صحابہ کرا م رضوان اللہ علیہم اجمعین ،کی عدالت ،عظمت ،اور وہ فضائل جو قرآن مجید ،و احادیث نبویہ میں وارد ہیں
ان کو ماننا اہل اسلام پر واجب ہے ۔
( کیونکہ انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں )
{ الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله بأموالهم وأنفسهم أعظم درجة عند الله وأولئك هم الفائزون }
’’ جو لوگ ایمان لائے ،اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور اپنے مال سے جہاد کیا،
یہ لوگ اللہ کے ہاں سب بڑے درجہ والے ہیں ،اور یہی کامیاب و کامران ہیں
‘‘التوبة (20)
اور ان کا دفاع کرنا ایمان بہت بڑا تقاضا ہے ۔(یعنی ایمانی فرض ہے )
دو وجہ سے
(۱) ایک تو اس لئے کہ : انکی عدالت و عظمت اور فضائل اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں؛
(۲) دوسرا س لئے کہ وہ پوری امت کےلئے قرآن اور شریعت کو نقل کرنے والے ہیں ،اگر وہ عادل و مخلص مومن اور
دیانتدار مسلم نہیں ،
توان کی نقل کردہ شریعت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
اس لئے ان کا دفاع ،دراصل دین ِاسلام کا دفاع ہے ،جس کے فرض ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام سے بغض رکھنا ،ان کو گالیاں دینا ،ان پر لعن کرنا ۔یقیناً کفر ہے ،ایسا کرنے والا بلا شبہ کافر ہے ،
قال تعالى:
{ محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجداً يبتغون فضلاً من الله ورضواناً سيماهم في وجوههم من أثر السجود }الفتح (29)
قال ابن کثیر رحمہ اللہ
ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك -رحمه الله، في رواية عنه-بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة، قال: لأنهم يغيظونهم، ومن غاظ الصحابة فهو كافر لهذه الآية ‘‘
ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ اسی آیت کو دلیل بنا کر ، بغض صحابہ رکھنے والے رافضیوں کو کافر کہتےتھے
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
4 غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ تمام صحابہؓ سے افضل ہیں، آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے‘‘۔
(غنیۃ الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲)