف قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں بہرام صاحب کے اعتراض کا جواب دیں جس کو میں نے چار نقاط میں واضح کردیا ہے
تلمیذ صاحب نے درج بالا پوسٹ 'حب علی' میں نہیں 'بغض معاویہ' میں کی ہے۔ آپ کو خود اقرار ہے کہ آپ بہرام سے متفق نہیں۔ تب پھر آپ کو اس تھریڈ میں بہرام کی پوسٹ پر ہی تبصرہ کرنا چاہئے تھا، نہ کہ مزید سوالات جن پر آپ خود متفق بھی نہیں۔ اگر اہل الحدیث پر اعتراض کرنا تھا تو الگ تھریڈ بنا کر، یہاں کا اقتباس لے کر کیا جا سکتا تھا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
نوٹ : میں بہرام صاحب کی رائے سے متفق نہیں ، لیکن میں اہل حدیث بھائیوں سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنے نعرہ (حدیث کے مقابلے میں کوئی تاویل یا امتی کا قول نہیں پیش کیا جاسکتا ہے ) کے مطابق صرف قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں بہرام صاحب کے اعتراض کا جواب دیں جس کو میں نے چار نقاط میں واضح کردیا ہے
تلمیذ صاحب، مجھے بھی آپ سے ہرگز اس کی امید نہ تھی۔۔۔واللہ۔
اہل تشیع کے اعتراضات فقط اہل حدیث کے لئے نہیں، بلکہ حدیث کو سند سمجھنے والے ہر گروہ کے لئے ہیں۔ کم سے کم ان سے معارضہ کی خاطر ہی اور فقط کسی دھاگے کی حد تک ہی اتفاق دکھانا چاہئے۔ اور اختلافات کو بعد کے لئے یا کسی اور دھاگے کے لئے اٹھا رکھنا چاہئے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ صاحب نے درج بالا پوسٹ 'حب علی' میں نہیں 'بغض معاویہ' میں کی ہے۔ آپ کو خود اقرار ہے کہ آپ بہرام سے متفق نہیں۔ تب پھر آپ کو اس تھریڈ میں بہرام کی پوسٹ پر ہی تبصرہ کرنا چاہئے تھا، نہ کہ مزید سوالات جن پر آپ خود متفق بھی نہیں۔ اگر اہل الحدیث پر اعتراض کرنا تھا تو الگ تھریڈ بنا کر، یہاں کا اقتباس لے کر کیا جا سکتا تھا۔
آپ نے مجھے جو "بغض معاویہ رضی اللہ عنہ " سے متھم کیا ہے ، اس کا فیصلہ آخرت میں اللہ تبارک و تعالی کی عدالت میں چھوڑتے ہیں ، وہاں اس کو ثابت کیجئیے گا یا پھر جو سزا ملے اس کو بھگتیے گا
میں نے صرف یہ گذارش کی تھی
میں اہل حدیث بھائیوں سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنے نعرہ (حدیث کے مقابلے میں کوئی تاویل یا امتی کا قول نہیں پیش کیا جاسکتا ہے ) کے مطابق صرف قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں بہرام صاحب کے اعتراض کا جواب دیں جس کو میں نے چار نقاط میں واضح کردیا ہے
الگ تھریڈ تو تب بناتا جب میں کوئی الگ الزام لگاتا ، میں تو صرف یہ کہ رہا ہوں کہ آپ حضرات بہرام صاحب کو اپنے نعرے کی بنیاد پر جواب دیں تاکہ یہ بات سچ ثابت ہوسکے کہ آپ حضرات صرف نعرہ نہیں لگاتے عملا بھی اس پر عمل پیرا ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ صاحب، مجھے بھی آپ سے ہرگز اس کی امید نہ تھی۔۔۔واللہ۔
اہل تشیع کے اعتراضات فقط اہل حدیث کے لئے نہیں، بلکہ حدیث کو سند سمجھنے والے ہر گروہ کے لئے ہیں۔ کم سے کم ان سے معارضہ کی خاطر ہی اور فقط کسی دھاگے کی حد تک ہی اتفاق دکھانا چاہئے۔ اور اختلافات کو بعد کے لئے یا کسی اور دھاگے کے لئے اٹھا رکھنا چاہئے۔
محترم ، میں مختصرا کچھ عرض کروں گا کیوں کہ جو بات آپ نے چھیڑی ہے وہ ہمارا موضوع نہیں۔
یہاں بہرام صاحب نے اپنے کسی شیعہ عقائد کے ثبوت کی بات نہیں ، جو میرا آپ حضرات کے جوابات پر اعتراضات کرنے پر آپ کو سوال اٹھانے پڑیں
اتفاق ، مجھے اس فورم پر تو حنفی اہل حدیث اتفاق کہیں نظر نہیں آیا ، بلکہ یہاں تو حنفی اہل حدیث اختلاف کی خلیج مذید گہری ہوتی نظر آتی ہے ۔ اگر اس اتفاق کا نمونہ اس وقت نظر آجائے جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طرح طرح کے الزامات لگ رہے ہوتے ہیں اورجب ایک حدیث پیش کرکے اسی طرح احناف پر حدیث کی مخالفت کا الزام لگ رہا ہوتا ہے اور جب بہشتی زیور کو جہنمی زیور کہا جا رہا ہوتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔
مذید کچھ کہنا ہم کو موضوع سے دور کردے گا ۔
میری اس تھریڈ میں دلچسپی صرف اتنی ہے کہ آپ حضرات (اہل حدیث حضرات ) بہرام صاحب کے اعتراض کا اپنے نعرہ کے مطابق جواب دیتے ہیں یا ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
قرآن تمام علوم کا منبع ہے
اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن۔ تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل (یعنی) روزی تلاش کرو اور برسوں کا شمار اور حساب جانو۔ اور ہم نے ہر چیز کو (بخوبی) تفصیل کردی ہے
بنی اسرائیل :12
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
قرآن تمام علوم کا منبع ہے
اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن۔ تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل (یعنی) روزی تلاش کرو اور برسوں کا شمار اور حساب جانو۔ اور ہم نے ہر چیز کو (بخوبی) تفصیل کردی ہے
بنی اسرائیل :12
صحیح جملہ اس طرح ہوگا کہ قرآن - اپنے بیان اور تشریح (یعنی احادیث مبارکہ) سمیت - تمام علوم کا منبع ہے۔ فرمانِ باری:


﴿ لا تُحَرِّ‌ك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُر‌ءانَهُ ١٧ فَإِذا قَرَ‌أنـٰهُ فَاتَّبِع قُر‌ءانَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ١٩ ﴾ ... سورة القيامة
﴿ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ٤٤ ﴾ ... سورة النحل



ورنہ اگر صرف قرآن كريم کی بات کی جائے تو باقی احکامات چھوڑئیے اس میں تو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی بھی مکمل تفصیل موجود نہیں ہے!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو میں نے اس وقت پڑھا لیکن اس میں مجھے کوئی مضبوط اعتراض نظر نہیں آیا۔ لیکن کچھ اہل حدیث کی طرف سے آمدہ جوابات نے اس تھریڈ میں پیش کردہ اعتراض کو مضبوط بنا دیا ۔
صرف ایک حدیث پیش کرکے کسی پر اعتراض کرنا کہ فلاں شخص حدیث کے مخالف ہے تو یہ طریقہ صرف اور صرف اصول حدیث سے لا علم افراد کا طریقہ ہے ۔ یہی طریقہ یہاں بہرام صاحب نے اپنایا ہے اور بعض اہل حدیث بعینہ اسی طرح احناف پر اعتراض کرتے ہیں ۔ ایک حدیث پیش کی اور احناف پر اعتراض کردیا اور ان کو حدیث کا مخالف گرداننا شروع کردیا
اہل حدیث کا نعرہ ہے کہ حدیث کے سامنے کسی امتی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حدیث سامنے رکھ کر بہرام صاحب نے جو اعتراض کیا اس کا جواب کسی اور حدیث سے ہونا چاہئیے اور چوں کہ بہرام صاحب کی پیش کردہ حدیث صحیح بھی ہے تو اس کے سامنے آپنے نعرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تاویلات ، امتیوں کے اقوال کوحدیث کے مقابل میں نہیں لانا چاہئیے
اب بہرام صاحب نے جو صحیح حدیث پیش کی اس سے یہ نقاط سامنے آتے ہیں
اولا
اس حدیث میں حالت جنگ کی کوئی بات نہیں ، اس لئیے اس حدیث کو حالت جنگ سے جوڑنا صرف قیاس ہے اور حدیث کے مقابل قیاس اہل حدیث کا منبج نہیں یا اگر کسی اور صحیح حدیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ مذکورہ حدیث حالت جنگ سے متعلق ہے تو اس صحیح حدیث کو پیش کیا جانا چاہئیے
ثانیا
اس میں قرآن کی بات ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط میں آیات لکھیں وہ مکمل قرآن نہ تھیں ۔ نیز وہ خطوط میں آیات لکھنا استثنائی حالت تھی یا یہ حدیث خاص حالات سے متعلق ہے۔ صحیح حدیث سے وضاحت کریں ۔ اپنے نعرہ کے مطابق امتیوں کے اقوال کو حدیث کے سامنے مت پیش کریں
ثالثا
آپ حضرات اکثر کہتے ہیں کہ قولی روایت فعلی روایت پر مقدم ہوتی ہے تو یہاں قرآن کے ساتھ سفر کی ممانعت (دشمن کے ہاتھ قرآن لگنے کے خوف سے ) ممانعت ہے ایک قولی روایت ہے اور خطوط لکھنے کی روایت فعلی ہے ۔ تو مقدم کون سی ہوئی ؟؟؟
رابعا
حدیث میں صرف اتنا ہے کہ اس قرآن کو دشمن نہ پالیں ۔ آگے معاذ اللہ اس کی بے حرمتی یا مذید اندازے لگانا صرف حدیث کے سامنے قیاسات ہیں جو آپ کے نعرہ کے مطابق نہیں
نوٹ : میں بہرام صاحب کی رائے سے متفق نہیں ، لیکن میں اہل حدیث بھائیوں سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنے نعرہ (حدیث کے مقابلے میں کوئی تاویل یا امتی کا قول نہیں پیش کیا جاسکتا ہے ) کے مطابق صرف قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں بہرام صاحب کے اعتراض کا جواب دیں جس کو میں نے چار نقاط میں واضح کردیا ہے
لیکن میں آپ کی بات سے متفق ہوں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ویسے تو اس اعتراض کے خلاف کوئی قابل ذکر جواب نہیں آیا اس لئے اب اس حدیث کا موازنہ قرآن کریم کی آیات سے کرتے ہیں
قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ
"رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں"
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اللہ تعالیٰ قرآن کے بارے میں فرماتا ہے کہ هُدًى لِّلنَّاسِ یعنی انسانوں کے لئے ھدایت ہے اب اگر یہ قرآن انسانوں کے پاس نہیں ہوگا تو وہ اس سے ھدایت کس طرح حاصل کریں گے اب انسانوں میں تمام بنی آدم شامل ہیں چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر دوست ہو یا دشمن
اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے
 
Top