میں نے یہ کب کہا کہ حضرت عمرگستاخ رسول تھے یہ تو صرف آپ کا گمان ہے یا آپ کے دل کی بات
ہاں میں نے اتنا ضرور عرض کیا ہے کہ حضرت عمر بھی آپ ہی طرح منکر حدیث تھے ایسی لئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے پر ابوھریرہ کو مار پڑی
اب اس کو اس طرح سمجھئے اگر آپ مجھے سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور میں حدیث رسول سن کر الجھن کا شکارہوجاؤں اس حدیث کا مفہوم بشری تقاضے کی بناء پر میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا یہ حق ہے آپ کو ایک زوردار ضرب لگاؤں کیا ایسا کرنے کی مجھے اجازت ہے جب کہ مجھ سے حدیث بیان کرنے والے یعنی کہ آپ صحابی نہیں ہیں
اس کی بھی ایک وجہ ہے جو صحیح بخاری میں بیان ہوئی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی ان کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی منطق چلاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا قول اسی پر ڈال دیا کرتے تھے کہ اگر تو ایسا سمجھتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا
صحیح بخاری میں بیان ہواکہ
حدثنا معلى بن اسد حدثنا عبد العزيز بن مختار حدثنا خالد عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على اعرابي يعوده قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده قال:"لا باس طهور إن شاء الله فقال له: لا باس طهور إن شاء الله قال: قلت: طهور كلا بل هي حمى تفور او تثور على شيخ كبير تزيره القبور فقال النبي صلى الله عليه وسلم فنعم إذا".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔
حضرت علی حضرت عمر کے مشیر خاص ؟؟؟؟؟
اس پر کوئی صحیح سند روایت تو پیش فرمادیں لیکن روایت آپ کے اصول کے مطابق ہو کہ اس کے تمام راویوں پر کسی امام نے جرح نہ کی ہو
لیکن آپ کے خیال کے برعکس صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ
حضرت علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراھت ہوتی تھی
یہ معاونت نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف حضرت عمر جب کوئی فیصلہ دیتے تو حضرت علی انہیں ٹوک دیا کرتے تھے اب قرآن سنت کے خلاف کسی فیصلے پر آواز اٹھانا اور مشیر ہونا یہ الگ الگ باتیں ہیں
حضرت علی کے علم وفراست کو دیکھ کر حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ" علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا"
اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے حضرت علی جیسا جوان مرد اور شیر خدا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کے بڑے بڑے سرداروں یہود کے بڑے پہلوان مرحب کو جہنم وصل کیا خلفہ ثلاثہ کے دور میں کسی جنگ میں شرکت نہیں کی