۔وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ (۳) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
٨٩۔١ (یَسْتَفْتِحُوْنَ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔
بقول قادری صاحب کے اس آیت سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ
مانگا کر تے تھے۔
بھائی یہ پچھلی امتوں کا فعل کیا ہمارے لیے پچھلی امتوں کے فعل بھی حجت ہیں۔اگر ہے تو اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے۔
حدثنا
الحسن بن محمد قال: حدثنا
محمد بن عبد الله الانصاري قال: حدثني ابي
عبد الله بن المثنى عن
ثمامة بن عبد الله بن انس عن
انس ان
عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال: " اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال: فيسقون ".
حَدَّثَنَا
الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ
ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ
أَنَسٍ، أَنَّ
عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:"اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
(صحیح بخاری)حدیث نمبر: 1010
۔یہ ہے صحابہ کا فعل اب ہم صحابہ کے طریقہ پر چلیں یا پچھلی امتوں کے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کے صحابہ نبی ﷺ کے وسیلہ کےقائل نہیں تھے اگر ہوتے تو نبی ﷺ کے اس دنیا سے جانے کے بعد
عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ کے علاوہ نبیﷺ کا ہی وسیلہ اختیار کرتے۔
رہی آپ کی اوپر کی عبارت ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نبی کی حدیث آجانے کے بعد اپنے علاماں کی بات
بھی نہیں مانتے اس وقت جب صحیح حدیث ان کی بات سے ٹکرا رہی ہو۔
اگر آپ وسیلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو1- نبی کی حدیث سے ثابت کریں۔
2-یہ نہیں کر سکتے تو صحابہ سے۔
3-یہ بھی نہیں کر سکتے تو تابعی سے۔
4۔اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو تبع تابیعین یا محدیثین سے سابت کریں۔
یہ کیا کہ پچھلی امتوں کا فعل دکھا کر آپ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔