• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقیقت کی تلاش

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

بسم اللہ الرحمن الرحیم






مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین ، علی گڑھ کی طرف سے
ستمبر 1958 کے پہلے ہفتہ میں اسلامی تقریروں کا اک سلسلہ
" سیریز آف لکچرس آن اسلام " کے عنوان سے جاری
کیا گیا تھا درج ذیل مقالہ اسی سلسلہ کے تحت 6/ستمبر کو
یونیورسٹی کے یونین ہال میں پڑھا گیا –

 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

کائنات اک بہت بڑی کتاب کی مانند ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر یہ اک ایسی انوکھی کتاب ہے جس کے کسی صفحہ پر اس کا موضوع اور اسکے مصنف کا نام تحریر نہیں اگر چہ اس کتاب کا اک اک حرف یہ بول رہا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہوسکتا ہے اور اسکا مصنف کون ہے – جب کوئی شخص آنکھ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اک وسیع و عریض کائنات کے درمیان کھڑا ہے تو بالکل قدرتی طور پر اس کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ ---- " میں کون ہوں اور یہ کائنات کیا ہے –" وہ اپنے آپ کو اور کائنات کو سمجھنے کیلئے بے چین ہوتا ہے اپیہ فطرت میں سموئے ہوئے اشارات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے دنیا میں وہ جن حالات سے دوچار ہورہا ہے چاہتا ہے کہ وہ انکے حقیقی اسباب معلوم کرے غرض اس کے ذہن میں بہت سے سولات اٹھتے ہیں جنکا جواب معلوم کرنے کیلئے وہ بیقرار رہتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے یہ سوالات محض فلسفیانہ قسم کے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی فطرت اور اسکے حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں – یہ ایسے سوالات ہیں جن سے دنیا میں تقریبا ہر شخص کو اک بار گزرنا ہوتا ہے – جن کا جواب نہ پانے کی صورت میں کوئی پاگل ہوجاتا ہے ،کوئی خودکشی کرلیتا ہے ،کسی کی ساری زندگی بے چینیوں میں گذرجاتی ہے اور کوئی اپنے حقیقٰی سوال کا جواب نہ پاکر دنیا کی دلچسپیوں میں کھوجاتا ہے اور چاہتا ہے اسی میں گم ہوکر اس ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرے – وہ جو کچھ حاصل کرسکتا ہے اسکو حاصل کرنے کی کوشش میں اسکو بھلا دیتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کرسکا -
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

اس سوال کو ہم ایک لفظ میں " حقیقت کی تلاش " کہہ سکتے ہیں لیکن اسکا اگر تجزیہ کریں تو یہ بہت سے سولات کا مجموعہ نکلے گا- یہ سوالات کیا ہیں – ان کو مختلف الفاظ میں ظاہر کیا جاسکتا ہے مگر میں اپنی آسانی کیلئے ان کو مندرجہ ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کرونگا :

١۔ خالق کی تلاش ٢۔ معبود کی تلاش ٣۔ اپنے انجام کی تلاش

میرے نزدیک حقیقت کی تلاش دراصل نام ہے ان ہی تینوں سوالات کا جواب معلوم کرنے کا – آپ خواہ جن الفاظ میں بھی اس سوال کی تشریح کریں – مگر حقیقتا وہ اسی کی بدلی ہوئی تعبیر ہوگی اور انہیں تین عنوانات کے تحت انھیں اکٹھا کیا جاسکے گا –

بظاہر یہ سوالات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا کوئی بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ان کا جواب لکھ کر رکھ دیا گیا ہو – مگر حقیقت یہ ہے کہ جو سوال ہے اسی کے اندر ان کا جواب بھی موجود ہے – کائنات اپنی حقیقت کی طرف آپ اشارہ کرتی ہے اگر چہ وہ ہم کو یقینی علم تک نہیں لے جاتی لیکن یہ اشارہ اتنا واضح اور قطعی ہے کہ اگر ہم کو کسی ذریعہ سے حقیقت کا علم ہوجائے تو ہمارا ذہن پکار اٹھتا ہے کہ یقینا یہی حقیقت ہے ،اسکے سوا کائنات کی کوئی اور حقیقت نہیں ہو سکتی-
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

کائنات کو دیکھتے ہی جو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اسکا بنانے والا کون ہے اور کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو چلا رہا ہے – پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی غیر مرئی طاقتیں اس کائنات کی مالک ہیں – اک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کر رہے ہیں – اب بھی بہت سے لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں – مگر علمی دنیا میں عام طور پر اب یہ نظریہ ترک کیا جا چکا ہے – یہ اک مردہ نظریہ ہے نہ زندہ نظریہ- موجودہ زمانے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں ؛ وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں – ان کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ اک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے – اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آئینگے- اس طرح اسباب و واقعات کااک لمبا سلسلسہ قائم ہوجاتا ہے اور یہی سلسلئہ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے- اس توجیہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ایک " اتفاق " اور دوسرا " قانون علت " law of causationیہ توجیہ بتاتی ہے کہ اب سے تقریبا دو لاکھ ارب سال ( 20 نیل سال ) پہلے کائنات کا وجود نہ تھا- اس وقت ستارے تھے اور نہ سیارے مگر فضاء میں مادہ موجود تھا- یہ مادہ اس وقت جمی ہوئی ٹھوس حالت میں موجود نہ تھا بلکہ اپنے ابتدائی ذرے یعنی برقیے اور پروٹونوں کی شکل میں پوری فضائے بسیط میں یکساں طور پر پھیلا ہوا تھا – گویا انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کا اک غبار تھا– جس سے کائنات بھری ہوئی تھی - اس وقت مادہ بالکل توازن کی حالت میں موجود تھا - اس میں کسی قسم کہ حرکت نہ تھی – ریاضی کہ نقطہ نگاہ سے یہ توازن ایسا تھا کہ اگر کوئی اس میں ذرا سا بھی خلل ڈالے تو پھر یہ قائم نہ رہ سکتا – یہ خلل بڑھتا ہی چلا جائیگا - اگر اس ابتدائی خلل کو مان لیجئے تو ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کے تمام واقعات علم ریاضی کے ذریعہ ثابت ہوجاتے ہیں چنانچہ ایسا ہوا کہ مادہ کہ اس بادل میں خفیف سا خلل ہوا جیسے کوئی کسی پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر ہلا دے – کائنات کی پر سکون دنیا میں یہ خلل کس نے پیدا کیا – یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جسے ہم ستارے ،سیارے اور سحابئے کہتے ہیں

کائنات کی یہ توجیہ سائنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس قدر بودی اور کمزور توجیہ ہے کہ کبھی خود سائنس دانوں کو بھی اس پر شرح صدر حاصل نہ ہوسکا – یہ توجیہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کائنات کو سب سے پہلے کس نے حرکت دی تھی مگر اس کے باوجود اس کا دعوی ہے کہ اس نے کائنات کے محرک اول کو معلوم کرلیا ہے اور اس محرک اول کا نام اس کے نزدیک اتفاق ہے – سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ موجود تھا اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب و غریب قسم کا اتفاق کہاں سے وجود میں آگیا جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی – جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے اور نہ مادہ کے باہر – وہ واقعہ وجود میں آیا تو کیسے ؟ اس توجیہ کا یہ نہایت دلچسپ تضاد ہے کہ وہ ہر واقعہ سے پہلے اک واقعہ کا ہونا ضروری قرار دیتی ہے جو بعد کو ظاہے ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے مگر اس توجیہ کی ابتداء ایک ایسے واقعہ سے ہوتی ہے جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں یہی وہ بنیادی مفروضہ ہے جس پر کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریہ کی پوری عمارت کھڑا کردی گئی ہے –

پھر یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طور پر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے جو انھوں نے اختیار کیا – کیا اسکے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا – کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوجائیں – مادہ میں حرکت پیدا ہونے کہ بعد کیا یہ ضروری تھا کہ یہ محض حرکت نہ رہے بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے اور حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ موجودہ کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کردے – آخر وہ کونسی منطق تھی جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی اس کو لا متناہی خلا میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ پھرانا شروع کردیا – پھر وہ کونسی منطق تھی جس نے کائنات کے اک بعید ترین گوشہ میں نظام شمسی کو وجود دیا – پھر وہ کونسی منطق تھی جس سے ہمارے کرہ زمین پر وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہوئیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہوسکا اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بیشمار دنیاؤں میں سے کسی ایک دنیا میں بھی نہیں معلوم کیا جاسکا ہے – پھر وہ کونسی منطق تھی جو ایک خاص مرحلہ پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی – کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے؟

پھروہ کونسی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک چھوٹے سے رقبہ میں حیرت انگیز طور پر وہ تمام چیزیں پیدا کردیں جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کیلئے درکار تھیں ،پھروہ کونسی منطق ہے جو جو ان حالات کو ہمارے لئے باقی رکھے ہوئے ہے – کیا محض اتفاق کا پیش آجانا اس بات کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسن ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں اور اربوں اور کھربوں سالوں تک ان کا سلسلہ جاری رہے اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے – کیا اس بات کی کوئی واقعی توجیہ کی جاسکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آنے والے واقعہ میں لزوم کی صفت کہاں سے آگئی اور اتنے عجیب و غریب طریقے پر مسلسل ارتقاء کرنے کا رجحان اس میں کہاں سے پیدا ہوگیا ؟
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

یہ اس سوال کا جواب تھا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی – اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو اس قدر منظم طریقے پر حرکت دے رہا ہے اس توجیہ میں جس کو کائنات کا خالق قرار دیا گیا ہے اسی کو کائنات کا حاکم قرار نہیں دیا جاسکتا – یہ توجیہ عین اپنی ساخت کہ اعتبار سے دو خدا چاہتی ہے کیونکہ حرکت اول کی توجیہ کیلئے تو اتفاق کا نام دیا جاسکتا ہے مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو کسی حال میں بھی اتفاق نہیں کہا جاسکتا – اسکی توجیہ کیلئے دوسرا خدا تلاش کرنا پڑیگا

اس مشکل کو حل کرنے کیلئے" اصول تعلیل principle of causation پیش کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ حرکت اول کے بعد کائنات میں علت اور معلول کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا کہ ایک کہ بعد ایک تمام واقعات پیش آتے جارہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بچے بہت سی ایٹیںہ کھڑی کرکے کنارے کی ایک اینٹ گرادیتے ہیں تو اس کے بعد کی تمام اینٹیں خود بخود گرتی چلی جاتی ہیں جو واقعہ ظہور میں آتا ہے اس کا سبب کائنات کے باہر کہیں موجود نہیں بلکہ نا قابل تسخیر قوانین کے تحت حالات ماقبل کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور یہ سابقہ حالات بھی اپنے سے پہلے واقعات کا لازمی نتیجہ تھے – اس طرح کائنات میں علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوگیا ہے – حتی کہ جس صورت میں تاریخ عالم کا آغاز ہوا اس نے آئندہ سلسلہ واقعات کا قطعی فیصلہ کردیا ہے – جب ابتدائی صورت ایک دفعہ معین ہوگئی تو قدرت صرف ایک ہی طریق سے منزل مقصود تک پہنچ سکتی تھی گویا کائنات جس روز پیدا ہوئی اس کی آئندہ تاریخ بھی متعین ہوچکی ہے –

اس اصول کو قدرت کا اساسی قانون مقرر کرنا سترہویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا – چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی کہ تمام کائنات کو ایک مشین ثابت کیا جائے – انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ تحریک اپنے عروج پر آگئی یہ زمانہ سائنسداں اور انجنئیروں کا تھا جنکی دلی خواہش تھی کہ قدرت کے مشینی ماڈل بنائے جائیں – اسی زمانے میں ہیلم ہولٹز Helm Holtz نے کہا تھا کہ " تمام قدرتی سائنسوں کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کرلینا ہے-" اگر چہ اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی تشریح کرنے میں ابھی سائنسدانوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی مگر ان کا یقین تھا کہ کائنات کی تشریح میکانیکی پیرائے میں ہو سکتی ہے – وہ سمجھتے تھے کہ صرف ٹھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے اور بالآخر تمام عالم ایک چلتی ہوئی مشین ثابت ہوجائے گا-

ان باتوں کا انسانی زندگی سے تعلق صاف ظاہر تھا- اصول تعلیل کی ہر توسیع اور قدرت کی ہر کامیاب میکانیکی تشریح نے اختیار انسانی پر یقین کرنا محال بنادیا کیونکہ اگر یہ اصول تمام قدرت پر حاوی ہے تو زندگی اس سے کیو ں مستثنی ہو سکتی ہے – اس طرز فکر کے نتیجہ میں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے میکانیکی فلسفے وجود میں آئے – جب یہ دریافت ہوا کہ جاندار خلیہ Living cell بھی بے جان مادہ کی طرح ایک سے کیمیاوی جوہروں سے بنا ہے تو فورا سوال پیدا ہوا کہ وہ خاص اجزاء جن سے ہمارے جسم و دماغ بنے ہوئے ہیں کیونکر اصول تعلیل کے دائرے سے باہر ہوسکتے ہیں – چنانچہ یہ گمان کیا گیا بلکہ بڑے جوش کے ساتھ یہ دعوی کردیا گیا کہ زندگی بھی ایک خالص مشین ہے یہاں تک کہا گیا کہ نیوٹن ، باخ اور مائیکل انگلوکے دماغ چھاپنے والی مشین سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ بیرونی محرکات کا مکمل جواب دیں –

مگر سائنس اس سخت اور غیر معتدل قسم کے اصول علت کی اب قائل نہیں ہے – نظریہ اضافیت اصول تعلیل کو دھوکے Illusion کے لفظ سے یاد کرتا ہے- انیسویں صدی کے آخر ہی میں سائنس پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ کائنات کے بہت سے مظاہر ، بالخصوص روشنی اور قوت کشش ، میکانیکی تشریح کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں – یہ بحث ابھی جاری تھی کہ کیا ایسی مشین بنائی جاسکتی ہے جو نیوٹن کے افکار ، باخ کے جذبات اور مائیکل انگلو کے خیالات کا اعادہ کرسکے مگر سائینسدانوں کو بڑی تیزی سے یہ یقین ہوتا جا رہا تھا کہ شمع کی روشنی اور سیب کا گرنا کوئی مشین نہیں دہرا سکتی – قدیم سائینس نے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کرسکتی ہے جو اول روز سے علت اور معلول کی مسلسل کڑی کے مطابق ابد تک کیلئے معین ہوچکا ہے مگر بالآخر سائینس کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس قدر اٹل طور پر اس کے مستقبل کا سبب نہیں ہے جیسا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا- موجودہ معلو مات کی روشنی میں سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت کا اب اس بات پر اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانیکی حقیقت non mechanical reality کی طرف لے جارہا ہے – ( اصول تعلیل پر یہاں جو گفتگو کی گئی ہے وہ زیادہ تر جینز جیمز کی کتاب " مسٹریس یونیورس " سے ماخوذ ہے )

کائنات کی پیدائش اور اسکی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظریہ جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں – جدید تحقیقات ان کو مضبوط نہیں بناتی بلکہ اور کمزور کردیتی ہے – اس طرح گویا سائنس خود ہی اس نظریہ کی تردید کررہی ہے ، اب انسان دوبارہ اپنے ابتدائی مقام پر کھڑا ہے – ہمارے سامنے پھر یہ سوال ہے کہ کائنات کس نے بنائی اور کون اسے چلا رہا ہے ؟
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

یہ خالق کی تلاش کا مسلئہ تھا – اس کے بعد دوسری چیز انسان جو جاننا چاہتا ہے وہ یہ کہ " میرا معبود کون ہے ؟" ہم اپنی زندگی میں صریح طور پر ایک خلا محسوس کرتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ کیسے اس خلا کو پر کریں - یہی خلا کا وہ احساس ہے جس کو میں نے "معبود کی تلاش " سے تعبیر کیا ہے – یہ احساس دو پہلو سے ہوتا ہے :

اپنے وجود اور باہر کی دنیا پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو نہایت شدید جذبے ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں- پہلا شکر اور احسان مندی کا اور دوسرا کمزوری اور عجز کا –

ہم اپنی زندگی کے جس گوشہ میں بھی نظر ڈالتے ہیں ، ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی کسی کے احسانات سے ڈھکی ہوئی ہے یہ دیکھ کر دینے والے کیلئے ہمارے اندر بے پناہ جذبہ شکر امنڈ آتا ہےاور ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بہترین عقیدتوں کو اپنے محسن پر قربان کرسکیں – یہ تلاش ہمارے لئے محض فلسفیانہ نوعیت کی چیز نہیں ہے بلکہ ہماری نفسیات سے اس کا گہرا تعلق ہے یہ سوال محض ایک خارجی مسلئہ کو حل کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اندرونی طلب ہے اور ہمارا پورا وجود اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے -

غور کیجئے ، کیا کوئی شریف آدمی اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں ایک مستقل واقعہ کہ حیثیت سے موجود ہے ؟ حالانکہ اس میں اسکی اپنی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے – وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جسم میں پا رہا ہے جس سے بہتر جسم کا وہ تصور نہیں کرسکتا حالانکہ اس جسم کو اس نے خود نہیں بنایا ہے – اس کو ایسی عجیب و غریب ذہنی قوتیں حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئی ہیں حالانکہ اس نے ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے اور نہ وہ کچھ کرسکتا ہے- ہمارا وجود ذاتی نہیں ہے بلکہ عطیہ ہے – یہ عطیہ کس نے دیا ہے ؟ انسانی فطرت اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے اس عظیم محسن کا شکریہ ادا کرسکے –

پھر اپنے جسم کے باہر دیکھئے ، دنیا میں ہم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ، نہ ہم کو کائنات کے اوپر کوئی اختیار حاصل ہے کہ ہم اس کو اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکیں – ہماری ہزاروں ضرورتیں ہیں مگر کسی ایک ضرورت کو بھی ہم خود سے پورا نہیں کرسکتے – لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں حیرت انگیز طور پر ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے – ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ اس بات کی منتظر ہے کہ انسان پیدا ہو اور وہ اس کی خدمت میں لگ جائے – مثال کے طور پر آواز کو لیجئے جس کے ذریعہ ہم اپنا خیال دوسروں تک پہنچاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات زبان کا ارتعاش بن کر دوسرے کے کان تک پہنچیں اور ان کو قابل فہم آوازوں کی صورت میں سن سکے – اس کیلئے ہمارے باہر اور اندر بے شمار انتظامات کئے گئے ہیں - جن میں سے ایک وہ درمیانی واسطہ ہے جس کو ہم "ہوا " کہتے ہیں – ہم جو الفاظ بولتے ہیں وہ بے آواز لہروں کی صورت میں ہوا پر اس طرح سفر کرتے ہیں جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں – میرے منھ سے نکلی ہوئی آواز آپ تک پہنچنے کے لئے درمیان میں ہوا کا موجود ہونا ضروری ہے - اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو آپ میرے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے مگر میری آواز نہ سنیں گے – مثال کے طور پر ایک بند فانوس کے اندر برقی گھنٹی رکھ کر اسے بجایا جائے تو اس کی آواز صاف سنائی دے گی – لیکن اگر فانوس کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیا جائے اور اس کے بعد گھنٹی بجائی جائے تو آپ شیشہ کے اندر گھنٹی کو بجتا ہوا دیکھیں گے مگر اس کی آواز بالکل سنائی نہ دے گی کیونکہ گھنٹی کے بجنے سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اس کو قبول کرکے آپ کے کانوں تک پہنچانے کے لئے فانوس کے اندر ہوا موجود نہیں ہے – مگر یہ ذریعہ بھی نہ کافی ہے کیونکہ ہوا کہ ذریعہ ہماری آواز پانچ سیکنڈ میں صرف ایک میل کا راستہ طئے کرتی ہے – اس کے یہ معنی ہے کہ ہوا کا ذریعہ صرف قریبی ماحول میں گفتگو کے لئے کارآمد ہے – وہ ہماری آواز کو دور تک نہیں پہنچاسکتا –

اگر آواز صرف ہوا کے ذریعہ پھیلتی تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن نہ ہوتا – مگر قدرت نے اس کے لئے ہمیں ایک اور انتہائی تیز رفتا ر ذریعہ مہیا کیا ہے ، یہ روشنی یا برقی رو ہے جس کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے – لا سلکی پیغامات میں اسی کے ذریعہ سے کام لیا جاتا ہے – جب کوئی مقرر ریڈیو اسٹیشن میں لگے مائکرو فون کے قریب آواز نکالتا ہے تو مائکروفون آواز کو جذب کرکے اسے برقی رو میں تبدیل کردیتا ہے اور تار کے ذریعہ اس کو آلہ نشر یا ٹرانس میٹر تک بھیج دیتا ہے آلات نشر آواز کے پہنچتے ہی مرتعش ہوکر فضاء میں وہی ارتعاش پیدا کردیتے ہیں اس طرح پانچ سکنڈ میں ایک میل چلنے والی آواز برقی لہروں میں تبدیل ہوکر ایک سکنڈ میں دو لاکھ میل کے قریب رفتار حاصل کرلیتی ہے اور دم بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے یہی لا سلکی موجیں ہیں جن کو ہمارے ریڈیو سٹ کی آواز گیر مشین قبول کرکے بلند آواز میں ان کا اعادہ کردیتی ہے اور پھر ہزاروں میل دور بولی ہوئی آواز کو ہم کسی تاخیر کے بغیر سننے لگتے ہیں – یہ ان بے شمار انتظامات میں سے ایک ہیں جس کو میں نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس کا صرف نام لیا ہے - اگر اس کا اور دوسری چیزوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس کے لئے ہزاروں صفحے درکار ہونگے اور پھر بھی ان کا بیان ختم نہ ہوگا –

یہ عطیات جن سے ہر آدمی دوچار ہورہا ہے اور جن کے بغیر اس زمین پر انسانی زندگی اور تمدن کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا – انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کس نے اس کے لئے مہیا کیا ہے – ہر آن جب وہ کسی نعمت سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ جذبئہ شکر امنڈ آتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو پائے اور اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دے- محسن کے احسانات کو ماننا ، اس کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا اور اس کی خدمت میں اپنے بہترین جذبات کو نذر کرنا ، یہ انسانی فطرت کا شریف ترین جذبہ ہے ہر آدمی جو اپنی اور کائنات کی زندگی پر غور کرتا ہے اس کے اندر نہات شدت سے یہ جذبہ ابھرتا ہے – پھر کیا اس جذبہ کا کوئی جواب نہیں ؟ کیا انسان اس کائنات کے اندر ایک یتیم بچہ ہے جس کے اندر امنڈتے ہوئے جذبات محبت کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں ؟
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

یہ معبود کی تلاش کا ایک پہلو ہے – اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے حالات فطری طور پر یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ کائنات کے اندر اسکا کوئی سہارا ہو – اگر ہم آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہم اس دنیا میں ایک انتہائی عاجز اور بے بس مخلوق ہیں – ذرا اس خلاء کا تصور کیجئے جس میں ہماری یہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے – آپ جانتے ہیں کہ زمین کی گولائی تقریبا 25 ہزار میل ہے اور وہ ناچتے ہوئے لٹو کی مانند اپنے محور پر مسلسل اس طرح گھوم رہی ہے کہ ہر 24 گھنٹے میٰں ایک چکر پورا ہوجاتا ہے گویا اس کی رفتار تقریبا ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے – اسی کے ساتھ وہ سورج کے چاروں طرف اٹھارہ کروڑ ساٹھ لاکھ میل کے لمبے دائرے میں نہایت تیزی سے دوڑ رہی ہے

خلاء کے اندر اس قدر تیز دوڑتی ہوئی زمین پر ہمارا وجود قائم رکھنے کے لئے زمین کی رفتار کو ایک خاص اندازہ کے مطابق رکھا گیا ہے – اگر ایسا نہ ہوتو زمین کے اوپر انسان کی حالت ان سنگ ریزوں کی طرح ہوجائے جو کسی متحرک پہئہ پر رکھ دئے گئے ہو ں اسی کے ساتھ مزید انتظام یہ ہے کہ زمین کی کشش ہم کو کھینچے ہوئے ہے اور اوپر سے ہوا کا زبردست دباؤ پڑتا ہے ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑھ رہا ہے کہ وہ جسم کے ہر مربع انچ پر ساڑھے سات سیر تک معلوم کیا گیا ہے – یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریبا 280 من کا دباؤ ہے – ان حیرت انگیز انتظامات نے ہم کو خلاء میں مسلسل دوڑتی ہوئی زمین کے چاروں طرف قائم کر رکھا ہے-

پھر ذرا سورج پر غور کیجئے - سورج کی جسامت آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے – جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے دس لاکھ گناہ بڑا ہے – یہ سورج آگ کا دہکتا ہوا سمندر ہے جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی – زمین اور سورج کے درمیان اس وقت تقریبا ساڑھے نو کروڑ میل کا فاصلہ ہے اگر اس کے بجائے وہ اس کے نصف فاصلے پر ہوتا تو سورج کی گرمی سے کاغذ جل جاتا اور اگر وہ چاند کی جگہ یعنی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے فاصلے پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہوجائے – یہی سورج ہے جس سے زمین پر زندگی کے تمام مظاہر قائم ہیں - اس مقصد کے لئے اس کو ایک خاص فاصلہ پر رکھا گیا ہے اگر وہ دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے اور اگر قریب آجائے تو ہم سب لوگ جل بھن کر خاک ہوجائیں -

پھر ذرا اس کائنات کی وسعت کو دیکھئے اور اس قوت کشش پر غور کیجئے جو اس عظیم کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے – کائنات ایک بے انتہاء وسیع کارخانہ ہے اس کی وسعت کا اندازہ ماہرین فلکیات کے نزدیک یہ ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے اس کو کائنات کے گرد ایک چکر کرنے میں کئی ارب برس درکار ہونگے - یہ نظام شمسی جس کے اندر ہماری زمین ہے بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر پوری کائنات کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں - کائنات میں اس سے بہت بڑے بڑے بے شمار ستارے لا محدود وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے بعض اتنے بڑے ہیں کہ ہمارا پورا نظام شمسی اس پر رکھا جاسکتا ہے جو قوت کشش ان بے شمار دنیاؤں کو سنبھالے ہوئے ہے اس کی عظمت کا تصور اس سے کیجئے کہ سورج جس بے پناہ طاقت سے زمین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اس کو وسیع ترین فضاء میں گر کر برباد ہوجانے سے روکتا ہے یہ غیر مرئی طاقت اس قدر قوی ہے کہ اگر اس مقصد کیلئے کسی مادی شئے سے زمین کو باندھنا پڑھتا تو جس طرح گھاس کی پتیاں زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں اسی طرح دھاتی تاروں سے کرہ ارض ڈھک جاتا – ہماری زندگی بالکلیہ ایسی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں انسان کی زندگی کے لئے دنیا میں جو انتظامات ہیں اور جن کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا وہ اتنے بلند پیمانہ پر ہورہے ہیں اور ان کو وجود میں لانے کے لئے اتنی غیر معمولی قوت تصرف درکار ہے کہ انسان خود سے انھیں وجود میں لانے کا تصور نہیں کرسکتا موجودات کے لئے جو طریق عمل مقرر کیا گیا ہے ، اس کا مقرر کرنا تو درکنار ، اس پر کنٹرول کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں – وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی غیر معمولی قوتیں میرے ساتھ ہم آہنگی نہ کریں تو میں زمین پر ٹھہر بھی نہیں سکتا ، اس کے اوپر ایک متمدن زندگی کی تعمیر تو بہت دور کی بات ہے

ایسی ایک کائنات کے اندر جب ایک انسان اپنے حقیر وجود کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ بے بس محسوس کرنے لگتا ہے جتنا کہ سمندر کو موجوں کے درمیان ایک چیونٹی اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کررہی ہو – وہ بے اختیار چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اس اتھاہ کائنات میں اس کا سہارا بن سکے – وہ ایک ایسی ہستی کی پناہ ڈھونڈنا چاہتا ہے جو کائنات کی قوتوں سے بالاتر ہو جس کی پناہ میں آجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصورکرسکے –
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

یہ وہ دو جذبے ہیں جن کو میں نے " معبود کی تلاش " کا عنوان دیا ہے معبود کی تلاش دراصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے موجودہ زمانے میں قوم ، وطن اور ریاست کو انسان کی اس طلب کا جواب بناکر پیش کیا گیا ہے – جدید تہذیب یہ کہتی ہے کہ اپنی قوم اپنے وطن اور اپنی ریاست کو یہ مقام دو کہ وہ تمہاری عقیدتوں کا مرکز بنے اور اسی سے وابستگی کو اپنا سہارا بناؤ - ان چیزوں کو معبود کے نام پر پیش نہیں کیا جاتا مگر زندگی میں ان کو جو مقام دیا گیا ہے وہ تقریبا وہی ہے جو دراصل ایک معبود کا نام ہونا چاہئے مگر ان چیزوں کو معبود کی جگہ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو ایک رفیق زندگی کی ضرورت ہو تو اس کی خدمت میں آپ ایک پتھر کی ایک سل پیش کردیں - کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان کے اندر تلاش کا یہ جذبہ جو ابھرتا ہے اس کے اسباب انسانی نفسیات میں بہت گہرائی سے پھیلے ہوئے ہیں ، وہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں ہے جو ساری کائنات پر محیط ہو - اس طلب کا جواب کسی جغرافیائی خطہ میں نہیں مل سکتا - یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ کسی سماج کی تعمیر میں کچھ مدد دے سکتی ہیں مگروہ انسان کے تلاش معبود کے جذبے کی تسکین نہیں بن سکتیں - اس کے لئے ایک کائناتی وجود درکار ہے – انسان کو اپنی محبتوں کے مرکز کے لئے ایک ایسا وجود چاہئے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور وہ اپنے سہارے کے لئےاسے ایک ایسی طاقت کی تلاش ہے جو کائنات کے اوپر حکمران ہو - جب تک انسان ایسے ایک وجود کو نہیں پائےگا اس کا خلا بدستور باقی رہیگا ، کوئی دوسری چیز اسے پر نہیں کرسکتی –
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزو اپنے انجام کی تلاش ہے آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے - وہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلے میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کس کو کہاں پائے گا – اس کے اندر بہت سے اخلاقی اور انسانی احساسات ہیں جو دنیا میں بری طرح پامال کئے جا رہے ہیں – اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی پسندیدہ دنیا کو حاسل نہ کرسکے گا – یہ سوالات کس طرح انسان کے اندر سے ابلتے ہیں اور کائنات کا مطالعہ کس طرح اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے ، اس موقع پر اس کے تھوڑی سی تفصیل مناسب ہوگی

مماہرین حیاتیا ت کا خیال ہے کہ انسان اپنی موجودہ شکل میں تین لاکھ برس سے زمین پر موجود ہے – اس کے مقابلےمیں کائنات کی عمر بہت زیادہ ہے یعنی دو لاکھ ارب سال ( 20 نیل سال ) اس سے پہلے کائنات ایک برقی ذرات کے ایک غبار کی شکل میں تھی ، پھر اس میں حرکت ہوئی اور مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہوگیا - یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جن کو ہم ستارے ، سیارے اور سحابیے کہتے ہیں یہ مادی ٹکڑے گیس کے مہیب گولے کی شکل میں نا معلوم مدت تک فضاء میں گردش کرتے رہے – تقریبا دو ارب سال پہلے ایسا ہوا کہ کائنات کا کوئی بڑا ستارہ فضاء میں سفر کرتا ہوا آفتاب کے قریب آنکلا جو اس وقت اب سے بہت بڑا تھا جس طرح چاند کی کشش سے سمندر میں اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں ، اسی طرح اس دوسرے ستارے کی کشش سے ہمارے آفتاب پر ایک عظیم طوفان برپا ہوا ، زبردست لہریں پیدا ہوئیں جو رفتہ رفتہ نہایت بلند ہوئیں اور قبل اس کے کہ وہ ستارے آفتاب سے دور ہٹنا شروع ہو ، اس کی قوت کشش اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ آفتاب کی ان زبردست گیسی لہروں کے کچھ حصے ٹوٹ کر ایک جھٹکے کہ ساتھ دور فضاء میں نکل گئے - یہی بعد کو ٹھنڈے ہوکر نظام شمسی کے توابع بنے اس وقت یہ سب ٹکڑے آفتاب کے گرد گھوم رہے ہیں اور ان ہی میں سے ایک ہماری زمین ہے –

زمین ابتدا ایک شعلہ کی حالت میں سورج کے گرد گھوم رہی تھی ، مگر پھر مسلسل فضاء میں حرارت خارج کرنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی یہ عمل کروڑوں برس ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ بالکل سرد ہوگئی – مگر سورج کی گرمی اب بھی اس پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے بخارات اٹھنا شروع ہوئے اور گھٹاؤں کی شکل میں اس کی فضاء کے اوپر چھاگئے ، پھر یہ بادل برسنا شروع ہوئے اور ساری زمین پانی سے بھر گئی – زمین کا اوپری حصہ اگرچہ ٹھنڈا ہوگیا تھا مگر اس کا اندرونی حصہ اب بھی گرم تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین سکڑنے لگی – اس کی وجہ سے زمین کے اندر کی گرم گیسوں پر دباؤ پڑا اور وہ باہر نکلنے کے لئے بے قرار ہوگئیں - تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد زمین پھٹنے لگی - جگہ جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ گئے – اسی طرح بحری طوفانوں ، خوفناک زلزلوں سے زمین کا کچھ حصہ اوپر ابھر آیا اور کچھ حصہ دب گیا - دبے ہوئے حصوں پر پانی بھر گیا اور سمندر کہلائے اور ابھرے ہوئے حصوں نے براعظم کی صورت اختیار کی - بعض اوقات یہ ابھار اس طرح واقع ہوا کہ بڑی بڑی اونچی باڑھیں سی بن گئیں – یہ دنیا کہ پہلے پہاڑ تھے –
 
Top