فریق ثانی کی تحریر نمبر (3)
السلام عليكم ورحمت اللہ وبرکاتہ!
تحربر نمبر
نحمده و نصلي و نسلم علي رسوله الكريم
اما بعد!
محترم جناب شیخ خضر حیات صاحب اللہ رب العزت آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے
آپ کو یا تو ہمارے اعتراضات سمجھ ہی نہیں آئے یا اگر سمجھ میں بھی آئے ہیں تو کسی مصلحت کی وجہ سے جواب دینا مناسب نہیں سمجھ رہے ۔
تمام اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دعوی مدعی کے ذمے ہوتا ہے اور جواب دعوی اسکی نقیض ہوتا ہے۔۔۔۔۔
توجب تک مکمل دعوی اور اسکی وضاحت نہیں ہوتی تب تک مدعی علیہ سے جواب دعوی کا تقاضہ کرنا بروۓ انصاف درست نہیں ہے ....
میں نے جو وضاحتیں طلب کی ہیں آپ نے ان میں سے ایک کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا .
براہ کرم بات کو مزید الجھانے کی بجائے مذکورہ سوالات کے مفصل جوابات عنائت فرما دیں
جزاك الله تعالي خيرا
آپنے فرمایا کہ :
ضعیف حدیث کا موضوع کیا ہو ضعف کی نوعیت کیا ہو یہ باتیں محل خلاف نہیں ہیں
محترم یہ باتیں میں اس لۓ پوچھ رہا ہوں تاکہ حسن لغیرہ کی اصل صورت ہمارے سامنے آجاۓ .
کیونکہ ضعیف + ضعیف = حسن کے قائلین کے پاس کوئی اصول وضابطہ نہیں ہے بسا اوقات متروک راویوں کی روایات کو بھی حسن لغیرہ بنادیتے ہیں .......
لھذا ضعف کی نوعیت کا مطالبہ بلکل درست ہے .
باقی جہاں تک تعلق ہے منکرین حدیث والی مثال کا۔
توعرض ہے کہ جب آپ کسی مقلد سے تقلید شخصی پر بات کرناچاہیں تو وہ آپ سے کہیں کہ آپ تو تقلید کی کسی بھی صورت کے قائل نہیں ہیں تو یہاں پر شخصی کامطالبہ کیامعنی رکھتاہے؟
تو آپکا کیاجواب ہوگا؟
فماجوابك فھوجوابنا
آپنے عقائد میں حسن لغیرہ کی حجیت کے بارے میں قائلین کا متفقہ مؤقف پیش نہیں کیا .
یاد رہے کہ یہ بحث صرف میرے اور آپکے درميان نہیں ہے بلکہ دو فریقین کے مابین ہے لھذا آپ اپنی انفرادی راۓ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ قائلین کی طرف سے انکے مؤقف کی ترجمانی کرنا آپ پر ضروری ہے ۔
جبکہ آپ انکی نمائندگی کے بجاۓ خود قائلین کے مؤقف کا رد کر رہے ہیں .
بالفرض اگر ایک میرے جیسا طالب علم ضعیف + ضعیف = حسن کی حجیت کا قائل ہوجاۓ تو قائلین کی اکثریت کہے گی عقائد اور حلت وحرمت میں حسن لغیرہ کو حجت مت ماننا آپ فرمائیں گے کہ عقائد سمیت جملہ احکام دین میں حجت ماننا تو وہ طالب علم کہاں جاۓ ؟
آپکی بات تسلیم کرے یا دیگر قائلین کی ؟
لھذا آپ قائلین کا متفقہ مؤقف پیش کریں ۔
آپنے فرمایا کہ :
اور اگر اس سے مراد مجھول العین ہے تو بعض اہل علم نے جہالت عین کو بھی قابل تقويت قرار دیا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر صورت حسن لغیرہ کو ماننے والوں کا ہے
تو عرض ہے پہلے ضعیف + ضعیف = حسن کے قائلین اپنا مسئلہ تو حل کریں جب قائلین کے پاس کوئی قاعدہ کلیہ نہیں تو منکرین کو پابند کرنا چہ معنی دارد ؟
دوسری بات بعض اہل علم سے آپکی کیا مراد ہے ؟
اگر جھابذہ نقاد ہیں ان سے دو مجاھیل کو ملاکر حسن لغیرہ بنانے کا ثبوت پیش کر دیں ؟
جبکہ قائلین حسن لغیرہ کے نزدیک دو مجھول ملکر ایک صدوق بن جاتا ہے .
اسی طرح دو مجھول الحال کو ملا کر حسن بنانے کی مثال بھی پیش فرما دیں
تاکہ ہمیں آپ کی بات سمجھنے میں آسانی ہو
قلیل التدلیس کی معنعن روایت تو ویسے ہی آپکے نزدیک صحیح ہے کیا دو کثیر التدلیس کو ملاکر روایات کو حسن لغیرہ بنانا درست ہے ؟
اس کی بھی جھابذہ نقاد سے تطبیقا کوئی مثال پیش فرما کر وضاحت فرمائیں
آپنے فرمایا کہ حسن لغیرہ محدثین کے نزدیک حجت ہے ۔
کیا تمام محدثین کے نزدیک حجت ہے ؟
مزید لفظ " محدثین " سے آپ کی کون سی شخصیات مراد ہیں اس کی بھی وضاحت فرما دیں
آپنے فرمایا کہ :
ان تینوں راویوں کو ضعیف بھی کہا گیا لیکن ساتھ لیس بالمتروک بھی ہر ضعیف مردود ہوتا تو پھر لیس بالمتروک کا کیا مطلب ہوا؟
تو کیا آپکے نزدیک صرف وہ راوی مردود الروایة ہے جو ضعیف ہونے کے ساتھ متروک بھی ہو؟
ایسے راویوں کی تو میں سینکڑوں مثالیں پیش کرسکتا ہوں جن پر صرف ضعیف کی جرح ہے .
تو کیا متروک کی جرح نہ ہونے کیوجہ سے آپ انکی روایت کو قابل للتصحيح تسلیم کریں گے ؟
جن ائمہ کے آپ نے اقوال ذکرکیے ہیں ہماری گذارش ہے کہ اس راوی کی وہ روایات لائیے جن کو انہیں ائمہ نے متابعت سے صحیح مانا ہو؟
یعنی تطبیقا ان آئمۃ نے ان روات کو اس لیے استعمال کیا ہو ؟
کیا لیس بالقوی اور لیس بذاک کیا ایسے صیغے ہیں جن سے کسی کو ضعیف قرار دیا جاسکتا ہے؟
اور ایک سوال کا جواب ابھی تک نہیں آیا کہ :
راوی کی توثیق کب ہوگی، دو مجہولوں کی باہمی متابعت سے یا معروف ائمہ ثقات کی متابعت سے؟
آپنے فرمایا کہ :
حافظ ابن حجر نے تقریب التھذیب میں تو باقاعدہ ایک ضابطہ دے دیا ہے کہ مقبول حیث یتابع والا فلین الحدیث
پہلی بات تو یہ ہے کہ تقریب میں حافظ نے کئی ایسے راویوں کو مقبول قرار دیا ہے جنکی روایات بغیر متابعت کے بھی صحیح ہیں .
دوسری بات یہ قاعدہ بھی مبہم ہے متابعت کون سی مراد ہے، ثقہ کی یا مجہول ہی کی؟
کیا ہر متابعت ضعیف ہی ہوتی ہے؟
اگر نہیں تو اس سے ضعیف + ضعیف = حسن پر استدلال کیسے درست ہے ؟
ہمارا ایک اہم سوال جس کا ابھی تک جواب نہیں آیا!!!
آپ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک عقائد ہوں یا احکام ان سب میں صحیح اور حسن احادیث حجت ہیں
جبکہ قائلین اس کو تسلیم کرنےکے لیے تیارنہیں ہیں جیساکہ خبیب صاحب نے لکھا:
ایسی ضعیف حدیث کو وہ حسن لغیرہ قرار دینے میں تامل کرتے ہیں ......
مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہو اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے.
(مقالات اثریہ ص 125 )
اسی طرح جمعیت اہل حدیث سندھ کے تحت جاری ہونے والے مجلہ دعوت اہل حدیث میں شیخ عبدالرزاق حفظہ اللہ کے شایع ہونے والے مقالے میں بھی واضح طور پر لکھاہواہے کہ
جو حدیث عقائد وحلت وحرمت سے تعلق رکھتی ہو وہ حسن لغیرہ نہیں بن سکتی
لھذا آپ قائلین کا متفقہ مؤقف پیش
کریں .
حافظ عبدالرحمن المعلمي