• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩
کافر اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے انکار کر دیا وسیلہ لینے کی وجہ سے نہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ فعل تو یہودیوںوالا ہے نہ
یعنی حضور کا وسیلہ یہودیوں کا فعل ہے۔تو جو حضورکا وسیلہ لے وہ معاذاللہ آپ کے فتوے سے یہودی۔استغفراللہ مگر اب ذارا صبر کیجئے گا آپ کے گھر سے یہودی برآمد کرتے ہیں۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
وکانوا مشرکین ۔۔۔۔۔۔موحد تو نہیں تھے ناں۔اور ضدی ہٹ دھرم بھی ایسے پکے تھے کہ جب نبی آموجود ہوئے تو جانتے بوجھتے انکار کر دیا، اور پہلے انبیاء کو بھی قتل کرتے تھے۔ اب جن کی تاریخ ایسی ہو تو ان سے دلیل پکڑتا ہی کون ہے۔ جو خود بھی اللہ کا کلام بدلتے تھے اور تاویل کرتے تھے اور اب بھی وہی ان کی سوچ کے حامل ہیں جو تاویل کرتے ہیں اور ترجموں میں تفسیروں میں تحریف کرتے ہیں۔
تشابہت قلوبہم
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
وکانوا مشرکین ۔۔۔۔۔۔موحد تو نہیں تھے ناں۔اور ضدی ہٹ دھرم بھی ایسے پکے تھے کہ جب نبی آموجود ہوئے تو جانتے بوجھتے انکار کر دیا، اور پہلے انبیاء کو بھی قتل کرتے تھے۔ اب جن کی تاریخ ایسی ہو تو ان سے دلیل پکڑتا ہی کون ہے۔ جو خود بھی اللہ کا کلام بدلتے تھے اور تاویل کرتے تھے اور اب بھی وہی ان کی سوچ کے حامل ہیں جو تاویل کرتے ہیں اور ترجموں میں تفسیروں میں تحریف کرتے ہیں۔
تشابہت قلوبہم
پہلی بات اللہ نے اس فعل کی مذمت نہیں کی بلکہ تحسین کے انداز میں ذکر کیا۔دوسری بات شرک شرک ہوتا ہے چاہے وہ یہودی کریں یا مسلمان ہر دور میں شرک شرک رہتا ہے اگر وسیلہ شرک ہوتا تو قرآن اس کا کبھی ذکر نہ کرتا۔اور ان کے باقی غلط کاموں کی وجہ سے صحیح کام غلط کیسےِ؟یہی بات تو قرآن میں ہے کہ پہلے جنکے وسیلے سے مانگ رہے ہو اب انہیں کا انکا۔چلیئے آئیئے ابن قدامہ بھائی آپ کو گھر کے یہودیوں کا پتہ دیتے ہیں آپکے محدث شیخ الکل نے بھی نبی اکرم کا وسیلہ لیا ہے۔لہذا آپ کے فتوی سے بیچارے یہودی ہو گئے۔اب آپ سے گزارش ہے کہ ان کو یہودی کہہ کر اپنے حق پرست ہونے کا ثبوت دیں۔
upload_2016-2-21_7-15-59.png

324.png
 

اٹیچمنٹس

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
پہلی بات اللہ نے اس فعل کی مذمت نہیں کی بلکہ تحسین کے انداز میں ذکر کیا۔دوسری بات شرک شرک ہوتا ہے چاہے وہ یہودی کریں یا مسلمان ہر دور میں شرک شرک رہتا ہے اگر وسیلہ شرک ہوتا تو قرآن اس کا کبھی ذکر نہ کرتا۔اور ان کے باقی غلط کاموں کی وجہ سے صحیح کام غلط کیسےِ؟یہی بات تو قرآن میں ہے کہ پہلے جنکے وسیلے سے مانگ رہے ہو اب انہیں کا انکا۔چلیئے آئیئے ابن قدامہ بھائی آپ کو گھر کے یہودیوں کا پتہ دیتے ہیں آپکے محدث شیخ الکل نے بھی نبی اکرم کا وسیلہ لیا ہے۔لہذا آپ کے فتوی سے بیچارے یہودی ہو گئے۔اب آپ سے گزارش ہے کہ ان کو یہودی کہہ کر اپنے حق پرست ہونے کا ثبوت دیں۔
16221 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
16223 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس عبارت میں وسیلے کا ذکر کہاں ہے
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
میں نے آیت کا ترجمہ نہیں تفسیری مراد لکھی تھی اور میں نے دلیل پیش کی ہے اس نقض آپ قائم کریں۔جہاں تک مطلب کی بات تو تقریبا ہر تفسیر کا مفہوم یہی ہے کہ یہود آپ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے

حضرت صاحب بالنبی یا بحق محمد کے الفاظ دیکھ لیتے تو یہاں سوال نہ کرتے۔اگلی بات جہاں دوسرے اقوال ہیں وہاں مفسرین نے اس قول کو بھی نقل کیا ہے۔اور ہم نے ایسے حوالہ جات بھی دئے ہیں جن میں مفسرین نے صرف اسی قول کو اختیا ر کیا ہے جیسے التسہیل ،زاد لمسیر وغیرہ ۔اور آپ لوگوں کے نزدیک یہ شرک ہے۔پہلے تو یہ ثابت ہوا کہ ذات کا وسیلہ جائز دوسرا یہ ثابت ہوا کہ یہ شرک نہیں اگر یہ شرک ہوتا تو مفسرین اس قول کو قطعا نقل کرتے یا جنہوں نے صرف اسی قول کو اختیار کیا ہے وہ تو ایسا کام قطعا نہ کرتے تو ثابت ہوا یہ شرک نہیں اس کو شرک بنا کر امت کا نا حق خون بہایا گیا۔اس لئے تو وحید الزمان بھی رو پڑا کہ ہمارے بعض بھائیوں نے شرک کے معاملہ میں تنگی کی اور اسلام کا دائرہ تنگ کر دیا اور مکروہ و حرام امور کو شرک قرار دیا۔
جناب رانا جی صاحب :
کیا اس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے؟ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے؟ یا کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے؟ یا تابعین عظام سے؟یا آئمہ مجتھدین سے؟ اور کس کس مفسر نے اس کی تفسیر سند صحیح کے ساتھ نقل کی ہے؟
جناب نے لکھا ہے :
حضرت صاحب بالنبی یا بحق محمد کے الفاظ دیکھ لیتے تو یہاں سوال نہ کرتے۔اگلی بات جہاں دوسرے اقوال ہیں
اس آیت کی تفسیر میں جب کئی اقوال ہیں تو جناب ایک قول کو کس طرح ترجیح دے رہے ہیں ؟ جب کہ مشھور قائدہ ہے " اذا جاء احتمال بطل الاستدلال"
قطعی استدلال کے لئے قطعی تفسیر چاہئیے باسند صحیح اگر جناب کے پاس ہے تو پیش کریں ۔
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
۔وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ (۳) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
٨٩۔١ (یَسْتَفْتِحُوْنَ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔
بقول قادری صاحب کے اس آیت سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ
مانگا کر تے تھے۔
بھائی یہ پچھلی امتوں کا فعل کیا ہمارے لیے پچھلی امتوں کے فعل بھی حجت ہیں۔اگر ہے تو اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے۔
حدثنا الحسن بن محمد قال:‏‏‏‏ حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري قال:‏‏‏‏ حدثني ابي عبد الله بن المثنى عن ثمامة بن عبد الله بن انس عن انس ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال:‏‏‏‏ " اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال:‏‏‏‏ فيسقون ".
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:‏‏‏‏"اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ:‏‏‏‏ فَيُسْقَوْنَ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
(صحیح بخاری)حدیث نمبر: 1010
۔یہ ہے صحابہ کا فعل اب ہم صحابہ کے طریقہ پر چلیں یا پچھلی امتوں کے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کے صحابہ نبی ﷺ کے وسیلہ کےقائل نہیں تھے اگر ہوتے تو نبی ﷺ کے اس دنیا سے جانے کے بعد
عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ کے علاوہ نبیﷺ کا ہی وسیلہ اختیار کرتے۔

رہی آپ کی اوپر کی عبارت ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نبی کی حدیث آجانے کے بعد اپنے علاماں کی بات
بھی نہیں مانتے اس وقت جب صحیح حدیث ان کی بات سے ٹکرا رہی ہو۔
اگر آپ وسیلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو1- نبی کی حدیث سے ثابت کریں۔
2-یہ نہیں کر سکتے تو صحابہ سے۔
3-یہ بھی نہیں کر سکتے تو تابعی سے۔
4۔اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو تبع تابیعین یا محدیثین سے سابت کریں۔
یہ کیا کہ پچھلی امتوں کا فعل دکھا کر آپ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے آیت کا ترجمہ نہیں تفسیری مراد لکھی تھی اور میں نے دلیل پیش کی ہے اس نقض آپ قائم کریں۔جہاں تک مطلب کی بات تو تقریبا ہر تفسیر کا مفہوم یہی ہے کہ یہود آپ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے

حضرت صاحب بالنبی یا بحق محمد کے الفاظ دیکھ لیتے تو یہاں سوال نہ کرتے۔اگلی بات جہاں دوسرے اقوال ہیں وہاں مفسرین نے اس قول کو بھی نقل کیا ہے۔اور ہم نے ایسے حوالہ جات بھی دئے ہیں جن میں مفسرین نے صرف اسی قول کو اختیا ر کیا ہے جیسے التسہیل ،زاد لمسیر وغیرہ ۔اور آپ لوگوں کے نزدیک یہ شرک ہے۔پہلے تو یہ ثابت ہوا کہ ذات کا وسیلہ جائز دوسرا یہ ثابت ہوا کہ یہ شرک نہیں اگر یہ شرک ہوتا تو مفسرین اس قول کو قطعا نقل کرتے یا جنہوں نے صرف اسی قول کو اختیار کیا ہے وہ تو ایسا کام قطعا نہ کرتے تو ثابت ہوا یہ شرک نہیں اس کو شرک بنا کر امت کا نا حق خون بہایا گیا۔اس لئے تو وحید الزمان بھی رو پڑا کہ ہمارے بعض بھائیوں نے شرک کے معاملہ میں تنگی کی اور اسلام کا دائرہ تنگ کر دیا اور مکروہ و حرام امور کو شرک قرار دیا۔
تفسیری مراد کے حجت ہونے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ، جو یہاں نظر نہیں آرہی ، پھر تفسیری مراد میں یہودیوں کی طرف جو بات منسوب کی گئی ( اگر ثابت بھی ہو تو ) اس سے وسیلہ کی صحت پر استدلال ایسے ہے ہے جیسے میلاد کی مشروعیت کے لیے ابو لہب کے لونڈی آزاد کرنے سے کیا جاتا ہے ۔
آپ اقوال ائمہ پر زور دے رہے ہیں ، ذرا ایک قول یہ بھی ملاحظہ فرمائیں ، جو احناف کے نزدیک امام صاحب کا قول ہے :
(لا ينبغي لأحد أن يدعو الله تعالى إلاّ به، وأكره أن يقول [المرء] : أسألك بمعاقد العز من عرشك، وأكره أن يقول: وبحق أنبيائك، ورسلك، وبحق البيت الحرام)
( جہود علماء الحنفیۃ فی إبطاء عقائد القبوریۃ ج 2 ص 1123 )
کسی کے لیے جائز نہیں کہ اللہ کو اس کی ذات کے علاوہ وسیلہ دے ، میں اس بات کو جائز نہیں سمجھتا کہ آدمی عرش کا وسیلہ دے ، انبیاء ، رسول اور بیت اللہ کا وسیلہ ڈالے ۔
جو الفاظ آپ نے مفسرین سے نقل کیے ہیں ، امام صاحب نے انہیں الفاظ کے ساتھ عدم جواز کا فتوی دیا ہے ۔
اور آخر میں آپ نے جو کام سر انجام دیا ہے ، وہ اگر لاشعوری طور کیا تو جہالت ہے ، اور اگر جان بوجھ کر تو دھوکہ اور فراڈ کے زمرے میں آئے گا ، کس اہل حدیث نے وسیلہ میں اختلاف کی بنا پر مخالف کا خون بہایا ہے ؟
 
Top