محترمی انس بھائی غالبا "فتاوی" کا تو میں نے کہیں نہیں کہا۔ "اصول و فروع" کا مختلف جگہ ذکر کیا ہے۔ دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ فتاوی تو بہت سے علماء کے موجود ہیں لیکن تقلید چار ائمہ کی ہی عموما کی جاتی ہے۔
باقی اس مسئلہ میں ان کی تقلید اس لیے نہیں کی جاتی کہ ہمارے نزدیک ان کی رائے اس مسئلہ میں درست نہیں۔ دیگر بہت سے مسائل میں ان کی رائے کو امام اعظمؒ نے اختیار فرمایا ہے۔
یہاں مناسب ہے کہ تقلید کی قسمیں عرض کرتا چلوں۔ کیوں کہ ایک اور تھریڈ میں بھی شاید ان سے ناواقفیت کی بنا پر حافظ عمران الہی بھائی ایک ہی بات کو بار بار لگا رہے ہیں۔ یہ قسمیں میرے ذہن میں تھیں لیکن جب مفتی تقی عثمانی صاحب کی "تقلید کی شرعی حیثیت" پڑھی تو اس میں بہت اچھے انداز سے لکھی ہوئی پائیں۔ وہیں سے عرض کرتا ہوں:۔
تقلید کے چار درجات ہیں:۔
- عوام کی تقلید
- متبحر عالم کی تقلید
- مجتہد فی المذہب کی تقلید
- مجتہد مطلق کی تقلید
عوام میں چوں کہ مسائل کے استنباط وغیرہ کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے وہ تقلید محض کریں گے۔
متبحر فی المذہب بعض شرائط کے ساتھ امام کے مسلک کو بعض جگہوں پر ترک کر دیتا ہے اور مختلف اقوال میں سے کوئی قول جو مناسب معلوم ہو اختیار کرتا ہے۔
مجتہد فی المذہب بہت سی فروعات میں مجتہد مطلق سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لیکن اصول میں تقلید کرتے ہیں۔
مجتہد مطلق اکثر کسی رائے سے اتفاق کی بنا پر اسے اختیار کر لیتے ہیں جسے تقلید ہی کہا جاتا ہے۔
چوں کہ تقلید ایک اصطلاحی شے ہے اس لئے لغت وغیرہ کی بنا پر اس کی ایک خاص تعریف کرنا اور ہر قسم کو اسی پر فٹ کرنا درست نہیں۔ جس کو اصطلاح میں تقلید کہا جائے گا وہ تقلید ہوگی اور جسے نہیں کہا جائے گا وہ نہیں ہوگی۔
مزید تفصیل کے لیے اگر اس کتاب کا مطالعہ کریں تو مناسب ہوگا۔ اگر کھلے ذہن سے اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو فرقہ ورانہ مباحث سے دور ایک اچھی تحقیقی کتاب ہے۔
اس کو کہتے ہیں سوال گندم اور جواب چنا، محترم اشماریہ بھائی ظاہر ہے جب آپ ایک سوال یا اعتراض کا جواب ہی نہ دے پائیں تو وہ بار بار ہی سامنے آئے گا، سوال یہ ہے :
آپ کا کہنا یہ ہے کہ ہم امام صاحب رحمہ اللہ کی تقلید اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے فتاویٰ ہمیں ملتے ہیں۔ ان سے پہلے ان سے افضل اور اعلم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وتابعین عظام رحمہم اللہ) کی تقلید اس لئے نہیں کرتے کہ ان کے فتاویٰ ہمیں نہیں ملتے۔ اسی ضمن میں آپ نے مرغی ذبح کرتے ہوئے پوری گردن الگ ہونے کا ذکر کیا ہے کہ اس مسئلے میں سیدنا عمر کا فتویٰ موجود نہیں لہٰذا آپ امام صاحب کی تقلید کرتے ہیں۔
تو میں نے آپ کے سامنے صحیح بخاری وصحیح مسلم میں موجود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک فتویٰ رکھا ہے۔ اگر امام صاحب کی تقلید جائز ہے تو پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید کیوں جائز نہیں؟؟؟!
ازراہ کرم! واضح کیجئے کہ پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرنے کے مسئلے میں آپ سیدنا عمر کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟؟!!
ایک بار پھر وضاحت کر دوں آپ پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ مقلد کتنی اقسام ہیں بلکہ یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ تم سیدنا عمر کی تقلید کیوں نہیں کرتے حالاں کہ ان کی راے پر قرآن نازل ہوتا تھا، اس لیے وہ جناب ابو حنیفہ سے کہیں بڑھ کر قابل تقلید ہیں
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"