• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عرض ہے کہ جاء فعل ہے اور اس کا فا عل حضور انور ہیں۔اور اس کا تعلق یہودیوں کے فعل یستفتحون سے ہیں۔دوسری بات میں نے کہا تھا کہ
یعنی مفسرین کے حوالہ جات کا کہ اس جاء کا فاعل اور ما عرفو کا مفعول حضور کی ذات بابرکات ہے۔
نحوی ترکیب کرنا آتی ہے ؟ !
مفسرین کے حوالے بعدمیں پیش کیجیے گا ، ذرا اس آیت کی ترکیب کرکے بتادیں ، تاکہ واضح ہو جائے کہ کس طرح جاءہم ما عرفوا ۔۔ والے جملے کا یستفتحون سے تعلق ہے اور کس نوعیت کا تعلق ہے ؟
جہاں تک یہ بات کہ یہ بلا سند ہے تو عرض ہے کہ کیا مفسرین نے کفر و شرک کو نقل کیا ہے؟اور کیا جن آپ کے اکابرین کے حوالہ جات دیے گیے ہیں انہوں نے شرک کے قول کا اختیار کیا ہے ؟
آپ ادھر ادھر کوئی بھاگ رہے ہیں ، سیدھی سی بات بتائیں کہ یہ جو بات آپ نے نقل کی ہے وہ مستند ہے یا غیر مستند ؟ دیگر باتیں غیر متعلقہ ہیں ، ان پر بھی بات ہو جائے گی ۔ إن شاءاللہ ۔
اور حضرت یا تو آپ کو گفتگو کا پتہ نہیں یا اپنے اکابرین پر اعتماد نہیں۔اگر اعتماد نہیں تو چھوڑیں ایسے بے اعتماد مسلک کو۔اور اگر پتہ نہیں تو عرض ہے اگر مخالف آپ کی دلیل پر اعتراض کرے تو اس کی صحت یا تو مسلمہ اکابر یا اس کے مسلم خصم سے پیش کیجاتی ہے۔
غیر متعلق بات ۔ فن مناظرہ پر بھی آپ کا شوق پورا کروادیں گے ۔ إن شاءاللہ ، لیکن پہلے موضوع سے متعلق گفتگو کریں اور جو حوالہ دیا ہے ، اسے مستند ثابت کریں ۔ ہمارا مطالبہ سند کا ہے ، وہ سند پیش کریں ، چاہے اپنے اکابر سے یا ہمارے اکابر سے ۔
بہت سے حوالہجات ہیں۔مقام نبوت و ولایت از غلام رسول سعیدی کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وہ عبارت یہاں نقل فرمادیں ۔
اگر کوئی لفظ برا لگے تو معذرت
آپ موضوع سے متعلق گفتگو کرتے رہیں ، اسلوب اور الفاظ جیسے مرضی رکھیں ، سب کچھ برداشت کیا جائے گا ۔ لیکن اگر صرف زبانی جمع خرچ ہوا تو پھر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
نحوی ترکیب کرنا آتی ہے ؟ !
مفسرین کے حوالے بعدمیں پیش کیجیے گا ، ذرا اس آیت کی ترکیب کرکے بتادیں ، تاکہ واضح ہو جائے کہ کس طرح جاءہم ما عرفوا ۔۔ والے جملے کا یستفتحون سے تعلق ہے اور کس نوعیت کا تعلق ہے ؟
حضرت قرآن و حدیث کا وہی مطلب معتبر ہے جو سلف صالحین نے کیاہے۔اپنی طرف سے ترکیبیں بنا کر نئے معنی کرنا اور مسلمہ چیز کا انکار کرنا آپ کو مبارک۔موضوع سے ہٹ کر نحوی ترکیب کی طرف آنا دفع الوقتی ہے۔جو بات میں نے کی ہے اس پر محدثین کے حوالہ جات پیش کرسکتا ہوں۔آپ یہ ثابت کریں کہ یہاں حضور کے ذکر کا احتمال بھی نہیں۔
آپ ادھر ادھر کوئی بھاگ رہے ہیں ، سیدھی سی بات بتائیں کہ یہ جو بات آپ نے نقل کی ہے وہ مستند ہے یا غیر مستند ؟ دیگر باتیں غیر متعلقہ ہیں ، ان پر بھی بات ہو جائے گی ۔ إن شاءاللہ ۔
یہ لیں سند ۔تفسیر ثعالبی میں موجود ہے۔
upload_2016-3-18_9-25-14.png

وہ عبارت یہاں نقل فرمادیں ۔
وہ بک نیٹ پر نہیں گھر جاو گا تو سکین لگا دوں گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اپنی طرف سے ترکیبیں بنا کر نئے معنی کرنا اور مسلمہ چیز کا انکار کرنا آپ کو مبارک۔
ایک تو موضوع سے بھاگ رہے ہیں ، اوپر سے دوسروں پر الزام ۔ کہاں میں نے اپنی طرف سے ترکیب بنائی ؟ اور کون سی چیز کو آپ نے مسلمہ ثابت کردیا ہے ، جس کا ہم انکار کر رہے ہیں ؟
موضوع سے ہٹ کر نحوی ترکیب کی طرف آنا دفع الوقتی ہے۔
یہ دفع الوقتی نہیں ہے ۔ یہ ایک ابتدائی بات ہے ، ترکیب سے بھاگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ عربی گرائمر کے بالکل ابتدائی اصول و ضوابط سے بھی بالکل کورے ہیں ، اس ترکیب کے ذریعے آپ کا مبلغ علم جانچا جائے گا ، تاکہ پتہ چلے کہ آپ جو پیش کرتے ہیں ، اس کو سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں ؟
شاباش خود ترکیب کریں ، یا جن سلف صالحین کا حوالے دے رہے ہیں ، ان کے حوالے سے ترکیب پیش کردیں ، تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے ۔
یہ لیں سند ۔تفسیر ثعالبی میں موجود ہے۔
یہ بھی کیا خوب سند پیش کی ہے ، ایک چوتھی صدی کا محدث حضرت ابن عباس سے کوئی چیز نقل کرے تو وہ آپ کے نزدیک سند ہے ۔
ایک عام آدمی تو آپ کا خوبصورت سکین دیکھ کر ہی سمجھے گا کہ شاید سند آگئی ہے ۔ ابتسامہ ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
کون سی چیز کو آپ نے مسلمہ ثابت کردیا ہے
حضرت مفسرین کی ایک کثیر تعداد اس بات کی قائل ہے کہ یہاں حضور کا ذکر۔آگے اس کے دو احتمال ہیں۔ایک کہ یہودی حضور کا وسیلہ لیا کرتے تھے اوردوسرا وہ مشرکین سے کہتے تھے کہ ایک نبی آخر الزماں آئے گا اور اس کے ساتھ مل کر ہم تمہیں شکست دیں گے۔اور آپ اسی بات کے انکاری ہیں؟
س ترکیب کے ذریعے آپ کا مبلغ علم جانچا جائے گا ،
میں نے اس چیز کا دعوی کب کیا ہے؟اور میرے علم کا ذیر بحث مسلہ سے کیا تعلق۔؟

آخری بات میں نے اپنی طرف سے نا کوئی بات نہیں کی بلکہ مفسرین کے حوالے دئے آپ بھی دیں۔یہ دعوی آپ کا ہے کہیہاں حضور کا ذکر نہیں۔اس پر دلائل دیں۔میں جو بات کی اس کا جواب بھی نہیں دیا اور جو مفسرین کے اوپر حوالے دیے ہیں اس کا جواب کس نے دینا ہے؟رہ گئی یہ بات کہ وہ قول ضعیف ہے تو اپنے اس دعوی کو ثابت کریں۔خالی بے سند کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔اور یہ تفسیر ابن عباس میں بھی ہے۔اور یہ بات آپ کے گھروالوں کو بھی تسلیم ہے کہ اس میںصحیح روایات بھی ہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اس آیت کی تفسیر میں جب کئی اقوال ہیں تو جناب ایک قول کو کس طرح ترجیح دے رہے ہیں ؟ جب کہ مشھور قائدہ ہے " اذا جاء احتمال بطل الاستدلال"
قطعی استدلال کے لئے قطعی تفسیر چاہئیے باسند صحیح اگر جناب کے پاس ہے تو پیش کریں ۔
پہلے عرض کیا جا چکا کہ یہ ظنی عقیدہ ہے لہذا اس کے لئے ظنی دلائل کافی ہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اب اس دلیل کے بعد دوسری دلیل
روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الداري - وكان خازن عمر - قال " أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا , فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر " الحديث . وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة , وظهر بهذا كله مناسبة الترجمة لأصل هذه القصة أيضا والله الموفق .
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دوسری دلیل کی سند پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں۔

أولاً ـ عدم تصريح الأعمش بالسماع من أبي صالح ، وهو مدلس ، وعليه يحكم على الإسناد بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

ثانياً ـ إن قولَ الحافظ (بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لقال بإسناد صحيح ، والعلماء إنما يفعلون هذا لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته ، خاصة إذا علمنا أن الحافظ ابن حجر ـ وهو سيد من كتب في تراجم الرجال ـ لم يعرف مالك الدار ، ولم يأت له بترجمة ، في أي من كتبه ، وكما أن البخاري في كتابه التاريخ /7ـ304/ وابن أبي حاتم في كتابه الجرح والتعديل /8ـ213/ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك ، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل ، مع كثرة اطلاعهما ، وقال الحافظ المنذري ـ وهو من المتأخرين ـ في كتابه الترغيب والترهيب /2ـ29/: ومالك الدار لا أعرفه.


جنکا مختصر جواب یہ کہ اعمش کا سمع ابوصالح سے ہو تو اس کو اتصال پر محمول کیا جاءے گا۔اور مالک دار حضرت عمر کے خازن تھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میں نے اس چیز کا دعوی کب کیا ہے؟اور میرے علم کا ذیر بحث مسلہ سے کیا تعلق۔؟
آپ کے علم اس سے یہ تعلق ہے کہ ادھر ادھر کے حوالے دیے جاتے ہیں ، چاہے ان کا موضوع سے تعلق ہو یا نہ ہو ۔
اس لیے میں نے ابتدا ہی آیت سے کی ہے ، تاکہ سب سے پہلے جس آیت کو آپ دلیل بنا رہے ہیں ، آپ خود اس کو دلیل سمجھتے ہیں یا پھر اس بنیاد پر نقل کر رہے ہیں کہ فلاں نے کہا اور علاں نے کہا ہے ؟
ترکیب کا میں اس لیے مطالبہ کر رہا ہوں کہ کسی کو وسیلہ بنانے کے لیے جو لفظ استعمال کیے جاتے ہیں ، وہ اس آیت میں سرے سے ہے ہی نہیں ، اکیلا یستفتحون ہے ۔ آپ وہ لفظ نقل کردیں جن کا معنی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا کرتے تھے ۔
یہ آسان سی بات چھوڑ کر آپ مفسرین کے اقوال تک پہنچ جاتے ہیں ۔
آخری بات میں نے اپنی طرف سے نا کوئی بات نہیں کی بلکہ مفسرین کے حوالے دئے آپ بھی دیں۔یہ دعوی آپ کا ہے کہیہاں حضور کا ذکر نہیں۔اس پر دلائل دیں۔میں جو بات کی اس کا جواب بھی نہیں دیا اور جو مفسرین کے اوپر حوالے دیے ہیں اس کا جواب کس نے دینا ہے؟رہ گئی یہ بات کہ وہ قول ضعیف ہے تو اپنے اس دعوی کو ثابت کریں۔خالی بے سند کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔اور یہ تفسیر ابن عباس میں بھی ہے۔اور یہ بات آپ کے گھروالوں کو بھی تسلیم ہے کہ اس میںصحیح روایات بھی ہیں۔
کسی بھی مفسر کا قول با سند نقل کریں کہ یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا کرتے تھے ، اور اس لفظ کی نشاندہی کریں جس کا معنی ہو کہ یہودی حضور کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے ۔
کسی پر جرح اس وقت ہوتی ہے ، ضعف کا حکم اس وقت لگتا ہے ، جب راوی موجود ہوں ، سند موجود ہو ، جب سرے سے سند موجود ہی نہ ہو ، تو پھر وجہ ضعیف ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ بلا سند ہے ۔ ہم خالی بے سند کہہ رہے ہیں تو آپ اس کی سند پیش کردیں ، تاک ہم نے نہ کہیں ۔
ابن کثیر نے دی ہے سند
پیش کریں ، کیا سند ہے ؟ ابن کثیر نے محمد بن اسحاق سے سنا ہے ؟ ابن کثیر اور ابن اسحاق کے درمیان صدیوں پر محیط سند پیش کریں ۔
اب اس دلیل کے بعد دوسری دلیل
روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الداري - وكان خازن عمر - قال " أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا , فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر " الحديث . وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة , وظهر بهذا كله مناسبة الترجمة لأصل هذه القصة أيضا والله الموفق .
دوسری دلیل کی سند پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں۔

أولاً ـ عدم تصريح الأعمش بالسماع من أبي صالح ، وهو مدلس ، وعليه يحكم على الإسناد بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.

ثانياً ـ إن قولَ الحافظ (بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لقال بإسناد صحيح ، والعلماء إنما يفعلون هذا لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته ، خاصة إذا علمنا أن الحافظ ابن حجر ـ وهو سيد من كتب في تراجم الرجال ـ لم يعرف مالك الدار ، ولم يأت له بترجمة ، في أي من كتبه ، وكما أن البخاري في كتابه التاريخ /7ـ304/ وابن أبي حاتم في كتابه الجرح والتعديل /8ـ213/ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك ، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل ، مع كثرة اطلاعهما ، وقال الحافظ المنذري ـ وهو من المتأخرين ـ في كتابه الترغيب والترهيب /2ـ29/: ومالك الدار لا أعرفه.

جنکا مختصر جواب یہ کہ اعمش کا سمع ابوصالح سے ہو تو اس کو اتصال پر محمول کیا جاءے گا۔اور مالک دار حضرت عمر کے خازن تھے۔
یہ روایت ضعیف ہے ، اس کے متعلق فورم پر تفصیلی گفتگو یہاں ہوچکی ہے ، پہلے اس کو پڑھیں ، اگر آپ کے پاس کوئی نیا اعتراض یا کسی اعتراض کا نیا جواب ہو تو وہیں پیش کریں ، اس پر وہیں گفتگو ہوگی ۔۔ إن شاءاللہ ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
پیش کریں ، کیا سند ہے ؟ ابن کثیر نے محمد بن اسحاق سے سنا ہے ؟ ابن کثیر اور ابن اسحاق کے درمیان صدیوں پر محیط سند پیش کریں ۔
سند ابو نعیم نے دلائل میں
upload_2016-3-20_4-3-47.png

محمد بن اسحاق سے آگے سند۔ابن ابی حاتم میں
upload_2016-3-20_4-10-10.png

اب مکمل ہو گئی سند۔
 
Top