طارق بن زیاد
مشہور رکن
- شمولیت
- اگست 04، 2011
- پیغامات
- 324
- ری ایکشن اسکور
- 1,719
- پوائنٹ
- 139
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ایک ارب 23 کروڑ سال ہوئے جب پہلی بار زمین پر زندگی پیدا ہوئی یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے جو پانی کے کنارے وجود میں آئے - اس کے بعدمختلف قسم کے جانور پیدا ہوتے اور مرتے رہے – کئی ہزار سال تک زمین پر صرف جانور رہے - اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی پر بھی گھاس اگنا شروع ہوئی - اس طرح لمبی مدت تک بے شمار واقعات ظہور میں آتے رہے یہاں تک کہ انسانی زندگی کے لئے حالات سازگار ہوئے اور زمین پر انسان پیدا ہوا-
اس نظریہ کے مطابق انسان کی ابتداء پچھلے تین لاکھ سال سے ہوئی ہے - یہ مدت بہت ہی کم ہے – وقت کے جو فاصلے کائنات نے طئے کئے ہیں ان کے مقابلے میں انسانی تاریخ چشم زدن سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی - پھر اگر انسانیت کی اکائی کو لیجئے تو معلوم ہوگا کہ ایک انسان کی عمر کا اوسط سو سال سے بھی کم ہے – ایک طرف اس واقعہ کو سامنے رکھئے اور پھر اس حقیقت پر غور کیجئے کہ کائنات میں انسان سے بہتر کوئی وجود معلوم نہیں کیا جاسکا ہے زمین و آسمان کی اربوں اور کھربوں سال کی گردش کے بعد جو بہترین مخلوق اس کائنات کے اندر وجود میں آئی ہے وہ انسان ہے - مگر یہ حیرت انگیز انسان جو ساری دنیا پر فوقیت رکھتا ہے ، جو تمام موجودات میں سب سے افضل ہے ، اس کی زندگی چند سال سے زیادہ نہیں ہمارا وجود جن مادی اجزاء سے مرکب ہے ان کی عمر تو اربوں کھربوں سال ہو اور وہ ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جائیں مگر ان مادی اجزاء کی یکجائی سے جو اعلی ترین وجود بنتا ہے وہ صرف سو برس زندہ رہے جو کائنات کا حاصل ہے وہ کائنات سے بھی کم عمر رکھتا ہے !
تاریخ کے طویل ترین دور میں بے شمار واقعات کیا صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ ایک انسان کو چند دنوں کے لئے پیدا کرکے ختم کردیں ؟
زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہوتو اس پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جاسکتا ہے جو طول و عرض اور بلندی میں ایک میل ہو - بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے پھر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جاکر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں جاگرےگا- صدیا ں گزر جائیں گی ، نسل انسانی اپنے کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لئے پڑی رہے گی ، دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہوجائے گا کہ یہاں کبھی انسان کی قسم کی کوئی نسل آباد تھی سمندر کی سطح پر بدستور طوفان آتے رہیں گے سورج اسی طرح چمکتا رہے گا ، کرہ ارض بدستور اپنے محور پر چکر لگاتا رہے گا ، کائنات کی لا محدود پہنائیوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑے حادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی - کئی صدیوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی –
کیا انسان کی قیمت بس اسی قدر ہے ، مادہ کو کوٹئیے ، پیٹئے ، جلائیے ، کچھ بھی کیجئے ، وہ ختم نہیں ہوتا - وہ ہر حال میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے مگر انسان جو مادہ سے برتر مخلوق ہے کیا اس کے لئے بقا نہیں ؟ یہ زندگی جو ساری کائنات کا خلاصہ ہے ، کیا وہ اتنی بے حقیقت ہے کہ اتنی آسانی سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا انسانی زندگی کا منتہابس یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے ننھے سے وطن میں چند روز کے لئے پیدا ہوا اور پھر فنا ہوکر رہ جائے ؟ تمام انسانی علم اور ہماری کامرانیوں کے سارے واقعات ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں اور کائنات اس طرح باقی رہ جائے گویا نسل انسانی کبھی کوئی چیز ہی نہیں تھی -
اس سلسلہ میں دوسری چیز جو صریح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے تو یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہماری امنگوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی - ہر انسان لا محدود مدت تک زندہ رہنا چاہتا ہے کسی کو بھی موت پسند نہیں - مگر اس دنیا میں ہر پیدا ہونے والا جانتا ہے کہ وہ ایسی زندگی سے محروم ہے - آدمی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے - ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ وہ دکھ درد ہر قسم کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر زندگی گذارے مگر حقیقی معنوں میں کیا کوئی شخص بھی ایسی زندگی حاصل کرسکتا ہے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے حوصلوں کی تکمیل کا آخری حد تک موقع ملے وہ اپنی ساری تمناؤں کو عمل کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے مگر اس محدود دنیا میں وہ ایسا نہیں کرسکتا ہم جو کچھ چاہتے ہیں یہ کائنات اس کے لئے بالکل ناسازگار معلوم ہوتی ہے - وہ ہر چند قدم پر ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے - کائنات صرف ایک حد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے - اس کے بعد ہم کو مایوس اور ناکام لوٹا دیتی ہے –
سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی محض غلطی سے اس کائنات میں بھٹک آئی ہے جو دراصل اس کے لئے نہیں بنائی گئی تھی اور جو بظاہر زندگی اور اسکے متعلقات سے بالکل بے پرواہ ہے ؟ کیا ہمارے تمام جذبات و خیالات اور ہماری تمام خواہشیں غیر حقیقی ہیں جن کا واقعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ؟ ہمارے تمام بہترین تخیلات کائنات کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بالکل الل ٹپ طریقے سے پیدا ہوگئے ہیں – وہ تمام احساسات جن کو لے کر انسانی نسل پچھلے ہزاروں سال سے پیدا ہورہی ہے اور جن کو اپنے سینہ میں لئے ہوئے ہے وہ اس حال میں دفن ہوجاتی ہے کہ وہ انھیں حاصل نہیں کرسکی – کیا ان احساسات کی کوئی منزل نہیں ؟ کیا وہ انسانوں کے ذہن میں بس یونہی پیدا ہورہے ہیں جن کے لئے نہ ماضی میں کوئی بنیاد موجود ہے اور نہ مستقبل میں ان کا کوئی مقام ہے –