• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسن لغیرہ کی حجیت کے متعلق ایک مباحثہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر1
دعوی: حسن لغیرہ حجت ہے.
دعوی کی وضاحت:
حسن لغیرہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں ایسا ضعف ہو جو قابل تقویت ہو.
ہمارے نزدیک یہ منہج محدثین ہے.. اور اس کی بے شمار مثالیں، محدثین کے ہاں کتب احادیث و رجال ملتی ہیں، مثلا:
وہ رواۃ جو فی نفسہ ضعیف ہیں... لیکن محدثین نے شواہد و متابعات میں ان کی روایات کو لیا ہے.
وہ احادیث جن کی اسانید کو متابعت و شواہد کی بنا پر محدثین نے قبول کیا ہے.
( یہ بات متفق علیہ ہے، جب کوئی علت موجود ہو، تو پھر بعض دفعہ صحیح اسانید بھی مردود ہوتی ہیں۔ لہذا امید ہے اس نکتے میں اختلاف کی نوبت نہیں آئے گی۔)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فریق ثانی کی تحریر نمبر (1)
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
نحمده و نصلي و نسلم علي رسوله الكريم
اما بعد!
محترم بھائی جان آپ مدعی ہیں اپنے دعوی کی مکمل توضیح کریں آپکی بات مبھم ہے .
1️⃣ کیا آپ مطلقا ضعیف + ضعیف کو حسن مانتے ہیں
یا کچھ شروط کے ساتھ ؟
وہ شروط کیا ہیں ؟
2️⃣ آپ نے اپنے دعوی میں فرمایا ہے "ان میں ایسا ضعف ہو جو قابل تقویت ہو "
قابل تقویت ضعف سے کیا مراد ہے، وضاحت فرما دیں ؟
اور اگلے روز اسی مجموعہ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ
اگر ایک مجہول دوسرے مجہول کی متابعت کرے تو دونوں صدوق ہوجاتے ہیں، کیا قائلین حسن لغیرہ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟
3️⃣ کیا حسن لغیرہ عقائد میں بھی حجت ہے ؟
كتبه:حافظ عبدالرحمن المعلمي
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر (2)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔ہر ضعیف حسن لغیرہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ ضعف جو منجبر ہو.. اور حسن لغیرہ کے لیے عدم علت و نکارت والی شرائط وہی ہیں، جو صحیح حدیث کے لیے ہیں. ضعیف منجبر کون سا ہوتا ہے؟ اس کا جواب اگلے نکتے میں ملاحظہ کرلیں.
2۔ ضعف کی کئی ایک اقسام ہیں، ان میں کچھ قابل تقویت ہوتی ہیں، اور کچھ نہیں، اس سلسلے میں امام ترمذی کی بیان کردہ حسن کی تعریف بنیادی حیثیت رکھتی ہے..
اس میں انہوں نے ضعف کی کیفیت کے متعلق دو طرح سے اشارہ کیا ہے.. ایک تو اسناد میں متہم بالکذب راوی نہیں ہونا چاہیے. کیونکہ ایسے شخص کی عدالت ہی ساقط ہے.. ہاں البتہ جس کی عدالت محتمل ہو.. یا وہ عادل ہو، لیکن اس کے حافظے میں ضعف ہو، تو ایسے راوی کی روایت قابل للتقویۃ ہوتی ہے.
مثلا سیء الحفظ، مستور، مدلس وغیرہ کی حدیث میں ضعف قابل تقویت ہے.
اور متہم بالکذب، کذاب میں موجود ضعف شدید ہے، اس لیے ان کی احادیث حسن لغیرہ نہیں ہوں گی.
دوسری بات انہوں نے جو فرمائی کہ حدیث شاذ نہیں ہونی چاہیے..مطلب اس میں کوئی ایسی علت نہیں ہونی چاہیے، جو اس کی تحسین میں رکاوٹ ہو.. جس طرح کے بعض دفعہ صحیح اسانید والی احادیث بھی شاذ یا منکر یا غیر محفوظ کہلاتی ہیں.
3۔ ہمارے نزدیک عقائد ہوں، یا احکام، ان سب میں صحیح اور حسن احادیث حجت ہیں. بعض دفعہ احادیث میں عند الترجیح ان بحثوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو براہ راست علم الإسناد کا موضوع نہیں، بلکہ مشکل الحدیث یا مختلف الحدیث سے متعلق ہے.
اب ہماری کچھ باتوں پر توجہ کریں:
1۔ آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ کا اگر کوئی دعوی ہے تو وہ بھی رکھ دیں، ابھی تک آپ نے دعوی پیش نہیں کیا، کیا اس سے یہ سمجھا جائےکہ آپ کا کوئی دعوی ہے ہی نہیں؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت کریں، تاکہ بات مبہم نہ رہے.
2۔ آپ نے ہم سے ضعف خفیف و شدید کی بحث کی ہے.. حالانکہ ہمارے آپ کے نزدیک یہ محل خلاف ہی نہیں. کیونکہ جب آپ کے نزدیک کسی بھی قسم کا ضعف قابل تقویت ہی نہیں تو پھر یہ بحث کرنے کا مطلب؟ ضعف خفیف و شدید کی بحث کی حاجت تب ہوتی ہے، جب آپ ضعف کے منجبر ہونے کو درست سمجھتے ہوں، امید ہے، اپنی آئندہ تحریر میں آپ اس بات پر دو ٹوک موقف پیش کریں گے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فریق ثانی کی تحریر نمبر (2)
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

تحرير نمبر 2️⃣

نحمده و نصلي و نسلم علي رسوله الكريم

اما بعد!

شيخنا المكرم حفظك الله سبحانه و تعالي

گزشتہ تحریر میں تنقیح دعوی کے لیے کچھ باتوں کی توضیح طلب کی تھی

کچھ کی کچھ توضیح آپ نے فرما دی تھی
اگرچہ یہ توضیح بھی توضیح طلب ہے لیکن میں لكل مقال مقام کے تحت اس کو مؤخر کر رہا ہوں لیکن ایک بات کی وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں کہ

1️⃣آپ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک عقائد ہوں یا احکام ان سب میں صحیح اور حسن احادیث حجت ہیں

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق جن احباب کی آپ نمائندگی فرما رہے ہیں وہ اور دیگر (قائلین حجیت حسن لغیرہ)اس کو عقائد یا فرضیت حرمت میں حجت نہیں مانتے مثلا حافظ خبیب صاحب حفظہ اللہ عدم تقویت کے اسباب کے باب کے تحت یہ باب قائم کرتے ہیں :

دوسرا سبب:فرضیت,حرمت یا عقائد سے متعلق حدیث ہو

پھر فرماتے ہیں:

محدثین کے اقوال کا دراسہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت یا حرمت ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو وہ حسن لغیرہ قرار دینے میں تامل کرتے ہیں ......
مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہو اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے.

(مقالات اثریہ ص 125 )


اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ قائلین ضعیف+ضعیف کے نزدیک مقالات اثریہ مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اس کی تائید میں قائلین کی گواہیاں بھی موجود ہیں۔

اسی طرح جمعیت اہل حدیث سندھ کے تحت جاری ہونے والے مجلہ دعوت اہل حدیث میں شیخ عبدالرزاق حفظہ اللہ کے شایع ہونے والے مقالے میں بھی واضح طور پر لکھاہواہے کہ

جو حدیث عقائد وحلت وحرمت سے تعلق رکھتی ہو وہ حسن لغیرہ نہیں بن سکتی

لھذا انتھائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ قائلین حجیت حسن لغیرہ اپنا متفقہ مؤقف پیش فرمائیں یا پھر جو اختلاف ہے اس کی صراحت فرما دیں ؟


2️⃣ دوسری بات "اگر مجھول
راوی مجھول کی متابعت کرے....." اس سوال کا آپنے جواب نہیں دیا ۔ ؟

اصل میں ابتدائی نقطہ سے بات شروع ہونی چاہئے تھی۔


کہ ایک راوی کی توثیق کیوں کر ہوتی۔

کیا دو مجہول مل کر ایک صدوق تیار کیا جاسکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ مستور کی ایک مستور راوی متابعت کرے تو روایت صحیح ہوجاوے گی۔

یہ کیا طریقہ ضعف منجبر ہونے کا ہوا؟

منکر کی خود کئی صورتیں ہیں، بسا اوقات محدث صرف منفرد روایت کو منکر کہتا ہے اور بسا اوقات موضوع کو منکر کہتا ہے۔ تو آپ کون سی منکر کی بات کر رہے ہیں؟

قلیل التدلیس تو آپ کے نزدیک ویسے ہی ضعیف نہیں ہوتا، تو کیا دو کثیر التدلیس مل کر ایک صحیح تیار کریں گے

3️⃣ تحسین میں رکاوٹ علتوں سے کیا مراد ہے، تفصیل بیان کریں ؟

نیزسئی الحفظ کی روایت ایک دوسرے سئی الحفظ سے مل کر تقویت کو پہنچے گی یا نہیں؟

4️⃣ آپنے دعوی میں فرمایا حسن لغیرہ حجت ہے ظاہر ہے حسن لغیرہ سے آپکی مراد ضعیف + ضعیف ہی ہوگی .

آپنے یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ کس کے نزدیک حجت ہے متقدمین آئمہ کے نزدیک یامعاصرین کے نزدیک ؟


▶ آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں بھی اپنا دعوی پیش کروں تو نہائیت مؤدبانہ گزارش ہے کہ :یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جوابِ دعوی ہمیشہ دعوی کی نقیض ہوتا ہے .
جب تک دعوی کی مکمل تنقيح نہیں کی جاتی تب تک جواب دعوی کا مطالبہ درست نہیں ہے .

پھر آپ نے فرمایا: کہ ضعف شدید و خفیف پر اعتراض بنتا ہی نہیں
تو شیخ صاحب سے گزارش ہے کہ ہم نے اعتراض نہیں کیا، بلکہ تفصیل طلب کی ہے۔ تاکہ پھر اسی کے مطابق آپ سے مثال طلب کی جاسکے۔

كتبه:حافظ عبدالرحمن المعلمي
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر (3)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1):ہمارا دعوی بھی آگیا کہ حسن لغیرہ حجت ہے، اس کی وضاحت بھی کردی گئی کہ حسن لغیرہ سے کیا مراد ہے؟ پھر اس میں ہم نے بطور مثال مستور، سیء الحفظ اور مدلس راوی کی مثالیں بھی بیان کردیں کہ اس قسم کی ایک سے زائد اسانید مل کر حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچ جاتی ہیں، إلا کہ ان میں کوئی نکارت یا علت ہو۔ اور اس آخری شرط میں تفصیل میں جانے کی بجائے مختصرا ہم نے عرض کردیا تھا کہ یہاں اس سے وہی مراد ہےجو حدیث صحیح یا حسن کی شرائط میں’ من غیر شذوذ ولا علۃ‘ سے مراد ہوتا ہے۔
اتنے واضح دعوی کو آپ چھوڑ کر دیگر چیزیں زیر بحث لے کر آرہے ہیں، مثلا:
حسن لغیرہ عقائد میں حجت ہے کہ نہیں؟
ضعف خفیف حسن لغیرہ ہوتا ہے کہ ضعیف شدید؟
اس میں بھی ہم اپنا موقف بیان کرچکے ہیں۔
لیکن آپ کا ہمارے دعوی سے اختلاف کیا ہے؟
ہمارا آپ کا اختلاف ضعیف جمع ضعیف کی حجیت میں ہے۔ اس ضعیف حدیث کا موضوع کیا ہو؟ ضعف کی نوعیت کیا ہو؟ یہ باتیں اصل میں محل خلاف نہیں ہیں۔
اسی لیے آپ سے عرض کیا تھا کہ اپنا دعوی اور موقف لکھ دیں۔
اگر آپ کے نزدیک عقائد کے علاوہ ضعیف جمع ضعیف، یا ضعف کی بعض صورتیں ’حسن لغیرہ‘ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تو اعتراف میں دیر نہ کریں، تاکہ بقیہ موضوعات پر بھی بات کرلی جائے۔
2): یہ بات دوبارہ دہرانے کا فائدہ نہیں کہ چونکہ آپ کا دعوی واضح نہیں، تو ہم اس کی وضاحت طلب کر رہے ہیں۔ آپ کے نزدیک اگر یہ دعوی کی وضاحت بھی ہے، تو گزارش ہے ، کہ پہلے اصل دعوی پر بات کرلیں، پھر اس کی وضاحت اور جزئیات کی طرف آجائیے گا۔ منکرین حدیث سرے سے احادیث کا ہی انکار کرتے ہیں، تو کیا ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ ہم سے حدیث صحیح یا حسن کی شرائط اور تفصیلات میں الجھنا شروع کردیں۔
3): آپ نے کچھ سوال کیے ہیں کہ سیء الحفظ اور مستور اپنے جیسے سے مل کر حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچ سکتا ہے، تو ہمارا جواب ہے جی ہاں بالکل۔ اور یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔
ایک سوال آپ نے کیا کہ مجہول اپنے جیسے مجہول سے ملکر صدوق بن جاتا ہے؟ اگر مراد مجہول الحال یعنی مستور ہے، تو ہمارے نزدیک ان دونوں کو صدوق کہنے کی بجائے، ان کی روایت کو ’حسن لغیرہ‘ کہا جائے گا۔
اور اگر اس سے مراد مجہول العین ہے، تو پھر اس میں تفصیل ہے۔ بعض اہل علم نے جہالۃ عین کو بھی قابل تقویت قرار دیا ہے، لیکن یہ مسئلہ بہرصورت حسن لغیرہ کو ماننے والوں کا ہے، منکرین حسن لغیرہ کو ان مسائل تک پہنچنے کے لیے پہلے اصولی بات طے کرنا ہوگی، جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا۔
ایک سوال آپ نے اور کیا کہ حسن لغیرہ کن کے نزدیک حجت ہے؟ اس کا جواب ہے کہ محدثین کے نزدیک حجت ہے۔ اور ہم نے شروع میں ہی یہ پابندی مانی تھی کہ جو بات بھی ہوگی، منہج محدثین کے مطابق ہی ہوگی، کسی اور کا اس میں کوئی تعلق نہیں۔
چند مثالیں ملاحظہ کرلیں:
حبان بن يسار الكلابي کے متعلق امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
ليس بالقوي ولا بالمتروك. (الجرح والتعديل(3/ 270)( 1206)
علي بن أبي طلحة الهاشمي كى متعلق امام يعقوب الفسوي فرماتے ہیں:
ليس هو بمتروك ولا هو حجة. (إکمال تہذیب الکمال(9/ 348)
وهشام بن سعد، سئل عنه ابن معين فقال: "ليس هو بذاك القوى"(تاريخ ابن معين - رواية ابن محرز (1/ 70) ومرة قال: "هو صالح ليس بمتروك الحديث"(تاريخ ابن أبي خيثمة - السفر الثالث (2/ 335)
ان تینوں راویوں کو ضعیف بھی کہا گیا لیکن ساتھ لیس بالمتروک بھی۔ ہر ضعیف ’مردود‘ ہوتا ہے تو پھر ’لیس بالمتروک‘ کا کیا مطلب ہوا؟
امام ذہبی ایک جگہ پر احادیث کی مختلف اقسام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم يليه ما كان إسناده صالحا، وقبله العلماء لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا، يعضد كل إسناد منهما الآخر.
(سير أعلام النبلاء ط الرسالة (13/ 214)
اس میں صراحت ہے کہ دونوں اسانید میں ضعف ہوتا ہے، لیکن متابعت کی بنا پر علماء اسے قبول کرلیتے ہیں.
اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں تو باقاعدہ ایک ضابطہ دے دیا ہے کہ ’مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث‘
(ختم شد)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فریق ثانی کی تحریر نمبر (3)
السلام عليكم ورحمت اللہ وبرکاتہ!

تحربر نمبر 3️⃣

نحمده و نصلي و نسلم علي رسوله الكريم

اما بعد!


محترم جناب شیخ خضر حیات صاحب اللہ رب العزت آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے

آپ کو یا تو ہمارے اعتراضات سمجھ ہی نہیں آئے یا اگر سمجھ میں بھی آئے ہیں تو کسی مصلحت کی وجہ سے جواب دینا مناسب نہیں سمجھ رہے ۔

تمام اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دعوی مدعی کے ذمے ہوتا ہے اور جواب دعوی اسکی نقیض ہوتا ہے۔۔۔۔۔

توجب تک مکمل دعوی اور اسکی وضاحت نہیں ہوتی تب تک مدعی علیہ سے جواب دعوی کا تقاضہ کرنا بروۓ انصاف درست نہیں ہے ....

میں نے جو وضاحتیں طلب کی ہیں آپ نے ان میں سے ایک کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا .

براہ کرم بات کو مزید الجھانے کی بجائے مذکورہ سوالات کے مفصل جوابات عنائت فرما دیں

جزاك الله تعالي خيرا

1️⃣ آپنے فرمایا کہ :

ضعیف حدیث کا موضوع کیا ہو ضعف کی نوعیت کیا ہو یہ باتیں محل خلاف نہیں ہیں

محترم یہ باتیں میں اس لۓ پوچھ رہا ہوں تاکہ حسن لغیرہ کی اصل صورت ہمارے سامنے آجاۓ .

کیونکہ ضعیف + ضعیف = حسن کے قائلین کے پاس کوئی اصول وضابطہ نہیں ہے بسا اوقات متروک راویوں کی روایات کو بھی حسن لغیرہ بنادیتے ہیں .......
لھذا ضعف کی نوعیت کا مطالبہ بلکل درست ہے .

باقی جہاں تک تعلق ہے منکرین حدیث والی مثال کا۔

توعرض ہے کہ جب آپ کسی مقلد سے تقلید شخصی پر بات کرناچاہیں تو وہ آپ سے کہیں کہ آپ تو تقلید کی کسی بھی صورت کے قائل نہیں ہیں تو یہاں پر شخصی کامطالبہ کیامعنی رکھتاہے؟
تو آپکا کیاجواب ہوگا؟

فماجوابك فھوجوابنا

2️⃣آپنے عقائد میں حسن لغیرہ کی حجیت کے بارے میں قائلین کا متفقہ مؤقف پیش نہیں کیا .

یاد رہے کہ یہ بحث صرف میرے اور آپکے درميان نہیں ہے بلکہ دو فریقین کے مابین ہے لھذا آپ اپنی انفرادی راۓ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ قائلین کی طرف سے انکے مؤقف کی ترجمانی کرنا آپ پر ضروری ہے ۔
جبکہ آپ انکی نمائندگی کے بجاۓ خود قائلین کے مؤقف کا رد کر رہے ہیں .

بالفرض اگر ایک میرے جیسا طالب علم ضعیف + ضعیف = حسن کی حجیت کا قائل ہوجاۓ تو قائلین کی اکثریت کہے گی عقائد اور حلت وحرمت میں حسن لغیرہ کو حجت مت ماننا آپ فرمائیں گے کہ عقائد سمیت جملہ احکام دین میں حجت ماننا تو وہ طالب علم کہاں جاۓ ؟
آپکی بات تسلیم کرے یا دیگر قائلین کی ؟
لھذا آپ قائلین کا متفقہ مؤقف پیش کریں ۔

3️⃣آپنے فرمایا کہ :

اور اگر اس سے مراد مجھول العین ہے تو بعض اہل علم نے جہالت عین کو بھی قابل تقويت قرار دیا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر صورت حسن لغیرہ کو ماننے والوں کا ہے

تو عرض ہے پہلے ضعیف + ضعیف = حسن کے قائلین اپنا مسئلہ تو حل کریں جب قائلین کے پاس کوئی قاعدہ کلیہ نہیں تو منکرین کو پابند کرنا چہ معنی دارد ؟


دوسری بات بعض اہل علم سے آپکی کیا مراد ہے ؟
اگر جھابذہ نقاد ہیں ان سے دو مجاھیل کو ملاکر حسن لغیرہ بنانے کا ثبوت پیش کر دیں ؟
جبکہ قائلین حسن لغیرہ کے نزدیک دو مجھول ملکر ایک صدوق بن جاتا ہے .

اسی طرح دو مجھول الحال کو ملا کر حسن بنانے کی مثال بھی پیش فرما دیں

تاکہ ہمیں آپ کی بات سمجھنے میں آسانی ہو

قلیل التدلیس کی معنعن روایت تو ویسے ہی آپکے نزدیک صحیح ہے کیا دو کثیر التدلیس کو ملاکر روایات کو حسن لغیرہ بنانا درست ہے ؟

اس کی بھی جھابذہ نقاد سے تطبیقا کوئی مثال پیش فرما کر وضاحت فرمائیں

4️⃣آپنے فرمایا کہ حسن لغیرہ محدثین کے نزدیک حجت ہے ۔

کیا تمام محدثین کے نزدیک حجت ہے ؟
مزید لفظ " محدثین " سے آپ کی کون سی شخصیات مراد ہیں اس کی بھی وضاحت فرما دیں

5️⃣ آپنے فرمایا کہ :

ان تینوں راویوں کو ضعیف بھی کہا گیا لیکن ساتھ لیس بالمتروک بھی ہر ضعیف مردود ہوتا تو پھر لیس بالمتروک کا کیا مطلب ہوا؟

تو کیا آپکے نزدیک صرف وہ راوی مردود الروایة ہے جو ضعیف ہونے کے ساتھ متروک بھی ہو؟

ایسے راویوں کی تو میں سینکڑوں مثالیں پیش کرسکتا ہوں جن پر صرف ضعیف کی جرح ہے .

تو کیا متروک کی جرح نہ ہونے کیوجہ سے آپ انکی روایت کو قابل للتصحيح تسلیم کریں گے ؟

جن ائمہ کے آپ نے اقوال ذکرکیے ہیں ہماری گذارش ہے کہ اس راوی کی وہ روایات لائیے جن کو انہیں ائمہ نے متابعت سے صحیح مانا ہو؟

یعنی تطبیقا ان آئمۃ نے ان روات کو اس لیے استعمال کیا ہو ؟

کیا لیس بالقوی اور لیس بذاک کیا ایسے صیغے ہیں جن سے کسی کو ضعیف قرار دیا جاسکتا ہے؟

اور ایک سوال کا جواب ابھی تک نہیں آیا کہ :

راوی کی توثیق کب ہوگی، دو مجہولوں کی باہمی متابعت سے یا معروف ائمہ ثقات کی متابعت سے؟

6️⃣آپنے فرمایا کہ :

حافظ ابن حجر نے تقریب التھذیب میں تو باقاعدہ ایک ضابطہ دے دیا ہے کہ مقبول حیث یتابع والا فلین الحدیث

پہلی بات تو یہ ہے کہ تقریب میں حافظ نے کئی ایسے راویوں کو مقبول قرار دیا ہے جنکی روایات بغیر متابعت کے بھی صحیح ہیں .

دوسری بات یہ قاعدہ بھی مبہم ہے متابعت کون سی مراد ہے، ثقہ کی یا مجہول ہی کی؟

کیا ہر متابعت ضعیف ہی ہوتی ہے؟

اگر نہیں تو اس سے ضعیف + ضعیف = حسن پر استدلال کیسے درست ہے ؟

ہمارا ایک اہم سوال جس کا ابھی تک جواب نہیں آیا!!!

آپ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک عقائد ہوں یا احکام ان سب میں صحیح اور حسن احادیث حجت ہیں
جبکہ قائلین اس کو تسلیم کرنےکے لیے تیارنہیں ہیں جیساکہ خبیب صاحب نے لکھا:

ایسی ضعیف حدیث کو وہ حسن لغیرہ قرار دینے میں تامل کرتے ہیں ......
مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہو اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے.

(مقالات اثریہ ص 125 )

اسی طرح جمعیت اہل حدیث سندھ کے تحت جاری ہونے والے مجلہ دعوت اہل حدیث میں شیخ عبدالرزاق حفظہ اللہ کے شایع ہونے والے مقالے میں بھی واضح طور پر لکھاہواہے کہ

جو حدیث عقائد وحلت وحرمت سے تعلق رکھتی ہو وہ حسن لغیرہ نہیں بن سکتی

لھذا آپ قائلین کا متفقہ مؤقف پیش
کریں .

حافظ عبدالرحمن المعلمي
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر (4)
اول:
آپ نے کہا کہ ہم سوال اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے ’حسن لغیرہ‘ کی اصل صورت سامنے آجائے، اور حسن لغیرہ کے قائلین خود متفق نہیں۔۔۔ وغیرہ۔
میری گزارش یہ ہے کہ جو باتیں ہمارے مباحثے کا حصہ نہیں بنیں، انہیں زیر بحث بنانے کی بجائے، اس طرف توجہ دیں، جو باتیں عرض کی جاچکی ہیں۔
ہم نے جو باتیں عرض کی ہیں ، ایک بار پھر یاد کروادیتا ہوں:
1۔حسن لغیرہ حجت ہے۔
2۔ ضعف خفیف قابل تقویت ہے، ضعف شدید قابل تقویت نہیں۔
3۔ ضعف خفیف، مثلا، سوء الحفظ، تدلیس، جہالۃ حال، اور اختلاط وغیرہ۔
4۔ضعف شدید، مثلا متہم بالکذب ہونا ، یا کذاب ہونا وغیرہ۔
ان چار باتوں سے آپ کا اتفاق ہے، تو بتائیں، ورنہ اختلاف واضح کریں۔
دوم:
میں نے ایک گزارش باین الفاظ کی تھی:
’’یہ بات دوبارہ دہرانے کا فائدہ نہیں کہ چونکہ آپ کا دعوی واضح نہیں، تو ہم اس کی وضاحت طلب کر رہے ہیں۔ آپ کے نزدیک اگر یہ دعوی کی وضاحت بھی ہے، تو گزارش ہے ، کہ پہلے اصل دعوی پر بات کرلیں، پھر اس کی وضاحت اور جزئیات کی طرف آجائیے گا۔ منکرین حدیث سرے سے احادیث کا ہی انکار کرتے ہیں، تو کیا ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ ہم سے حدیث صحیح یا حسن کی شرائط اور تفصیلات میں الجھنا شروع کردیں۔‘‘
اس میں ’اصل دعوی‘ اور اس کی ’جزئیات و توضیحات‘ میں فرق اور اس کے لیے بیان کردہ مثال کو حسب عادت نظر انداز کرتے ہوئے نئی مثال میدان میں لے آئے ہیں۔
گویا آپ کے نزدیک منکرین حدیث سے حجیت حدیث کی بجائے، صحیح ،حسن، بلکہ لذاتہ ولغیرہ جیسے موضوعات پر گفتگو کرنی چاہیے۔
جو معراج کا ہی منکر ہو، اس کے ساتھ احادیث میں موجود معراج کی تفصیلات پر گفتگو کرنی چاہیے۔
سبحان اللہ۔
سوم:
پھر وہی بات چھیڑی کہ عقائد میں متفقہ موقف بیان کریں، ہماری گزارش ہے کہ ہم نے عقائد سے متعلق جو موقف بیان کیا ہے، اس میں کوئی اختلاف ہے؟ اور جو باتیں مباحثے میں ہوئی ہی نہیں، انہیں فٹا فٹ لے آتے ہیں۔ آپ نے ادھر ادھر سے کتابوں کے اقتباسات لانے ہی ہیں، تو ہمت کرکے حسن لغیرہ سے متعلق لکھی گئی کتابوں سے اپنا دعوی تلاش کرکے، لکھ دیں، تاکہ حسن لغیرہ کے متعلق آپ کی چوتھی تحریر بھی آپ کے موقف کے ذکر کے بغیر اختتام پذیر نہ ہوجائے۔
بقیہ نکات کا جواب دینے کی حاجت نہیں، ان میں سے بعض کا جواب دیا جاچکا، اوربعض باتیں بالکل ابتدائي ہیں، ایسی سطح کی باتوں کا جواب مباحثے میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ درس وتدریس میں سمجھی سمجھائی جاتی ہیں۔
ہم عرض کرچکے کہ اب تحریر لکھنے کی بجائے، پہلے کچھ شقوں پر نکتہ وار بات ہوگی، پھر ہی آگے بڑھا جائے گا، ورنہ تحریر در تحریر سوائے اطناب ممل کے اور کچھ نہیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فریق ثانی کی تحریر نمبر (4)
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

نحمده و نصلي و نسلم علي رسوله الكريم

اما بعد!

محترم المقام جناب خضر حیات صاحب امید واثق تو یہ تھی کہ آپ اپنے منتصرین کے ساتھ مل کر ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات عنائت فرمائیں گے اور بات کو کو آگے بڑھایا جا سکے گا لیکن................بات تو مزید الجھ گئی ہے

میں آپ کی تحریر پر بلا تبصرہ چند سوالات لوٹا رہا ہوں جب تک ان کے جوابات نہیں آتے اصولی طور پر بات کو آگے بڑھانا ناممکن ہے

1️⃣ میری گزشتہ تحریر کا پہلا سوال یہ تھا کہ:

ضعیف حدیث کا موضوع کیا ہو ؟

یہ سوال بلاوجہ نہیں تھا بلکہ ساتھ وضاحت موجود تھی کہ یہ بحث صرف میرے اور آپ کے درمیان نہیں ہے بلکہ دو فریقین کے درمیان ہے اور ہم ان کے موقف کا دفاع کر رہے ہیں

جبکہ آپ خود ہی اپنے فریق کے مؤقف کا رد کر رہے ہیں

اس اھم سوال سے اب تک کنارہ کرنا کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے

2️⃣ سوال ضعف کی نوعیت کے حوالہ سے تھا

یہ سوال بھی بلاوجہ نہیں تھا کیونکہ قائلین حجیت حسن لغیرہ متروک روات کو بھی قابل للتقویۃ قرار دے کر روایت کو حسن بنا رہے ہوتے ہیں.......

جس کا آپ انکار نہیں فرما سکتے

3️⃣ آپ نے اپنی تحریر نمبر *3 میں فرمایا تھا کہ بعض اہل علم مجھول العین کی روایت کو قابل للتقویۃ سمجھتے ہیں

جس پر فقیر الی اللہ نے یہ عرض کی تھی کہ: بعض اہل علم سے کیا مراد ہے ؟

اگر جھابذہ نقاد مراد ہیں تو بسم اللہ کریں اور صرف ایک مثال پیش فرما دیں جس سے آپ کا مؤقف واضح ہو جائے ؟

نیز آپ نے اپنی تحریر نمبر 2 کی شق نمبر تین میں فرمایا کہ:مجھول سے مراد اگر مستور ہے تو ہمارے نزدیک ان کو صدوق کہنے کی بجائے ان کی روایت کو حسن لغیرہ کہا جائے گا ......

تو انتھائی احترام کے ساتھ عرض ہے کہ اگر لفظ ہمارے نزدیک سے آپ کی مراد آپ خود ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے

لیکن اگر یہ منھج محدثین ہے تو براہ کرام آئمۃ نقاد سے صرف ایک مثال بیان فرما دیں

انتھائی تعجب ہے کہ آپ نے اپنی تحریر نمبر 4 میں اس اھم سوال کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور اس کو اطناب ممل قرار دے دیا العياذ بالله

یہاں اس امر کی بھی وضاحت فرما دیں کہ: راوی کی توثیق مجاہیل کی متابعت سے ہوگی یا ثقات کی متابعت سے ؟

4️⃣محترم المقام آپ نے تحریر نمبر تین میں فرمایا تھا کہ: حسن لغیرہ محدثین کے نزدیک حجت ہے

اس پے احقر دو سوال کیے تھے

▶کیا تمام محدثین کے نزدیک حجت ہے ؟

▶مزید لفظ محدثین سے کون سی شخصیات مراد ہیں ؟

5️⃣ میری تحریر نمبر 4 کا سب سے اھم سوال جس کی طرف آپ نے التفات بھی پسند نہیں کیا

کہ جن آئمۃ نقاد کے اقوال کو بنیاد بنا کر آپ حسن لغیرہ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ تطبیقا ان سے اس کا صرف ایک ثبوت پیش فرما دیں ؟

لیکن جواب تو کجا آپ نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا

6️⃣ آپ نے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے قاعدہ سے کچھ سہارہ لینا چاہا جس کا ہم نے جواب بمع اعتراض پیش کر دیا

آپ نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا

کیا ہم آپ کے سکوت کو اس بات پے محمول کر لیں کہ ہمارا جواب درست ہے ؟

محترم میں آخر پے انتھائی احترام کے ساتھ اتنا ہی عرض کروں گا کہ آپ نے تحریر نمبر 4 میں جن الفاظ کا انتخاب فرمایا اس سے ہماری انتھائی اہم گفتگو کا رخ کسی اور طرف نکل جائے گا

براہ کرم ان سوالات کے تسلی بخش جوابات عنائت فرمائیں تاکہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے

اخوك في الله:حافط عبدالرحمن المعلمي
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر (5)
(حصہ اول)
ہم اپنی پہلی چار تحریروں میں اپنا دعوی پیش بھی کرچکے ہیں، اور اس کی توضیح کے ساتھ کچھ مثالیں بھی عرض کرچکے ہیں، پھر فریق مخالف ظاہر کیا کہ انہیں ہماری باتیں سمجھ نہیں آرہیں، تو ہم نے تحریری سلسلہ کو موقوف کرکے، دو بدو بات کے ذریعے افہام و تفہیم کرنا چاہا، لیکن یہ طریقہ بھی فریق ثانی کو پسند نہیں آسکا۔ خیر ہم اپنے موقف سے متعلق اعتراضات یا سوالات کے جوابات دیے بھی ہیں، مزید بھی دیں گے، اگر فریق مخالف ’مناقشہ و تنقیح‘ کی طرف آئیں گے، ورنہ اگر صرف تحریر در تحریر کرتے جانا ہے، تو اس میں بھی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، اس پر جلدوں کی جلدیں لکھی جاسکتی ہیں۔
فی الوقت ہم کچھ مختصر عبارات، اور بلا کسی تحدید و ترتیب کے کچھ مثالیں عرض کرتے ہیں، اگر مباحثہ جاری رہا تو ہم تفصیل سے کتب حدیث، کتب رجال، اور کتب مصطلح بلکہ کتب تخریج کے مناہج پیش کرنا شروع کریں گے۔
امام احمد بن حنبل كا مشہور مقولہ ہے:
الحديث عن الضعفاء قد يحتاج إليه في وقت والمنكر أبدا منكر. (العلل رواية المروذي وغيره ت صبحي السامرائي (ص: 120)
امام احمد کا یہ مقولہ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ ضعیف اور منکر میں فرق ہے، منکر تو ہمیشہ منکر ہوتی ہے، اگر ضعیف بھی ہمیشہ منکر کی مانند ہی ہو، تو کہنا چاہیے تھا کہ منکر وضعیف ہمیشہ منکر وضعیف ہی رہتی ہے۔
حسن لغیرہ کی تعریف و حجیت میں ائمہ کی چند عبارات:
امام ترمذی فرماتے ہیں:
"كل حَدِيث يرْوى لَا يكون فِي إِسْنَاده من يتهم بِالْكَذِبِ وَلَا يكون الحَدِيث شاذا ويروى من غير وَجه نَحْو ذَاك فَهُوَ عندنَا حَدِيث حسن". (العلل الصغير للترمذي (ص: 758)(وانظر: سنن الترمذي(5/758)
ابن الصلاح نے امام ترمذی کی اس تعریف کو حسن کی دو قسموں میں سے ایک قسم کی تعریف قرار دیا ہے۔( علوم الحدیث لہ(ص: 30)،
ابن الصلاح کی کتاب کے شارحین و مستدرکین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے، گو اس تعریف کی شرح و وضاحت میں تعقبات و استدراکات موجود ہیں۔
بقاعی ابن حجر سے اس تعریف کی شرح کے متعلق نقل کرتے ہیں:
قال شيخنا: ((والترمذيُّ عرَّفَ الحسنَ لغيرهِ، وادّعاءُ ابنِ المواقِ أنَّهُ لم يميزْ، ممنوعٌ، فإنهُ ميّزهُ بشيئينِ: أحدهما: أنْ يكونَ راويهِ قاصراً عن درجةِ راوي الصحيحِ، بل عن درجةِ راوي الحسنِ لذاته، وهو أنْ يكونَ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، فيدخلَ فيهِ المستورُ والمجهولُ، ونحو ذلكَ. وراوي الصحيحِ لا بدَّ وأنْ يكونَ ثقةً، وراوي الحسنِ لذاتهِ لا بدَّ وأنْ يكونَ / 61 ب / موصوفاً بالضبطِ، ولا يكفي كونهُ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، وقد ذكرَ هذا ابنُ المواقِ في نفسِ اعتراضهِ بقولهِ: بل ثقاتٍ، ولم يُتنبهْ له، فإنَّ الترمذيَّ لم يعدلْ عن قوله: ((ثقات)) وهي كلمةٌ واحدة إلى قولهِ: ((لا يكونُ في إسنادهِ من يتهمُ بالكذبِ)) إلا لإرادةِ قصورِ رواتهِ عن وصفِ الثقةِ، كما هي عادةُ البلغاءِ في المخاطباتِ.(النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 224،225)
امام نووی ترمذی و ابن الصلاح وغیرہ کی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
الحسن وإن كان دون الصحيح على ما تقدم من حديهما. فهو كالصحيح في أنه يحتج به. ولهذا لم تفرده طائفة من أهل الحديث، بل جعلوه مندرجًا في نوع الصحيح . (إرشاد طلاب الحقائق (1/ 141)
اور اور جگہ پر فرماتے ہیں:
حسن کی تعریف ابن الجوزی یوں کرتے ہیں:
" الْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ ضَعْفٌ قَرِيبٌ مُحْتَمَلٌ هُوَ الْحَدِيثُ الْحَسَنُ، وَيَصْلُحُ لِلْعَمَلِ بِهِ ".(الموضوعات له(1/ 13)،(علوم الحديث لابن الصلاح(ص: 30)
شيخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
أن تعدد الطرق مع عدم التشاعر أو الاتفاق في العادة، يوجب العلم بمضمون المنقول، لكن هذا ينتفع به كثيرا في علم أحوال الناقلين. وفي مثل هذا ينتفع برواية المجهول والسيئ الحفظ، وبالحديث المرسل ونحو ذلك؛ ولهذا كان أهل العلم يكتبون مثل هذه الأحاديث، ويقولون: إنه يصلح للشواهد والاعتبار ما لا يصلح لغيره. قال أحمد: قد أكتب حديث الرجل لأعتبره، ومثل هذا بعبد الله بن لَهِيعة قاضي مصر؛ فإنه كان من أكثر الناس حديثا ومن خيار الناس، لكن بسبب احتراق كتبه وقع في حديثه المتأخر غلط، فصار يعتبر بذلك ويستشهد به. (مقدمة في أصول التفسير (ص: 29)
ابن تیمیہ کی عبارت میں جس چیز کو منہج محدثین بتایا گیا ہے، اسی کا نام حسن لغیرہ ہے۔
حافظ ذہبی حدیث کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے، لکھتے ہیں:
"ثم يليه ما كان إسناده صالحا، وقبله العلماء لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا، يعضد كل إسناد منهما الآخر". (سير أعلام النبلاء ط الرسالة (13/ 214)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ1: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه،وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإِسنادُ المُرْسَلُ، وكذا المدلَّس إِذا لم يُعْرف المحذوفُ منهُ = صارَ حديثُهم حَسناً، لا لذاتِهِ، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المَجْموعِ، مِن المتابِع والمتابَع؛ لأن كلَّ واحدٍ منهم احتمالُ أن تكون روايته صواباً، أو غير صوابٍ، على حدٍّ سواءٍ، فإِذا جاءَتْ مِنَ المُعْتَبَرِين روايةٌ موافِقةٌ لأحدِهِم رَجَحَ أحدُ الجانِبينِ من الاحتمالين المذكورين، وَدَلَّ ذلك على أَنَّ الحديثَ محفوظٌ؛ فارْتَقى مِن درَجَةِ التوقف إلى درجة القبول.( نزهة النظر ، ت الرحيلي (ص: 130،129)
ابن حجر کے شاگرد بقاعی لکھتے ہیں:
الحسنَ لغيرهِ هو مالهُ سندانِ فأكثرُ، كلُ ضعيفٍ متماسكٍ فهوَ موصوفٌ بالضعفِ قبلَ معرفةِ ما يعضدهُ مطلقاً، وبعد ذَلِكَ باعتبارِ كل سَندٍ على انفرادهِ، وبالحسنِ باعتبارِ المجموعِ. (النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 76)
امام سخاوی الفیۃ عراقی کی شرح میں فرماتے ہیں:
حيث تقرر أن الحسن لا يشترط في ثاني قسميه ثقة رواته، ولا اتصال سنده، واكتفي في عاضده بكونه مثله مع أن كلا منهما بانفراده ضعيف لا تقوم به الحجة، فكيف (يحتج بالضعيف) مع اشتراطهم أو جمهورهم الثقة في القبول؟
(فقل) : إنه لا مانع منه (إذا كان) الحديث (من الموصوف رواته) واحد فأكثر (بسوء حفظ) أو اختلاط أو تدليس مع كونهم من أهل الصدق والديانة فذاك (يجبر بكونه) أي: المتن (من غير وجه يذكر) .ويكون العاضد الذي لا ينحط عن الأصلي معه كافيا، مع الخدش فيه بما تقدم قريبا من كلام النووي وغيره الظاهر في اشتراط التعدد الذي قد لا ينافيه ما سيجيء عن الشافعي في المرسل قريبا ; لاشتراطه ما ينجبر به التفرد، وإنما انجبر ; لاكتسابه من الهيئة المجموعة قوة، كما في أفراد المتواتر والصحيح لغيره الآتي قريبا.
وأيضا فالحكم على الطريق الأولى بالضعف إنما هو لأجل الاحتمال المستوي الطرفين في سيئ الحفظ مثلا ; هل ضبط أم لا؟ فبالرواية الأخرى غلب على الظن أنه ضبط، على ما تقرر كل ذلك قريبا عند تعريف الترمذي. (فتح المغيث (1/ 96)
یہی بات زکریا الأنصاری نے شرح الفیۃ العراقی میں فرمائی ہے، ان کا ایک جملہ ملاحظہ کریں:
ولأنَّ الحكمَ عَلَيْهِ بالضَّعْفِ إنَّما كَانَ لاحتمالِ ما يمنعُ القُبولَ، فلمَّا جاءَ العاضدُ غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ زوالُ ذَلِكَ الاحتمالِ.
وليسَ هَذَا مِثْلُ شهادةِ غيرِ عدلٍ، انضمَّ إليها شهادةُ مثلِهِ؛ لأنَّ بابَ الشهادةِ أضيقُ من بابِ الروايةِ. (فتح الباقی (1/149)
رضی الدین ابن الحنبلی حسن لغیرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
وَأما الْحسن لغيره فَهُوَ الْوَاحِد الَّذِي يرويهِ من يكون سيء الْحِفْظ وَلَو مختلطا لم يتَمَيَّز مَا حدث بِهِ قبل الِاخْتِلَاط أَو يكون مَسْتُورا أَو مُرْسلا لحديثه أَو مدلسا فِي رِوَايَته من غير معرفَة الْمَحْذُوف فيهمَا فيتابع أيا كَانَ مِنْهُم من هُوَ مثله أَو فَوْقه فِي الدرجَة من السَّنَد . (قفو الأثر في صفوة علوم الأثر (ص: 50)
امام صنعانی لکھتے ہیں:
الذي يحتاج إلى شاهد وتابع هو الحسن لغيره وهذا هو الذي أراده الترمذي وحملوا عليه عبارة الترمذي ... فإن الحسن للغير لا يلاحظ فيه خفة ضبط رواته بل يقبل مع حصول ضعف الراوي أو غلطه .( توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 155)
ان سب تعریفات میں یہ بات مشترک ہے کہ ضعیف اسانید کو تعدد طرق کی بنا پر حسن یا حسن لغیرہ کہا گیا ہے۔
وه رواة جنہیں حسن لغیرہ کے معنی میں ’حسن الحدیث ‘ کہا گیا۔
امام ابو حاتم أبو إسرائیل إسماعیل الملائی کے متعلق فرماتے ہیں:
أبو إسرائيل الملائي حسن الحديث جيد اللقاء ، له أغاليط ، لا يحتج بحديثه ، ويكتب حديثه ، وهو سيئ الحفظ. (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (2 / 166)
الحكم بن عطية کے متعلق ابو حاتم فرماتے ہیں:
:يكتب حديثه ليس بمنكر الحديث . وكان أبو داود يذكره بجميل . حدثنا أبو الوليد عنه . قلت : يحتج به ؟ قال : لا، من ألف شيخ لا يحتج بواحد ، ليس هو بالمتقن. (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (3 / 125)
أبو حريز عبد الله بن الحسين كے متعلق ابو حاتم فرماتے ہیں:
هو حسن الحديث ، ليس بمنكر الحديث ، يكتب حديثه
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (5 / 34)
مزید کچھ رواۃ جن کے متعلق امام ابو حاتم ’حسن لغیرہ‘ کا درجہ رکھنے والے رواۃ جیسے احکام صادر فرمائیں
فضيل بن مرزوق الأغر الكوفي
قال أبو حاتم:هو صدوق صالح الحديث ، يهم كثيرا ، يكتب حديثه ، قلت : يحتج به ؟ قال : لا. (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (7 / 75)
كثير بن زيد المدني
نا عبد الرحمن قال : سئل أبي عن كثير بن زيد فقال : صالح ليس بالقوي يكتب حديثه
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (7 / 150)
مروان بن شجاع الجزري
نا عبد الرحمن قال : سألت أبي عن مروان بن شجاع فقال: صالح ليس بذاك القوي، في بعض ما يروي مناكير، يكتب حديثه. (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (8 / 273)
عبد الرحمن بن ثروان الكوفي
نا عبد الرحمن ، قال : سألت أبي عن أبي قيس الأودي ، فقال : ليس بقوي ، هو قليل الحديث ، وليس بحافظ، قيل له: كيف حديثه؟ قال : صالح ، هو لين الحديث.(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (5 / 218)
خصيف بن عبد الرحمن الجزري
حدثنا عبد الرحمن ، قال : سمعت أبي يقول : خصيف صالح، يخلط - وتكلم في سوء حفظه.
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (3 / 403)
أبو صالح الكوفي
سمعت أبي يقول: أبو صالح باذان صالح الحديث ، يكتب حديثه ولا يحتج به
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (2 / 431)
امام ابن عدي کے کچھ رواۃ کے متعلق تبصرے ملاحظہ فرمائیں۔
حماد بن الجعد البصري کے متعلق فرماتے ہیں:
هو حسن الحديث ، ومع ضعفه يكتب حديثه.(الكامل في الضعفاء: (3 / 18)
عثمان بن سعد التميمي البصري
ولعثمان بن سعد غير ما ذكرت من الحديث ، وهو حسن الحديث ، ومع ضعفه يكتب حديثه.
(الكامل في الضعفاء: (6 / 287)
عمر بن حبيب العدوي
وهو حسن الحديث ، ومع ذلك يكتب حديثه مع ضعفه. (الكامل في الضعفاء: (6 / 76)
يزيد بن عطاء الواسطي
ويزيد بن عطاء مع لينه هو حسن الحديث ، وعنده غرائب ، ومع لينه يكتب حديثه
(الكامل في الضعفاء: (9 / 159)
كچھ مزید عبارتیں:
سعيد بن بشير الأزدي کو سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے، لیکن امام بزار کی عبارت ملاحظہ کریں:
وقال البزار : سعيد بن بشير عندنا صالح ليس به بأس حسن الحديث.
(إكمال تهذيب الكمال: (5 / 264)
حبان بن علی العنزی کے متعلق امام ذہبی کا حکم ملاحظہ کریں:
فقيه صالح لين الحديث. (الكاشف (2 / 232)
مصعب بن ماهان المروزي
صالح ، لين الحديث.(لسان الميزان: (9 / 424)
أبو معشر السندي کو اختلاط و سوء حفظ کی بنیاد پر ضعیف کیا گیا، لیکن ابو نعیم الفضل بن دکین کی عبارت ملاحظہ کریں:
قيل له : هو ثقة؟ قال: صالح لين الحديث محله الصدق. (تهذيب الكمال: (29 / 322)
أبو معشر کے متعلق دیگر ائمہ کی عبارات:
قال ابن عدي : حدث عنه الثقات ومع ضعفه يكتب حديثه (تهذيب التهذيب: (4 / 214)
قال أحمد : صدوق لا يقيم الإسناد ، وقال ابن معين : ليس بالقوي ، وقال ابن عدي : يكتب حديثه مع ضعفه. (الكاشف (4 / 387)
إبراهيم بن إسماعيل الأشهلي كے متعلق یحی بن معین اور ابن عدی وغیرہ کی رائے
قال ابن معين : ليس بشيء . وقال مرة يكتب حديثه ، ولا يحتج به.(تهذيب التهذيب: (1 / 58)
وقال ابن عدي : هو صالح في باب الرواية كما حكي عن يحيى بن معين ، ويكتب حديثه مع ضعفه.(تهذيب التهذيب: (1 / 58)
حدثنا عبد الرحمن ، أخبرنا يعقوب بن إسحاق الهروي فيما كتب إلي ، نا عثمان بن سعيد الدارمي قال : سألت يحيى بن معين قلت : إبراهيم بن إسماعيل بن أبي حبيبة ؟ فقال : صالح .(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (2 / 83) وقال عثمان بن سعيد الدارمي ، عن يحيى بن معين : صالح يكتب حديثه ، ولا يحتج به.(تهذيب الكمال: (2 / 42)
يحيى بن راشد المازني کے متعلق امام دارقطنی فرماتے ہیں:
صويلح يعتبر به .(تهذيب التهذيب: (4 / 353)، اور سنن الدارقطنی(برقم(1607) میں اسے متابعات میں ذکر بھی کیا ہے ۔حالانکہ ابن حجر وذہبی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
تعدد طرق کی بنا پر تحسین حدیث کے متعلق چند اقوال:
امام بیہقی فرماتے ہیں:
هذه مراسيل جيدة يقوى بعضها ببعض. (السنن الكبرى (6/ 360)
امام نووی ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
قَالُوا: وَإِنْ كَانَتْ أَسَانِيدُ مُفْرَدَاتِهَا ضَعِيفَةً فَمَجْمُوعُهَا يُقَوِّي بَعْضُهُ بَعْضًا وَيَصِيرُ الْحَدِيثُ حَسَنًا وَيُحْتَجُّ بِهِ. (المجموع شرح المهذب (7/ 197)
حدیث لا ضرر ولا ضرار کو نووی نے اربعین میں ذکر کیا، اور فرمایا: "وله طرق يقوي بعضها بعضاً".
ابن دقیق اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
وقال الشيخ أبو عمرو بن صلاح رحمه الله: أسند الدارقطني هذا الحديث من وجوه مجموعها يقوي الحديث ويحسنه وقد نقله جماهير أهل العلم واحتجوا به ،فعن أبي داود قال: الفقه يدور على خمسة أحاديث وعد هذا الحديث منها. قال الشيخ: فعد أبي داود له من الخمسة وقوله فيه: يشعر بكونه عنده غير ضعيف.
(انظر:شرح الأربعين النووية لابن دقيق العيد (ص: 106،108)
حافظ عراقى ورقہ بن نوفل کے متعلق ترمذی کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد، اس کے شواہد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فهذا مع حديث عائشة مع مرسل عروة يقوي بعضها بعضا، وهي تدل على إسلام ورقة وهو الصواب إن شاء الله تعالى". (طرح التثريب في شرح التقريب (1/ 122)
حافظ ابن حجر ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں:
"لا يعرف حاله مع ذلك، ولكن يقوى الحديث بشواهده". مزید لکھتے ہیں:"وأسانيدها يقوي بعضها بعضا "(الأمالي المطلقة (ص: 46)، ( ص:159)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
وَأخرج أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ من طَرِيق إِيَاس بن الْحَارِث بن معيقيب عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَ خَاتم النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من حَدِيد ملويا عَلَيْهِ فضَّة الحَدِيث، وَله شَاهد من مُرْسل مكمول فِي طَبَقَات ابْن سعد وَآخر من مُرْسل إِبْرَاهِيم الْحَنَفِيّ عِنْده وثالث من رِوَايَة سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بن الْعَاصِ وَهَذِه طرق يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا. (الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع (ص: 114)
اس کے علاوہ فتح الباری اور دیگر تصنیفات میں ان کے اس منہج کی بہ کثرت مثالیں موجود ہیں، جو کہ الگ سے ایک مقالہ کی متقاضی ہیں۔
ابن حجر کے معاصر حنفی عالم دین بدر العینی شرح بخاری میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
"وَقَالَ بَعضهم هَذِه الزِّيَادَة رَوَاهَا أَبُو دَاوُد وَغَيره من حَدِيث عَائِشَة وَجَابِر رَضِي الله عَنْهُمَا وَغَيرهمَا بأسانيد ضَعِيفَة لَكِن يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا لما تقرر من أَن الضعْف إِذا كَانَ بِغَيْر فسق الرَّاوِي فَإِن الحَدِيث ينْتَقل إِلَى دَرَجَة الْحسن ويحتج بِهِ".(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (2/ 220)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"قد شهد لمذهبنا عدَّة أَحَادِيث من الصَّحَابَة بطرق مُخْتَلفَة كَثِيرَة يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا، وَإِن كَانَ كل وَاحِد ضَعِيفا، لَكِن يحدث عِنْد الِاجْتِمَاع مَا لَا بِحَدَث عِنْد الِانْفِرَاد." (عمدة القاري (3/ 307)
مزید لکھتے ہیں :"وَفِي الْجُمْلَة هَذِه الطّرق الْخَمْسَة يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا". (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (21/ 87)
قسطلانی شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
"وللحديث طرق أخرى يقوّي بعضها بعضًا". (إرشاد الساري (10/ 144)
اس کے علاوہ بھی ابن حجر و عینی وغیرہ کی پیروی میں انہوں نے کئی احادیث کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
مزید ملا علی قاری، صنعانی، المناوی، الشوکانی، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمن مبارکپوری، عبید اللہ رحمانی وغیرہ تمام شروحات حدیث میں بہ کثرت حسن لغیرہ سے احتجاج کیا گیا ہے۔
ان میں بعض جگہوں پر اختلاف کی گنجائش ہے، جیساکہ حدیث کی تصحیح و تحسین میں عموما اختلاف ہوجاتا ہے، لیکن حسن لغیرہ کی حجیت کے منہج کے اثبات کے لیے یہ عبارتیں بالکل واضح ہیں۔

حسن لغیرہ حجت ہے.
تحریرنمبر(5)
(حصہ دوم)
تحریر کے دوسرے حصے میں ہم فریق ثانی کے اٹھائے گئے جائز و ناجائز سوالات کا جوابات بھی عرض کردیتے ہیں، تاکہ بات جس قدر افہام و تفہیم کی طرف بڑھ سکتی ہو، بڑھ سکے. معلمی صاحب کی آخری تحریر میں موجود نمبروں کے حساب سے ہم اپنا جواب عرض کردیتے ہیں.
(1) جی تو ہم عرض کرچکے کہ ہم سب کا موقف ہے کہ حسن لغیرہ حجت ہے. عقائد اور غیر عقائد تمام موضوعات میں۔ جس عبارت کا حوالہ دے کر ہمارے موقف کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صاحب کتاب نے خود اس بات کی صراحت کی ہے کہ میرا موقف عقائد میں بھی حجیت حسن لغیرہ کا ہے.
(2) ہمارے نزدیک متروک ضعیف شدید کی اقسام میں سے ہے، اور یہ قابل تقویت نہیں.
(3) جی مجہول العین کی روایت کے قابل تقویت ہونے والی بات ہم نے عرض کی ہے، اور اس کی دلیل بھی ملاحظہ کرلیں، امام دارقطنی فرماتے ہیں:
وأهل العلم بالحديث لا يحتجون بخبر ينفرد بروايته رجل غير معروف , وإنما يثبت العلم عندهم بالخبر إذا كان رواته عدلا مشهورا , أو رجل قد ارتفع اسم الجهالة عنه , وارتفاع اسم الجهالة عنه أن يروي عنه رجلان فصاعدا , فإذا كان هذه صفته ارتفع عنه اسم الجهالة وصار حينئذ معروفا , فأما من لم يرو عنه إلا رجل واحد انفرد بخبر وجب التوقف عن خبره ذلك حتى يوافقه غيره.(سنن الدارقطني (4/ 227)
یہاں مجہول الحال اور مجہول العین دونوں کا ذکر کرکے، عند الموافقۃ یعنی المتابعۃ ان کی روایت کی تقویت کی طرف اشارہ ہے.
یہی بات بعینہ، امام بیہقی نے الخلافیات(7/14) میں نقل کی ہے. مزید مستور کی روایت کو حسن لغیرہ کہنے کی مثال ابن حجر کے حوالے سے ہماری تفصیلی تحریر میں بھی گزر چکی ہے.
(4)حسن لغیرہ محدثین کے نزدیک حجت ہے.. اور اس کی مثالیں اور تائید ہم مختلف ادوار کے محدثین سے نقل کرچکے ہیں.
(5) کئی ایک مثالیں عرض کی جاچکی ہیں.
(6) ابن حجر کی بات مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث حسن لغیرہ کے متعلق ایک بہترین دلیل اور ضابطہ ہے. آپ نے اس کا جس قسم کا جواب دینے کی کوشش کی، وہ قابل التفات بھی نہیں تھا. ابن حجر کی عبارت بالکل واضح ہے. کہ عند التفرد راوی ضعیف ، جبکہ عند المتابعۃ مقبول ہے.
(ختم شد)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر(6)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ قلوب و اذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، اس کے مطابق اپنی چھٹی تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’دعوی: حسن لغیرہ حجت ہے.
دعوی کی وضاحت:
حسن لغیرہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے.
اس پر دو قسم کے دلائل ہم پیش کریں گے.
وہ رواۃ جو فی نفسہ ضعیف ہیں... لیکن محدثین نے شواہد و متابعات میں ان کی روایات کو لیا ہے.
وہ احادیث جن کی اسانید کو متابعت و شواہد کی بنا پر محدثین نے قبول کیا ہے.
( یہ بات متفق علیہ ہے، جب کوئی علت موجود ہو، تو پھر بعض دفعہ صحیح اسانید بھی مردود ہوتی ہیں۔ لہذا امید ہے اس نکتے میں اختلاف کی نوبت نہیں آئے گی۔)‘‘
یہ ہماری پہلی تحریر ہے، جو صرف اس لیے نقل کردی گئی ہے، تاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح و عدم وضوح والی بات کو جج کرنا چاہے، تو کرسکے۔
اب ہماری طرف سے نئی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: "إني لأكتب الحديث على ثلاثة وجوه: فمنه ما أتدين به، ومنه ما أعتبر به ومنه ما أكتبه لأعرفه . (الجامع لأخلاق الراوي (2/ 193)
ہمارے نزدیک یہاں بیان کردہ احادیث کی دوسری قسم وہی ہے، جنہیں حسن لغیرہ کہا جاتاہے۔
امام احمد فرماتے ہیں:
ما حديث ابن لهيعة بحجة وإني لأكتب كثيرا مما أكتب أعتبر به ويقوي بعضه بعضا. (الجامع للخطیب(2/ 193)
امام ابن خزیمہ ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ابن لهيعة ليس ممن أخرج حديثه في هذا الكتاب إذا تفرد برواية، وإنما أخرجت هذا الخبر؛ لأن جابر بن إسماعيل معه في الإسناد.(صحيح ابن خزيمة (1/ 75)( 146)
جابر بن إسماعیل الحضرمی راوی حافظ ابن حجر کے مطابق ’مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث‘ ہے۔
گویا دونوں انفرادی طور پر قابل حجت نہیں، لیکن دونوں کو ملاکر ابن خزیمہ حدیث کو اپنی ’صحیح‘ میں لے آئے ہیں۔
امام بیہقی جمع بین الصلاتین کے متعلق متعدد احادیث ذکر کرتے ہیں، اور پھر فرماتے ہیں:
أبو قتادة العدوي أدرك عمر رضي الله عنه، فإن كان شهده كتب فهو موصول، وإلا فهو إذا انضم إلى الأول صار قويا، وقد روي فيه حديث موصول عن النبي صلى الله عليه وسلم في إسناده من لا يحتج به. (السنن الكبرى (3/ 240)( 5560)
گویا ضعیف اور مرسل کو ملاکر ’ قابل تقویت‘ بلکہ ’ قوی‘ قرار دیا ہے۔
ایک اور اسناد میں راوی کی تضعیف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’إلا أن شواهده تقويه‘ (السنن الکبری(6/ 361)( 12243)
ایک اور جگہ مختلف احادیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ورواية أبي هريرة، وأبي سعيد في إسنادهما من لا يحتج به، ولكنها إذا انضمت إلى رواية أبي قتادة أخذت بعض القوة. (معرفة السنن والآثار (3/ 438)
ابن عبد البر ایک راوی الحکم بن عبد الملک کی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
والحكم هذا ضعيف عنده مناكير لا يحتج به ولكن فيما تقدم ما يعضد هذا. (التمهيد (23/ 410)
امام نووی حسن لغیرہ کی حجیت کا بیان اور اس پر ہونے والے ایک اعتراض کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
قد یقال: نجد أحاديث محكومًا بضعفها مع أنها مروية من وجوه كثيرة كحديث الأذنان من الرأس وكراهةالماءالمشمس فهلا انجبر بعضها ببعض فصارت حسانًا كما تقدم في حده؟ والجواب: أنه ليس كل ضعف يزول بمجيء الحديث من وجوه، بل ما كان ضعفه لضعف حفظ راويه الصدوق الأمين زال بمجيئه من وجه آخر لدلالة ذلك على عدم اختلال ضبطه وكذا إذا كان الضعف لكونه مرسلًا زال بمجيئه من وجه آخر إما مسندًا وإما مرسلًا كما سيأتي في بابه إن شاء الله تعالى ووجهه ما ذكرناه. وأما إذا كان الضعف لكون الراوي متهمًا بالكذب أو فاسقًا فلا ينجبر ذلك بمجيئه من وجه آخر. (إرشاد الطلاب(1/ 146۔148)
ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
الحديثان إذا كان فيهما ضعف قليل مثل أن يكون ضعفهما إنما هو من جهة سوء الحفظ ونحو ذلك، إذا كانا من طريقين مختلفين عضد أحدهما الآخر، فكان في ذلك دليل على أن للحديث أصلا محفوظا عن النبي - صلى الله عليه وسلم -.(الفتاوى الكبرى لابن تيمية (6/ 241)
ابن سید الناس شرح ترمذی میں مختلف رواۃ کے متعلق کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما الثاني فينبغي أن يكون حديثه -إذا سلم من العلل والشذوذ والتفرد- من باب الحسن، إذا لم يعدم شاهدًا أو متابعًا لدخوله تحت كنف الستر والسلامة من الجرح، والمعرفة بعينه برواية من روى عنه. (النفح الشذي(2/ 465)
یعنی وہ اس راوی کی حدیث کو متابعت یا شواہد کی بنا پر’حسن درجے‘ میں شمار کر رہے ہیں۔ ساتھ انہوں نے علل و شذوذ کی نفی والی شرط کو بھی بیان کردیا ہے۔
امام ترمذی نے ایک روایت کو ابو بکر بن عیاش اور امام وکیع کے طریق سے بیان کیا ہے، ابن سید الناس ترمذی کے اس منہج کے متعلق لکھتے ہیں:
أورد الترمذي حديث الباب من طريق أبي بكر بن عياش، عن الأعمش، عن أبي إسحاق ثم أتبعه بحديث وكيع، عن سفيان، عن أبي إسحاق، وكلاهما عنده عن هنّاد، عنهما.وفائدة هذه المتابعة تقوية حديث أبي بكر بن عياش لسلامة وكيع مما طعن به على أبي بكر بن عياش. (النفح الشذي(3/ 27)
یہاں دو میں سے ایک راوی یعنی امام وکیع تو بذات خود حجت ہیں ، لیکن اس اقتباس سے ہمارا استدلال ایک ضعیف راوی کا دوسرے کی متابعت سے تقویت حاصل کرنا ہے۔
علامہ مغلطای ایک ہی راوی کی احادیث کی کبھی تحسین ، کبھی تصحیح اور کبھی تضعیف کے متعلق امام ترمذی کے لیے یہ توجیہ بیان کرتے ہیں کہ احکام کا یہ اختلاف روایات کے متابعات و شواہد کے عدم ووجود کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ ( دیکھیں: شرح ابن ماجۃ لہ (ص: 782)
امام ذہبی میزان میں ذکر کردہ رواۃ کی ایک قسم کو یوں بیان کرتے ہیں:
ثم على المحدثين الضعفاء من قبل حفظم، فلهم غلط وأوهام، ولم يترك حديثهم، بل يقبل ما رووه في الشواهد والاعتبار بهم لا في الأصول. (ميزان الاعتدال (1/ 3)
ذہبی کی بات اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔
حسین بن محمد مغربی شرح بلوغ المرام میں ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
وأما حديث مظاهر فهو وإن كان مظاهر ممن لا يحتج به، ولكنه قد يعضد بغيره فيقوى ويحتج به. ..وقال ابن عدي: روى عنه جماعة من الثقات، وهو مع ضعفه يكتب حديثه. فيعتضد به وإن لم يعتمد عليه وحده. (البدر التمام شرح بلوغ المرام (8/ 234)
آخری بات ایک اور راوی عطیۃ العوفی کے متعلق ہے۔
مختلف ادوار کے ان محدثین سے پیش کردہ یہ اقتباسات اس بات پر بالکل واضح ہیں کہ ضعیف احادیث ہر حال میں ضعیف نہیں رہتیں، بلکہ متابعات وشواہد کی بنا پر قبول و احتجاج کے درجہ تک پہنچی جاتی ہیں وھذا ہو الحسن لغیرہ.
حافظ ذہبی کی نصیحت:
حسن لغیرہ کا منہج جن کی عقل میں نہیں آسکا، ان لوگوں کی طرف سے بہت زور و شور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ حسن لغیرہ کی کوئی منضبط تعریف نہیں ہے، تو ہم قائلین حسن لغیرہ کی بات کو کیسے مانیں؟ وغیرہ۔
ہم یہاں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے امام ذہبی کی ایک نصیحت نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں، حسن حدیث کی تعریف میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
لا تَطمَعْ بأنَّ للحسَنِ قاعدةً تندرجُ كلُّ الأحاديثِ الحِسانِ فيها، فأَنَا على إِياسٍ من ذلك! فَكَمْ مِن حديثٍ تردَّدَ فيه الحُفَّاظُ: هل هو حسَن؟ أو ضعيف؟ أو صحيحٌ؟ بل الحافظُ الواحدُ يتغيَّرُ اجتهادُه فی الحدیث الواحد... (الموقظة (ص: 28)
وبناء على ما تقدم من كلام الأئمة المحدثين، أقول: والذی ینکر تحسين الحديث وتقويته باعتبار المتابعات والشواهد، كأنه يضم ضعف علمه بمنهج المحدثين وسوءفهمه لكلامهم إلى ضعف عقله و قلة رشده، فيجعل نفسه -الضعيف جدا -مقام الحجة، والله المستعان وعليه التكلان، وهو يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم.
(ختم شد)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top