• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حصول جنت کے آسان طریقے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
4 غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ تمام صحابہؓ سے افضل ہیں، آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے‘‘۔
(غنیۃ الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
صحابہ کرا م رضوان اللہ علیہم اجمعین ،کی عدالت ،عظمت ،اور وہ فضائل جو قرآن مجید ،و احادیث نبویہ میں وارد ہیں
ان کو ماننا اہل اسلام پر واجب ہے ۔
( کیونکہ انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں )

{ الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله بأموالهم وأنفسهم أعظم درجة عند الله وأولئك هم الفائزون }
’’ جو لوگ ایمان لائے ،اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور اپنے مال سے جہاد کیا،
یہ لوگ اللہ کے ہاں سب بڑے درجہ والے ہیں ،اور یہی کامیاب و کامران ہیں
‘‘
التوبة (20)

اور ان کا دفاع کرنا ایمان بہت بڑا تقاضا ہے ۔(یعنی ایمانی فرض ہے )

دو وجہ سے
(۱) ایک تو اس لئے کہ : انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں؛
(۲)
دوسرا س لئے کہ وہ پوری امت کےلئے قرآن اور شریعت کو نقل کرنے والے ہیں ،اگر وہ عادل و مخلص مومن اور
دیانتدار مسلم نہیں ،

توان کی نقل کردہ شریعت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
اس لئے ان کا دفاع ،دراصل دین ِاسلام کا دفاع ہے ،جس کے فرض ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام سے بغض رکھنا ،ان کو گالیاں دینا ،ان پر لعن کرنا ۔یقیناً کفر ہے ،ایسا کرنے والا بلا شبہ کافر ہے ،

قال تعالى:
{ محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجداً يبتغون فضلاً من الله ورضواناً سيماهم في وجوههم من أثر السجود }الفتح (29)

قال ابن کثیر رحمہ اللہ
ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك -رحمه الله، في رواية عنه-بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة، قال: لأنهم يغيظونهم، ومن غاظ الصحابة فهو كافر لهذه الآية ‘‘ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ اسی آیت کو دلیل بنا کر ، بغض صحابہ رکھنے والے رافضیوں کو کافر کہتےتھے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
4 غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ تمام صحابہؓ سے افضل ہیں، آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے‘‘۔
(غنیۃ الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے بھائی پہلے بھی آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے لہذا اس کو یہاں پوسٹ کر دیتا ہو -


اولاً:

اگر احادیث مبارکہ کو آپ مانتے ہیں تو پھر دیگر صحیح احادیث کو بھی آپ مانتے ہوں گے، جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں اور انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (مانتے ہیں تو مزید بحث کی ضرورت نہیں) اور اگر نہیں مانتے تو یہودیوں كا كردار كيوں اپنا رہے ہیں:

أفتؤمنون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب وما الله بغافل عما تعلمون

ثانیا:

آپ نے احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں کیوں بیان کی ہیں، پورا قصہ کیوں ذکر نہیں کیا؟؟؟ کیونکہ اس سے آپ کا موقف کی چھت بنیادوں سے ہی گر پڑے گی؟؟؟

مثلاً پہلی باغ والی حدیث میں آپ نے صرف وہ حصہ بیان کیا، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دھکا دیا اور اس سے آپ نے سیدنا عمر سے اپنا بغض ظاہر کرتے ہوئے انہیں منکر حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ اسی حدیث مبارکہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (آپ اس کے منکر ہیں تو در اصل رسول کریمﷺ کی باتوں کو نہ ماننے والے آپ ہوئے نہ کہ سیدنا عمر) اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر نبی کریمﷺ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی، اس کا بھی آپ نے ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟؟؟ کیا نعوذ باللہ نبی کریمﷺ بھی اپنی ہی احادیث کا انکار کرنے والے تھے؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا صاحب قصہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بناء پر آپ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منکر حدیث سمجھتے تھے۔ بہرام صاحب تقیہ کیوں کرتے ہو، تمہارے نزدیک تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی کافر ومنافق ہیں (نعوذ باللہ) تو اپنا مطلب نکالنے کیلئے انہیں کی احادیث کیوں پیش کر رہے ہو؟

قد مكر الذين من قبلهم فأتى الله بنيانهم من القواعد فخر عليهم السقف من فوقهم وأتاهم العذاب من حيث لا يشعرون

ان سے پہلے بھی لوگوں مکر ودھوکا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارت کی بنیادیں ہی اکھاڑ دیں اور ان کے اوپر چھٹ دھڑام سے گر پڑی اور پھر انہیں وہاں سے عذاب آیا جہاں سے وہ شعور بھی نہ رکھتے تھے۔


ثالثا:

آپ نے صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کیا ہے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ اس قصے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ کے حکم سے صریح خلاف ورزی کی، نبی کریمﷺ نے انہیں رسول اللہ مٹانے کا حکم دیا تو انہوں نے نہیں مانا! کیا آپ اسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انکار حدیث کہیں گے؟؟!!

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور نبی کریمﷺ کے صحابہ سے محبت کرنے والا بنا دے!

والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين ءامنوا ربنا إنك رؤوف رحيم

اس آیت کریمہ سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اور کون لوگ ہو سکتے ہیں؟

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یہ-بھی-انکار-حدیث-ہے؟؟؟؟.9305/page-7#post-81058
یہ حدیث پڑھ کر بہت حوصلہ ملتا ہے کہ ان شاء اللہ ہماری محنت رائیگاں نہیں جائے گی _________ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
اللہ کی قسم تمہارے ذریعے کسی ایک شخص کا ہدایت کی راہ پر چلنا ایک سو سرخ اونٹ ملنے سے کہیں بہتر ہے-
بحوالہ :صحیح البخاری حدیث نمبر:2942
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حضرت عمر بن خطاب نے ابو ہریرہ کو زبانی طور سے نہیں کہ بڑی زور دار ضرب لگا کر اس حدیث کو بیان کرنے پر روکا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حقیقت حال جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ حاضر ہوئے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر نے ابوہریرہ کو صدوق نہیں مانا یعنی آپ کا جو عقیدہ ہے کہ صحابہ کلھم صدوق اس کا رد کیا جبکہ اس حدیث کو بیان کرنے کے لئے بطور نشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نعلین پاک بھی حضرت ابو ہریرہ کو عطاء فرمائی تھی پھر بھی اس کے حدیث رسول ہونے میں حضرت عمر کا شک کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور کوئی یہ ایک موقع نہیں جب حضرت عمر نے صحابی کی جانب سے حدیث رسول بیان کرنے پر ایسے حدیث رسول ماننے سے انکار کیا ہو مثلا تیمم کے بارے میں حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث رسول کو ماننے سے انکار کرنا یا ابوہریرہ کا حضرت عمر کے مرنے کے بعد حدیث رسول بیان کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ حضرت عمر کے زمانے میں یہ حدیث بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑ دیتے وغیرہ وغیرہ
@خضر حیات

@اسحاق سلفی


بھائی ان کو جواب دیں
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
منکر حدیث آج جو نعرہ لگاتے ہیں کہ
ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے
یہ نعرہ سب سے پہلے حضرت عمر نے ہی لگایا تھا
"حدثنا يحيى بن سليمان،‏‏‏‏ قال حدثني ابن وهب،‏‏‏‏ قال أخبرني يونس،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ قال لما اشتد بالنبي صلى الله عليه وسلم وجعه قال ‏"‏ ائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندنا كتاب الله حسبنا فاختلفوا وكثر اللغط‏.‏ قال ‏"‏ قوموا عني،‏‏‏‏ ولا ينبغي عندي التنازع ‏"‏‏.‏ فخرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين كتابه‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔"

یہ ان لوگوں کی رنگ آمیزی ہی تھی جس نے بات کا بتنگڑ بنا دیا.
دوسری بات یہ کہ اس میں نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر کون سا حرف آتا ہے ؟
روایات کا یہی خلاصہ ہے، اس قصہ کو سمجھنے کیلئے سیاق وسباق کافی ہے، اور اس میں کسی کیلئے بھی کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ، لیکن بعض لوگ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے اس بات پر مُصِر ہیں کہ اس میں صحابہ کرام نے مقام نبوت پر زبان درازی کی ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کیلئے پیغام پہنچانے سے روکا!!

یہ سوچی سمجھی سازش ہے،جو ہوس و شیطان ہی کی پیروی ،اور الفاظ میں تحریف ہے، اسکی ایک چھوٹی سی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر غیض و غضب میں بھی نہ آئے، جن لوگوں نے قلم و قرطاس لانے میں سستی کا اظہار کیا انہیں ڈانٹ بھی نہیں پلائی، پھر عام طریقہ کار کے مطابق اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں انکا پول بھی نہیں کھولا، بلکہ کچھ نہ کہا اورانہیں برقرار رکھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ مطالبہ نہیں کیا۔

ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بغضِ صحابہ سے بھرے لوگوں کی بیان شدہ تفصیلات کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ہلکا سا اختلاف تھا جیسے کہ پہلے بھی اس قسم کے اختلافات رونما ہوئے تھے، مثلا: حدیبیہ کے مقام پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کھولنے اور حلال ہونے کا حکم دیا تو انہوں کچھ تاخیر اس لئے کی کہ شاید عمرہ کرنے اور احرام نہ کھولنے کے بارے میں وحی نازل ہو جائے، ایسے ہی بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہوا تھا، ان تمام مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اسکے باوجود آپ نے خاموشی اختیار کی۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
زرا دیکھنا بہنا کہ جن صاحب نے یہ تھریڈ شروع کیا کیا انھوں مکمل احادیث پیش فرمائی ہے آپ کی سہولت کے لئے ان احادیث کو یہی کاپی پیسٹ کیئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو دشواری نہ ہو

دوسرا آسان طریقہ: فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا ۔ ( السنن الکبری للنسائی )
تیسرا آسان طریقہ : وضو کرنے کے بعد دو رکعات نماز نفل ادا کرنا ۔ ( صحیح مسلم)
چوتھا آسان طریقہ : نماز عصر اور نماز فجر مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ (صحیح مسلم )
پانچواں آسان طریقہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد۔ ( سنن ابن ماجہ )
چھٹا آسان طریقہ : سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد ۔ ( جامع الترمذی)
آٹھواں آسان طریقہ : حج بیت اللہ (صحیح البخاری )
نواں آسان طریقہ : اذان کا جواب دینا ۔ ( سنن النسائی )
دسواں آسان طریقہ :جہاد فی سبیل الله (صحیح البخاری )

محترم بھائی!۔۔۔آپ کی بات کا جواب یہی ہے کہ آپ حدیث ادھوری پیش کر کے مطلب بھی غلط اخذ کرتے ہیں۔جیسا کہ طلحہ خان بھائی نے بیان کیا ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محترم بھائی!۔۔۔آپ کی بات کا جواب یہی ہے کہ آپ حدیث ادھوری پیش کر کے مطلب بھی غلط اخذ کرتے ہیں۔جیسا کہ طلحہ خان بھائی نے بیان کیا ہے۔
کیا پوری حدیث بیان کرنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عمر کا حضرت ابو ہریرہ کو مارنا جائز تھا بلکہ انھوں نے تو خود اعتراف کر لیا کہ حضرت عمر ابوہریرہ سے حدیث سن کر حقیقت حال جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے یعنی صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ حضرت عمر کے نزدیک صحیح نہیں تھا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
"حدثنا يحيى بن سليمان،‏‏‏‏ قال حدثني ابن وهب،‏‏‏‏ قال أخبرني يونس،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ قال لما اشتد بالنبي صلى الله عليه وسلم وجعه قال ‏"‏ ائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندنا كتاب الله حسبنا فاختلفوا وكثر اللغط‏.‏ قال ‏"‏ قوموا عني،‏‏‏‏ ولا ينبغي عندي التنازع ‏"‏‏.‏ فخرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين كتابه‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔"


یہ ان لوگوں کی رنگ آمیزی ہی تھی جس نے بات کا بتنگڑ بنا دیا.
دوسری بات یہ کہ اس میں نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر کون سا حرف آتا ہے ؟

روایات کا یہی خلاصہ ہے، اس قصہ کو سمجھنے کیلئے سیاق وسباق کافی ہے، اور اس میں کسی کیلئے بھی کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ، لیکن بعض لوگ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے اس بات پر مُصِر ہیں کہ اس میں صحابہ کرام نے مقام نبوت پر زبان درازی کی ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کیلئے پیغام پہنچانے سے روکا!!

یہ سوچی سمجھی سازش ہے،جو ہوس و شیطان ہی کی پیروی ،اور الفاظ میں تحریف ہے، اسکی ایک چھوٹی سی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر غیض و غضب میں بھی نہ آئے، جن لوگوں نے قلم و قرطاس لانے میں سستی کا اظہار کیا انہیں ڈانٹ بھی نہیں پلائی، پھر عام طریقہ کار کے مطابق اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں انکا پول بھی نہیں کھولا، بلکہ کچھ نہ کہا اورانہیں برقرار رکھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ مطالبہ نہیں کیا۔

ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بغضِ صحابہ سے بھرے لوگوں کی بیان شدہ تفصیلات کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ہلکا سا اختلاف تھا جیسے کہ پہلے بھی اس قسم کے اختلافات رونما ہوئے تھے، مثلا: حدیبیہ کے مقام پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کھولنے اور حلال ہونے کا حکم دیا تو انہوں کچھ تاخیر اس لئے کی کہ شاید عمرہ کرنے اور احرام نہ کھولنے کے بارے میں وحی نازل ہو جائے، ایسے ہی بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہوا تھا، ان تمام مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اسکے باوجود آپ نے خاموشی اختیار کی۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اس حدیث قرطاس میں اضطراب ہے - اور اس پر خود امام بخاری رح نے بھی کلام کیا ہے (واللہ اعلم)- اس پر کوئی بھائی رہنمائی فرمائیں تو خوشی ہو گی -

وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ حدیث صرف صحابی رسول حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے- اور اس وقت ان کی عمر ١٥ سال تھی - دوسری بات یہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کے مرض الموت کے وقت اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتے تھے - لیکن کسی اور صحابی رسول سے واقعہ قرطاس مروی نہیں-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
حضرت عمر بن خطاب نے ابو ہریرہ کو زبانی طور سے نہیں کہ بڑی زور دار ضرب لگا کر اس حدیث کو بیان کرنے پر روکا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حقیقت حال جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ حاضر ہوئے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر نے ابوہریرہ کو صدوق نہیں مانا یعنی آپ کا جو عقیدہ ہے کہ صحابہ کلھم صدوق اس کا رد کیا جبکہ اس حدیث کو بیان کرنے کے لئے بطور نشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نعلین پاک بھی حضرت ابو ہریرہ کو عطاء فرمائی تھی پھر بھی اس کے حدیث رسول ہونے میں حضرت عمر کا شک کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور کوئی یہ ایک موقع نہیں جب حضرت عمر نے صحابی کی جانب سے حدیث رسول بیان کرنے پر ایسے حدیث رسول ماننے سے انکار کیا ہو مثلا تیمم کے بارے میں حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث رسول کو ماننے سے انکار کرنا یا ابوہریرہ کا حضرت عمر کے مرنے کے بعد حدیث رسول بیان کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ حضرت عمر کے زمانے میں یہ حدیث بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑ دیتے وغیرہ وغیرہ
محترم -

صحابہ کرام رضوان الله آجمعین جب ایک دوسرے سے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی حدیث کو سننے کے بعد اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے بارے میں الجھن کا شکار ہوتے تھے تو بشری تقاضے کے تحت ایک دوسرے سے استفسار کرتے تھے - تا کہ مفہوم واضح ہونے کے بعد اس پر صحیح طور پر عمل درآمد کیا جاسکے -حضرت عمر رضی الله عنہ کے افعال بھی اسی زمرے میں آتے ہیں - اگر آپ کے نزدیک حضرت عمر رضی الله عنہ گستاخ رسول تھے (نعوز باللہ) تو پھر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو اسی وقت کیوں نہیں ٹوکا کہ تم نے میرے صحابی ابوہریرہ راضی الله عنہ سے کلمہ شہادت پر جنت کی بشارت سننے کے بعد فوری طور پر کیوں نہ کہا کہ سمعنا و اَمَناً (میں نے سنا اور ایمان لایا) - اورتم نے میری بات میں شک کیوں کیا وغیرہ؟؟؟

دوسری بات یہ کہ ایک طرف آپ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی الله عنہ کو گستاخ رسول ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں (نعوز باللہ)- جب کہ تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت علی رضی الله عنہ کو اپنا مشیر خاص چنا - اگر (نعوز باللہ) حضرت عمر رضی الله عنہ گستاخ رسول تھے تو پھر حضرت علی رضی الله عنہ نے ان کا مشیرخاص ہونا کیوں قبول کیا ؟؟؟ - اس طرح تو حضرت علی رضی الله عنہ بھی حضرت عمر رضی الله عنہ کی معاونت کی بنا پر گستاخ رسول کی صف میں شامل ہوگئے- (نعوز باللہ فنعوز باللہ من ذالک)- ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اس حدیث قرطاس میں اضطراب ہے - اور اس پر خود امام بخاری رح نے بھی کلام کیا ہے (واللہ اعلم)- اس پر کوئی بھائی رہنمائی فرمائیں تو خوشی ہو گی -

وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ حدیث صرف صحابی رسول حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے- اور اس وقت ان کی عمر ١٥ سال تھی - دوسری بات یہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کے مرض الموت کے وقت اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتے تھے - لیکن کسی اور صحابی رسول سے واقعہ قرطاس مروی نہیں-
یاد رہے یہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور یہ صحابی رسول ہیں اور وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ" صحابہ کلھم عدول "ہاں مگر منکر حدیث اس فلسفے کو نہیں مانتے
 
Top