جی سند تو آپ نے مکمل کر لی ، لیکن آپ کے دعوی کی دلیل تب بنے گی :
1۔ جب اس کی صحت ثابت کردیں گے ، کیونکہ اس میں محمد بن أبی محمد راوی مجہول ہے ۔
2۔ اور اس میں توسل بالنبی والے عقیدے کو ثابت کریں گے ، اس سند کے ساتھ جو متن ہے ، وہ یہ ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بِرَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَبْلَ مَبْعَثِهِ فَلَمَّا بَعَثَهُ اللَّهُ مِنَ الْعَرَبِ كَفَرُوا بِهِ وَجَحَدُوا مَا كَانُوا يَقُولُونَ فِيهِ فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَبِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، وَدَاوُدُ بْنُ سلمة: يا معشر اتقوا الله وأسلموا فقد كنتم تستفحون عَلَيْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَنَحْنُ أَهْلُ شِرْكٍ وَتُخْبِرُونَا «1» بِأَنَّهُ مبعوث وتصفونه فَقَالَ سَلامُ بْنُ مِشْكَمٍ أَخُو بَنِي النَّضِيرِ: ما جاءنا بشيء نعرفه، وما هُوَ بِالذي كُنَّا نَذْكُرُ لَكُمْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ: وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اس میں کون سے الفاظ ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کا وسیلہ دیا کرتے تھے ؟
وہ ٹھیک ہے کہ اکیلا یستفتحون ہے مگر آگے ہے کہ جب وہ آئے تو وہ منکر ہو گئے۔اب آپ خود بتائیے کیا اگلے فقرے کا تعلق پچھلے سے ہے کہ نہیں؟ یعنی جو شخصیت آئی ہے اس کا ان کی فتح مانگنے سے تعلق ہے۔اب تعلق کے مختلف اقوال ہیں۔جن میں ایک قول ابن عباس سے ہے کہ وہ حضور کے وسیلہ سے ذریعہ سے مانگتے تھے۔
میرے پیارےبھائی ! اسی لیے میں آپ کو ترکیب کا کہتا ہوں ، لیکن پھر آپ برا محسوس کرجاتے ہیں ’’ یستفتحون ‘‘ کا مطلب مان لیں کہ ’’ مدد طلب کرتے تھے ‘‘ ہے ، لیکن کس کے ذریعے سے ؟ آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرتے تھے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فہم کی آیت کے الفاظ میں گنجائش ہے کہ نہیں ؟ دوسری بات : بعد والا جملہ خود اس فہم کے موافق نہیں کیونکہ ، ’’ فلما جاءہم ما عرفوا کفروا بہ ‘‘ میں ’’ ما موصولہ ‘‘ استعمال ہوا ہے ، نہ کہ ’’ من موصولہ ‘‘ اور یہ بات عربی زبان کے قواعد کے مطابق مشہور و معروف ہے کہ ’’ شخصیت ‘‘ کے لیے ’’ من ‘‘ استعمال ہوتا ہے نہ کہ ’’ ما ‘‘ ۔ ’’ ما ‘‘ عام طور پر غیر جاندار چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ لہذا اس پوری آیت کو ملا کر یہ مفہوم بالکل واضح ہے کہ یہودی ذات رسول سے نہیں ، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنا ، اور ان کا یہ گمان کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہوں گے ، اور اللہ تعالی اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں ۔۔۔ اس پورے واقعے کو اپنی فتح و نصرت کی دلیل بنایا کرتے تھے ۔
لیکن جب یہ واقعہ رونما ہوا ، تو چونکہ وہ ان کی مرضی اور تصور کے مطابق نہیں تھا ، اس لیے وہ نبوت و رسالت ، کتاب اللہ اور اس کے تمام متعلقات کے منکر ہوگئے ۔ البتہ ان تمام چیزوں کا مرکز و محور کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے ، اس لیے بعض دفعہ بغرض اختصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا تذکرہ کردیا جاتا ہے ۔
اس میں وہ مروجہ وسیلہ کہاں سے آگیا ؟
اور پھر ایک اور اہم بات : یہودیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی نبوت و رسالت کے منکر ہو جانا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ جب آپ کے منتظر تھے ، اور دشمنوں کے خلاف آپ کا نام لیکر فخر کیا کرتے تھے ، اس وقت بھی مراد فقط آپ کی ذات نہیں تھی ، کیونکہ اگر فقط آپ کی ذات ہوتی ، اور آپ کی ذات سے وہ وسیلہ طلب کیا کرتے ، تو جب آپ ان کی توقع کے خلاف ان کی نسل سے نہ آئے ، تو پھر آپ کے منکر کیوں ہوئے ؟
ان کا منکر ہوجانا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا تعلق فقط ذات سے نہ تھا ، بلکہ وہ رونما ہونے والے مکمل ایک واقعے اور تصور سے امید لگائے بیٹھے تھے ، جونہی وہ واقعہ ان کے تصور سے ذرا ہٹ کر رونما ہوا ، انہوں نے اس کا اس کی تمام جزئیات کے ساتھ انکار کردیا ۔ اگر بات صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی ہوتی تو چاہے آپ یہودیوں کی نسل سے ہوتے یا مشرکین مکہ کی ؟ آپ کی تشریف آوری ان کے لیے کافی تھی ، اور اس کے بعد انکار کی کوئی وجہ نہ تھی ـ واللہ أعلم ۔