- شمولیت
- مارچ 04، 2011
- پیغامات
- 790
- ری ایکشن اسکور
- 3,982
- پوائنٹ
- 323
لغت سے معانی ومفاہیم کا اخذ یعنی نص کی عبارۃ ‘ اشارہ‘ اقتضاء‘ وغیرہ کو کیسے سمجھا جاتا ہے یہ اس کا محل نہیں کیونکہ موضوع صرف اجماع سے متعلق ہے ۔جزاك الله شيخ صاحب
اجماع كى تعلق سى عبدالعلام صاحب كو فراهم كرده لنك مى آنجناب مفيد نكات زير بحث لائى هين
عموما سوره نساء آيت 115 اجماع كى حجيت مى سامنى لائي جاتى هئ. استدلال 4 طرح كياجاتا هئ. عبارة النص, اشارةالنص , دلالةالنص اور اقتضاءالنص سى
همين سمجهان كى غرض سى ان 4 اصطلاحات كى مختصر تشريح كرين اور ساته ساته ان اصطلاحات كى روشنى مى متذكره بالا آيت سى حجيت اجماع كيونكر ثابت نهي كى ؟ رهنمائ فرمايىن.
اس آیت سے حجیت اجماع کیوں ثابت نہیں ہوتی اس بات کی وضاحت بھی میں نے وہیں پر کی ہوئی ہے ۔
میں نے لکھا ہے :
(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً)
اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔( النسآء:۱۱۵)
یہاں سبیل مؤمنین سے موصوف اجماع مراد لے رہے ہیں جبکہ سبیل مؤمنین رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی موجود تھا اور اس وقت یہ نام نہاد اجماع یعنی کتاب وسنت کی کسی بھی نص سے مسئلہ استنباط کیے بغیر مجتہدین کا اجماع موجود نہ تھا ۔
یعنی یہ آیت کریمہ تو واضح کر رہی ہے کہ حجت وشریعت صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اس دور کے مؤمنین صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ہی مسائل اخذ کرتے تھے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سبیل مؤمنین اجماع نہیں بلکہ کتاب وسنت سے استنباط واجتہاد ہے !
اور موصوف نے "سبیل المؤمنین" کا معنى "اجماع" ثابت کرنے کے لیے ایسے قیل وقال کا سہارا لیا ہے جو خود حجت نہیں ہیں ۔
جبکہ اسی لفظ کا معنى "رجوع إلى الکتاب والسنہ" اسی آیت کی دلالت میں موجود ہے ۔