یہ پوری بحث خلط مبحث پرمبنی ہے۔
بعض احناف سے امام ابوحنیفہ کے فضائل میں یہ منقول ہےتوکون نہیں جانتاکہ فضائل اورمناقب کے باب میں اس طرح کی افراط وتفریط عام ہے۔بڑی بڑی شخصیات ایسی گزری ہیں جن کے مناقب اورفضائل میں غلو سے کام لیاگیاہے،اس چیز کو غلو ،افراط وتفریط یاپھر عقیدت میں تجاوز کا شاخسانہ قراردینے کے بجائے اس کو یوں تسلیم کیاجارہاہے کہ جیسے تمام احناف اس کو مانتے چلے آرہے ہوں۔
یہ بات سب سے پہلے موفق نے اپنی کتاب میں لکھی تھی جس کی غلطیوں پر استدراک کیلئے علامہ کردری نے کتاب لکھی اورہ وہ کتاب موفق کی مناقب امام ابوحنیفہ کے ساتھ ساتھ شائع ہوئی ہے۔پھر یہ بات خواجہ نقشبند پارسا سے منقول ہے جس کی تردید اورتنقیح حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں کی ہے۔
بعض فقہاء سے جو اس طرح کی بات منقول ہے تواس کی تردید علامہ عبدالحی لکھنوی نے الفوائد البہیہ میں بھی کی ہے۔ اگرعلامہ علاء الدین حصکفی نے یہ بات لکھی ہے تواس کےشارح علامہ ابن عابدین نے اس کی تردید بھی کردی ہے۔اگرکوئی منصف مزاج شخص ان تمام امور کا جائزہ لے گا تو وہ یقینااس نتیجے پر پہنچے گاکہ
بعض علماء احناف نے امام ابوحنیفہ کی عقیدت مین غلو کیاہے جس کی علماء احناف نے تردید کی ہے۔
دوسرے اہل علم کا یہ طریقہ رہاہے کہ اگرکسی بظاہرخراب کی تاویل کے ذریعہ اچھے معانی مراد لئے جاسکتےہیں تو اس کی تاویل حسن ظن کے ساتھ کرتے ہیں، یہاں بھی ایک تاویل یہی ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے تو وہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر آئیں گے،امتی بننے کی صورت میں لازماکتاب وسنت میں غورکرکے مسائل کا استنباط کریں گےاب یہ استنباط یاتو ائمہ کرام میں سے کسی کے اجتہاد کے موافق ہوگا،ایساتوہوگانہیں کہ ان کےسارے اجتہاد تمام پیشرو ائمہ کے مخالف ہوں گے توجس نے تقلید کی بات کہی ہے اس نے تعبیر غلط اختیار کی ہے لیکن کہنایہ چاہاہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کےبیشتر اجتہادات امام ابوحنیفہ کے اجتہاد کے موافق ہوں گے۔ یہی بات حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے کہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کو اللہ نے جو فضیلت بخشی ہے اس کا عمومااہل علم نے اعتراف کیاہے رغم انف بعض الناساورہردور میں کیاہے۔خاص بات یہ رہی ہے کہ ان کے فضائل میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ نے کتابیں لکھی ہیں جس سے ان کی اونچی شخصیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کتب فضائل ومناقب میں ڈھیرساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقیدت کے زور میں لکھ دی جاتی ہیں ،ان کو بہت کم کوئی قابل اعتناء سمجھتاہے اس کو لے کر ہنگامہ آرائی کرنااہل علم کا شیوہ نہیں۔
اگرمعترض اعتراض کرے کہ فقہ حنفی کے ایک معتبر فقیہہ نے فقہ کی کتاب میں اس کو نقل کیاہے تواسکا جواب یہ ہےکہ ان فقیہہ صاحب سے ماقبل اورمابعد بہت سارے فقہاء احناف گزرے ہیں کیاکسی اورنے اس بات کو اپنی کتاب کی زینت بنایاہے ،اگریقینی طورپر جواب نہیں میں ہے تویہ ایک شاذ واقعہ ہے اورالشاذکالمعدوم ،بالخصوص جب کہ اسی کتاب کے شارح دوسرے حنفی نے اس کی بخوبی تردید کردی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وماتوفیقی الاباللہ