ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(١) علماے اُمت اور قراء نے قرآن کریم کے تلفظ کومحفوظ کرنے کے لئے تلفظ کی باریکیوں کو کتب میں بیان کیا ہے تاکہ لوگ ان کو پڑھ کر ترتیل کے مطابق تلاوت کرسکیں۔ ایسی کتب کو کتب تجوید کہا جاتاہے۔اس مبارک فن کی ابتداء قرون اولیٰ سے ہی ہوگئی تھی۔ تیسری صدی ہجری میں مکی بن ابی طالب القیسی نے الرعایۃ نامی کتاب تصنیف فرمائی جس کو اس فن میں مرجع اوّل کی حیثیت حاصل ہے اس کے بعد اس فن میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی جن میں سب سے زیادہ معروف علامہ ابن جزری کی کتاب مقدمۃ الجزریۃ ہے ۔ تاہنوز اہل فن اس فن کی خدمت کررہے ہیں اور قیامت تک جاری رہے گی۔اِن شاء اللہ
(٢) ترتیل کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ قراء ت ہے کہ جس طرح آپﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پڑھا اور آگے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پڑھایا اور صحابہ نے تابعین رحمہم اللہ کو اور انہوں نے اپنے تلامذہ کو اسی طرح قرآن کی تعلیم دی یہاں تک کہ قراء نے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے طریقہ کار کوبھی کتب میں محفوظ کرنا شروع کردیا، لیکن ایک بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کتب میں بیان کردہ تلفظ کو کسی استاد کے بغیر درست کرنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے، لہٰذا جب فن تجوید پڑھایا جاتاہے تو اس میں سب سے زیادہ توجہ عملی مشق پر دی جاتی،کیونکہ اس فن کا مقصود ہی قرآن کو صحیح ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہے۔
گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوا کہ کتب تجوید، قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے میں معاون کی حیثیت تو رکھتی ہیں، لیکن پڑھنے کا دارومدار قراء ت اور مشق پر ہی ہے جو ایک شاگرد براہ راست استاد سے مشافہۃً اخذ کرتا ہے جس کو اصطلاح میں تلقّی کہاجاتا ہے۔ ترتیل و تلّقی کا یہی معیار جوآپﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک موجود ہے، اس کو اسی طرح رہتی دنیا تک باقی رکھنا امت مسلمہ کی عمومی اور اہل فن قراء کی خصوصی ذمہ داری ہے اب ہم اس ذمہ داری سے کس طرح بطریق احسن عہدہ براء ہوسکتے ہیں تو اس کے لئے تلقّی کو محفوظ تر بنانے کہ جوبھی جدید ذرائع ہیں ان کو عمل میں لانا چاہئے۔ اس بارے میں آج سے پچاس پچپن سال پہلے ساٹھ کی دھائی میں مصر کے ایک درد دل رکھنے والے اور قرآن کے بارے فکر مند رہنے والے ایک عالم ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے ایک تجویز دی تھی کہ جس طرح سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے حفاظت قرآن کی ذمہ داری پوری کی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے بارے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کاقلع قمع کیا اور ہمارے اسلاف نے کتب تصنیف کرکے قراء ات اور تلفظ و اداء کو محفوظ کرنے کی سعی جمیلہ کی اور بذریعہ تلقّی ترتیل کے ساتھ قرآن مجید کو ہم تک پہنچایا۔ اسی طرح ہمیں ترتیل کو صوتی شکل میں جمع (ریکارڈنگ) کرکے آئندہ آنے والے مسلمانوں کو جس قدر ممکن ہو تلقی کا بہترین معیار فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بارگاہ الٰہی میں ہمارا نام بھی خدام قرآن میں شامل ہوجائے۔
لہٰذا انہوں نے اس فکر اور ولولہ کے ساتھ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ابتداء ًانہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ علماء سے اس کام کو کرنے کے لئے باقاعدہ فتویٰ حاصل کیا جائے۔ جس پر علماء نے اولاً تو پس و پیش سے کام لیا کہ جو کام تاریخ اسلام میں نہیں ہوا اس کو ہم کس طرح کرسکتے ہیں تو ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے یہ کہہ کر علماء کو مطمئن کیا کہ اس سے پہلے ایسے ذرائع ہی میسرنہیں تھے اور جو ذرائع میسر تھے علماء ان کو کام میں لائے ہیں، مثلاً کتب لکھنا، تلقِّی کے ذریعہ قرآن آگے پہنچاناوغیرہ۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی طرح اللہ تعالیٰ نے علمائے مصر کے سینے کھول دیئے اور انہوں نے ریکارڈنگ (جمع صوتی) کی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ دیگر وسائل مثلاً سٹوڈیو وغیرہ کے سلسلہ میں بھی کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔بالآخر شیخ محمود خلیل حصری رحمہ اللہ روایت حفص کی ریکارڈنگ کرانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن بوجوہ ان کا یہ مبارک کام آگے نہ بڑھ سکا، لیکن وہ اپنی اس سچی تڑپ اور قرآن کی محبت کو مقالہ کی صورت میں قلمبند کرگئے جس نے ہمیں یہ مضمون لکھنے پر ابھارا ہے۔
(٢) ترتیل کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ قراء ت ہے کہ جس طرح آپﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پڑھا اور آگے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پڑھایا اور صحابہ نے تابعین رحمہم اللہ کو اور انہوں نے اپنے تلامذہ کو اسی طرح قرآن کی تعلیم دی یہاں تک کہ قراء نے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے طریقہ کار کوبھی کتب میں محفوظ کرنا شروع کردیا، لیکن ایک بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کتب میں بیان کردہ تلفظ کو کسی استاد کے بغیر درست کرنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے، لہٰذا جب فن تجوید پڑھایا جاتاہے تو اس میں سب سے زیادہ توجہ عملی مشق پر دی جاتی،کیونکہ اس فن کا مقصود ہی قرآن کو صحیح ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہے۔
گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوا کہ کتب تجوید، قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے میں معاون کی حیثیت تو رکھتی ہیں، لیکن پڑھنے کا دارومدار قراء ت اور مشق پر ہی ہے جو ایک شاگرد براہ راست استاد سے مشافہۃً اخذ کرتا ہے جس کو اصطلاح میں تلقّی کہاجاتا ہے۔ ترتیل و تلّقی کا یہی معیار جوآپﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک موجود ہے، اس کو اسی طرح رہتی دنیا تک باقی رکھنا امت مسلمہ کی عمومی اور اہل فن قراء کی خصوصی ذمہ داری ہے اب ہم اس ذمہ داری سے کس طرح بطریق احسن عہدہ براء ہوسکتے ہیں تو اس کے لئے تلقّی کو محفوظ تر بنانے کہ جوبھی جدید ذرائع ہیں ان کو عمل میں لانا چاہئے۔ اس بارے میں آج سے پچاس پچپن سال پہلے ساٹھ کی دھائی میں مصر کے ایک درد دل رکھنے والے اور قرآن کے بارے فکر مند رہنے والے ایک عالم ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے ایک تجویز دی تھی کہ جس طرح سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے حفاظت قرآن کی ذمہ داری پوری کی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے بارے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کاقلع قمع کیا اور ہمارے اسلاف نے کتب تصنیف کرکے قراء ات اور تلفظ و اداء کو محفوظ کرنے کی سعی جمیلہ کی اور بذریعہ تلقّی ترتیل کے ساتھ قرآن مجید کو ہم تک پہنچایا۔ اسی طرح ہمیں ترتیل کو صوتی شکل میں جمع (ریکارڈنگ) کرکے آئندہ آنے والے مسلمانوں کو جس قدر ممکن ہو تلقی کا بہترین معیار فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بارگاہ الٰہی میں ہمارا نام بھی خدام قرآن میں شامل ہوجائے۔
لہٰذا انہوں نے اس فکر اور ولولہ کے ساتھ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ابتداء ًانہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ علماء سے اس کام کو کرنے کے لئے باقاعدہ فتویٰ حاصل کیا جائے۔ جس پر علماء نے اولاً تو پس و پیش سے کام لیا کہ جو کام تاریخ اسلام میں نہیں ہوا اس کو ہم کس طرح کرسکتے ہیں تو ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے یہ کہہ کر علماء کو مطمئن کیا کہ اس سے پہلے ایسے ذرائع ہی میسرنہیں تھے اور جو ذرائع میسر تھے علماء ان کو کام میں لائے ہیں، مثلاً کتب لکھنا، تلقِّی کے ذریعہ قرآن آگے پہنچاناوغیرہ۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی طرح اللہ تعالیٰ نے علمائے مصر کے سینے کھول دیئے اور انہوں نے ریکارڈنگ (جمع صوتی) کی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ دیگر وسائل مثلاً سٹوڈیو وغیرہ کے سلسلہ میں بھی کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔بالآخر شیخ محمود خلیل حصری رحمہ اللہ روایت حفص کی ریکارڈنگ کرانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن بوجوہ ان کا یہ مبارک کام آگے نہ بڑھ سکا، لیکن وہ اپنی اس سچی تڑپ اور قرآن کی محبت کو مقالہ کی صورت میں قلمبند کرگئے جس نے ہمیں یہ مضمون لکھنے پر ابھارا ہے۔