محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
quote="اشماریہ, post: 159069, member: 3713"]
احناف امام اعظمؒ کو مقلد جو تسلیم نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ خود مجتہد تھے اور یہ بات ثابت ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا۔ لیکن بالفرض ابو حنیفہؒ مجتہد نہ ہوتے تو وہ بھی تقلید کرتے۔ اس سے ان کی شان میں کمی تو نہیں آتی۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ اس پائے کے علماء ہیں کہ بہت سے علماء نے انہیں مجتہد مطلق قرار دیا ہے لیکن ہم لوگ انہیں اکثر اصول میں امام اعظمؒ کا پیروکار مانتے ہیں لیکن اس سے ان کی شان میں کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے ذہنوں میں ان کے بارے میں کچھ ایسا خیال آتا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات پر ان کے اقوال پر فتوی دیا جاتا ہے۔ حتی کہ قضا میں تو اکثر ہی فتوی ابو یوسفؒ کے قول پر ہوتا ہے۔ اگر اس سے نقص شان ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ لہذا یہ بات درست نہیں۔
دوسری بات کسی نبی کا مجتہد ہونا اور مقلد نہ ہونا منصوص نہیں۔ یہ تو عقلی بات ہے کہ نبی کا فہم سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو۔ ہر کسی کے سوچنے کا الگ انداز ہے۔ عمر رض کا مشورہ بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا تھا اور نبی ﷺ کا فدیہ لینے کا۔ اور قرآن نے تائید عمر کی بات کی کی۔ میری مراد اس سے نقص شان نہیں نبی ﷺ کی نہ میں ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ مختلف معاملات میں سمجھی جانے والی بات میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی ایک درست سمجھتا ہے اور کبھی دوسرا۔ مدینہ میں صحابہ کرام رض کو نبی ﷺ نے کھجور کی نسل بڑھانے کے عمل سے منع کیا تھا۔ اس کا نتیجہ درست نہیں نکلا۔ تو ان واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ نبی کا فہم ہر معاملے میں سب سے اعلی ہونا لازم نہیں۔ یہ میں اس نکتہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو تو وہ بآسانی یہ دلائل دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم تاویل کریں گے۔ لیکن ہم اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ نبی کا فہم سب سے اعلی ہوتا ہے لہذا وہ مجتہد ہوں گے نہ کہ مقلد۔ اس لیے نہیں کہ مقلد ہونے سے نقص شان لازم آئے گی بلکہ اس لیےکہ اس اعلی فہم کا مالک مجتہد ہی ہونا چاہیے، مقلد کیسے ہو سکتا ہے۔
اس سب بات کو ایک جانب رکھیے اور موجودہ بحث میں آئیے۔
علامہ حصکفی اور قہستانی نے یہ کہا ہے:۔
وَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ الْحُكْمَ لِأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ مِنْ زَمَنِهِ إلَى هَذِهِ الْأَيَّامِ، إلَى أَنْ يَحْكُمَ بِمَذْهَبِهِ عِيسَى - عَلَيْهِ السَّلَامُ
یہاں حکم دینے اور فیصلہ کرنے کا ذکر ہے خود تقلید کرنے کا نہیں۔ اور کسی کے نزدیک بھی غالبا قاضی کے لیے اپنے مقلد امام کے مطابق فیصلہ کرنے کی شرط نہیں ہے جب وہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنا لازم ہے الا یہ کہ وہ فیصلہ دلائل قطعیہ کے خلاف ہو۔
اب یہاں دلیل کی جانب آئیے:۔
وكأنه أخذه مما ذكره أهل الكشف أن مذهبه آخر المذاهب انقطاعا فقد قال الإمام الشعراني في الميزان ما نصه: قد تقدم أن الله تعالى لما من علي بالاطلاع على عين الشريعة رأيت المذاهب كلها متصلة بها، ورأيت مذاهب الأئمة الأربعة تجري جداولها كلها، ورأيت جميع المذاهب التي اندرست قد استحالت حجارة، ورأيت أطول الأئمة جدولا الإمام أبا حنيفة ويليه الإمام مالك، ويليه الإمام الشافعي، ويليه الإمام أحمد، وأقصرهم جدولا الإمام داود، وقد انقرض في القرن الخامس، فأولت ذلك بطول زمن العمل بمذاهبهم وقصره فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضا
اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جب امام کا مذہب آخری رہے گا تو قرب قیامت میں عیسیؑ کے آنے کے وقت یہی مذہب کثرت کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ واضح بات ہے کہ عیسیؑ کا اجتہاد یہی ہوگا کہ اسی مذہب کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کے لیے عمل میں آسان ہو اگرچہ چاروں مذاہب حق ہوں گے۔ یہ فیصلے ان مسائل میں ہوتے ہیں جن میں نص نہ ہو۔ ائمہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ امت کی کثرت کی وجہ سے سے امام اعظمؒ کے مسلک پر عمل کرنا آسان ہوگا۔
تو یہاں ان کے ذاتی اعمال میں تقلید کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ فیصلوں کا ذکر ہے۔ اس سے ان کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا۔
پھر اس سب بات کے ساتھ یہی بات پھر آتی ہے کہ اسے کسی زمانے میں بھی کسی نے گستاخی قرار نہیں دیا۔ گستاخی تو ایسا لفظ ہے کہ اس پر بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے آپ کو یہ جواب کیوں لکھا جب کہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ لیکن حقیقت میں گستاخی کیا ہوگی اس کو دیکھنا ایک باریک کام ہے۔
(کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمارے قانون توہین رسالت کے ساتھ ہے جو ہے تو بالکل صحیح لیکن اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ گستاخی ہے کیا۔ اور اسی چیز کا الٹ فائدہ آزادئ رائے کے نام پر بھی اٹھایا جاتا ہے۔)[/quote]
السلام و علیکم -
قرآن میں کسی معاملے میں نزاع کی صورت میں الله نے یہ حکم دیا ہے :
arb]
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا - سوره النساء ٥٩
پس اگر کسی معاملے میں تمھارے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
یعنی نزاع کو صورت میں ایک مسلمان کی پاس دو ہی راستے ہیں الله اور اس کے رسول محمّد صل الله علیہ وا لہ و وسلم کے احکامات کی طرف رجوع -
اس سے اگلی آیت میں فرمان باری تعلی ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا سوره النساء ٦٠
کیا تم لوگوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور گمراہی میں لے جائے-
عربی زبان کا یہ لفظ طاغُوت لفظ طغیٰ سے نکلا ہے جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانا یا سرکشی کے ہیں جیسے دریا میں طغیانی آتی ہے۔ طاغوت سے مراد ایسی تمام شخصیات اورہستیاں ہیں جو اللہ کے حکم کے خلاف یا اسکی نازل کردہ ہدایت یعنی قران و حدیث کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے فیصلے دیں، حکم و فتوے جاری کریں یا کوئی نظریہ، نظام و فلسفہ پیش کریں اورپھر ان شخصیات یا انکی تعلیمات اورفیصلوں کو من وعن مانا جائے یا کسی بھی طرح سے انکی تقلید، پرستش اورعبادت کی جا ئے۔ لہذا طاغوت میں والدین سے لے کر استاد، ملک کا حکمران، قاضی یا جج، سردار، سپہ سالار، پارٹی کا صدر یا کوئی سیاسی و مذہبی رہنما، مفتی، امام، عالم و پیر یا درویش وغیرہ یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔جب ایک اسلام کا نام لیوا اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کو یہ حق یا اختیار دے دے کہ وہ اسکے لئے اپنی مرضی سے حلال و حرام کے فیصلے کرے یا وہ اس ہستی کی تعلیمات کو قران و حدیث کے احکام اور فیصلوں پر فوقیت دے تو یہ قدرت و اختیار کا شرک ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
اس تناظر میں یہ کہنا کہ حضرت عیسیؑ علیہ سلام قرب قیامت آمد کے بعد آج کل کے اکثریت کے طرح تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالیں گے یہ ان پر ایک بہت بڑا بہتان ہے - اگرغور و فکر سے دیکھا جائے تو حضرت عیسیؑ علیہ سلام جب پہلے ایک پیغمبر کی حثیت سے اس دنیا میں آے تھے تو ان کی تبلیغ یہی تھی کہ ایک الله کی عبادت کرو اور اسی کا کہا مانو - علماء و مشائخ کی اندھی تقلید الله کی ذات کے ساتھ شرک ہے - اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جب حضرت عیسیؑ علیہ سلام جب نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ایک امتی کی حثیت سے دوبارہ اس دنیا میں تشریف فرما ہونگے تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ و وسلم کی واضح تعلیمات کو چھوڑ کر تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لیں - اور وہ بھی ایک ایسے شخص کی تقلید جس کا علم و فہم صدیوں سے متنازع چلا آ رہا ہے -؟؟؟ احناف کو یہ بات کرتے ہوے خدا کا خوف کرنا چاہیے -
الله ہم سب کی اپنی ہدایت سے نوازے (آمین)-
احناف امام اعظمؒ کو مقلد جو تسلیم نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ خود مجتہد تھے اور یہ بات ثابت ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا۔ لیکن بالفرض ابو حنیفہؒ مجتہد نہ ہوتے تو وہ بھی تقلید کرتے۔ اس سے ان کی شان میں کمی تو نہیں آتی۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ اس پائے کے علماء ہیں کہ بہت سے علماء نے انہیں مجتہد مطلق قرار دیا ہے لیکن ہم لوگ انہیں اکثر اصول میں امام اعظمؒ کا پیروکار مانتے ہیں لیکن اس سے ان کی شان میں کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے ذہنوں میں ان کے بارے میں کچھ ایسا خیال آتا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات پر ان کے اقوال پر فتوی دیا جاتا ہے۔ حتی کہ قضا میں تو اکثر ہی فتوی ابو یوسفؒ کے قول پر ہوتا ہے۔ اگر اس سے نقص شان ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ لہذا یہ بات درست نہیں۔
دوسری بات کسی نبی کا مجتہد ہونا اور مقلد نہ ہونا منصوص نہیں۔ یہ تو عقلی بات ہے کہ نبی کا فہم سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو۔ ہر کسی کے سوچنے کا الگ انداز ہے۔ عمر رض کا مشورہ بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا تھا اور نبی ﷺ کا فدیہ لینے کا۔ اور قرآن نے تائید عمر کی بات کی کی۔ میری مراد اس سے نقص شان نہیں نبی ﷺ کی نہ میں ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ مختلف معاملات میں سمجھی جانے والی بات میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی ایک درست سمجھتا ہے اور کبھی دوسرا۔ مدینہ میں صحابہ کرام رض کو نبی ﷺ نے کھجور کی نسل بڑھانے کے عمل سے منع کیا تھا۔ اس کا نتیجہ درست نہیں نکلا۔ تو ان واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ نبی کا فہم ہر معاملے میں سب سے اعلی ہونا لازم نہیں۔ یہ میں اس نکتہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو تو وہ بآسانی یہ دلائل دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم تاویل کریں گے۔ لیکن ہم اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ نبی کا فہم سب سے اعلی ہوتا ہے لہذا وہ مجتہد ہوں گے نہ کہ مقلد۔ اس لیے نہیں کہ مقلد ہونے سے نقص شان لازم آئے گی بلکہ اس لیےکہ اس اعلی فہم کا مالک مجتہد ہی ہونا چاہیے، مقلد کیسے ہو سکتا ہے۔
اس سب بات کو ایک جانب رکھیے اور موجودہ بحث میں آئیے۔
علامہ حصکفی اور قہستانی نے یہ کہا ہے:۔
وَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ الْحُكْمَ لِأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ مِنْ زَمَنِهِ إلَى هَذِهِ الْأَيَّامِ، إلَى أَنْ يَحْكُمَ بِمَذْهَبِهِ عِيسَى - عَلَيْهِ السَّلَامُ
یہاں حکم دینے اور فیصلہ کرنے کا ذکر ہے خود تقلید کرنے کا نہیں۔ اور کسی کے نزدیک بھی غالبا قاضی کے لیے اپنے مقلد امام کے مطابق فیصلہ کرنے کی شرط نہیں ہے جب وہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنا لازم ہے الا یہ کہ وہ فیصلہ دلائل قطعیہ کے خلاف ہو۔
اب یہاں دلیل کی جانب آئیے:۔
وكأنه أخذه مما ذكره أهل الكشف أن مذهبه آخر المذاهب انقطاعا فقد قال الإمام الشعراني في الميزان ما نصه: قد تقدم أن الله تعالى لما من علي بالاطلاع على عين الشريعة رأيت المذاهب كلها متصلة بها، ورأيت مذاهب الأئمة الأربعة تجري جداولها كلها، ورأيت جميع المذاهب التي اندرست قد استحالت حجارة، ورأيت أطول الأئمة جدولا الإمام أبا حنيفة ويليه الإمام مالك، ويليه الإمام الشافعي، ويليه الإمام أحمد، وأقصرهم جدولا الإمام داود، وقد انقرض في القرن الخامس، فأولت ذلك بطول زمن العمل بمذاهبهم وقصره فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضا
اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جب امام کا مذہب آخری رہے گا تو قرب قیامت میں عیسیؑ کے آنے کے وقت یہی مذہب کثرت کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ واضح بات ہے کہ عیسیؑ کا اجتہاد یہی ہوگا کہ اسی مذہب کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کے لیے عمل میں آسان ہو اگرچہ چاروں مذاہب حق ہوں گے۔ یہ فیصلے ان مسائل میں ہوتے ہیں جن میں نص نہ ہو۔ ائمہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ امت کی کثرت کی وجہ سے سے امام اعظمؒ کے مسلک پر عمل کرنا آسان ہوگا۔
تو یہاں ان کے ذاتی اعمال میں تقلید کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ فیصلوں کا ذکر ہے۔ اس سے ان کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا۔
پھر اس سب بات کے ساتھ یہی بات پھر آتی ہے کہ اسے کسی زمانے میں بھی کسی نے گستاخی قرار نہیں دیا۔ گستاخی تو ایسا لفظ ہے کہ اس پر بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے آپ کو یہ جواب کیوں لکھا جب کہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ لیکن حقیقت میں گستاخی کیا ہوگی اس کو دیکھنا ایک باریک کام ہے۔
(کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمارے قانون توہین رسالت کے ساتھ ہے جو ہے تو بالکل صحیح لیکن اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ گستاخی ہے کیا۔ اور اسی چیز کا الٹ فائدہ آزادئ رائے کے نام پر بھی اٹھایا جاتا ہے۔)[/quote]
السلام و علیکم -
قرآن میں کسی معاملے میں نزاع کی صورت میں الله نے یہ حکم دیا ہے :
arb]
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا - سوره النساء ٥٩
پس اگر کسی معاملے میں تمھارے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
یعنی نزاع کو صورت میں ایک مسلمان کی پاس دو ہی راستے ہیں الله اور اس کے رسول محمّد صل الله علیہ وا لہ و وسلم کے احکامات کی طرف رجوع -
اس سے اگلی آیت میں فرمان باری تعلی ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا سوره النساء ٦٠
کیا تم لوگوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور گمراہی میں لے جائے-
عربی زبان کا یہ لفظ طاغُوت لفظ طغیٰ سے نکلا ہے جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانا یا سرکشی کے ہیں جیسے دریا میں طغیانی آتی ہے۔ طاغوت سے مراد ایسی تمام شخصیات اورہستیاں ہیں جو اللہ کے حکم کے خلاف یا اسکی نازل کردہ ہدایت یعنی قران و حدیث کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے فیصلے دیں، حکم و فتوے جاری کریں یا کوئی نظریہ، نظام و فلسفہ پیش کریں اورپھر ان شخصیات یا انکی تعلیمات اورفیصلوں کو من وعن مانا جائے یا کسی بھی طرح سے انکی تقلید، پرستش اورعبادت کی جا ئے۔ لہذا طاغوت میں والدین سے لے کر استاد، ملک کا حکمران، قاضی یا جج، سردار، سپہ سالار، پارٹی کا صدر یا کوئی سیاسی و مذہبی رہنما، مفتی، امام، عالم و پیر یا درویش وغیرہ یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔جب ایک اسلام کا نام لیوا اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کو یہ حق یا اختیار دے دے کہ وہ اسکے لئے اپنی مرضی سے حلال و حرام کے فیصلے کرے یا وہ اس ہستی کی تعلیمات کو قران و حدیث کے احکام اور فیصلوں پر فوقیت دے تو یہ قدرت و اختیار کا شرک ہوگا اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
اس تناظر میں یہ کہنا کہ حضرت عیسیؑ علیہ سلام قرب قیامت آمد کے بعد آج کل کے اکثریت کے طرح تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالیں گے یہ ان پر ایک بہت بڑا بہتان ہے - اگرغور و فکر سے دیکھا جائے تو حضرت عیسیؑ علیہ سلام جب پہلے ایک پیغمبر کی حثیت سے اس دنیا میں آے تھے تو ان کی تبلیغ یہی تھی کہ ایک الله کی عبادت کرو اور اسی کا کہا مانو - علماء و مشائخ کی اندھی تقلید الله کی ذات کے ساتھ شرک ہے - اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جب حضرت عیسیؑ علیہ سلام جب نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ایک امتی کی حثیت سے دوبارہ اس دنیا میں تشریف فرما ہونگے تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ و وسلم کی واضح تعلیمات کو چھوڑ کر تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لیں - اور وہ بھی ایک ایسے شخص کی تقلید جس کا علم و فہم صدیوں سے متنازع چلا آ رہا ہے -؟؟؟ احناف کو یہ بات کرتے ہوے خدا کا خوف کرنا چاہیے -
الله ہم سب کی اپنی ہدایت سے نوازے (آمین)-