• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
بار بار یہ سوال کیا جارہا ہے کہ وسیلہ کہاں ہے جس کا میں جواب دے چکا ہوں۔مگر چلئے آئیے اب آپ کے گھر کے حوالہ جاے بھی پیش خدمت ہیں۔
upload_2016-2-22_5-6-42.png

67.png

upload_2016-2-22_5-7-55.png

453.png
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
۔وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ (۳) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
٨٩۔١ (یَسْتَفْتِحُوْنَ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔
بقول قادری صاحب کے اس آیت سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ
مانگا کر تے تھے۔
بھائی یہ پچھلی امتوں کا فعل کیا ہمارے لیے پچھلی امتوں کے فعل بھی حجت ہیں۔اگر ہے تو اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے۔
حدثنا الحسن بن محمد قال:‏‏‏‏ حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري قال:‏‏‏‏ حدثني ابي عبد الله بن المثنى عن ثمامة بن عبد الله بن انس عن انس ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال:‏‏‏‏ " اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال:‏‏‏‏ فيسقون ".
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:‏‏‏‏"اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ:‏‏‏‏ فَيُسْقَوْنَ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
(صحیح بخاری)حدیث نمبر: 1010
۔یہ ہے صحابہ کا فعل اب ہم صحابہ کے طریقہ پر چلیں یا پچھلی امتوں کے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کے صحابہ نبی ﷺ کے وسیلہ کےقائل نہیں تھے اگر ہوتے تو نبی ﷺ کے اس دنیا سے جانے کے بعد
عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ کے علاوہ نبیﷺ کا ہی وسیلہ اختیار کرتے۔

رہی آپ کی اوپر کی عبارت ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نبی کی حدیث آجانے کے بعد اپنے علاماں کی بات
بھی نہیں مانتے اس وقت جب صحیح حدیث ان کی بات سے ٹکرا رہی ہو۔
اگر آپ وسیلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو1- نبی کی حدیث سے ثابت کریں۔
2-یہ نہیں کر سکتے تو صحابہ سے۔
3-یہ بھی نہیں کر سکتے تو تابعی سے۔
4۔اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو تبع تابیعین یا محدیثین سے سابت کریں۔
یہ کیا کہ پچھلی امتوں کا فعل دکھا کر آپ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
؎
اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ حضور کا وسیلہ ناجائز ہے؟اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے غیر انبیا کا توسل بھی جائز ہے۔اور جہاں تک حضرت وفات مصطفی کے بعد تو اللہ فرماتا ہے
کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم
یہاں پر رب العزت نے دنیاوی زندگی سے پہلے والی حالت پر موت کا اطلاق کیا ہے ۔تو ثابت ہوا کہ وفات شدہ لوگوں کا وسیلہ جائز ہے۔
اور نبی اکرم سے ثابت ہے کہ ایک نابینا صحابی آیا اور اس کو آپ نے دعا سکھائی جس میں توسل لیا گیا تھا
۔صحابہ سے بھی جائز ہے۔جیسے حضرت بلال بن حارث مزنی کا واقعہ یا حضرت عائشہ کا قبرالنبی کا توسل لینا یا عثمان بن حنیف کا بعد از وصال النبی ایک آدمی کو وسیلہ والی دعا سیکھانا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
(لا ينبغي لأحد أن يدعو الله تعالى إلاّ به، وأكره أن يقول [المرء] : أسألك بمعاقد العز من عرشك، وأكره أن يقول: وبحق أنبيائك، ورسلك، وبحق البيت الحرام)
( جہود علماء الحنفیۃ فی إبطاء عقائد القبوریۃ ج 2 ص 1123 )
اس عبارت میں معتزلہ کا رد ہے اس کا جواب شاہ عبد العزیز نے دیا ہے ملاحظہ ہو
upload_2016-2-22_5-39-34.png
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اسی طرح حضرت آدم نے بھی آپ کا وسیلہ لیا اور اس حدیث کی سند کوخود ابن تیمیہ نے صحیح کہا ہے۔

 
Top