• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کے قبول و رد میں اہل اعتزال کا اہل حدیث اور اہل الرائے کیساتھ افتراق و اتفاق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بعض لوگ اہل حدیث پر یہ الزام لگاتےہیں کہ یہ بھی منکرین حدیث ہیں کیونکہ یہ بہت ساری احادیث کو ضعیف کہہ کر رد کردیتے ہیں جیساکہ معتزلہ وغیرہ عقل پرست لوگ جب کسی حدیث کو اپنی عقل کے مخالف دیکھتے ہیں تو اس میں خامیاں نکالنا شروع کردیتے ہیں زیر نظر مضمون میں اس اعتراض کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔
پہلے معتزلہ کے موقف کی وضاحت پھر اہلحدیث کے منہج کا بیان اور آخر میں اہل اعتزال کا اہل حدیث سے فرق پھر اہل الرائے اور معتزلہ میں قدر مشترک کے حوالے سے کچھ باتیں ہوں گی ۔
1۔ معتزلہ کا حدیث نبوی کے بارے میں کیا موقف ہے ؟

معتزلہ کے نزدیک مآخذ شریعت چار ہیں :
عقل ،
قرآن ،
سنت ،
اجماع
جیسا کہ قاضی عبد الجبار نے ذکر کیا ہے (فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ص 139 )
جیسا کہ ترتیب سے ظاہر ہے سب سے مقدم عقل ہے چنانچہ عمرو بن عبید کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو کہنے لگا :
اللہ کی قسم اگر یہ حدیث مجھے اعمش جیسا بیان کرتا تو میں اس کو جھوٹا کہتا ، زیدبن وہب بیان کرتا تو اس کی تصدیق نہ کرتا ، عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے تو قبول نہ کرتا اور اگر محمد رسول اللہ بیان کرتے تو ان کی تردید کرتا اور اگر یہ بات اللہ بیان کرتا تو میں اسے کہتا ہے کہ تم نے ہم سے جو عہد لیا یہ اس کے خلاف ہے ۔ (میزان الاعتدال ج 3 ص 278 )
اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معتزلہ کے نزدیک عقل کی کتنی اہمیت ہے اور وہ مذکور ہ مآخذ میں اس کو کس درجہ میں رکھتے ہیں ؟
سنت نبوی کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے کہ بعض ان میں سے صحابہ کرام ۔ جو ناقلین سنت ہیں ۔ کو ساقط العدالت ، بعض فسق و فجور میں مبتلا ، اور بعض جھوٹے اور کذاب سمجھتے ہیں ( تفصیل کے لیے موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 77 وما بعدہا )
اسی طرح خبر متواتر کا بھی انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں خبر متواتر بھی جھوٹی ہو سکتی ہے اس لیے حجت نہیں الا کہ اس کو روایت کرنے والے کم ازکم بیس اولیاء اللہ ہوں جن میں سے کم ازکم ایک ایسا ہو جو بالکل معصوم یا اہل جنت میں سے ہو ( تفصیل کے لیے دیکھیں موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 91 وما بعدہا )
خبرآحاد کا بھی بعض نے تو کھل کر انکار کیا ہے جیساکہ ابو الحسن خیاط ، جبکہ ابو علی الجبائی کہتا ہے خبرِعدلِ واحد اس وقت تک حجت نہیں ہو سکتی جب تک اس میں درج ذیل شروط میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے :
کوئی اور عادل اس کی موافقت کرے
یا ظاہر قرآن یا سنت کے مطابق ہو
یا بعض صحابہ کے عمل کے مطابق ہو
ابو علی جبائی سے یہ بھی منقول ہے کہ قبول خبر کے لیے کم ازکم چار راوی ہونے چاہییں ۔ ( مزید تفصیل موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 92 وما بعدہا )

2۔ اہل حدیث کا سنت نبوی کے بار ے میں موقف :


اہل حدیث کے ہاں سنت مآخذ شریعت میں سے بنیادی ماخذ ہے شرف و فضیلت میں قرآن کے بعد سنت کا درجہ ہے جبکہ حجیت کے اعتبار سے راجح قول یہ ہے کہ قرآن وسنت دونوں ہم پلہ ہیں جیساکہ خطیب بغدادی نے ( الکفایۃ ص 8 من الشاملۃ) اور ابن عبد البر(جامع بیان العلم و فضلہ ج1 ص 409 ) میں یہی موقف اختیار کیا ہے مزید تفصیل کے لیے شیخ عبد الغنی عبد الخالق کی کتاب حجیۃ السنۃ ص 513ملاحظہ فرمائیں ۔
سنت خبر متواتر ہو یا آحاد جب بسند صحیح (صحیح بنوعیہ و حسن بنوعیہ ) ثابت ہو جائے تو چاہے عقل کے مطابق ہو یا مخالف ہم اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔
البتہ اگر سند ضعیف ہو تو اس کو ہم قبول نہیں کرتے بلکہ رد کردیتے ہیں اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول ہے بلکہ اس لیے کہ اس کا سنت رسول ہونا ثابت ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سہوا یا عمدا رسول اللہ صلی ا للہ کیطرف بعض روایات منسوب کردی ہیں اگر یہ سہوا ہو تو حدیث ضعیف اور اگر عمدا ہو تو یہ حدیث موضوع کہلاتی ہے بہر صورت حدیث ضعیف ہو یا موضوع اس کو ہم کسی بھی صورت حدیث رسول یا سنت رسول کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
من قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار[صحيح ابن حبان مع التعليقات الحسان رقم 18، حسنه الألباني و أصله في الصحيحين كما في الضعيفة 1 / 50]
جس نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کی تو اس کو اپنا ٹھکانا جہنم سمجھنا چاہیے ۔
یہ موضوع اور ضعیف دونوں کو شامل ہے ۔
اب حدیث صحیح کب ہوتی ہے ؟ ضعیف کب ہوتی ہے ؟ اس سب کا فیصلہ محدثین کے بنائے ہوئے اصول حدیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔ لیکن بعض لوگوں نے جن میں سے آج کے اہل رائے بھی ہیں نے یہ اعتراض کرنا شروع کردیا ہے کہ اہل حدیث بھی منکرین حدیث ہیں جس طرح معتزلہ نے اپنی عقل پرستی کی بنیاد پر احادیث کو رد کیا اس طرح ان لوگوں نے بھی بہت ساری روایات کو ضعیف قرار دیا ہے ذیل میں اختصار کے ساتھ اسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے

3۔ محدثین کا حدیث کو رد کرنا اور معتزلہ کا حدیث کو رد کرنا اس میں فرق کیا ہے ؟


سنت نبوی کے بارے میں معتزلہ اور اہل حدیث کے موقف کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ معتزلہ اور محدثین کے احادیث پر نقد کرنے میں بہت زیادہ فرق ہے ۔
معتزلہ کے نزدیک بنیاد عقل ہے اسی لیے وہ متن حدیث پر زور دیتے ہیں اگر وہ ان کی عقل کے مطابق نہ ہو تو اس کو رد کردیتے ہیں رواۃ سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔ عمر و بن عبید کا مذکورہ قول اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے ۔ اور اگر انہوں نے رواۃ پر بحث کی بھی ہے تو ان کی صحت و ضعف کے حوالے سے اور اس کے بارے میں موجود قواعد کی رو سے نہیں بلکہ اس ناحیہ سے کہ انہوں نے ایسی روایات نقل کی ہیں جو ان کی عقل کے مخالف ہیں یا موافق ہیں ۔
جبکہ محدثین کے ہاں روایات کی نقد کی بنیاد بالکل اور ہے وہ زیادہ ترکیز سند پر کرتے ہیں اور اس کے رواۃ کی عدالت و ضبط وغیرہ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اگر ان قواعد کے مطابق کوئی حدیث ثابت ہو جائے تو وہ یہ پرواہ نہیں کرتے کہ یہ عقل کے مطابق ہے یا مخالف ؟ ہاں محدثین متن کی تحقیق بھی کرتے ہیں لیکن اس بنیاد پر نہیں کہ یہ ان کی عقل کے مطابق ہے یا مخالف ، بلکہ یہ جاننے کے لیےکہ کہیں کسی راوی سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی کیونکہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا بھی ثقاہت و عدالت کے درجہ پر فائز کیوں نہ ہو معصوم عن الخطاء نہیں ہو سکتا جیساکہ منکر اور شاذ وغیرہ مباحث میں یہ تفصیلات موجود ہیں ۔
اسی بنیادی فرق کی وجہ سے معتزلہ صحابہ کو بھی ردو قدح کے میدان میں کھینچ لاتے ہیں جبکہ محدثین تمام صحابہ کو جرح و تعدیل کے ان پیمانوں سے اعلی و ارفع سمجھتے ہیں ۔
معتزلہ خبر متواتر کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہا رکرتے ہیں جبکہ محدثین کے ہاں اتفاق ہے کہ خبر متواتر حجت ہے ۔
لہذا یہ کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں کہ محدثین کی تصحیح و تضعیف کے سلسلے میں جہود مشکورہ کو معتزلیوں کے نصوص شریعت کو رد کرنے والے جرم کیساتھ تشبیہ دی جائے ۔

4۔ اہل الرائے اور اہل اعتزال :


ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ معتزلہ اور بعض مقلدین ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں البتہ دونوں کے سنت نبوی اور اس کے رواۃـ خصوصا صحابہ کرام ـ کیساتھ طر ز عمل کا مقارنہ کرنے سے کچھ باتیں کافی حد تک مشترک نظر آتی ہیں مثلا :
معتزلہ صحابہ پر ساقط العدالۃ اور فسق و فجور وغیرہ کا طعن کرتے ہیں تو اہل الرائے بھی بعض صحابہ پر ،جب ان کی روایت کردہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہوتی ہے ،عدم فقہ اورأمیت جیسے الزامات لگا کر ان کی حدیث کو رد کرتے ہیں ۔ ماضی قریب کے بعض فضلاء حنفیہ نے اہل سنت کے بڑے بڑے أئمہ مثلا مالک ، شافعی ، احمد وغیرہ کیساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی نہایت قابل افسوس ہے ۔
معتزلہ اپنی عقل کو حاکم بناتے ہیں جبکہ یہ لوگ اپنے امام کی رائے اور قیاس کو مرجح قرار دیتے ہیں ۔ معتزلہ کو اہل عقل اور ان کو اہل رائے کہنا یہ بھی کسی مناسبت کا تقاضا محسوس ہوتا ہے ۔
معتزلہ خبر واحد کے لیے جو شروط لگاتے ہیں اور مقلدین کی اس سلسلے میں مقرر کردہ شروط میں بھی کافی تداخل ہے ۔
معتزلہ متن حدیث پر اس حیثیت سے زور دیتے ہیں کہ یہ ہماری عقل کے مطابق ہے یا مخالف ؟ جبکہ اہل الرائے حدیث کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ مذہب کے موافق ہے یا مخالف ؟ اسی وجہ سے فریقین بہت ساری صحیح احادیث کو رد کردیتے ہیں اور بہت ساری ضعیف احادیث کو سینے سے لگا لیتے ہیں ۔

5۔ اہل حدیث پر انکار حدیث کا الزام یا غیر حدیث کو حدیث منوانے کی کوشش ؟


اہل حدیث چونکہ احادیث ضعیفہ و موضوعہ کا انکار کرتے ہیں ۔ اور مقلدین حضرات ان پر انکار حدیث کا الزام لگاتے ہیں
اس کا مطلب ہے کہ مقلدین حضرات حضور کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرنا جائز سمجھتے ہیں جن کی نسبت ان کی طرف ثابت ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ اہل حدیث کو انکار حدیث کا طعنہ دے کر غیر رسول کی بات کو بھی حدیث منوانا چاہتے ہیں ۔
اور یہ سب تکلفات اس لیے ہیں کیونکہ ان حضرات کے مذہب کی بنیاد بہت ساری احادیث ضعیفہ پر ہے ۔ جب حدیث ضعیف کو بھی حدیث رسول ثابت کر لیں گے تو کم ازکم اس طعنے سے بچ جائیں گے کہ ان کے مذہب کے پاس استدلال کے لیے احادیث موجود نہیں ہیں ، چنانچہ ایک کتاب انہاء السکن إلی من یطالع إعلاء السنن لکھنے کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد یہی تھا کہ مذہب کے موافق احادیث کو صحیح کس طرح کرنا ہے اور مخالف احادیث کو ضعیف کس طرح ٹھہرانا ہے (انکار حدیث ؟)چنانچہ کتاب کے مقدمہ میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ بعض لوگ سمجھتے کہ مذہب حنفی کے پاس قرآن وسنت سے دلائل نہیں ہیں اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب حنفی کے پاس دلائل ہیں(اعلاء السنن ص 11 )۔ اور اس کے لیے انہوں نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ محدثین کے حدیث کے رد و قبول کے بنائے ہوئے اصولوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا کہ محدثین کے اصول ہمارے اصولوں کے مطابق نہیں ہیں (قواعد فی علوم الحدیث ص 157 ) لہذا ان کی پیروی کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے ۔
مقلد جب تقلید کا ہار گلے میں پہن کر احادیث پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو اس طرح کا اضطراب کوئی بعید بات نہیں ہے بہر صورت یہ بات مسلم ہے جب آپ احادیث سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے آپ کے لیے محدثین کے بنائے ہوئے اصول حدیث کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ۔ واللہ المستعان
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔۔بہت خوب خضر حیات بھائی۔
 

حامد ثناٰء

مبتدی
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
9
1۔ معتزلہ کا حدیث نبوی کے بارے میں کیا موقف ہے ؟

معتزلہ کے نزدیک مآخذ شریعت چار ہیں :
عقل ،
قرآن ،
سنت ،
اجماع
جیسا کہ قاضی عبد الجبار نے ذکر کیا ہے (فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ص 139 )
جیسا کہ ترتیب سے ظاہر ہے سب سے مقدم عقل ہے چنانچہ عمرو بن عبید کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو کہنے لگا :
اللہ کی قسم اگر یہ حدیث مجھے اعمش جیسا بیان کرتا تو میں اس کو جھوٹا کہتا ، زیدبن وہب بیان کرتا تو اس کی تصدیق نہ کرتا ، عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے تو قبول نہ کرتا اور اگر محمد رسول اللہ بیان کرتے تو ان کی تردید کرتا اور اگر یہ بات اللہ بیان کرتا تو میں اسے کہتا ہے کہ تم نے ہم سے جو عہد لیا یہ اس کے خلاف ہے ۔ (میزان الاعتدال ج 3 ص 278 )
اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معتزلہ کے نزدیک عقل کی کتنی اہمیت ہے اور وہ مذکور ہ مآخذ میں اس کو کس درجہ میں رکھتے ہیں ؟
سنت نبوی کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے کہ بعض ان میں سے صحابہ کرام ۔ جو ناقلین سنت ہیں ۔ کو ساقط العدالت ، بعض فسق و فجور میں مبتلا ، اور بعض جھوٹے اور کذاب سمجھتے ہیں ( تفصیل کے لیے موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 77 وما بعدہا )
اسی طرح خبر متواتر کا بھی انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں خبر متواتر بھی جھوٹی ہو سکتی ہے اس لیے حجت نہیں الا کہ اس کو روایت کرنے والے کم ازکم بیس اولیاء اللہ ہوں جن میں سے کم ازکم ایک ایسا ہو جو بالکل معصوم یا اہل جنت میں سے ہو ( تفصیل کے لیے دیکھیں موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 91 وما بعدہا )
خبرآحاد کا بھی بعض نے تو کھل کر انکار کیا ہے جیساکہ ابو الحسن خیاط ، جبکہ ابو علی الجبائی کہتا ہے خبرِعدلِ واحد اس وقت تک حجت نہیں ہو سکتی جب تک اس میں درج ذیل شروط میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے :
کوئی اور عادل اس کی موافقت کرے
یا ظاہر قرآن یا سنت کے مطابق ہو
یا بعض صحابہ کے عمل کے مطابق ہو
ابو علی جبائی سے یہ بھی منقول ہے کہ قبول خبر کے لیے کم ازکم چار راوی ہونے چاہییں ۔ ( مزید تفصیل موقف المعتزلۃ من السنۃ ص 92 وما بعدہا )

2۔ اہل حدیث کا سنت نبوی کے بار ے میں موقف :


اہل حدیث کے ہاں سنت مآخذ شریعت میں سے بنیادی ماخذ ہے شرف و فضیلت میں قرآن کے بعد سنت کا درجہ ہے جبکہ حجیت کے اعتبار سے راجح قول یہ ہے کہ قرآن وسنت دونوں ہم پلہ ہیں جیساکہ خطیب بغدادی نے ( الکفایۃ ص 8 من الشاملۃ) اور ابن عبد البر(جامع بیان العلم و فضلہ ج1 ص 409 ) میں یہی موقف اختیار کیا ہے مزید تفصیل کے لیے شیخ عبد الغنی عبد الخالق کی کتاب حجیۃ السنۃ ص 513ملاحظہ فرمائیں ۔
سنت خبر متواتر ہو یا آحاد جب بسند صحیح (صحیح بنوعیہ و حسن بنوعیہ ) ثابت ہو جائے تو چاہے عقل کے مطابق ہو یا مخالف ہم اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔
البتہ اگر سند ضعیف ہو تو اس کو ہم قبول نہیں کرتے بلکہ رد کردیتے ہیں اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول ہے بلکہ اس لیے کہ اس کا سنت رسول ہونا ثابت ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سہوا یا عمدا رسول اللہ صلی ا للہ کیطرف بعض روایات منسوب کردی ہیں اگر یہ سہوا ہو تو حدیث ضعیف اور اگر عمدا ہو تو یہ حدیث موضوع کہلاتی ہے بہر صورت حدیث ضعیف ہو یا موضوع اس کو ہم کسی بھی صورت حدیث رسول یا سنت رسول کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
من قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار[صحيح ابن حبان مع التعليقات الحسان رقم 18، حسنه الألباني و أصله في الصحيحين كما في الضعيفة 1 / 50]
جس نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کی تو اس کو اپنا ٹھکانا جہنم سمجھنا چاہیے ۔
یہ موضوع اور ضعیف دونوں کو شامل ہے ۔
اب حدیث صحیح کب ہوتی ہے ؟ ضعیف کب ہوتی ہے ؟ اس سب کا فیصلہ محدثین کے بنائے ہوئے اصول حدیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔ لیکن بعض لوگوں نے جن میں سے آج کے اہل رائے بھی ہیں نے یہ اعتراض کرنا شروع کردیا ہے کہ اہل حدیث بھی منکرین حدیث ہیں جس طرح معتزلہ نے اپنی عقل پرستی کی بنیاد پر احادیث کو رد کیا اس طرح ان لوگوں نے بھی بہت ساری روایات کو ضعیف قرار دیا ہے ذیل میں اختصار کے ساتھ اسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے

3۔ محدثین کا حدیث کو رد کرنا اور معتزلہ کا حدیث کو رد کرنا اس میں فرق کیا ہے ؟


سنت نبوی کے بارے میں معتزلہ اور اہل حدیث کے موقف کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ معتزلہ اور محدثین کے احادیث پر نقد کرنے میں بہت زیادہ فرق ہے ۔
معتزلہ کے نزدیک بنیاد عقل ہے اسی لیے وہ متن حدیث پر زور دیتے ہیں اگر وہ ان کی عقل کے مطابق نہ ہو تو اس کو رد کردیتے ہیں رواۃ سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔ عمر و بن عبید کا مذکورہ قول اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے ۔ اور اگر انہوں نے رواۃ پر بحث کی بھی ہے تو ان کی صحت و ضعف کے حوالے سے اور اس کے بارے میں موجود قواعد کی رو سے نہیں بلکہ اس ناحیہ سے کہ انہوں نے ایسی روایات نقل کی ہیں جو ان کی عقل کے مخالف ہیں یا موافق ہیں ۔
جبکہ محدثین کے ہاں روایات کی نقد کی بنیاد بالکل اور ہے وہ زیادہ ترکیز سند پر کرتے ہیں اور اس کے رواۃ کی عدالت و ضبط وغیرہ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اگر ان قواعد کے مطابق کوئی حدیث ثابت ہو جائے تو وہ یہ پرواہ نہیں کرتے کہ یہ عقل کے مطابق ہے یا مخالف ؟ ہاں محدثین متن کی تحقیق بھی کرتے ہیں لیکن اس بنیاد پر نہیں کہ یہ ان کی عقل کے مطابق ہے یا مخالف ، بلکہ یہ جاننے کے لیےکہ کہیں کسی راوی سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی کیونکہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا بھی ثقاہت و عدالت کے درجہ پر فائز کیوں نہ ہو معصوم عن الخطاء نہیں ہو سکتا جیساکہ منکر اور شاذ وغیرہ مباحث میں یہ تفصیلات موجود ہیں ۔
اسی بنیادی فرق کی وجہ سے معتزلہ صحابہ کو بھی ردو قدح کے میدان میں کھینچ لاتے ہیں جبکہ محدثین تمام صحابہ کو جرح و تعدیل کے ان پیمانوں سے اعلی و ارفع سمجھتے ہیں ۔
معتزلہ خبر متواتر کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہا رکرتے ہیں جبکہ محدثین کے ہاں اتفاق ہے کہ خبر متواتر حجت ہے ۔
لہذا یہ کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں کہ محدثین کی تصحیح و تضعیف کے سلسلے میں جہود مشکورہ کو معتزلیوں کے نصوص شریعت کو رد کرنے والے جرم کیساتھ تشبیہ دی جائے ۔

4۔ اہل الرائے اور اہل اعتزال :


ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ معتزلہ اور بعض مقلدین ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں البتہ دونوں کے سنت نبوی اور اس کے رواۃـ خصوصا صحابہ کرام ـ کیساتھ طر ز عمل کا مقارنہ کرنے سے کچھ باتیں کافی حد تک مشترک نظر آتی ہیں مثلا :
معتزلہ صحابہ پر ساقط العدالۃ اور فسق و فجور وغیرہ کا طعن کرتے ہیں تو اہل الرائے بھی بعض صحابہ پر ،جب ان کی روایت کردہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہوتی ہے ،عدم فقہ اورأمیت جیسے الزامات لگا کر ان کی حدیث کو رد کرتے ہیں ۔ ماضی قریب کے بعض فضلاء حنفیہ نے اہل سنت کے بڑے بڑے أئمہ مثلا مالک ، شافعی ، احمد وغیرہ کیساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی نہایت قابل افسوس ہے ۔
معتزلہ اپنی عقل کو حاکم بناتے ہیں جبکہ یہ لوگ اپنے امام کی رائے اور قیاس کو مرجح قرار دیتے ہیں ۔ معتزلہ کو اہل عقل اور ان کو اہل رائے کہنا یہ بھی کسی مناسبت کا تقاضا محسوس ہوتا ہے ۔
معتزلہ خبر واحد کے لیے جو شروط لگاتے ہیں اور مقلدین کی اس سلسلے میں مقرر کردہ شروط میں بھی کافی تداخل ہے ۔
معتزلہ متن حدیث پر اس حیثیت سے زور دیتے ہیں کہ یہ ہماری عقل کے مطابق ہے یا مخالف ؟ جبکہ اہل الرائے حدیث کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ مذہب کے موافق ہے یا مخالف ؟ اسی وجہ سے فریقین بہت ساری صحیح احادیث کو رد کردیتے ہیں اور بہت ساری ضعیف احادیث کو سینے سے لگا لیتے ہیں ۔

5۔ اہل حدیث پر انکار حدیث کا الزام یا غیر حدیث کو حدیث منوانے کی کوشش ؟


اہل حدیث چونکہ احادیث ضعیفہ و موضوعہ کا انکار کرتے ہیں ۔ اور مقلدین حضرات ان پر انکار حدیث کا الزام لگاتے ہیں
اس کا مطلب ہے کہ مقلدین حضرات حضور کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرنا جائز سمجھتے ہیں جن کی نسبت ان کی طرف ثابت ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ اہل حدیث کو انکار حدیث کا طعنہ دے کر غیر رسول کی بات کو بھی حدیث منوانا چاہتے ہیں ۔
اور یہ سب تکلفات اس لیے ہیں کیونکہ ان حضرات کے مذہب کی بنیاد بہت ساری احادیث ضعیفہ پر ہے ۔ جب حدیث ضعیف کو بھی حدیث رسول ثابت کر لیں گے تو کم ازکم اس طعنے سے بچ جائیں گے کہ ان کے مذہب کے پاس استدلال کے لیے احادیث موجود نہیں ہیں ، چنانچہ ایک کتاب انہاء السکن إلی من یطالع إعلاء السنن لکھنے کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد یہی تھا کہ مذہب کے موافق احادیث کو صحیح کس طرح کرنا ہے اور مخالف احادیث کو ضعیف کس طرح ٹھہرانا ہے (انکار حدیث ؟)چنانچہ کتاب کے مقدمہ میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ بعض لوگ سمجھتے کہ مذہب حنفی کے پاس قرآن وسنت سے دلائل نہیں ہیں اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب حنفی کے پاس دلائل ہیں(اعلاء السنن ص 11 )۔ اور اس کے لیے انہوں نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ محدثین کے حدیث کے رد و قبول کے بنائے ہوئے اصولوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا کہ محدثین کے اصول ہمارے اصولوں کے مطابق نہیں ہیں (قواعد فی علوم الحدیث ص 157 ) لہذا ان کی پیروی کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے ۔
مقلد جب تقلید کا ہار گلے میں پہن کر احادیث پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو اس طرح کا اضطراب کوئی بعید بات نہیں ہے بہر صورت یہ بات مسلم ہے جب آپ احادیث سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے آپ کے لیے محدثین کے بنائے ہوئے اصول حدیث کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ۔ واللہ المستعان
جزاکم اللہ خیرا۔خضر حیات بھائی۔ اس سلسلے میں علامہ محمداسماعیل سلفی نے 'حجیت حدیث' اور 'جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث' میں بڑی زبردست بحث فرمائی ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مسلک اہلحدیث کے مایہ ناز عالم دین مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ایک تحریر نظر سے گزری بعنوان
مسئلہ درایت و فقہ راوی کا تاریخی و تحقیقی جائزہ
اس تحریر میں رواں موضوع کے تعلق سے بیش قیمت معلومات موجود ہیں ۔
استفادہ کرنے کےلیے مولانا سلفی صاحب کا مجموعہ مقالات بعنوان ’’ مقالات حدیث ‘‘ ( ص 531 تا 595 ) ملاحظہ فرمائیں ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہترین۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا
یہ لوگ اہل حدیث کو اجماع کا منکر بھی کہتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بہترین۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا
یہ لوگ اہل حدیث کو اجماع کا منکر بھی کہتے ہیں۔
وہ ان کو کہا جاتا ہے جو اجماع کی مخالفت کریں بھی۔
ویسے بھائی لوگ بہت سی جگہوں پر مخالفت اجماع کا حکم لگا بھی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح مخالفت حدیث کا حکم لگاتے ہیں جب کہ وہ بھی نہیں ہوتا۔ موجودہ دور کے اکثر علماء جو فن مناظرہ میں یا آپس کے رد میں مشغول ہیں وہ چاہے حنفی ہوں یا اہل حدیث ان کے قول پر بغیر تحقیق کے کبھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے زبیر علی زئی، توصیف الرحمان راشدی اور الیاس گھمن صاحبان وغیرہ کی مختلف جگہوں پر ایسی چیزیں دیکھی ہیں جنہیں دیکھ کر بندہ کا ان پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے تحقیق کرنی چاہیے پہلے۔
 
Top