محمد بن محمد مولی تھے آل زید ابن ثابت کے ۔
پھر جس بندے پر آپ نے جہالت کا اعتراض کیا ہے اس کی جہالت دور کر دی ہے
راوی محمد بن أبی محمد ہیں ، شاید آپ کو مجہول کی تعریف نہیں آتی ،
من لم یرو عنہ غیر واحد و لم یوثق
اور
من روی عنہ راویان فأکثر و لم یوثق ۔
پہلی تعریف مجہول العین کی ہے ، دوسری مجہول الحال کی ، اس راوی سے روایت کرنے والے صرف محمد بن اسحاق ہیں ، کسی سے ان کی توثیق بھی منقول نہیں ، لہذا یہ مجہول العین ہیں ، جس کا ضعف مجہول الحال سے بھی اشد ہوتا ہے ۔
پھر اس کی جہالت کے ازالے کے ساتھ ساتھ بتائیں کے ان کے حوالے سے بیان کردہ روایت کے کون سے لفظ سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔ میرا اقتباس دوبارہ ملاحظہ کرلیں ، جس میں آپ سے دو چیزوں کا مطالبہ کیا گی تھا :
جی سند تو آپ نے مکمل کر لی ، لیکن آپ کے دعوی کی دلیل تب بنے گی :
1۔ جب اس کی صحت ثابت کردیں گے ، کیونکہ اس میں محمد بن أبی محمد راوی مجہول ہے ۔
2۔ اور اس میں توسل بالنبی والے عقیدے کو ثابت کریں گے ، اس سند کے ساتھ جو متن ہے ، وہ یہ ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بِرَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَبْلَ مَبْعَثِهِ فَلَمَّا بَعَثَهُ اللَّهُ مِنَ الْعَرَبِ كَفَرُوا بِهِ وَجَحَدُوا مَا كَانُوا يَقُولُونَ فِيهِ فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَبِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، وَدَاوُدُ بْنُ سلمة: يا معشر اتقوا الله وأسلموا فقد كنتم تستفحون عَلَيْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَنَحْنُ أَهْلُ شِرْكٍ وَتُخْبِرُونَا «1» بِأَنَّهُ مبعوث وتصفونه فَقَالَ سَلامُ بْنُ مِشْكَمٍ أَخُو بَنِي النَّضِيرِ: ما جاءنا بشيء نعرفه، وما هُوَ بِالذي كُنَّا نَذْكُرُ لَكُمْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ: وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اس میں کون سے الفاظ ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کا وسیلہ دیا کرتے تھے ؟
پہلی بات تو یہ خبر واحد نہیں توسل پر اور بھی احادیث ہیں۔دوسری بات میں اوپر فتاوی نذیریہ و ثناءیہ کا فتوی نقل کر چکا کہ ضعیف حدیث سے استحاب و جواز ثابت ہوتا ہے۔اس کا کچھ جواب نہیں یدا۔
حضرت ہم اس کے قطعی ہونے کے قائل نہیں جو دلیل قطعی کی بحث کریں۔دوسری بات کئی علما نے اس کو عقیدہ بھی تسلیم نہیں کیا بلکہ فرع کہا ہے(رفع المنارہ فی التخریج احادیث التوسل و الزیارۃ ص 38)اور زیادہ سے زیادہ اس کو ظنی تسلیم کیا ہے ۔
اور استحاب مانا ہے جو ضعیف حدیث سے ثابت ہے۔
ویسے ایک بات ذہن میں رکھیں ابھی تک ہماری بات یہ ہورہی ہے کہ آپ نے تھریڈ کے عنوان میں جو دعوی کیا ہے ، وہ ثابت بھی ہے کہ نہیں ؟ وہ آپ ثابت نہیں کرسکے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وسیلہ کے جواز والی بات اس سے ذرا الگ ہے ۔ اگر آپ یہ تسلیم کر لیں کہ میرے پاس اس سے زیادہ مستند کوئی ذریعہ نہیں ، اور اپنے دعوی کےثبوت کے لیے میں یہی کچھ کافی سمجھتا ہوں ، تو ہم اس بات کو چھوڑ کر جواز و عدم جواز پر بات شروع کر لیں گے ۔