• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حصول جنت کے آسان طریقے

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اس حدیث قرطاس میں اضطراب ہے - اور اس پر خود امام بخاری رح نے بھی کلام کیا ہے (واللہ اعلم)- اس پر کوئی بھائی رہنمائی فرمائیں تو خوشی ہو گی -

وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ حدیث صرف صحابی رسول حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے- اور اس وقت ان کی عمر ١٥ سال تھی - دوسری بات یہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کے مرض الموت کے وقت اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتے تھے - لیکن کسی اور صحابی رسول سے واقعہ قرطاس مروی نہیں-
واقعہ قرطاس پر علامہ شبلی نعمانی ؒ نے بہت مفید بحث کی ہے۔یہ بحث انکی کتاب ”الفاروق“ ،صفحہ 67 تا 70 میں موجود ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لیجئے میں بھی آپ کے ساتھ اللہ اور اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیاروں کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ ان سے ایمانی محبت بخشش کا ایک بڑا ذریعہ ہے
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرت ابا بكر فلم تزل مهاجرته حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة اشهر
فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر (ابوبکر پر )غصہ ہو گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔
یہ تمام مناقب و فضائل صحیح بخاری سےلئے گئے ہیں اس کا اردو ترجمہ داؤد راز کا ہے

فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ
الراوي: حذيفة بن اليمان المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3781
خلاصة حكم المحدث: صحيح


الحسنُ والحُسَينُ سيِّدا شبابِ أهْلِ الجنَّةِ وأبوهما خيرٌ منهُما
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 96
خلاصة حكم المحدث: صحيح

سنی کی ایک دن کی زندگی شیعہ کی ہزار سال زندگی سے بہتر ہے !
·
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لیجئے میں بھی آپ کے ساتھ اللہ اور اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیاروں کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ ان سے ایمانی محبت بخشش کا ایک بڑا ذریعہ ہے
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرت ابا بكر فلم تزل مهاجرته حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة اشهر
فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر (ابوبکر پر )غصہ ہو گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔
یہ تمام مناقب و فضائل صحیح بخاری سےلئے گئے ہیں اس کا اردو ترجمہ داؤد راز کا ہے

فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ
الراوي: حذيفة بن اليمان المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3781
خلاصة حكم المحدث: صحيح


الحسنُ والحُسَينُ سيِّدا شبابِ أهْلِ الجنَّةِ وأبوهما خيرٌ منهُما
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 96
خلاصة حكم المحدث: صحيح

4.jpg
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محترم -

صحابہ کرام رضوان الله آجمعین جب ایک دوسرے سے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی حدیث کو سننے کے بعد اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے بارے میں الجھن کا شکار ہوتے تھے تو بشری تقاضے کے تحت ایک دوسرے سے استفسار کرتے تھے - تا کہ مفہوم واضح ہونے کے بعد اس پر صحیح طور پر عمل درآمد کیا جاسکے -حضرت عمر رضی الله عنہ کے افعال بھی اسی زمرے میں آتے ہیں -
میں نے یہ کب کہا کہ حضرت عمرگستاخ رسول تھے یہ تو صرف آپ کا گمان ہے یا آپ کے دل کی بات
ہاں میں نے اتنا ضرور عرض کیا ہے کہ حضرت عمر بھی آپ ہی طرح منکر حدیث تھے ایسی لئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے پر ابوھریرہ کو مار پڑی
اب اس کو اس طرح سمجھئے اگر آپ مجھے سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور میں حدیث رسول سن کر الجھن کا شکارہوجاؤں اس حدیث کا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا یہ حق ہے آپ کو ایک زوردار ضرب لگاؤں کیا ایسا کرنے کی مجھے اجازت ہے جب کہ مجھ سے حدیث بیان کرنے والے یعنی کہ آپ صحابی نہیں ہیں

اگر آپ کے نزدیک حضرت عمر رضی الله عنہ گستاخ رسول تھے (نعوز باللہ) تو پھر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو اسی وقت کیوں نہیں ٹوکا کہ تم نے میرے صحابی ابوہریرہ راضی الله عنہ سے کلمہ شہادت پر جنت کی بشارت سننے کے بعد فوری طور پر کیوں نہ کہا کہ سمعنا و اَمَناً (میں نے سنا اور ایمان لایا) - اورتم نے میری بات میں شک کیوں کیا وغیرہ؟؟؟
اس کی بھی ایک وجہ ہے جو صحیح بخاری میں بیان ہوئی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی ان کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی منطق چلاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا قول اسی پر ڈال دیا کرتے تھے کہ اگر تو ایسا سمجھتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا
صحیح بخاری میں بیان ہواکہ
حدثنا معلى بن اسد حدثنا عبد العزيز بن مختار حدثنا خالد عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على اعرابي يعوده قال:‏‏‏‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده قال:‏‏‏‏"لا باس طهور إن شاء الله فقال له:‏‏‏‏ لا باس طهور إن شاء الله قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ طهور كلا بل هي حمى تفور او تثور على شيخ كبير تزيره القبور فقال النبي صلى الله عليه وسلم فنعم إذا".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ ایک طرف آپ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی الله عنہ کو گستاخ رسول ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں (نعوز باللہ)- جب کہ تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت علی رضی الله عنہ کو اپنا مشیر خاص چنا - اگر (نعوز باللہ) حضرت عمر رضی الله عنہ گستاخ رسول تھے تو پھر حضرت علی رضی الله عنہ نے ان کا مشیرخاص ہونا کیوں قبول کیا ؟؟؟ - اس طرح تو حضرت علی رضی الله عنہ بھی حضرت عمر رضی الله عنہ کی معاونت کی بنا پر گستاخ رسول کی صف میں شامل ہوگئے- (نعوز باللہ فنعوز باللہ من ذالک)- ؟؟؟
حضرت علی حضرت عمر کے مشیر خاص ؟؟؟؟؟
اس پر کوئی صحیح سند روایت تو پیش فرمادیں لیکن روایت آپ کے اصول کے مطابق ہو کہ اس کے تمام راویوں پر کسی امام نے جرح نہ کی ہو
لیکن آپ کے خیال کے برعکس صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ
حضرت علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراھت ہوتی تھی

یہ معاونت نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف حضرت عمر جب کوئی فیصلہ دیتے تو حضرت علی انہیں ٹوک دیا کرتے تھے اب قرآن سنت کے خلاف کسی فیصلے پر آواز اٹھانا اور مشیر ہونا یہ الگ الگ باتیں ہیں
حضرت علی کے علم وفراست کو دیکھ کر حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ" علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا"
اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے حضرت علی جیسا جوان مرد اور شیر خدا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کے بڑے بڑے سرداروں یہود کے بڑے پہلوان مرحب کو جہنم وصل کیا خلفہ ثلاثہ کے دور میں کسی جنگ میں شرکت نہیں کی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
واقعہ قرطاس پر علامہ شبلی نعمانی ؒ نے بہت مفید بحث کی ہے۔یہ بحث انکی کتاب ”الفاروق“ ،صفحہ 67 تا 70 میں موجود ہے۔
یہ ہے صحابہ پرستوں کا معیار کہ فرمان مصطفیٰ قبول نہیں لیکن شبلی نعمانی کی بات سر آنکھوں پر
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میں نے یہ کب کہا کہ حضرت عمرگستاخ رسول تھے یہ تو صرف آپ کا گمان ہے یا آپ کے دل کی بات
ہاں میں نے اتنا ضرور عرض کیا ہے کہ حضرت عمر بھی آپ ہی طرح منکر حدیث تھے ایسی لئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے پر ابوھریرہ کو مار پڑی
اب اس کو اس طرح سمجھئے اگر آپ مجھے سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور میں حدیث رسول سن کر الجھن کا شکارہوجاؤں اس حدیث کا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا یہ حق ہے آپ کو ایک زوردار ضرب لگاؤں کیا ایسا کرنے کی مجھے اجازت ہے جب کہ مجھ سے حدیث بیان کرنے والے یعنی کہ آپ صحابی نہیں ہیں


اس کی بھی ایک وجہ ہے جو صحیح بخاری میں بیان ہوئی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی ان کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی منطق چلاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا قول اسی پر ڈال دیا کرتے تھے کہ اگر تو ایسا سمجھتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا
صحیح بخاری میں بیان ہواکہ
حدثنا معلى بن اسد حدثنا عبد العزيز بن مختار حدثنا خالد عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على اعرابي يعوده قال:‏‏‏‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده قال:‏‏‏‏"لا باس طهور إن شاء الله فقال له:‏‏‏‏ لا باس طهور إن شاء الله قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ طهور كلا بل هي حمى تفور او تثور على شيخ كبير تزيره القبور فقال النبي صلى الله عليه وسلم فنعم إذا".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔

حضرت علی حضرت عمر کے مشیر خاص ؟؟؟؟؟
اس پر کوئی صحیح سند روایت تو پیش فرمادیں لیکن روایت آپ کے اصول کے مطابق ہو کہ اس کے تمام راویوں پر کسی امام نے جرح نہ کی ہو
لیکن آپ کے خیال کے برعکس صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ
حضرت علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراھت ہوتی تھی

یہ معاونت نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف حضرت عمر جب کوئی فیصلہ دیتے تو حضرت علی انہیں ٹوک دیا کرتے تھے اب قرآن سنت کے خلاف کسی فیصلے پر آواز اٹھانا اور مشیر ہونا یہ الگ الگ باتیں ہیں
حضرت علی کے علم وفراست کو دیکھ کر حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ" علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا"
اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے حضرت علی جیسا جوان مرد اور شیر خدا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کے بڑے بڑے سرداروں یہود کے بڑے پہلوان مرحب کو جہنم وصل کیا خلفہ ثلاثہ کے دور میں کسی جنگ میں شرکت نہیں کی
آپ کہتے ہیں :

"اب اس کو اس طرح سمجھئے اگر آپ مجھے سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور میں حدیث رسول سن کر الجھن کا شکارہوجاؤں اس حدیث کا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا یہ حق ہے آپ کو ایک زوردار ضرب لگاؤں کیا ایسا کرنے کی مجھے اجازت ہے جب کہ مجھ سے حدیث بیان کرنے والے یعنی کہ آپ صحابی نہیں ہیں"

صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بلکہ خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے ثابت ہے کہ جب کوئی خلاف واقعہ بات کرتا تو کہتے "تیری ماں تجھے گم کرے" - اب اگر آجکل کوئی یہ انداز تخطب اپناے تو اس پر لوگ اعتراض کریں گے - لیکن اس وقت کے عرب معاشرے میں یہ عام بات تھی -تو اگر حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کو گھونسا مار دیا تو کونسا جرم کیا ؟؟

دوسرے یہ کہ:

کیا آپ اس حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے قول حضرت عمر رضی الله عنہ انہی پر ڈال دیا ہو -؟؟ بقول آپ کے کہ "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی ان کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی منطق چلاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا قول اسی پر ڈال دیا کرتے تھے کہ اگر تو ایسا سمجھتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا "

(بقول آپ کے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ (حضرت علی رضی الله عنہ کو حضرت عمررضی الله عنہ کی موجودگی سے کراھت ہوتی تھی)-

ذرا اس پر بھی روشنی ڈال دیں -

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور ان کے لئے دعا کی اور ان کی تعریف کرنے لگے اور ان کا جنازہ اٹھانے سے پہلے ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں بھی انہی لوگوں میں تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں گھبرایا سوائے ایک آدمی سے کہ جس نے میرے پیچھے سے آ کر میرا کندھا پکڑا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رحم کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا (اے عمر!) آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ان اعمال پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو، آپ سے زیادہ اور اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کا ساتھ فرمائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور میں داخل ہوا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر داخل ہوئے، میں نکلا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نکلے، اور میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے ساتھ کر دے گا۔ صحیح مسلم:جلد سوم:

دوسرے آپ خود فرما رہے ہیں کہ "حضرت عمر رضی الله عنہ کہا کرتے تھے کہ" علی رضی الله عنہ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا" یہ بات ثابت کرتی ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ خلیفہ دوم کے مشیر خاص تھے - تو پھر اس کے ثبوت کے لئے کوئی صحیح سند روایت کی کیوں ضرورت پیش آئ آپ کو؟؟ -

کیا آپ کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں یہ ہو کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے خلاف سنّت کوئی عمل کیا ہو اور حضرت علی رضی الله عنہ نے انھیں ٹوکا ہو -(ذہن میں رہے کہ اجتہادی غلطی کا مطلب قرآن و سنّت سے احترازکرنا نہیں ہے) - ایک دو جتہادی غلطیاں خود حضرت علی رضی الله عنہ سے بھی ثابت ہیں-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کہتے ہیں :

"اب اس کو اس طرح سمجھئے اگر آپ مجھے سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور میں حدیث رسول سن کر الجھن کا شکارہوجاؤں اس حدیث کا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا یہ حق ہے آپ کو ایک زوردار ضرب لگاؤں کیا ایسا کرنے کی مجھے اجازت ہے جب کہ مجھ سے حدیث بیان کرنے والے یعنی کہ آپ صحابی نہیں ہیں"

صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بلکہ خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے ثابت ہے کہ جب کوئی خلاف واقعہ بات کرتا تو کہتے "تیری ماں تجھے گم کرے" - اب اگر آجکل کوئی یہ انداز تخطب اپناے تو اس پر لوگ اعتراض کریں گے - لیکن اس وقت کے عرب معاشرے میں یہ عام بات تھی -تو اگر حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کو گھونسا مار دیا تو کونسا جرم کیا ؟؟
یعنی مطلب یہ ہوا کہ صحابی کا صحابی کو گھونسا مارنا جائز ہے اور غیر صحابی کا غیر صحابی کو گھونسا مارنا جائز ہے!!! اب اگر مجھے آپ کی پیش کی گئی کسی روایتکا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر سمجھ میں نہ آئے تو میں آپ کو گھونسا مار سکتا ہوں آپ نے اس پوسٹ میں ابن عباس کا ایک اثر پیش کیا ہے اور بشری تقاضے کی بناء پر وہ میری سمجھ میں نہیں آرہا اب میں آپ کو گھونسا مارنے کے لئے کہاں تلاش کروں ؟؟؟؟؟

دوسرے یہ کہ:

کیا آپ اس حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے قول حضرت عمر رضی الله عنہ انہی پر ڈال دیا ہو -؟؟ بقول آپ کے کہ "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی ان کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی منطق چلاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا قول اسی پر ڈال دیا کرتے تھے کہ اگر تو ایسا سمجھتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا "

(بقول آپ کے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ (حضرت علی رضی الله عنہ کو حضرت عمررضی الله عنہ کی موجودگی سے کراھت ہوتی تھی)-
یہ بات اسی روایت میں بیان ہوئی اگر آپ اس روایت کو پڑھنے کی زحمت فرمالیں تو آپ کی سمجھ میں آجائے گا
كراهيةً لمحضرِ عمرَ
صحیح بخاری حدیث نمبر 4240 کے یہ عربی ٹیکس ہیں اس کا ترجمہ خود ہی فرمالیں
ذرا اس پر بھی روشنی ڈال دیں -

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور ان کے لئے دعا کی اور ان کی تعریف کرنے لگے اور ان کا جنازہ اٹھانے سے پہلے ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں بھی انہی لوگوں میں تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں گھبرایا سوائے ایک آدمی سے کہ جس نے میرے پیچھے سے آ کر میرا کندھا پکڑا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رحم کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا (اے عمر!) آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ان اعمال پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو، آپ سے زیادہ اور اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کا ساتھ فرمائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور میں داخل ہوا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر داخل ہوئے، میں نکلا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نکلے، اور میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے ساتھ کر دے گا۔ صحیح مسلم:جلد سوم:
اب یہ اثر بشری تقاضے کی بناء پر وہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ حضرت ابن عباس کیوں گھبرا گئے ؟اب میں آپ کو گھونسا مارنے کے لئے کہاں تلاش کروں ؟؟؟؟؟
دوسرے آپ خود فرما رہے ہیں کہ "حضرت عمر رضی الله عنہ کہا کرتے تھے کہ" علی رضی الله عنہ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا" یہ بات ثابت کرتی ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ خلیفہ دوم کے مشیر خاص تھے - تو پھر اس کے ثبوت کے لئے کوئی صحیح سند روایت کی کیوں ضرورت پیش آئ آپ کو؟؟ -
او! میں بھول گیا تھا کہ آپ احادیث کو نہیں مانتے چلیں پھر قرآن کی کوئی آیت ہی پیش فرمادیں جس سے ثابت ہو کہ حضرت علی عمر کے مشیر خاص تھے
کیا آپ کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں یہ ہو کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے خلاف سنّت کوئی عمل کیا ہو اور حضرت علی رضی الله عنہ نے انھیں ٹوکا ہو -(ذہن میں رہے کہ اجتہادی غلطی کا مطلب قرآن و سنّت سے احترازکرنا نہیں ہے) - ایک دو جتہادی غلطیاں خود حضرت علی رضی الله عنہ سے بھی ثابت ہیں-
حضرت عمر کی خلاف سنت عمل
سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جب جنبی پانی نہ پائے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور یہی فتویٰ آج کے سفلی بھی دیتے ہیں
لیکن جب ایک ایسا شخص جس کو غسل کی حاجت تھی حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے کہا میں جنبی ہوگیا اب میں کیا کروں حضرت عمر نے کہا کہ نماز نہ پڑھ اس پر حضرت عمار رضی اللہ عنہ جو کہ وہاں موجود تھے حضرت عمر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سنائی جس کا مفہوم یہ کہ "اگر جنبی نہ پائے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے "
لیکن حضرت عمر نے حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث رسول کو قبول نہیں کیا اس روایت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے حدیث پر احتراز کیا

اور آخر میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اس دھاگے کا موضوع منکر حدیث نہیں بلکہ
حصول جنت کے آسان طریقے ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یعنی مطلب یہ ہوا کہ صحابی کا صحابی کو گھونسا مارنا جائز ہے اور غیر صحابی کا غیر صحابی کو گھونسا مارنا جائز ہے!!! اب اگر مجھے آپ کی پیش کی گئی کسی روایتکا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر سمجھ میں نہ آئے تو میں آپ کو گھونسا مار سکتا ہوں آپ نے اس پوسٹ میں ابن عباس کا ایک اثر پیش کیا ہے اور بشری تقاضے کی بناء پر وہ میری سمجھ میں نہیں آرہا اب میں آپ کو گھونسا مارنے کے لئے کہاں تلاش کروں ؟؟؟؟؟


یہ بات اسی روایت میں بیان ہوئی اگر آپ اس روایت کو پڑھنے کی زحمت فرمالیں تو آپ کی سمجھ میں آجائے گا
كراهيةً لمحضرِ عمرَ
صحیح بخاری حدیث نمبر 4240 کے یہ عربی ٹیکس ہیں اس کا ترجمہ خود ہی فرمالیں

اب یہ اثر بشری تقاضے کی بناء پر وہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ حضرت ابن عباس کیوں گھبرا گئے ؟اب میں آپ کو گھونسا مارنے کے لئے کہاں تلاش کروں ؟؟؟؟؟
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو بھی نبی کریم صل الله علیہ کی بات پرحیرانگی ہوئی جس پر نبی کریم نے حضرت معاذ رضی الله عنہ سے فرمایا:

ثم قال: ألا أخبرك بملاك ذلك كله، قلت بلى يا رسول اللّه، قال: فأخذ بلسانه، قال: كف عليك هذا. فقلت: يا نبي اللّه وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به؟ فقال: ثكلتك أمك يا معاذ، وهل يكب الناس في النار على وجوههم، أو على مناخرهم، إلا حصائد ألسنتهم".رواه الترمذي وابن ماجه والحاكم وهو في صحيح ابن ماجه (3209)


(نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا) کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں؟ جس پر ان سب کادارومدار ہے ‘‘ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ’’اس کو روک رکھ‘‘ میں نے عرض کیا، کیا ہم زبان سے جو گفتگو کرتے ہیں، اس پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’تیری ماں تجھےگُم پائے"- جہنم میں لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی اوندھے منہ گرائیں گیں‘‘(جامع ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی ‏حرمۃالصلاۃ، حدیث:2661)‏

اگر میں یا کوئی اور روایت کے سمجھ میں نہ انے کی صورت میں آپ کو اس انداز تخاطب سے پکارے تو آپ کا کیا رد عمل ہونا چاہیے-؟؟؟

میرا نہیں خیال کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو گھونسا مار کرکوئی جرم کیا- یہ عمل عرب کی قبائلی معاشرت کے مطابق تھا- ہمارے معاشرے میں یہ عمل روا نہیں - اس لئے صحابہ کرام سے تعصب رکھنے والے ایسی ہی باتیں کرینگے-
 
Top