• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حمید گل ایک شخصیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر بھائی۔

"دنیا نیوز" میں "جناب امیر حمزہ " کاایک خوبصورت کالم انکی" خوبصورت تصویر " کے ساتھ "حمید گل صاحب" پر لکھا گیاھے۔فورم کے" قوانین"کی پاسداری

اور آپکی "ہلکی سی تنبیہ"کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کے "فن "سے" فنی نا آشنائی" آڑے آرھی ھے۔


مجھے امید ھے کہ

سر آئینہ میرا عکس ھے پس آئینہ کوئی اور ھے۔

مدعا گوش گزار ھے
ڈاکٹر صاحب ! یقینا یہ آپ کا بڑا پن ، اور وسعت ظرفی کی دلیل ہے کہ آپ قوانین فورم کو اہمیت دیتے ہیں ، اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے ۔ دنیا نیوز کے کالموں کا تو مسئلہ ہی کوئی نہیں ، ان کا ہر کالم یونیکوڈ میں بھی موجود ہوتاہے ، ہر کالم کے شروع میں ٹیکسٹ کا ایک بٹن ہوتا ہے ، اس کو دبائیں تو یونیکوڈ میں کالم آپ کے سامنے آجائے گا ، اوپر حمزہ صاحب والا کالم میں نے وہیں سے کاپی پیسٹ کیا ہے ، مزید سکرین شارٹ ملاحظہ فرمالیں :
upload_2015-8-21_19-57-57.png
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
حمید گل زندہ باد(مجیب الرحمان شامی)


جنرل حمید گل79سال کے ہو چکے تھے، لیکن بڑھاپا اُن کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ گفتار، انداز، چال ڈھال میں جوان ہی نہیں، نوجوان تھے۔ آواز میں وہی کڑک تھی، برسوں پہلے جس سے میرے کان اُس وقت آشنا ہوئے تھے، جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔جنرل ضیاء الحق جب تک زندہ رہے، کسی دوسرے جرنیل کی طرف دیکھنے یا اُس سے ملنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اُن سے مل کر گویا پوری فوج سے مل لیا جاتا تھا۔ انہوں نے وردی کو اِس طرح بھینچا تھا کہ وہ ان ہی کی ہو کر رہ گئی تھی۔ حالات معمول پر رہتے تو1979ء میں ریٹائر ہو جاتے، لیکن ان کی مدت ِ ملازمت میں ''تاحکم ثانی‘‘ توسیع کر دی گئی۔ چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق نے فائل صدر ضیاء الحق کی خدمت میں بھجوائی اور انہوںنے بے چون و چرا آرمی چیف سے اتفاق کر لیا۔
حادثہ ٔ بہاولپور کے بعد ہمارے مکتب ِ فکر میں ہاہا کار مچی، تو باقیات کو سنبھالنے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نظریاتی احباب نے مجھے جنرل مرزا اسلم بیگ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اُن کی رہائش گاہ پر اُن سے تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ اِس دوران جنرل حمید گل کا ذکر آیا۔ بیگ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے ملے ہیں، مَیں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چند ہی قدم کے فاصلے پر رہتے ہیں، ان سے بھی ملتے جائیے۔ پھر فون کر کے اُن کو اطلاع بھی دے دی۔ اُن کے ہاں پہنچا، تو وہ قاضی حسین احمد کو رخصت کر رہے تھے۔ تپاک سے ملے، اور مسکراتے ہوئے کہا، بیگ صاحب نے بتایا کہ آپ آنا چاہتے ہیں، تو مَیں نے کہا، فوراً بھجوا دیں، کہیں آپ کا ارادہ نہ بدل جائے۔ اس کے بعد جنرل حمید گل سے تعلق کی ایسی بنیاد پڑی کہ بہت سے جھٹکے کھانے کے باوجود وہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ کبھی مَیں ڈھیل دے دیتا،کبھی وہ ڈھیلا چھوڑ دیتے، مراسم کا دھاگہ ہم دونوں کو باندھے رہا۔گرہ پڑی بھی تو کسی نہ کسی طور اسے کھول لیا گیا۔ کبھی ہاتھوں سے، کبھی دانتوں سے، اور کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔
جنرل صاحب آئی ایس آئی سے رخصت ہوئے، ملتان پہنچے، وہاں سے واپس آئے۔ آئی جے آئی بنی، انتخابات ہوئے، بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، نواز شریف نے اُن کی جگہ لی بہت کچھ ہوا، لیکن بہت کچھ نہ ہو پایا۔ میرے جیسوں کی خواہش تھی کہ حمید گل چیف آف آرمی سٹاف بنیں، لیکن یہ دستار جنرل آصف نواز کے سر پر رکھ دی گئی۔ قلم جنرل حمید گل پر فریفتہ تھا، جنرل آصف نواز نے لاہور میں یاد فرمایا، اور اطمینان سے سمجھایا کہ فوج میں اب اُن کا سکہ چلنا ہے، کسی اور کو، کسی اور کا، کوئی اور خیال دِل میں نہیں پالنا چاہئے۔ حمید گل کو ٹیکسلا کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس کا سربراہ بنا دیا گیا، وہ اس پر بھنا گئے۔ انہوں نے ٹیکسلا جانے کے بجائے وزارتِ دفاعی پیداوار میں رپورٹ کیا، کہ(ان کے نزدیک) اس طرح حکم کی تعمیل ہو گئی تھی۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس وزارت ِ دفاعی پیداوار کے تحت تھا، لیکن ان کی یہ فقہی توجیہ قبول نہ ہو پائی، انہیں ریٹائر ہونا پڑا۔
نواز شریف وزیراعظم بنے تو سان گمان میں نہ تھا کہ اُن کی جنرل بیگ سے ٹھن جائے گی۔ مسلم لیگ کو ج(جونیجو) سے ن تک لانے میں ان کا اور جنرل حمید گل کا ہاتھ چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ ان ہی کی تھپ تھپاہٹ سے پنجاب حکومت اپنے قدموں پر کھڑی رہی۔ غلام اسحاق کو وہ مٹھی میں بند کر چکے تھے یا یہ کہیے کہ غلام اسحاق ان سے طاقت حاصل کر رہے تھے، اور ان کی طاقت بھی بنے ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی جگہ ان کا منصب ِ صدارت سنبھالنا بیگ+گل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے، تو بیگ صاحب اپنی جگہ سرشار تھے کہ وہ خود کو وزیراعظم کا سرپرست سمجھتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف کو اپنا (اور غلام اسحاق کو اپنا) رعب قائم رکھنے کے لئے انہیں ٹوکنا پڑا، یہاں تک کہ اُن کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ بیگ کی جگہ حمید گل لیں گے، لیکن معاملہ نواز شریف کے ہاتھ میں نہیںتھا۔ آٹھویں ترمیم نے فوجی سربراہوں کی تقرری کا اختیار بلا شرکت ِ غیرے صدر کو دے رکھا تھا۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اختیار نواز شریف کے ہاتھ میں ہوتا تو بھی فوجی قیادت حمید گل کو سونپ دی جاتی کہ ان کی عقابی روح پر شبہ ہو ہو جاتا تھا کہ اسے اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگے گی۔
جنرل حمید گل نوکری پیشہ نہیں تھے۔ اُنہیں ملازمت کی تلاش فوج میں نہیں لائی تھی۔ ان کا رشتہ اپنی تاریخ سے مضبوط تھا، اور وہ فوجی زندگی کو عظمت ِ رفتہ کی تلاش کا ذریعہ سمجھنے والوں میں تھے۔ ان کی قادر الکلامی اور وسعت ِ مطالعہ نے انہیںایک افسانوی کردار بنا دیا تھا، جو بھی ان سے ملتا گرویدہ ہو جاتا یا مرعوب۔ ان کے مخالف بھی ان کی ذہانت اور بیدار مغزی کی داد دیے بغیر نہ رہتے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی فوج کا نظریاتی تشخص گہرا ہوا، اور ماحول پر پاکستانی رنگ غالب آتا گیا، تو حمید گل کے جوہر بھی کھلے۔ حوصلہ افزائی اور سرپرستی نے غنچے کو پھول بنا دیا۔ وہ ملٹری انٹیلی جنس میں رہے، آئی ایس آئی میں جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد اس کی سربراہی سنبھالی۔ جہادِ افغانستان ان کے عقیدے کا حصہ تھا۔اگرچہ ان کے ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ہی افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی طے ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے جذبات کو افغان جذبوں میں مدغم کر لیا۔... ان کے آنے کے چند روز بعد اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا، کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا فضائی حادثے کا شکار ہو گئے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ملبے تلے دبنے سے بچا لیا۔ ان کا طلسماتی تشخص اور الفاظ پر قدرت ان کی حفاظت کرتے اور انہیں آگے بڑھاتے رہے۔ وہ جنرل اختر عبدالرحمن کی طرح خاموش مجاہد نہیں تھے، دیکھے، سُنے اور محسوس کیے جاتے تھے۔ ان کے دور میں آئی ایس آئی پردے سے نکل آئی، اور اپنے وجود کا احساس دِلا کر پھول پھول جاتی رہی۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں ان کے سیاسی حریف آئی جے آئی کی صورت یک جا ہوئے تو اسے جنرل حمید گل کا کارنامہ سمجھا گیا۔ پیپلزپارٹی کے33فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے سامنے بند باندھا جا سکتا تھا، سوباندھ دیا گیا۔ دوسرا بڑا سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آ کر سسٹم کو توازن بخشنے کا دعویدار بن گیا۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد افغان مجاہدین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ جلال آباد پر قبضہ کر کے وہاںافغان حکومت کے قیام کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جو کچھ حاصل کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ناممکن ہوتی چلی گئی۔ وہ افغان مجاہد جنہوں نے جغرافیے اور تاریخ کو نئے سبق سکھائے تھے، ایک دوسرے سے اُلجھ کر اپنے آپ کو گدلا کر بیٹھے۔ ان کے بہت سے عقیدت مندوں کے لیے دِل تھامنا مشکل ہو گیا۔ خواب چکنا چور ہوتے چلے گئے۔
حمید گل نے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت کچھ کرنا چاہا، لیکن زیادہ کچھ نہ کر سکے، نہ کوئی ڈھنگ کا پریشر گروپ بنا، نہ تھنک ٹینک، نہ ہی مبسوط مقالے لکھے، نہ افغان جہاد پر کوئی تفصیلی کتاب لکھی گئی۔ وہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے تو ان کی صلاحیتیں پٹڑی پر چڑھ جاتیں، لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے۔ مبینہ طور پر اپنے بنائے ہوئے 'بتوں‘ کے سامنے کورنش بجا لانا ممکن نہ ہو پایا۔ حالانکہ برہمن اپنے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔کبھی نرم انقلاب کی بات کی، کبھی احتساب کا نعرہ لگایا، کبھی مارشل لاکے خلاف سینہ سپر ہوئے، کبھی اہل ِ سیاست سے مایوس ہوگئے،کبھی پارٹیوں کو متحد کیا، کبھی ان کو سیاسی فرقہ قرار دے کر خلافِ اسلام سمجھ لیا، ان کی بے تابیوں نے انہیں ٹکنے نہ دیا۔ امریکہ اور ہندوستان ان کی نگاہ میں کھٹکتے رہے۔ وہ انہیںایک ہی سکے کے دو رُخ قرار دیتے تھے، لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ چلے ہوئے کارتوسوں کو ایٹم بم سمجھ بیٹھے تھے۔وہ مفاد پرست نہیں تھے۔ ان کی شہرت نظریہ ساز کی رہی۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کا احترام کرتے تھے، اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں ڈھالنے والے وہ بھی نہ تھے۔ ہر شخص ان سے ہر بات کر سکتا تھا۔ ان کے رابطے وسیع تھے، وہ دِلوں میں جگہ بنانے کے فن سے آشنا تھے۔چیف آف آرمی سٹاف نہ بننے، اور کوئی بھی قلعہ فتح نہ کرنے کے باوجود وہ اپنے مداحوں کی نظر میں سپہ سالار ہی کا مقام رکھتے تھے، اور ان مداحوں کی تعداد کسی طور کم نہیں تھی۔ دشمن انہیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ سمجھتے تھے، اور دوست بھی ان سے طاقت حاصل کرتے تھے۔ واشنگٹن سے دہلی تک انہیں محسوس کیا جاتا تھا، ان کی دھمک سنی جاتی تھی۔ بلاشبہ وہ اپنے جذبوں کے اعتبار سے ایک عظیم پاکستانی اور ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے جنازے میں لوگ پورے پاکستان سے امڈ آئے تھے، دیوانہ وار زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، کہ اپنا زمانہ آپ بنانے والے اور اپنے لوگوں کا دم بھرنے والے جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں، دِلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نجم سیٹھی نے اس کالم کی صورت میں اپنے ’’ گدھا ‘‘ ہونے کا مزید ایک ثبوت پیش کردیا ہے ۔ ننگ وطن ، ننگ دین آدمی کو محب وطن ، محب اسلام افراد کبھی پسند نہیں آسکتے ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
خضر بھائی۔

اس کالم کو یھاں چسپاں کرنے کا مقصد ھی کالم نگار کو عیاں کرنا تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
رکے تو چاند چلے ہواؤں جیسا تھا
وہ دشمن دھوپ میں دیکھوں تو چھاؤں جیسا تھا
واہ کیا کہنے ۔
 
شمولیت
مارچ 05، 2016
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
59
"سچا پاکستانی اور عسکری دانشور" اجمل نیازی
مجھے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی وفات کا بہت صدمہ ہے۔ ان کے بعد جس عظیم شخص کے مرنے کا دکھ بہت گہرا ہے وہ جنرل حمید گل ہیں۔ وہ مجید نظامی کو اپنے عہد کا سب سے بڑا آدمی سمجھتے تھے۔ وہ ان کے بعد نوائے وقت کے لئے بہت خوش تھے کہ میڈم رمیزہ نظامی بہت جذبے سے معاملات کو آگے لے کے جا رہی ہیں۔ وہ عجیب آدمی تھے۔ بہادر بے پناہ پڑھے لکھے دل اور ایمان کی گواہی میں بات کرنے والے۔ اپنی بات پر ثابت قدم رہنے والے پکے مسلمان سچے پاکستانی اجالے کی طرح اجالے بڑھاپے میں بھی ان کے سراپے پر کسی کمزوری کے آثار نہ تھے۔ وہ گفتگو کرتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے ہماری آرزو کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں ڈاکٹر مجید نظامی کے بعد وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ وہ مکمل سپاہی تھے۔ وہ اس طرح زندہ تھے جیسے جہاد کے میدان میں ہوں۔ وہ مرد میدان تھے۔ مرد مجاہد تھے، مرد وطن تھے، وہ پورے اور سچے مرد تھے اور اس شعبے میں فرد تھے۔ مردانگی کے سارے سلیقے انہیں آتے تھے۔ وہ ڈٹ جانے والے آدمی تھے مگر مزاج کے شرمیلے تھے۔ یہ بہت بڑے کردار کے آدمی کا وصف ہوتا ہے۔ وہ ہیرو تھے۔ کچھ زیرو لوگ کسی مصنوعی ہیرو کے پیچھے پھرنے والے کو بھی ہیرو کہہ دیتے ہیں۔ آج کل کی لڑکیوں کو ہیر کی بجائے حور بننے کا شوق ہے۔ ویسے ایسے لوگوں کے درمیان وہ رات کے پچھلے پہر کے قطبی ستارے کی طرح تھے۔ اس کی روشنی میرے دل میں ہمیشہ رہے گی۔ وہ بہت خوبصورت آدمی تھے ایک مردانہ حسن کی پاکیزہ لہر ان کے چہرے پر وجد کرتی تھی۔ وجد کرنے میں اور رقص کرنے میں ایک غیرمحسوس سا فرق ہے جس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ وجد بھی رقص کی طرح وجود کی ایک ادا ہے۔
ہمارے نامور کالم نگار نصرت جاوید نے ایک مختلف اور بہت محبت بھرا کالم لکھا ہے۔ ”جنرل حمید گل جنٹل مین سولجر“ یہ ان کی شخصیت کی پوری عکاسی کرنے والی بات ہے اور نصرت جاوید کو بات کہنا آتی ہے۔ میرے بھائی اسداللہ غالب نے ان سے آخری ٹیلی فونک بات کی۔ جنرل صاحب نے فون پہلے کر دیا کہ تم مجھے تلاش کر رہے تھے۔ یہ بات جنرل صاحب کو کرنل صاحب برادرم ضرار نے بتائی تھی۔ قصور کے واقعے کے ایک کردار کے جنرل صاحب کی تصدیق اس کالم کا باعث بنی۔ میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مبین غزنوی کو جنرل صاحب کے بیٹے عبداللہ گل نے اپنی تنظیم سے نکال دیا تھا۔ ہمیں عالمی طور پر اپنی بدنامی کا خیال ہے مگر جو کچھ ہمارے بے قصور بچوں کے ساتھ درندگی ہوئی اس کا کوئی احساس نہیں ہے؟
خورشید ندیم کے کالم کا عنوان ”ایک نجیب آدمی“ ہے۔ شفقت، شائستگی، نجابت اور لطافت سے بھرپور اس تحریر میں جنرل حمید گل ایسے شخص کے روپ میں سامنے آئے کہ ان کو دیکھنے کے لئے دل کرتا ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ جی بھر کے محبت کی۔ انہوں نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ خورشید نے انہیں عہد ساز کہا۔ میں انہیں عہد آفریں کہتا ہوں۔ ان دونوں لفظوں میں کیا فرق ہے۔ یہ میں اور خورشید ندیم مل کر طے کریں گے۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی ایک نیا خوبصورت اور غیرت مند آزاد زمانہ پیدا ہو گا اور اس کے لیے جنرل ضیاالحق جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل حمید گل کو کسی بھی افغان لیڈر سے بڑھ کر یاد کیا جائے گا۔
نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر جنرل حمید گل کو آرمی چیف بننے دیا گیا ہوتا اور جنرل ضیاالحق زندہ رہتے تو بھارت پاکستان کے آگے سرنگوں ہوتا۔ خالصتان بنتا اور کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جاتا۔ اگر افغانستان کے لئے جنرل ضیاالحق اور جنرل حمید گل کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج پاکستان اور افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
جنرل حمید گل پاکستان اور افغانستان کے لیے کمزوری اور مایوسی کی کوئی بات کبھی نہ کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ شاید وہ اچھے دن ہمارے ہوتے بھی نہ آئیں مگر آئیں گے ضرور۔ کوئی ان مناظر کو دیکھے گا اور ہمیں یاد کرے گا تو ہم بھی ان اچھے منظروں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ میں آج بھی جنرل ضیاءالحق کو عظیم ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل نہیں سمجھتا۔ ان کا قاتل وہی ہے جس نے قائداعظم اور مادر ملت کو غیر طبعی موت کا شکار کیا۔ جس نے لیاقت علی خان کو گولی مروائی۔اسی نے بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو تختہ دار تک پہنچایا۔ یہ سب جیالے جانتے ہیں مگر سیاسی مصلحتیں انہیں سچ کا سامنا نہیں کرنے دیتیں۔ وہی لوگ جنرل حمید گل کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ ان کاکچھ بگاڑ نہ سکے۔
جنرل حمید گل آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ مجھے دوست معاف رکھیں تو کہوں کہ جنرل حمید گل شہید ہیں جو بھی راہ حق میں کام کرتے ہوئے جان دیتا ہے وہ شہید ہے۔
ان کے جنازے میں سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریک ہوئے۔ محبوبیت کے جس مقام پر جنرل راحیل شریف ہیں تو میں مایوس نہیں ہوں۔ میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو جنرل راحیل شریف سے محبت نہ کرتا ہو۔ یہ محبت ضرور رنگ لائے گی؟ جنرل حمید گل بے پناہ مطالعے کے آدمی تھے۔ دنیا میں مسلم جدوجہدکی ساری تاریخ پر ان کی نظر تھی۔ وہ پاکستان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتے تھے کہ سب قومیں ہماری طرف رشک کی نظروں سے دیکھیں اور ہم جیسا بننے کی خواہش کریں۔
ماموں ڈاکٹر اکبر نیازی سے فون پر بات ہوئی تو وہ جنرل صاحب کے گھر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو صدیوں کی طرح بیان کیا۔ میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے جنازے میں نہ جا سکا۔ میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہ کروں گا۔ مجھے انہوں نے کئی بار گھر بلایا پوری فیملی کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا۔ دلیر پاکپاز اور سرگرم بیٹی عظمیٰ گل کو بلا لیا۔ وہ پوری فیملی کے ساتھ میری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی میں آئے۔ ان کے ساتھ یادوں کا ایک لشکر ہے وہ اس لشکر کے بھی جرنیل ہیں اور مجھے بھی کبھی کبھی جرنیلی کا اعزاز دیتے تھے۔ خدا کی قسم کسی کے ساتھ فون پر بھی بات کرنے کا اتنا مزا کبھی نہ آیا جو جنرل حمید گل کے ساتھ آیا۔ ہمکلامی اور خود کلامی ایک ہو جاتی تھی۔ یہ دکھ آج کچھ زیادہ ہو گیا ہے کہ آخر وہ کون تھے جنہوں نے اتنے مکمل جرنیل کو آرمی چیف نہ بننے دیا۔ یہ کہ وہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔ آج جنرل راحیل کے لئے بھی میرا یہی احساس ہے۔
وہ بہت بڑے دانشور تھے۔ وہ صرف عسکری لیڈر نہ تھے۔قومی لیڈر تھے۔ وہ ایک امید تھے اور یہ امید کسی نوید کی طرح تھی۔ ہمارے فوجی حکمران بھی سیاسی حکمران بن گئے تھے۔ کوئی پاکستانی حکمران ہوتا اس زمانے میں فوجی حکمران جتنا بھی اچھا ہو اچھا نہیں لگتا۔ میں تو جنرل راحیل شریف سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ براہ راست سیاست میں نہ آﺅ مگر سیاست کو تو راہ راست پر لاﺅ۔ سردار خان نیازی ایک ممتاز صحافی ہیں ان سے بات کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے کہا ”یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ہمارے حکمران بھیڑیے ہیں۔ وہ بھیڑیے نہیں مگر ہم بھیڑیں بن چکے ہیں۔“
ان کی اولاد کہاں ہے اس وقت یہ بھی تو بتائیں، میرے خیال میں پاکستان میں نہیں!!!
 
Top