أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''
اگر آپ کا کیا ہوا ترجمہ صحیح مان لیا جائے تو اس صحیح حدیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ مردہ کبھی مصروفِ صلاۃ نہیں ہو سکتا ۔
أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مررت ليلة أسري بي على موسى فرأيته قائما يصلي في قبره .
( صحيح مسلم :2375، الفضائل / سنن النسائي :1621 ، قيام الليل / مسند أحمد:3/ 120)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس رات مجھے اسراء کرائی گئی میرا گزر حضرت موسی علیہ السلام پر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔
{ صحیح مسلم / سنن نسائی و مسند احمد }
تشریح : اسراء اور معراج کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے عظیم معجزوں میں ہے کہ رات کے ایک حصے ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے لے کر بیت المقدس تک اور پھر بیت المقدس سے لے کر ساتویں آسمان بلکہ اس سے بھی آگے ملأ اعلی تک کی سیر کرائی گئی ، مسجد حرام سے بیت المقدس تک کے اس سفر کو \" اسراء \" اور بیت المقدس سے ملأ اعلی تک کی سیر کو معراج کہا جاتا ہے ، اسراء کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل اور معراج کا ذکر سورۂ النجم میں آیا ہے اور حدیثوں میں ان کی بڑی تفصیلات مروی ہیں ، اسراء و معراج کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عجائبات قدرت اور رب ذو الجلال کی آیات کبری کا مشاہدہ کرایا جائے ، جن میں سے ایک تو یہی معجزہ اور نشانی تھی کہ اتنا لمبا سفر جس کے لئے مہینہ درکار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ایک قلیل حصےمیں طے کیا اور اسی رات آسمان کا سفر جو انسان کے وہم و خیال میں بھی نہ تھا آپ کو کرایا گیا ، جہاں آپ نے جنت و جہنم کا نظارہ کیا ، وہیں آپ کو اولو ا العزم پیغمبروں کی زیارت نصیب ہوئی اور سدرۃ المنتہی پھر اس سے بھی آگے جاکر شرف باریابی رب ذو الجلال سے مشرف ہوئے ، تاکہ حق الیقین سے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عین الیقین کی نعمت حاصل ہو ، آپ
پورے وثوق و اعتماد سے لوگوں کو جنت پر رغبت اور جہنم سے تحذیر کی دعوت دیں ۔
انہیں عجائب قدرت اور آیات کبری میں سے ایک آیت وہ بھی ہے جس کا ذکر زیر بحث حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر جانے سے قبل مسجد حرام سے مسجد اقصی کے درمیان میں کسی سرخ ریتیلے ٹیلے کے پاس حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دکھایا گیا ، یہ سرخ ٹیلا کہاں ہے اس کی کوئی وضاحت حدیث و تاریخ کی کتابوں میں وارد نہیں ہے ، یہ نماز پڑھنے کی کیفیت کیا تھی ، اس سلسلے میں کوئی بات کہنا حدود الہی سے تجاوز کرنا ہے ، کیونکہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے ، اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں جو زندگی حاصل ہے وہ عام لوگوں سے بہتر اور قوی ہے اور انہیں عالم برزخ میں بھی عبادت کی توفیق حاصل ہے ، واللہ أعلم ۔
اس کے علاوہ اس مبارک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سےایسے عجائب خلقت کا مشاہدہ کرایا گیا جن میں امت کے لئے بشارت و نذارات کا سامان ہے ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹوں کو لوہے کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا ، حضرت جبریل سے سوال پر معلوم ہوا کہ یہ امت محمدیہ کے خطباء حضرات ہیں جو لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کرایا گیا جن کے سروں کو بھاری چٹانوں سے کچلا جارہا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ جونماز کے وقت سوئے رہتے ہیں ، کچھ ایسے لوگوں کا بھی مشاہدہ کرایا گیا جو خون پیپ ، زقوم اور جہنم کے انگاروں کو کھا رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارےمیں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ، کچھ ایسے لوگوں کو بھی آپ نے دیکھا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو زخمی کررہے تھے ، جب ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے اور ان کی عزتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، اس قسم کے بہت سے ایسے مناظر کا مشاہدہ کرایا گیا جن میں امت کے لئے عبرت کا سامان موجود ہے ، لیکن بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج اسراء و معراج کی مناسبت سے مجلسیں تو منعقد ہوتی ہیں ، جشن تو منایا جاتا ہے اور بڑی خوشیوں کا اظہار کرکے حب نبوی کا راگ الاپا جاتا ہے ، لیکن اسراء ومعراج سے کیا درس وعبرت لینا چاہئے وہ چیز مفقود نظر آتی ہے ، چاہئے تو یہ تھا کہ لوگوں کو اخلاص وعمل کی دعوت دی جاتی ، گھر گھر جا کر لوگوں کو نماز و جماعت سے کوتاہی پر متنبہ کیا جاتا ، لوگوں کو اپنے زبان اور مسلمان کی عزت و ناموس کی حفاظت کی دعوت دی جاتی ، کرنے کا کام تو یہ تھا کہ اہل مال وثروت حضرات کو زکاۃ کی اہمیت سمجھائی جاتی اور اس کے ترک کی وعیدیں سنائی جاتی ، اگر ایسا ہوتا تو اسراء ومعراج کےجشن کا حق قدرے ادا ہوتا ، لیکن افسوس کہ یہ ساری چیزیں پرجوش تقریروں کی آواز کے نیچے دب گئیں ، من گھڑت اور جھوٹی روایات نے ان پر پردہ ڈال دیا اور بجلی کی چکا چوند قمقموں کی چمک نے انہیں اندھا کردیا ۔
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی ۔
معراج میں نبیﷺ کا حضرت موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھنا ان کے معجزات میں شامل ہے۔ او رمعجزہ خرق عادت سے امور کے صادر ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طو رپر معراج میں وہ تمام امو رجو عقلاً محال تھے مثلاً براق کا وجود، آسمانوں کا سفر، جنت و دوزخ کے مناظر خود دیکھنا وغیرہ سب امور معجزہ سےمتعلقہ ہیں۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ معجزہ سے کوئی مسئلہ یا قاعدہ و قانون اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس واقعہ سے حیات انبیاء کی دلیل اخذ کرنا درست نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
﴿إنک میت وانھم میتون﴾
(زمر:30)
''بے شک اےنبیﷺ! آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور وہ بھی فوت ہوں گے۔''
آپﷺ کی وفات پر اور دنیامیں واپس نہ آنے پر صحابہؓ کا اجماع ہے ۔
(دیکھئے: صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلاً:3394)
حیات انبیاء پر کوئی صحیح سند سے ایسی دلیل موجود نہیں جس سے انبیأ کا اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح حیات ہونا اور حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو۔