• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حصول جنت کے آسان طریقے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
اہل ایمان کے مطابق یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے ،
اسلئے اللہ اور اس کے محبوب ﷺکے پیاروں ذکر کرتے ہیں ؛ کیونکہ ان سے ایمانی محبت بھی بخشش کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔
صحیح البخاری
باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي رضي الله عنه:
باب: ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان
.

حدیث نمبر: 3679
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " رايتني دخلت الجنة فإذا انا بالرميصاء امراة ابي طلحة وسمعت خشفة فقلت:‏‏‏‏ من هذا؟ فقال:‏‏‏‏ هذا بلال ورايت قصرا بفنائه جارية فقلت:‏‏‏‏ لمن هذا؟ فقال لعمر:‏‏‏‏ فاردت ان ادخله فانظر إليه فذكرت غيرتك فقال عمر:‏‏‏‏ بابي وامي يا رسول الله اعليك اغار ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا اور میں نے قدموں کی آواز سنی تو میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟
بتایا گیا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اس کے سامنے ایک عورت تھی، میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے؟
تو بتایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ میرے دل میں آیا کہ اندر داخل ہو کر اسے دیکھوں،
لیکن مجھے عمر کی غیرت یاد آئی (اور اس لیے اندر داخل نہیں ہوا) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔


عمر.jpg
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
مجوسیوں کا ہمیشہ سے یہ رویہ رہا ہے کہ جب بھی موقع ملے تو وہ نبی علیہ السلام کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حدیث کو نامکمل پیش کرنے کی وجہ سے کئ عوام الناس ایسے مداریوں کے چال میں پھنس کر شک میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بلکل۔۔۔اور اس سے قبل بھی علی بہرام کا یہی دستور رہا ہے کہ حدیث ادھوری پیش کرتے ہیں۔اللہ تعالی ان بھائیوں کو جزائے خیر دے ، جو صحیح حدیث مکمل پیش کر دیتے ہیں!
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اہل ایمان کے مطابق یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے ،
اسلئے اللہ اور اس کے محبوب ﷺکے پیاروں ذکر کرتے ہیں ؛ کیونکہ ان سے ایمانی محبت بھی بخشش کا ایک بڑا ذریعہ ہے
11134 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
لیجئے میں بھی آپ کے ساتھ اللہ اور اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیاروں کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ ان سے ایمانی محبت بخشش کا ایک بڑا ذریعہ ہے
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرت ابا بكر فلم تزل مهاجرته حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة اشهر
فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر (ابوبکر پر )غصہ ہو گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔
یہ تمام مناقب و فضائل صحیح بخاری سےلئے گئے ہیں اس کا اردو ترجمہ داؤد راز کا ہے

فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ
الراوي: حذيفة بن اليمان المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3781
خلاصة حكم المحدث: صحيح


الحسنُ والحُسَينُ سيِّدا شبابِ أهْلِ الجنَّةِ وأبوهما خيرٌ منهُما
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 96
خلاصة حكم المحدث: صحيح

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
رب کائنات کی قسم اگر اب بھی کوئی یہ ویڈیو دیکھ کر شیعہ کافرکو مسلمان کہے تو وہ یا تو کبیر منافق ہے یا وہ خود رافضیت کا پرچار کرنے والا ہے

میرے اصحاب ؓ کو سیدھی ننگی سرعام گالیاں دی جائیں نام لے لے کر اور اے بھولے مسلمان اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کہیں تیرا حشر بھی ایسا نا ہو چپ رہنے پر ۔

نعوذ باللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر عمررضی اللہ عنہ اور ان کی پاک بیٹیوں عائشہ رضی اللہ عنہ اور حفصہ رضی اللہ پر لعنت سرعام اور دیواروں پر لعنه کے بورڈ لگے آپ صاف دیکھ سکتے ہیں .. پھر نا کہنا کہ شیعہ صحابہؓ کو گالی نہیں دیتے

اللہ کیلئے اپنے دشمنوں کو پہچانو، ہمیں کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے ان شیعہ روافض سے صرف اسلام کیلئے اپنے پیغمبر ﷺ اور اس کے پروانوں کیلئے مر رہے ہیں

لنک



@اسحاق سلفی بھائی کیا ںصیحت کریں گے آپ انکو اور ھم سب کو
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
میشــــان صحـــــــــابہ ؓ (ضرور دیکھیں اور شئیر کریں)
مولانا حافظ ابوبکر سلمان حفظہ اللہ ننھے منھے اہل حدیث




 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
صحابہ کرا م رضوان اللہ علیہم اجمعین ،کی عدالت ،عظمت ،اور وہ فضائل جو قرآن مجید ،و احادیث نبویہ میں وارد ہیں
ان کو ماننا اہل اسلام پر واجب ہے ۔
( کیونکہ انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں )

{ الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله بأموالهم وأنفسهم أعظم درجة عند الله وأولئك هم الفائزون }
’’ جو لوگ ایمان لائے ،اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور اپنے مال سے جہاد کیا،
یہ لوگ اللہ کے ہاں سب بڑے درجہ والے ہیں ،اور یہی کامیاب و کامران ہیں
‘‘
التوبة (20)

اور ان کا دفاع کرنا ایمان بہت بڑا تقاضا ہے ۔(یعنی ایمانی فرض ہے )

دو وجہ سے
(۱) ایک تو اس لئے کہ : انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں؛
(۲)
دوسرا س لئے کہ وہ پوری امت کےلئے قرآن اور شریعت کو نقل کرنے والے ہیں ،اگر وہ عادل و مخلص مومن اور
دیانتدار مسلم نہیں ،

توان کی نقل کردہ شریعت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
اس لئے ان کا دفاع ،دراصل دین ِاسلام کا دفاع ہے ،جس کے فرض ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام سے بغض رکھنا ،ان کو گالیاں دینا ،ان پر لعن کرنا ۔یقیناً کفر ہے ،ایسا کرنے والا بلا شبہ کافر ہے ،

قال تعالى:
{ محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجداً يبتغون فضلاً من الله ورضواناً سيماهم في وجوههم من أثر السجود }الفتح (29)

قال ابن کثیر رحمہ اللہ
ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك -رحمه الله، في رواية عنه-بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة، قال: لأنهم يغيظونهم، ومن غاظ الصحابة فهو كافر لهذه الآية ‘‘ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ اسی آیت کو دلیل بنا کر ، بغض صحابہ رکھنے والے رافضیوں کو کافر کہتےتھے

رحماء بينهم.jpg
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بلکل۔۔۔اور اس سے قبل بھی علی بہرام کا یہی دستور رہا ہے کہ حدیث ادھوری پیش کرتے ہیں۔اللہ تعالی ان بھائیوں کو جزائے خیر دے ، جو صحیح حدیث مکمل پیش کر دیتے ہیں!
زرا دیکھنا بہنا کہ جن صاحب نے یہ تھریڈ شروع کیا کیا انھوں مکمل احادیث پیش فرمائی ہے آپ کی سہولت کے لئے ان احادیث کو یہی کاپی پیسٹ کیئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو دشواری نہ ہو

دوسرا آسان طریقہ: فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا ۔ ( السنن الکبری للنسائی )
تیسرا آسان طریقہ : وضو کرنے کے بعد دو رکعات نماز نفل ادا کرنا ۔ ( صحیح مسلم)
چوتھا آسان طریقہ : نماز عصر اور نماز فجر مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ (صحیح مسلم )
پانچواں آسان طریقہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد۔ ( سنن ابن ماجہ )
چھٹا آسان طریقہ : سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد ۔ ( جامع الترمذی)
آٹھواں آسان طریقہ : حج بیت اللہ (صحیح البخاری )
نواں آسان طریقہ : اذان کا جواب دینا ۔ ( سنن النسائی )
دسواں آسان طریقہ :جہاد فی سبیل الله (صحیح البخاری )
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
زرا دیکھنا بہنا کہ جن صاحب نے یہ تھریڈ شروع کیا کیا انھوں مکمل احادیث پیش فرمائی ہے آپ کی سہولت کے لئے ان احادیث کو یہی کاپی پیسٹ کیئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو دشواری نہ ہو

دوسرا آسان طریقہ: فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا ۔ ( السنن الکبری للنسائی )
تیسرا آسان طریقہ : وضو کرنے کے بعد دو رکعات نماز نفل ادا کرنا ۔ ( صحیح مسلم)
چوتھا آسان طریقہ : نماز عصر اور نماز فجر مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ (صحیح مسلم )
پانچواں آسان طریقہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد۔ ( سنن ابن ماجہ )
چھٹا آسان طریقہ : سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد ۔ ( جامع الترمذی)
آٹھواں آسان طریقہ : حج بیت اللہ (صحیح البخاری )
نواں آسان طریقہ : اذان کا جواب دینا ۔ ( سنن النسائی )
دسواں آسان طریقہ :جہاد فی سبیل الله (صحیح البخاری )

میں نے جو احادیث پیش کی ہیں ۔ان کا غلط مطلب اخذ کر کے دکھاؤ۔جیسہ کے تم نے مکمل پیش نہ
کرکے اپنا مشہور مذہب تقہ ثابت کیا۔اور اس حدیث کا غلط مطلب لیا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تفسیر
مسلمان کہلواکر اسلام سے خارج کرنے والے امور کا ارتکاب کرنے والے کو مسلمان نہیں بلکہ کافر کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا انکار کرنے والے، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو گالیاں دینے والے شیعہ کسی بھی لحاظ سے نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب سے شیعیت ــ جس کا دوسرا نام رافضیت ہے ــ کے آغاز ہونے سے اب تک علمائے اہل حق شیعہ کو یہودونصاری کی طرح کا کافر بلکہ ان سے بدتر کافر قرار دیتے ہوئے آئے ہیں۔ اس وجہ سے کہ شیعہ نے اسلام کو ڈھادینے والے امور کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام دین کا لب ولباب شرک اور ہر کام میں اسلام کی مخالفت کرنا بنالیا ہے۔
شیعوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیشہ ہر دور میں ہر جگہ میں امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں کیخلاف یہودونصاری اور دیگر دشمنان اسلام کی طرف سے ہونے والی ہر جارحیت اور حملے میں ان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ سب حقائق کے باوجود کچھ سادہ لوح مسلمان ایسے ہیں جو اب بھی شیعوں سے دھوکے میں مبتلاہیں اور ان کو کافر کہنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے ہم یہاں سلف صالحین، ائمہ کرام، فقہاء اور مفسرین رحمہم اللہ کے انتہائی اختصار کے ساتھ فتاوی کو بمع حوالہ اور اصل عربی عبارت کے ساتھ پیش کرینگے جن میں انہوں نے شیعوں کے کافر ہونے کے فتاوی جاری کرکے امت مسلمہ کو کئی صدیوں پہلے مسلمانوں کو کافروں کی اس نئی نسل شیعہ کی اصلیت بتاتے ہوئے ان سے خبردار کیا۔
سلف صالحین، ائمہ عظام، اکابر مفسرین اور فقہائے کرام کا رافضی شیعہ کے کافر ہونے کی بابت فتاوی:
1- امام مالك ابن انس رحمہ اللہ:
الخلال نے ابو بکر المروذی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
الذي يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ليس لهم اسم أو قال : نصيب في الإسلام.
''جو نبی ﷺ کے صحابہ کو گالی دیتے ہیں ان کا برائے نام بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اسلام سے ان کا کوئی حصہ ہے۔'' (السنة، للخلال، ج 2 / ص 557)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان {محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار} سے لیکر اس فرمان الہی تک {ليغيظ بهم الكفار}کی شرح میں لکھا ہے کہ:
ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك رحمة الله عليه في رواية عنه بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة رضي الله عنهم قال : لأنهم يغيظونهم ومن غاظ الصحابة رضي الله عنهم فهو كافر لهذه الآية ووافقه طائفة من العلماء رضي الله عنهم على ذلك.
''اس آیت سے امام مالک رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے بغض رکھنے والے روافضہ (شیعہ) کی تکفیر کا استنباط کیا ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام کو غیظ دلاتے ہیں اور جو صحابہ کو غیظ دلائے تو وہ اس آیت کی رو سے کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت ــ اللہ ان سے راضی ہوــ نے اس پر امام مالک کی موافقت کی ہے۔'' (تفسير ابن كثير: ج 4 / ص219 )
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقد أحسن مالك في مقالته وأصاب في تأويله فمن نقص واحداً منهم أو طعن عليه في روايته فقد رد على الله رب العالمين وأبطل شرائع المسلمين
''امام مالک نے کافی اچھی بات کی ہے اور اس کی تاویل کرنے میں درستگی کو پایا۔ پس جس کسی نے کسی ایک صحابی کی شان گھٹائی یا ان کی روایت میں کوئی طعن کیا تو اس نے اللہ رب العالمین کو ٹھکرا دیا اور مسلمانوں کی تمام شریعتوں کو منسوخ کرڈالا ہے۔'' (تفسير القرطبی : ج 16 / ص 297 )
2- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:
امام الخلال نے السنۃ میں ابوبکر المروزی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ ـــ احمد بن حنبل رحمہ اللہ ـــ سے پوچھا کہ جو ابوبکر، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے ہیں، ان کا حکم کیا ہیں؟
امام احمد بن حنبل نے جواب دیا:
ما أراه على الإسلام.
''میرے نزدیک وہ اسلام پر نہیں ہیں۔''
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
إذا كان جهمياً، أو قدرياً، أو رافضياً داعية، فلا يُصلى عليه، ولا يُسلم عليه.
''اگر جہمی، قدری اور رافضی(شیعی) بلانے والا ہو تو اسے نہ سلام کیا جائے اور نہ اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جائے۔'' (کتاب السنة، للخلال، اثر روایت نمبر: 785)
3- امام بخاری رحمہ اللہ:
ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافضي، أم صليت خلف اليهود والنصارى، لا يُسلم عليهم، ولا يُعادون ولا يُناكحون، ولا يشهدون، ولا تُؤكل ذبائحهم.
''میرے نزدیک جہمی اور رافضی(شیعی) کے پیچھے نماز پڑھنے اور یہود ونصاری کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہیں۔ ان جہمیوں اور رافضیوں(شیعوں) کو نہ سلام کیا جائے، نہ ان سے ملا جائے، نہ ان سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی قبول کی جائے اور نہ ان کے ہاتھوں سے ذبح شدہ جانوروں کا گوشت کھایا جائے۔'' (كتاب خلق افعال العباد، از امام بخاری: صفحہ 125)
4- امام الفریابی رحمہ اللہ:
عن موسى بن هارون بن زياد قال: سمعت الفريابي – وهو محمد بن يوسف الفريابي – ورجل يسأله عمن شتم أبا بكرٍ قال: كافر، قال: فيصلى عليه؟ قال: لا، وسألته كيف يُصنع به وهو يقول: لا إله إلا الله؟ قال: لا تمسوه بأيديكم، ارفعوه بالخشب حتى تواروه في حفرته.
''موسی بن ھارون بن زیاد روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن یوسف الفریابی سے سنا کہ ان سے ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے تو آپ نے جواب دیا: نہیں۔
میں نے پھر آپ سے پوچھا کہ(اگر اس کی نمازہ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی) تو پھر اس کی لاش کے ساتھ کیا کیا جائے گا جبکہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے جسم کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ لکڑی کے ذریعے اسے اٹھا کر اس کی قبر میں ڈال دو۔'' (کتاب السنة للخلال، روایت نمبر: 794)
(یعنی شیعی کافر پلید کی لاش کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے اور اسے لکڑی کے ذریعے سے قبر میں ڈال دیا جائے۔)
5- امام احمد ابن یونس رحمہ اللہ:
أنا لا آكل ذبيحة رجل رافضي فإنه عندي مرتد.
''میں کسی رافضی (شیعی) کا ذبیحہ نہیں کھاتا ہوں کیونکہ وہ میرے نزدیک مرتد ہے۔'' (اعتقاد اہل السنة والجماعة، اللالكائی ج 8 / صفحہ 1546)
انہوں نے مزید فرمایا:
لو أن يهودياً ذبح شاة، وذبح رافضي لأكلت ذبيحة اليهودي، ولم آكل ذبيحة الرافضي لأنه مرتد عن الإسلام
''اگر یہودی کسی بکری کو ذبح کرے اور رافضی(شیعی) کسی بکری کو ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھالوں گا (کیونکہ قرآن نے اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا حلال کیا ہے)۔ میں رافضی (شیعی) کی ذبح کردہ بکری نہیں کھاؤں گا کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہے۔'' (الصارم المسلول، امام ابن تیمیہ: صفحہ 570 )
6- امام حسن بن علی بن خلف البربھاری رحمہ الله:
واعلم أن الأهواء كلها ردية، تدعوا إلى السيف، وأردؤها وأكفرها الرافضة، والمعتزلة، والجهمية، فإنهم يريدون الناس على التعطيل والزندقة
''جان لیجئے! اہل اھواء تمام مرتد ہیں، جو تلوار کی طرف بلاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ارتداد اور کفر والے رافضی (شیعی)، معتزلہ اور جھمیہ ہیں کیونکہ یہ لوگوں میں تعطیل (انکار) اور زندیقیت (الحاد) پھیلانا چاہتے ہیں۔'' (کتاب شرح السنة، صفحہ: 54)
7- امام عبد القاھر البغدادی التمیمی رحمہ اللہ:
وأما أهل الأهواء من الجارودية والهشامية والجهمية والإمامية الذين كفروا خيار الصحابة .. فإنا نكفرهم، ولا تجوز الصلاة عليهم عندنا ولا الصلاة خلفهم
''اہل اھواء میں سے جاوردیہ، ھشامیہ، جھمیہ اور امامیہ (شیعہ) جنہوں نے صحابہ کرام کی مایہ ناز ہستیوں کی تکفیر کا ارتکاب کیا .. ہم ان کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے نزدیک نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔'' (کتاب الفرق بين الفرق، صفحہ: 357)
8- امام قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ:
وأما الرافضة فالحكم فيهم .. إن كفر الصحابة أو فسقهم بمعنى يستوجب به النار فهو كافر
''رافضیوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ: .. بلاشبہ صحابہ کو کافر یا فاسق قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اپنے اوپر ہی جہنم واجب ہوجاتی ہیں اور وہ خود کافر ہیں۔'' (کتاب المعتمد، صفحہ: 267)
9- امام ابن حزم الظاہری رحمہ اللہ:
الروافض ليسوا من المسلمين.. وهي طائفة تجري مجرى اليهود والنصارى في الكذب والكفر.
''رافضی مسلمان نہیں ہیں.. بلکہ یہ ایک ایسا گروہ ہے جو جھوٹ اور کفر بکنے میں یہود ونصاری کے نقش قدم پر ان کے برابر چل رہا ہے۔'' (کتاب الفصل فی الملل والنحل، ج 2، صفحہ: 78)
ایک اور مقام پر فرمایا:
وإنما خالف في ذلك (وجوب الأخذ بما في القرآن) قوم من غلاة الروافض وهم كفار بذلك مشركون عند جميع أهل الإسلام وليس كلامنا مع هؤلاء وإنما كلامنا مع ملتنا
''قرآن میں جو کچھ ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہونے کی مخالفت غلو پسند رافضیوں (شیعوں) کی قوم نے کی ہے اور ایسا کرنے کی وجہ سے وہ ایسے کافر ہیں کہ تمام اہل اسلام کے نزدیک وہ مشرک ہیں۔ اس لیے ہمارے مخاطب یہ (رافضی شیعہ) نہیں ہے بلکہ ہمارے مخاطب ہماری ملت والے ہیں (یعنی شیعہ ہم مسلمانوں کی ملت میں سے نہیں ہیں)۔'' (الاحكام لابن حزم: ج 1، صفحہ: 96)
10- امام شوکانی رحمہ اللہ:
إن أصل دعوة الروافض كياد الدين ومخالفة الإسلام وبهذا يتبين أن كل رافض خبيث يصير كافرا بتكفيره لصحابي واحد فكيف بمن يكفر كل الصحابة واستثنى أفرادا يسيره.
''رافضیوں کی دعوت (منہج) کی اصلیت ہی دین کیخلاف سازش اور اسلام کی مخالفت کرنے پر مبنی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر رافضی (شیعی) خبیث ایک صحابی کی تکفیر کرنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جو تمام صحابہ کو کافر کہتا ہوں اور چند صحابہ کو کفر سے مستثنی قرار دیتا ہوں۔'' (كتاب نثر الجوهر على حديث أبي ذر، از امام شوکانی)
11- امام قاضی عیاض رحمہ اللہ :
نقطع بتكفير غلاة الرافضة في قولهم إن الأئمة أفضل من الأنبياء
''اماموں کو انبیاء سے زیادہ افضل قرار دینے والے غالی رافضیوں(شیعوں) کے قول میں موجود کفر کا ہم سرے سے انکار کرتے ہیں۔''
ایک اور جگہ پر فرمایا:
وكذلك نكفر من أنكر القرآن أو حرفاً منه أو غير شيئاً منه أو زاد فيه كفعل الباطنية والإسماعيلية
''اسی طرح ہم ر اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں جس نے قرآن کا انکار کیا یا اس کے ایک حرف کا انکار کیا یا اس میں موجود کسی لفظ کو تبدیل کر ڈالا یا اس میں اضافہ کیا جیساکہ باطنیہ اور اسماعیلیہ ( شیعوں) نے کیا۔'' (کتاب الشفا: ج 2 ص 1078)
12- امام السمعانی رحمہ اللہ:
واجتمعت الأمة على تكفير الإمامية، لأنهم يعتقدون تضليل الصحابة وينكرون إجماعهم وينسبونهم إلى ما لا يليق بهم
''ساری امت امامیہ (شیعوں) کے کافر ہونے پر متفق ہیں کیونکہ یہ صحابہ کو گمراہ سمجھتے ہیں، ان کے اجماع کے منکر ہیں اور ان کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہیں جو ان کے شان شایان نہیں ہیں۔'' (کتاب الانساب ج 6، صفحہ: 341)
13- فقیہ مفسر امام اصولی، الاسفرایینی ابو المظفر شہفور بن طاہر بن محمد رحمہ اللہ:
رافضیوں کے چند عقائد بیان کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:
وليسوا في الحال على شيء من الدين ولا مزيد على هذا النوع من الكفر إذ لا بقاء فيه على شيء من الدين
''یہ (رافضی شیعہ) دین کی کسی چیز پر نہیں ہے اور اس سے بڑھ کر کفر کی کوئی قسم نہیں ہے کیونکہ ان میں دین کی کوئی ایک چیز بھی موجود نہیں ہے۔'' (کتاب التبصیر فی الدین: صفحہ: 24-25)
 
Top