• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حفاظتِ قرآنِ کریم کے قدیم وجدید ذرائع اور اس ضمن میں جامعہ لاہور اور دیگر اداروں کی خدمات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) علماے اُمت اور قراء نے قرآن کریم کے تلفظ کومحفوظ کرنے کے لئے تلفظ کی باریکیوں کو کتب میں بیان کیا ہے تاکہ لوگ ان کو پڑھ کر ترتیل کے مطابق تلاوت کرسکیں۔ ایسی کتب کو کتب تجوید کہا جاتاہے۔اس مبارک فن کی ابتداء قرون اولیٰ سے ہی ہوگئی تھی۔ تیسری صدی ہجری میں مکی بن ابی طالب القیسی نے الرعایۃ نامی کتاب تصنیف فرمائی جس کو اس فن میں مرجع اوّل کی حیثیت حاصل ہے اس کے بعد اس فن میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی جن میں سب سے زیادہ معروف علامہ ابن جزری کی کتاب مقدمۃ الجزریۃ ہے ۔ تاہنوز اہل فن اس فن کی خدمت کررہے ہیں اور قیامت تک جاری رہے گی۔اِن شاء اللہ
(٢) ترتیل کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ قراء ت ہے کہ جس طرح آپﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پڑھا اور آگے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پڑھایا اور صحابہ نے تابعین رحمہم اللہ کو اور انہوں نے اپنے تلامذہ کو اسی طرح قرآن کی تعلیم دی یہاں تک کہ قراء نے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے طریقہ کار کوبھی کتب میں محفوظ کرنا شروع کردیا، لیکن ایک بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کتب میں بیان کردہ تلفظ کو کسی استاد کے بغیر درست کرنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے، لہٰذا جب فن تجوید پڑھایا جاتاہے تو اس میں سب سے زیادہ توجہ عملی مشق پر دی جاتی،کیونکہ اس فن کا مقصود ہی قرآن کو صحیح ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہے۔
گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوا کہ کتب تجوید، قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے میں معاون کی حیثیت تو رکھتی ہیں، لیکن پڑھنے کا دارومدار قراء ت اور مشق پر ہی ہے جو ایک شاگرد براہ راست استاد سے مشافہۃً اخذ کرتا ہے جس کو اصطلاح میں تلقّی کہاجاتا ہے۔ ترتیل و تلّقی کا یہی معیار جوآپﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک موجود ہے، اس کو اسی طرح رہتی دنیا تک باقی رکھنا امت مسلمہ کی عمومی اور اہل فن قراء کی خصوصی ذمہ داری ہے اب ہم اس ذمہ داری سے کس طرح بطریق احسن عہدہ براء ہوسکتے ہیں تو اس کے لئے تلقّی کو محفوظ تر بنانے کہ جوبھی جدید ذرائع ہیں ان کو عمل میں لانا چاہئے۔ اس بارے میں آج سے پچاس پچپن سال پہلے ساٹھ کی دھائی میں مصر کے ایک درد دل رکھنے والے اور قرآن کے بارے فکر مند رہنے والے ایک عالم ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے ایک تجویز دی تھی کہ جس طرح سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے حفاظت قرآن کی ذمہ داری پوری کی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے بارے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کاقلع قمع کیا اور ہمارے اسلاف نے کتب تصنیف کرکے قراء ات اور تلفظ و اداء کو محفوظ کرنے کی سعی جمیلہ کی اور بذریعہ تلقّی ترتیل کے ساتھ قرآن مجید کو ہم تک پہنچایا۔ اسی طرح ہمیں ترتیل کو صوتی شکل میں جمع (ریکارڈنگ) کرکے آئندہ آنے والے مسلمانوں کو جس قدر ممکن ہو تلقی کا بہترین معیار فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بارگاہ الٰہی میں ہمارا نام بھی خدام قرآن میں شامل ہوجائے۔
لہٰذا انہوں نے اس فکر اور ولولہ کے ساتھ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ابتداء ًانہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ علماء سے اس کام کو کرنے کے لئے باقاعدہ فتویٰ حاصل کیا جائے۔ جس پر علماء نے اولاً تو پس و پیش سے کام لیا کہ جو کام تاریخ اسلام میں نہیں ہوا اس کو ہم کس طرح کرسکتے ہیں تو ڈاکٹر لبیب سعیدرحمہ اللہ نے یہ کہہ کر علماء کو مطمئن کیا کہ اس سے پہلے ایسے ذرائع ہی میسرنہیں تھے اور جو ذرائع میسر تھے علماء ان کو کام میں لائے ہیں، مثلاً کتب لکھنا، تلقِّی کے ذریعہ قرآن آگے پہنچاناوغیرہ۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی طرح اللہ تعالیٰ نے علمائے مصر کے سینے کھول دیئے اور انہوں نے ریکارڈنگ (جمع صوتی) کی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ دیگر وسائل مثلاً سٹوڈیو وغیرہ کے سلسلہ میں بھی کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔بالآخر شیخ محمود خلیل حصری رحمہ اللہ روایت حفص کی ریکارڈنگ کرانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن بوجوہ ان کا یہ مبارک کام آگے نہ بڑھ سکا، لیکن وہ اپنی اس سچی تڑپ اور قرآن کی محبت کو مقالہ کی صورت میں قلمبند کرگئے جس نے ہمیں یہ مضمون لکھنے پر ابھارا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جمع صوتی کے فوائد
جمع صوتی کے فوائد کو اگر بالاستیعاب ذکر کیا جائے تو بے شمار بن سکتے ہیں لیکن ہم صرف وہ فوائد ذکر کریںگے جو ڈاکٹر لبیب سعید نے اپنے مقالہ میں ذکر کئے ہیں انہوں نے اس کام کے تین فوائد ذکر کئے ہیں:
(١) ثبوت ِتلقِّی (٢) قراء ات متواترہ کی حفاظت (٣) قراء ات شاذہ کی تلاوت سے روک تھام
(١) ثبوتِ تلقّی
اہل فن کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ تلقّی کے بغیر ثبوت قرآن ممکن نہیں۔ عہد نبوی سے لے کر آج تک اَخذ قرآن کاسلسلہ تلقّی ہی رہاہے، جیساکہ سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’أخدت من فی رسول اﷲ ! سبعین سورۃً‘‘
’’میں نے اللہ کے رسولﷺ سے براہ راست ستر سورتیں حفظ کیں۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’قال رسول اﷲ! لأبی (إنَّ اﷲَ أمَرَنِیْ أنْ أَقْرَأ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ) قال: اﷲ سَمَّانِیْ: قَالَ (نَعَمْ)… إلی آخر روایۃ) (صحیح البخاري:۳۸۹)
’’جناب نبی کریم ﷺ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کو قرآن سناؤں۔ حضرت ابی نے عرض کیا: کیا اللہ نے میرا نام لیاہے۔ آپﷺ نے فرمایا ہاں…‘‘
دوسرے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:(أقرؤہم بکتاب اﷲ أبی بنُ کعب) (جامع الترمذي:۳۷۹۱)
’’کتاب اللہ کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔‘‘
مذکورہ روایات سے معلوم ہواکہ آپﷺ سے قراء ت قرآنی کو سب سے زیادہ اچھے انداز میں اخذ کرنے والے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے، اسی لئے جناب نبی کریمﷺ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کاحکم دیاگیا۔ اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ اللہ کے رسولﷺ سے مشافہۃً اخذ کرتے تھے جو ثبوت تلقی میں واضح دلیل ہے۔علماء بغیرتلقّی(صرف مصاحف سے) اَخذ قرآن سے منع فرماتے ہیں جیساکہ تیسیر مصطلح الحدیث میں موجود ہے:
’’لاتأخذوا القران من مصحفی ولا الحدیث من صحفیٍ‘‘ ( ص۱۷۲)
’’قرآن کو ایسے شخص سے نہ لو جس نے مصحف سے(بغیر تلقی) حفظ کیاہے اور نہ حدیث ایسے شخص سے لو جو کتابوں سے لے کر (بغیرشیخ کے)نقل کرتاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العلم ما کان فیہ قال حدثنا وماسویٰ ذلک وسواس الشیاطین‘‘(شرح العقیدۃ الطحاویۃ: ص۷۵)
’’علم صرف وہی ہے جس میں حدثنا ہو یعنی جو بذریعہ خبر اخذ کیا جائے اس کے علاوہ سب شیطان کے وسوسے ہی ہیں۔‘‘
ابن عجیبہ رحمہ اللہ نے تفسیر البحر المدید میں لکھا ہے:’’من لیس لہ شیخ فالشیطان شیخہ‘‘ (۶؍۳۴۹)
’’جس کاکوئی شیخ (استاد) نہ ہو اس کا شیخ شیطان ہوتاہے۔‘‘
مذکورہ اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ تلقّی کے بغیر محض کتابیں پڑھ کر حاصل کیے گئے علم کی سلف کے ہاں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جب باقی تمام علوم میں علماء تلقی کو لازمی قرار دیتے ہیں تو قرآن ،جس میں روایۃ بالمعنی حرام ہے اور ترتیل کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ اس میں یہ گنجائش کس طرح دی جاسکتی ہے؟ویسے بھی قرآن کریم کو بغیرتلقّی پڑھنا ممکن ہی نہیں ہے۔
قرونِ اولیٰ میں جب تک قرآن پر اعراب اورنقطے نہیں لگے تھے اس وقت قرآن بغیرتلقّی کے پڑھنا بالکل ناممکن تھا۔ اور مصحف سے تلاوت کرنے والے اکثر فحش غلطیاں کرتے تھے جس کے بارے میں بے شمار روایات ملتی ہیں۔ ہم ایک دو مثالوں کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔ اس بارے سب سے معروف روایت امام حمزہ الزیات کوفی رحمہ اللہ کی ہے جو کہ قراء سبعہ میں سے، ایک امام ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں شروع شروع میں قرآن مصحف سے سیکھا کرتا تھا ایک روز میں قرآن کی تلاوت کررہا تھا اور میرے والد گرامی سماعت فرما رہے تھے میں’’اَلٓمٓ ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘‘ (البقرۃ:۱)کی جگہ لازیت فیہ پڑھا یہ سن کر میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹا اور کہا جاؤ قراء سے قرآن سیکھو۔(شرح ما یقع فیہ التصحیف والتحریف للعسکری،ص۱۰ بحوالہ مقالہ جمع الصوتی الاوّل)
دوسری روایت امام کسائی رحمہ اللہ سے منقول ہے ، فرماتے ہیں شہر کرتی میں مجھے جس شے نے قرآن پڑھانے پرمجبور کیا وہ یہ تھی کہ ایک روز میں ایک معلّم کے پاس سے گزرا، جو بچوں کو قرآن پڑھا رہے تھے تو اس نے قرآن مجید کی آیت ’’ذَوَاتَیْ أُکُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَیْئٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ‘‘(سبا:۱۶) میں أثْلٍ کی جگہ أتْلٍ پڑھا میں نے یہ سن کر درگزر کیا اور پاس بیٹھے شخص نے معلّم کی تصحیح کروائی۔ اس نے کہا أثْلٍ نہیں بلکہ إبِلٍ ہے، تو میں نے اس (معلم) کوکہا چھوڑو میں بچوں کوپڑھاتا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قرآن نقطوں اور اعراب سے خالی تھا، لیکن آج بھی وہ کلمات جن کے وقف ووصل کے اعتبار پڑھنے میں اختلاف ہے مثلاً سَلٰسِلَا اور قَوَارِیْرَا وغیرہ ان کو بھی تلقّی من القراء کے پڑھنا انتہائی مشکل ہے اور ہم نے ایک ایسا تجربہ کیا ہے کہ بڑے بڑے دانشوروں سے قرآن کے ایسے مقامات پڑھنے کو کہا، لیکن انہوں نے غلط پڑھا۔ جب صاحب علم لوگوں کے لئے بغیر تلقی قرآن پڑھنا مشکل ہے تو عوام کس طرح قرآن کو درست پڑھ سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٢) قراء ات متواترہ کی حفاظت
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ جس طرح دوسری زبانوں میں تکلم کے کئی لہجات ہوتے ہیں اسی طرح عربی میں بھی مختلف علاقوں اور قبیلوں کے اعتبار سے لہجوں میں فرق پایاجاتاہے، جوایک فطری بات ہے۔نزول قرآن کے وقت عرب اپنے مخصوص لہجوں میں ہی کلام کرتے تھے اور ان لہجوں پر حمیت اور فخر کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں چھوڑنے کے لئے کسی طرح بھی تیارنہیں تھے، کیونکہ وہ ان کی پہچان کا ذریعہ تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ بوڑھے مرد اور عورتیں جن کی اپنے لہجوں پر کلام کرتے کرتے عمر بیت چکی تھی، ان کے لئے لہجہ بدلنا امر محال تھا۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جناب نبی کریمﷺ کی جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا:
(یَا جِبْرَئِیْلُ إنِّیْ بُعِثْتُ إِلَی أُمَّۃٍ أمِّیِّیْنَ مِنْھُمُ الْعَجُوْزُ،وَالشَّیْخُ الْکَبِیْرُ،وَالْغُلَامُ وَالْجَارِیَۃُ وَالرَّجُلُ الَّذِیْ لَمْ یَقْرَأ کِتَاباً قَطُّ،قَالَ یَا مُحَمَّدُ! إنَّ الْقُرْآنَ أنْزِلَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)
’’اے جبرئیل علیہ السلام مجھے اُمیوں کی طرف مبعوث کیاگیاہے۔ جن میں بوڑھی عورتیں ، بوڑھے مرد ، چھوٹے بچے اور بچیاں اور ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی کتاب نہیں پڑھی (تو سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا) اے محمدﷺ قرآن سبعہ احرف پر نازل کیاگیاہے۔‘‘ (تحفۃ الأحوذي: ۸؍۲۱۲)
مذکورہ وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کو سبعہ احرف پر نازل کیاگیا ہے جو آج قراء ات عشرہ متواترہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر قراء ات کو صوتی صورت (ریکارڈنگ) میں محفوظ کرلیا جائے تو قراء ات کا اختلاف اداء کے ساتھ محفوظ ہوجائے گا جو حفاظت قراء ات کاایک بہترین طریقہ ہے۔
(٣) قراء ات شاذہ کی تلاوت سے روک تھام
قرآن کریم کاوہ حصہ جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ ہوگیا تھا یاوہ کلمات جن کا تعلق تفسیرسے تھا اوربعض صحابہ نے قرآن کاحصہ سمجھ کر اسے قرآن میں شامل کرلیاتھا یا وہ قراء ات جو قراء ات متواترہ کے ثبوت کے اصولوں پر پوری نہیں اترتیں انہیں قراء ات شاذہ کہتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قراء ت ’’لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ(فی مواسم الحج) ‘‘ (البقرۃ:۱۹۸)
سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب قراء ات ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلوٰۃِ الْوُسْطٰی (ھی صلوۃ العصر)‘‘ (البقرۃ:۲۳۸)
سیدنا سعد بن ابی وقاص کی طرف منسوب قراء ات ’’وَلَہُ أخٌ أوْ أُخْتٌ(من أم) ‘‘ [النساء:۱۲)ہے۔
مصاحف عثمانیہ میں مواسم الحج،صلوٰۃ العصر اور من أم کے الفاظ نہیں تھے۔ یہ تمام قراء ات شاذہ ہیں۔ انہیں اور ان جیسے دوسرے کلمات کو بطور قرآن تلاوت کرنا ناجائز ہے۔
جب قراء ات قرآنیہ ریکارڈ ہوجائے گیں تو اس سے خود بخود متعین ہوجائے گا کہ اس کے علاوہ قراء ات کے باب میں پایا جانے والا اختلاف قرآن کے قبیل سے نہیں ہے۔ اس سے وہ قراء جو لاعلمی کی بناء پر قراء ات شاذہ پڑھتے ہیں باز آجائیں گے اورعوام کے لئے قراء ات متواترہ اورشاذہ کے مابین فرق کرنا آسان ہوجائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جمع صوتی کے حوالے سے کلِّیۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور دیگر اداروں کا کام
کلیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ
جمع صوتی کے حوالہ سے کلیۃ القرآن کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں اور یہ شوق کیونکہ موسس کلیہ استاذ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کا بھی تھا کہ قرآن کریم کی تلقِّی بھی محفوظ ہونی چاہئے، جس پر انہوں نے یہاں رہتے ہوئے مصحف المعلم ریکارڈ کروایااور بعد میں روایت ورش بھی ریکارڈ کروائی، جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
یہ بات یقینی ہے کہ استاد کے اندر کسی چیز کا شوق پایاجائے گا تو وہ یقیناً طلبا کی طرف بھی منتقل ہوگا، اسی وجہ سے کلیۃ القرآن کے حالیہ مدیر اور حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کے ہونہار شاگرد ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ محترم قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کی جہاں علم قراء ات کے فنی موضوعات پر گہری نظر ہے، وہاں اللہ نے انہیں خوش آوازی کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ اس وجہ سے تقریباً عرصہ دس سال سے مسلسل دولۃ الکویت میں اور گذشتہ سال سے متحدہ عرب امارات (دبئی) میں تراویح اور قیام اللیل کی امامت کروا رہے ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے یہ توفیق بخشی کہ انہوں نے قیام اللیل کو مختلف قراء ات میں کروانے کا طریقہ جاری کیا اور اسی پس منظر میں یہ حالات بن گئے کہ مختلف قراء ات میں قراء ات کی ریکارڈنگ کی ایک لہر چل پڑی، جس کی ابتداء انہی کی ایک کیسٹ سے ہوئی یوں ہوئی کہ تیسویں پارے کو بیس روایات میں ریکارڈ کروا کرنشر کیا جانے لگا۔ بعدازاں اسی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے پورے قرآن مجیدکو اسی پارے کی مثل بیس روایات میں ریکارڈ کروایا، جو کہ عالم اسلام میں اپنی نوعیت کاپہلا کام تھا ۔ اس کے بعد قاری صاحب موصوف حفظہ اللہ نے یہ پروگرام ترتیب دیا کہ قراء ات عشرہ میں سے ہر ایک روایت میں مکمل قرآن ریکارڈ کروایا جائے، چنانچہ الحمد للہ اب تک وہ چار عدد قرآن پاک مختلف روایات میں ریکارڈ کروا چکے ہیں، جن میں روایت اِسحاق عن خلف العاشر، روایت ادریس عن خلف العاشر، روایت ابی الحارث عن الکسائی اور روایت دوری عن الکسائی شامل ہیں، جو نظرثانی کے بعد اب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ اللہ ان کو اور پورے کلیہ کو اس سلسلہ میں کام مزید آگے بڑھانے اور اس پروگرام کو مکمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مجمّع الملک فھد بن عبد العزیز
بیسویں صدی میں خدمت قرآن کے سلسلہ میں جو کام مجمع ملک فہد نے کیا ہے، ماضی کی تاریخ میں شائد ہی اس کی مثال مل سکے۔ جمع صوتی کے سلسلہ میں سب سے پہلے مجمع ملک فہد کی زیرنگرانی سعودیہ سے باقاعدہ إذاعۃ القرآن الریاض کی طرف سے ایک پروگرام نشر کیا جاتارہاہے، جس میں تلاوت کا انداز یہ تھا کہ ایک قاری استاد کے سامنے قراء ات سبعہ میں جمع الجمع کے اُسلوب پر اجراء کرتا تھا۔ اس پروگرام کا سبب یہ بنا کہ ریڈیو سعودی عرب کے بعض ذمہ داران جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے دورہ کے لئے آئے۔ اسی دوران جب ان کا مسجد میں جانا ہوا تو وہاں بعض طلباء بیٹھے اجراء کررہے تھے۔ زائرین کے طلب کرنے پر جب طلباء نے بتایا کہ ہم قراء ات سبعہ پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کچھ حصہ ہمیں ریکارڈ کروائیں، جس پر شیخ القراء قاری احمد میاں تھانوی حفظہ اللہ نے جمع الجمع میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی۔ بعدازاں سامعین میں اس طرزِ تلاوت کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ انہوں نے ریڈیو سے مطالبہ کیا کہ یہ پروگرام باقاعدہ نشر کیا جائے۔ پاکستان کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس پروگرام میں جن بنیادی دو قراء نے ریکارڈنگ کروائی ان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ میری مراد شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ سے ہے، جن کی آواز میں ایک لمبا عرصہ قرآن کریم متعدد قراء ات کے جمع کے ساتھ ریڈیو ریاض سے نشر ہوتا رہا، جو کہ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے۔
اس کے علاوہ مجمع نے سابق امام مسجد نبوی الشیخ محمد ایوب حفظہ اللہ اور شیخ المدینہ الشیخ ابراہیم الاخضر حفظہ اللہ کی آواز میں روایت حفص میں معیاری تلفظ کے ساتھ المصحف المرتّل نشر کیا، جو اہل اداء کے لیے ایک گراں قدر خزانہ ہے۔ بعد ازاں الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ کی آواز میں مجمّع سے روایت قالون عن الامام نافع میں معیاری اداء کے ساتھ المصحف المرتّل ریکارڈ ہوکرنشر ہوا۔ اس کے بعد عالم اسلام میں روایت حفص کی مثل معروف دوسری روایت ورش عن الامام نافع کی ریکارڈنگ کا پروگرام بنایا گیا۔ روایت ورش کی اداء کی باریکیوں کے پیش نظر مناسب قاری کا انتخاب مشکل مرحلہ تھا، لیکن اللہ کی قدرت کاملہ دیکھیں کہ اس اہم معاملہ کے لیے جب نظر انتخاب پڑی تو تلاوت کی سعادت کے لیے استاذنا وسیدنا شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کا نام نامی سامنے آیا۔ یہاں ایک جو انتہائی اہم کام جس کا تذکرہ ضروری ہے ، وہ یہ ہے کہ کبار قراء مصر اور اساطین ِعلم کی موجودگی میں اس ریکارڈنگ کا اہتمام کیا گیا۔ ان اساطین علم میں الشیخ سید عامر عثمان رحمہ اللہ، الشیخ عبدالعزیز الزیات رحمہ اللہ، الشیخ ابراہیم شحاثہ السمنُّودی رحمہ اللہ، الشیخ عبد الفتاح المرصفی رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم شامل تھے۔ یہ قرآن بعض وجوہات کی وجہ سے مکمل تو نہیں ہوپایا، لیکن جس قدر کام ہوا، بہت اہم ہے،جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
عالمی ادارہ دار السلام، ریاض
اس کے علاوہ پبلشنگ کے عالمی ادارے دارالسلام نے بھی اس عظیم کام میں اپنا ایک حصہ ڈالا ہے، جس کی تفصیل یہ کہ حضرت قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی آواز میں ایک مصحف المعلِّم تیار کیا گیا ہے، جو تقریباً ۴۰ کیسٹس پر مشتمل ہے۔ یہ انتہائی گراں قدر خدمت ہے۔ اس کا اندازیوں ہے کہ قرآن کریم میں اوقاف سے قطع نظر سکھانے کی غرض سے ہر اس کلمہ پر وقف کیا گیا ہے۔ مختصر اوقاف کی بدولت ہر سطح کا طالب علم اس سے مکمل فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پھر حدر کے بجائے تحقیق کاانداز اپنایاگیا ہے، تاکہ سامع پوری طرح حروف کی اَداء کو ذہن نشین کرکے تلاوت کرے۔ اللہ تعالیٰ قاری صاحب حفظہ اللہ کی اس محنت شاقہ کو قبول فرمائے اور دارالسلام کے تعاون کا انہیں پورا پورا صلہ دے۔ اس کے علاوہ دار السلام، لاہور نے حضرت قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی ہی آواز میں روایت ورش میں بھی مکمل قرآن پاک ریکارڈ کیاہے۔ اس علمی کام کے علاوہ دارالسلام عالم ِاسلام کے معروف قراء کی آواز میں سینکڑوں کیسٹس اور سی ڈیز نشر کرچکا ہے۔ اللہ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تسجیلات حنین الاسلامیۃ،مکہ مکرمہ
اگر آپ کو بیت اللہ کی زیارت نصیب ہوئی ہو تو آپ کو یاد ہوگا، کہ جب آپ بیت اللہ کے صحن سے اپنی آغوش کو رحمت الٰہی سے بھر کر باب عبدالعزیز سے نکلتے ہوں گے تو آپ کے کانوں سے تلاوت قرآن اور عربی ترانوں کی بہت خوبصورت آوازیں ٹکراتی ہوں گی۔ اگر آپ ان آوازوں کی طرف چل دیں، توجس مقام پر آپ پہنچیں گے، اُسے تسجیلات حنین الاسلامیۃ کہتے ہیں۔ ہمارے علم کے مطابق صوتیات کے سلسلہ میں اگر فن قراء ات کی کسی ادارے کی سب سے زیادہ خدمات ہیں تو وہ یہی ادارہ ہے، جو اب تک روایت حفص کے علاوہ بیس کے قریب دنیا کے معروف مجودین قراء کی آواز میں قرآن کریم متعدد قراء ات میں نشر کرچکا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(١) مصری دنیا کے استاد القراء والمقاری اورلجنۃ مراجعۃ المصاحف، جامعہ الازھرکے رئیس الشیخ اَحمد عیسیٰ المعصراوی حفظہ اللہ کی آواز میں چار مختلف سیٹ نشر کیے جا چکے ہیں، جن میں آخری چارپاروں میں سے ہر ایک کو بیس بیس روایات میں ریکارڈ کیا گیا ہے اور چار مختلف البموں کی صورت میں نشر کیا گیا ہے۔
(٢) الشیخ محمد عبدالحکیم عبداللطیف عبداللہ حفظہ اللہ کی آواز میں اہل حنین پانچ روایات میں قرآن کریم نشر کرچکے ہیں، جن میں روایۃ شعبہ عن الامام عاصم، روایۃ البزی وروایۃ قنبل عن عبداﷲ بن کثیر المکی ،روایت حفص عن الامام عاصم بطریق طیبۃ النشراور روایت الدوری عن علی الکسائی شامل ہیں۔
(٣) دولۃ قطر کے معروف استاد الشیخ عبدالرشید بن شیخ علی الصوفی حفظہ اللہ کی آواز میں پانچ روایات روایت الدوری و روایت السوسی عن الام ابی عمرو بصری، روایت خلف عن حمزہ الکوفی، روایت شعبہ عن الامام عاصم اور روایت ابی الحارث عن علی الکسائی میں قرآن پاک نشر ہوچکے ہیں۔
(٤) الشیخ ولید علی محمدالنائحی حفظہ اللہ کی آواز میں مصحف قالون عن الامام نافع بھی نشر ہو چکاہے۔
(٥) کویت کے مایہ ناز عالم قاری الشیخ ڈاکٹر یاسرالمزروعی حفظہ اللہ کی صوت میں قراء ت یعقوب بھی نشر ہوچکی۔
(٦) مراکش کے معروف قاری الشیخ عیون الکوشی حفظہ اللہ کی آواز میں حنین نے روایت ورش عن نافع بھی نشر کی ہے۔
تسجیلات حنین کے طرف سے نشر شدہ یہ تمام مصاحف کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہورکے مکتبہ میںموجود ہیں۔ ہم بارگاہ الٰہی میں دعا گو ہیں کہ باری تعالیٰ انہیں مزید خدمت قرآن کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تسجیلات حامل المسک الإسلامیۃ، الکویت
کویت میں تسجیلات کا عالمی ادارہ حامل المسک بھی خدمت قرآن میں پیش پیش ہے، جوکہ مصر کے عالمی ادارہ تسجیلات ہائی کوالٹی اور سعودیہ کی سب سے بڑی ریکارڈنگ کمپنی تسجیلات ابن الخطاب الاسلامیہ، الریاض کے ہمراہ عرصہ دراز سے قراء ات ِ قرآنیہ کی نشر و اشاعت میں مشغول ہے ۔ کلِّیۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تعارف میں ہم نے الشیخ ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کے کام کا تذکرہ کیاتھا، اس کے ریکارڈنگ اور نشر کا اہتمام بھی ادارہ حاملُ المسک ہی کر رہا ہے۔ اس ادارہ کے مزید کاموں کی تفصیل درج ذیل ہے:
(١) الشیخ عثمان الخمیس مصری حفظہ اللہ کی آواز میں مصحف رویس عن یعقوب ریکارڈ ہو کر نشر ہوچکا۔
(٢) ڈاکٹر یاسرالمزروعی حفظہ اللہ کی آواز میں روایت بزی و قنبل عن ابن کثیر المکی بھی ریکارڈ ہوچکی ہے۔
(٣) الشیخ محمود الشیمی مصری حفظہ اللہ روایت دوری عن علی الکسائی ریکارڈ کروا چکے ہیں اور یہ مصحف بھی نشر ہوچکا۔
(٤) حامل المسک الاسلامیہ نے کویت کے معروف قاری الشیخ صلاح الہاشم حفظہ اللہ کی آواز میں روایت حفص کا معیاری اداء کے ساتھ قرآن کریم بھی نشر کیا ہے اور متعدد روایات میں بعض کیسٹس اور سی ڈیز بھی نشر کی ہیں۔
(٥) الشیخ القاری مشاری بن راشد العفَّاسی حفظہ اللہ کی آواز میں مختلف روایات میں ۸۰ کے قریب کیسٹس اور سی ڈیز نشر کرچکے ہیں، جن میں روایت شعبہ وروایت حفص عن الامام عاصم الکوفی کے مکمل قرآن کی ریکارڈنگ بھی شامل ہے۔ ان مصاحف کی ریکارڈنگ میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ شیخ المقاری المصریۃ ڈاکٹر عیسیٰ المعصروای حفظہ اللہ کی موجودگی میں فنی اہتمامات کے ساتھ یہ ریکارڈنگ مکمل ہوئی ہے۔ الشیخ مشاری حفظہ اللہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ بیس سالوں میں ہر سال ایک روایت کی ریکارڈنگ کروا کر جمع صوتی کے اَہم منصوبہ کو مکمل کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تیسرا مرحلہ : جمع کتابی

اس کو ہم نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
(١) تاریخی پس منظر (٢) جمع کتابی
(١) تاریخی پس منظر
مصاحف عثمانیہ جب مختلف بلاد ِاسلام میں پہنچے تو لوگوں نے نامہ الٰہی کودل و جان سے قبول کیا اور ان کو سامنے رکھ کر مزید کئی مصاحف تیارکئے جن کو مصاحف عثمانیہ کا سا ہی تقدس حاصل ہوا ،لیکن یہ نقول بھی مصاحف عثمانیہ کی طرح نقطوں اور اعراب سے خالی تھیں۔ کافی عرصہ تک لوگ انہی مصاحف سے تلاوت کرتے رہے لیکن جب سلطنت اسلامیہ بہت زیادہ وسیع ہوگئی اور عجمی لوگ بکثرت اسلام میں داخل ہوگئے تو ان کے لئے نقطوں اور اعراب کے بغیر تلاوت کرناناممکن تھا۔ اور بعض دفعہ ان سے دوران تلاوت بہت فحش غلطیاں صادر ہوجاتی تھیں۔جس پر زیاد بن ابیہ نے أبوالأسود الدؤلی کو اس کام کے لئے منتخب کیا۔انہوں نے اعراب قرآن کو پہلی مرتبہ نقطوں کی شکل میں واضح کیا۔ ان کو نقط اعراب کہتے ہیں اور حروف معجمہ اور مہملہ کے مابین فرق کرنے کے لئے یحییٰ بن یعمر عدوانی رحمہ اللہ اور نصر بن عاصم اللَّیثی رحمہ اللہ نے نقطے لگائے جن کونقطہ الاعجام کہا جاتاہے۔ بعد میں امام خلیل بن احمد فراہیدی رحمہ اللہ نے نقطہ الاعراب کو حرکات کی شکل دی اور مزید یہ کام ہواکہ قرآن کریم کو پاروں، رکوعات، منازل اور احزاب میں تقسیم کیاگیا۔اس کے بعد ہردور میں کسی نہ کسی طرح قرآن کی خدمت جاری رہی اور خصوصاً کتابت قرآن پربہت کام ہوا،مثلاً مختلف رنگوں میں مختلف خطوں میںچاندی اور سونے کے پانی اور تاروں سے کتابت قرآن ہوئی۔ یہاں تک کہ دور طباعت شروع ہوا اور پوری دنیامیں قرآن کی طباعت مقابلہ کے انداز میں ہونے لگی، لیکن یہاں ایک غلطی ہوئی کہ ناشرین قرآن نے رسم عثمانیہ کا التزام ترک کردیااور ایشیا میں یہ کام زیادہ ہوا۔ علماء اور قراء اس کمی کو شدت سے محسوس کرے رہے تھے۔
بالآخر مصر کے ایک بہت بڑے عالم علامہ رضوان بن محمدمخلِّلاتی رحمہ اللہ نے دوبارہ رسم عثمانی کے احیاء کے لئے اقدام کیا اور ایک مصحف رسم عثمانی کے موافق شائع کردیا۔٭ اگر میں یہاں یہ بات کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہی تحریک جس کی ابتداء حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی تھی اور ابوالأسودرحمہ اللہ، یحییٰ بن یَعْمَررحمہ اللہ اور خلیل احمد فراہیدی رحمہ اللہ جیسے علماء نے جسے ترقی دی،دوبارہ پھر شروع ہوگئی۔ علامہ مخلَّلاتی رحمہ اللہ نے بہت عظیم الشان کام کیا، لیکن اس میں ایک دو کمیاں رہ گئی تھیں۔ ایک تو یہ اس مصحف میں علم ضبط کی پابندی نہیں کی گئی تھی، بلکہ مروجہ ضبط کے موافق شائع کردیاگیا اور دوسرا طباعت اور کاغذ کامعیار اچھا نہیں تھا۔ چنانچہ والی مصر الملک فواد الاوّل مرحوم نے حکومتی سطح پر دوبارہ شائع کرنے کا پروگرام بنایا اور علامہ خلف الحسینی رحمہ اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی جنہوں نے رسم عثمانی اور علم ضبط کے قواعد کے مطابق ایک مصحف تیارکیا، جسے حکومت مصر نے بہترین انداز میں شائع کیا۔ یہ تسلسل برقرار رہا، یہاں تک کہ خادم الحرمین الشریفین الملک فھد بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے دوبارہ ایک مصحف شائع کرنے کا پروگرام بنایااور اس کام کے لئے مجمّع الملک فھد کے نام سے قرآن کریم کی نشرواشاعت کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کیا، جس میں اس وقت کے کبار علماء قراء ات و علوم قرآن کو مصر اور دیگر بلادِ اسلامیہ سے جمع کیا، جنہوں نے باقاعدہ رسم عثمانی اور ضبط کااہتمام کرتے ہوئے پوری محنت اور کوشش کے ساتھ ایک معیاری مصحف تیار کیا، جس کو بعد ازاں مجمّع نے شائع کیا۔ ہماری معلومات کے مطابق عالم ِ اسلام میں مصحف مدینہ علمی وطباعتی معیار میں پہلا مقام رکھتا ہے۔ اس کام کی تکمیل کے بعد مجمع نے پروگرام بنایا کہ دنیا میں پڑھی جانے والی دیگرتین روایات میں بھی اسی معیار کے مطابق مصاحف شائع کیے جائیں، لہٰذا دنیا میں تلاوت کی جانے والی باقی تین روایات قالون، ورش اور دوری بصری کے مصاحف بھی مجمّع نے اسی معیار پر شائع کیے ، جس معیار پر قبل ازیں روایت حفص کو نشر کیا تھا،جس سے اِن روایات میں پایا جانے والا وہ اختلاف، جو کتب قراء ات میں موجود تھا، مصاحف کی شکل میں عملی طور پر سامنے آگیا۔
 
Top