یہ مراسلہ میں نے اردومجلس پر لکھاتھا۔وہیں سے لے کریہاں نقل کررہاہوں۔
حضرت مجدد الف ثانی کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اورہرصاحب فضل وکمال نے اس کا اعتراف کیاہے۔اگرمیں اس کی تفصیل بیان کروں توایک مضمون سے بڑھ کتاب بن جائے۔اولااہل حدیث یاغیرمقلدوں کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان القنوجی کی کتاب ابجدالعلوم سے حضرت مجددالف ثانی کا تذکرہ نقل کرتاہوں۔
الشيخ: أحمد بن عبد الأحد بن زين العابدين الفاروقي، السرهندي
مجدد الألف الثانيكان عالما عاملا، عارفا كاملا، ينتهي نسبه إلى الفاروق.
ولد في سنة 971، حفظ القرآن، وقرأ على أبيه أولا، واستفاد منه جما من العلوم، ثم ارتحل إلى سالكوت، وتتلمذ على المحقق: كمال الدين الكشميري (3/ 226) بعض المعقولات بغاية من التحقيق، وأخذ الحديث عن: الشيخ يعقوب، المحدث الكشميري، وكان صاحب كبراء المحدثين بالحرمين الشريفين، وأسند الحديث عنهم، وتناقل الحديث المسلسل بالرحمة بواسطة واحدة، عن الشيخ: عبد الرحمن بن فهد - من كبراء المحدثين في زمانه بالهند -، وتعاطى عنه إجازة كتب التفسير، والصحاح الست، وسائر مقروءاته.
وروى الحديث المسلسل بالأولية عن القاضي: بهلول البدخشاني، عن ابن فهد المذكور، ولعله هو الواسطة في الإجازة بينهما، وفرغ من التحصيل في عمر سبعة عشرة سنة، واشتغل بالتدريس.
وله: رسائل لطيفة باللسان العربي، والفارسي.
وجاء إلى دهلي في سنة 1002، وأخذ الطريقة النقشندية عن خواجة عبد الباقي، عن خواجه إمكنكي، عن أبيه مولانا: درويش محمد، عن خاله مولانا: محمد زاهد، عن خواجه: عبيد الله أحرار، وكذا الطرائق الأخرى عن شيوخ أخر، ووصلت سلسلته من الهند إلى ما وراء النهر، والروم، والشام، والعرب، وأقصى المغرب، مثل: فاس وغيرها.
وله مكتوبات، في ثلاثة مجلدات، هي حجج قواطع على تبحره، وسمعت أنه عربها بعض العلماء، ولكن لم أر المعرَّبة، وحبسه السلطان: جهانكير في حصن كواليا، على عدم سجدة التعظيم منه له، و إليه أشار آزاد في غزله:
لقد برع الأقران في الهند ساجع ** وجدد فن العشق يا للمغرد!
فلا عجب أن صاده متقنص ** ألم تر في الأسلاف قيد المجدد؟
ولما حبس لبث في السجن ثلاث سنين، ثم أطلق، وأقام في العسكر يدور معه، ثم عاد إلى سهرند - والعود أحمد -، ثم توفي في سنة 1034، وله ثلاث وستون سنة، دفن بسهرند.
ومن مؤلفاته: (الرسالة التهليلية)، ورسالة: (إثبات النبوة)، ورسالة: (المبدأ (3/ 227) والمعاد)، ورسالة: (المكاشفات الغيبية)، ورسالة: (آداب المريدين)، ورسالة: (المعارف اللدنية)، ورسالة: (رد الشيعة)، و (تعليقات العوارف)... إلى غير ذلك.
ومن إفاداته أنه أوضح الفرق بين وحدة الوجود، وبين وحدة الشهود، وبيَّن أن وحدة الوجود تعتري السالك في أثناء سلوكه، فمن ترقى مقاما أعلى من ذلك تتجلى له حقيقة وحدة الشهود، فسد بذلك طريق الإلحاد على كثير ممن كان يتستر بزي الصوفية، ثم إنه باحث الملاحدة في زمانه، وجادلهم بقلمه ولسانه، ورد على الروافض، وحقق الفرق بين البدعة والسنة؛ وأقيسة المجتهدين، واستحسانات المتأخرين؛ والتعارف عن القرون المشهود لها بالخير، وما أحدثه الناس في القرون المتأخرة وتعارفوه فيما بينهم؛ فردّ بذلك مسائل مما استحسنها المتأخرون من فقهاء مذهبه، وكان فقيها ماتريديا، حريصا على اتباع السنة، مجتهدا فيه، قليل الخطأ في دركه، والمسائل المعدودة التي شدد بعض أهل العلم النكير بها عليه، فالصواب أن لها تأويلا، وقد شاركه فيها غيره، ممن لا يحصى كثرة، فليس إذا يخصه الإنكار.
ومن أبنائه: الشيخ محمد سعيد، الملقب: بخازن الرحمة، له حاشية على (المشكاة)، توفي في سنة 1020، والشيخ: محمد معصوم، يلقب: بالعروة الوثقى، له مجموع من مكاتيبه مفيد، توفي في سنة 1077.
وكان لهما أخ ثالث: يقال له: الشاه محمد يحيى، أخذ عن أخويه، وهو الذي خالفهم في مسألة الإشارة بالسبابة، توفي في سنة 1098.
ومن أجلة أصحابه المتأخرين: الشيخ شمس الدين العلوي، من ذرية محمد ابن الحنفية، المعروف: بميرزا مظهر جانجان، كان ذا فضائل كثيرة، وقرأ الحديث على الحاج السيالكوني، وأخذ الطريقة المجددية عن أكابر أهلها، كان له في اتباع السنة، والقوة الكشفية شأن عظيم.
وله شعر بديع، ومكاتيب نافعة، وكان يرى الإشارة بالمسبحة، ويضع يمينه على (3/ 228) شماله تحت صدره، ويقوي قراءة الفاتحة خلف الإمام.
عام وفاته: عاش حميدا، مات شهيدا.
ومن أجلة أصحاب جانجان: القاضي ثناء الله الأموي العثماني، من أهل بلدة (باني بت): بقرب دهلي، كان فقيها، أصوليا، زاهدا، مجتهدا؛ له اختيارات في المذهب، ومصنفات في الفقه، والتفسير؛ وكان شيخه المظهر يفتخر به، رأيت له مؤلفات على مذهب النعمان، بالفارسية والعربية، وبعضها موجود عندي - رحمه الله تعالى -." اهـ. (أبجد العلوم۔
اب یہاں سے اہل حدیث یاغیرمقلد حضرات کے دوسرے مشہور عالم مولاناابوالکلام آزاد کی شیخ مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں بلند کلمات نقل کئے جارہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد یہ لکھنے کے بعد کہ عہد اکبری میں جوفتنے پھیل رہے تھے وہ سب کی نگاہوں کے سامنے اوراس وقت علماء اورصوفیاء کی بھی کمی نہ تھی لیکن اس وقت جس نے اس کام کیلئے قدم آگے بڑھایاورتجدید دین کی عظیم الشان خدمت انجام دی وہ حضرت مجدد الف ثانی ہیں
''بایں ہمہ دوسرے دوسرے گوشوں اورکاموں میں وقت بسرگرگئے اس راہ میں توایک قدم بھی نہ اٹھ سکا۔شیخ عبدالحق محدث کو توحضرت مجدد کے بارے میں سخت لغزش بھی ہوئی(
یہ لغزش ان کے مکتوبات کی بعض عبارتوں پر تھی جیساکہ ابن دائود اوردیگر غیرمقلدین علماء کولاحق ہے
)اگرچہ آخرعمرکے اعتراف ورجوع نے تلافی کردی۔ اصحاب طریقت میں حضرت خواجہ باقی باللہ جیسے عارف کامل خود دہلی میں بعہد اکبری مقیم رہے لیکن وہ خود کہتے تھے کہ میں چراغ نہیں ہوں ۔چمقاق ہوں ۔آگ نکال دوں گا چراغ شیخ احمد سرہندی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف عہد اکبری کی بدعات تخت وتاج حکومت کے زور سے ہر طرف پھیل چکی تھی اورعلماء سوء ومشائخ دنیاپرست خود ان کے احداث ونقیب تھے کون تھا کہ اس وقت امن وعافیت کے مدرسوں اورسلطانی
وفرمانروائی کی خانقاہوں سے نکلتا اوردعوة واصلاح کی امتحان گاہوں میں قدم رکتھا اورپھر نصرة الہی کے لشکروں اورنفوذ باطنی کے سامانوں سے ایسامسلح ہوتاکہ نہ شہنشاہ ہند کاتخت وتاج اس کی راہ روک سکتا اورنہ وقت کی حکمرانی اورفرمانروائی اس کے سلطان حق وسطوت الہی پر غالب آسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ شک نہیں کہ توفیق الہی نے حضرت ممدوح کے وجود گرامی ہی کیلئے یہ مرتبہ خاص کردیاتھا۔انبیاء اولوالعزم کی نیابت وقائم مقامی یعنی مقام عزیمت ودعوت کا خلعت صرف انہی کے جسم پر چست آیا۔باقی جس قدر تھے یاتومدرسوں میں پڑھاتے رہے یاموٹی موٹی کتابیں اورنئی نئی شرحیں اورحاشئے لکھتے رہے یاپھران کی تضلیل وتکفیر کے فتووں پر دستخط کرتے رہے وقت کا جواصلی کام تھا اس کوکوئی ہاتھ نہ لگاسکا۔
دوسری جلد کے چوتھے مکتوب میں لکھتے ہیں ''از حق الیقین وعین الیقین چہ گوید واگرگوید کے فہم کند،این معاملات از حیطہ ولایت نیست ارباب ولایت نہ رنگ علماء ظواہر درادراک آں عاجز اند۔ایں کارمقتبس ازمشکوة نبوت است کہ بعد از تجدید الف ثانی بہ تبعیت ووراثت تازہ گشتہ۔ صاحب این علوم ومعارف مجدد است ''یہ جوبار بار کہہ رہاہوں کہ وقت کاسلطان اورخزینہ دار ایک ہی ہوتاہے خواہ کوئی ہو اورکیساہی ہو مگر اس سے الگ رہ کر چکھ نہں پاسکتا تویہ وہی حقیقت ہے جس کو بار بار حضرت ممدوح فرماتے رہے ۔(صفحہ 233)
ان سطورکے لکھتے ہوئے خیال آیاکہ حضرت مجدد رحمتہ الہ علیہ کاوجود گرامی بھی منجملہ ان اکابرامت کے ہے جن کی تعظیم وتوقیر توحسن اعتقاد کی بناء پر بہت کیجاتی ہے لیکن انکی زندگی کے اصلی کارناموں پر پردے پڑگئے ہیں بڑے بڑے معتقدین تک کو خبرنہیں ۔عام طورپر سمجھاجاتاہے کہ ان کی تجدید محض ردبدعات جہال صوفیہ وتحقیق بعض معارف تصوف واعلان واشتہار توحید شہیود میں منحصر ہے حالانکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔خودان کی زندگی میں بھی بہت کم لوگوں کی وہاں تک رسائی ہوئی تھی۔ اسی لئے بار بار اپنے مکتوبات میںیہ شعر لکھتے ہیں اورابناء عصر کی کوتاہ فہمیوں پر فغان سنج ہیں۔اصل یہ ہے کہ مجددین امت کاظہو ربھی معاملات نبوت کے ماتحت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال خیال ہواکہ حضرت موصوف کی سیرت لکھناضروری ہے اس بارے میں تمام مواد ذہن میں موجود تھا۔ حاجت مطالعہ ومراجعہ کی نہ تھی۔ اس لئے پچھلے ہفتہ اس طرح توجہ ہوئی اورآج31اگست سنہ 1916کو پورے ایک ہفتہ میں اتمام کو پہنچی۔ فالحمدللہ علی ذلک،شمار کیاتو متوسط تقطیع کے 173صفحے ہوئے۔ چونکہ اس تذکرہ کی تسوید کے محرک وباعث مرزا فضل الدین احمد صاحب سے وعدہ کیاتھ اکہ تذکرہ کے ضمن میں جوکچھ لکھاجائے گا انہی کے سپرد ہوگا۔ اس لئے یہ بھی انہی کے حوالہ کرتاہوں۔ خواہ چھپ جائے خواہ پڑارہے۔
سیرت حضرت مجدد لکھتے ہوئے کچھ عجیب انشراح خاطر اورانبساط طبع بہم پہنچا جس کی کیفیت حد بیان کرنے سے باہر ہے اوریہ یقینا اس ارادہ ونسبت کا نتیجہ ہے جو حضرت ممدوح سے اس عاجز اوراس عاجز کے خاندان کے تمام اکابر کو نسلابعد نسل حاصل رہی ہے۔حتی کہ اس کو اپنے خمیر طینت میں ممزوج پاتاہوں اوراس وقت سے برسرنفوذ وظہور دیکھتاہون کہ قبل ان اعرف الہوی۔یہی نسبت وارادت کی ایک دولت ہے جو شاید ہم بے مائگان کار اورتہی دستان راہ کیلئے توشہ آخرت اوروسیلہ سعادت ثابت ہو۔اگراس کے دامن تک ہاتھ نہ پہنچ سکاتواس کے دوستوں کادامن پکڑ سکتے ہیں ؟(تذکرہ 231)
میرے خیال سے اہل حدیث کے فقط دوحضرات کے نقولات کافی ہوں گے جس میں انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی کے خدمات کا اعتراف کیاہے۔لیکن اس موقع پر ضروری ہے کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں جوکچھ لکھاہےوہ نقل کیاجائے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ "اخبار الاخیار" میں رقم طراز ہیں:
ترجمہ:کتاب اخبار الاخیار مکمل ہوئی لیکن حقیقتا اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچے گی جبکہ
زبدۃ المقربین ،قطب الاقطاب ،مظہر تجلیات الہی ،مصدر برکات نامتناہی ،امام ربانی ،مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
کے کچھ حالات تحریر نہ کئے جائيں-مجھ مصنف کو آخری عمر میں آپ سے نسبت حاصل ہوئی اس لئے آپ مقدم ترین کاملین و سابق ترین واصلین الی اللہ کا تذکرہ اس کتاب کے آخر میں ہی زیادہ مناسب ہے اور اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو اول وآخر سب ایک ہی چیز ہے،میرا آپ سے رجوع ہونا ثقہ حضرات کی زبانی مشہور بات ہے جیساکہ کتاب کے آخر میں ان شاء اللہ بیان ہوگا-(اخبار الاخیار،ص728)
یہ لیجئے شاعراسلام ڈاکٹر علامہ اقبال کا حضرت مجدد الف ثانی کی خدمت میں نذرانہ عقیدت ہے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
شطحیات
اب ذرا کچھ باتیں شطحیات کے تعلق سے بھی ہوجائیں ۔شطحیات بزرگان دین کے ایسے اقوال وافعال کو کہتے ہیں جوان سے بے خودی میں صادر ہوجائیں اورجو شریعت کے خلاف ہوں۔اس بارے میں علماکاموقف یہ رہاہے کہ جن کی پوری زندگی شریعت مطہرہ پر عمل میں گزری ہو اورجن کا علم وفضل امت کے درمیان مشہور ومعروف ہواگران سے کچھ ایسے کلمات کاصدورہوتاہے جو کہ خلاف شریعت ہیں یابظاہر خلاف شریعت معلوم ہوتے ہیں توان کی تاویل کی جائے گی اگرممکن ہو، اوراگریہ ممکن نہ ہوتو پھراس کے معنی ومفہوم کو خداکے سپرد کردیاجائے گا اوراس بارے مین ان کومعذورسمجھاجائے گا اوراس غلطی میں نہ ان کی پیروی کی جائے گی اورنہ ان کی تضلیل وتفسیق کی جائے گی۔
تاریخ میں ابن خلدون کابڑانام ہے اوراسے عمرانیات کا بانی تصورکیاجاتاہے ابن خلدون کی وجہ شہرت اس کا مقدمہ ہے جو اس نے تاریخ پر لکھاہےاس مقدمہ میں اس نے مختلف امور پر اظہار خیال کیاہے اورکتاب کے آخر میں اس نے مختلف علوم وفنون پراظہار خیال کیاہے جس سے اس کاتبحر علمی ثابت ہوتاہے اورکتاب کے مطالعہ سے بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس نے کس طرح جامعیت اوراختصار کے ساتھ دریاکو کوزہ میں بند کردیاہے۔اب شطحیات یاغلبہ حال میں صوفیاء کی زبان سے جوایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو بظاہر خلاف شریعت ہوتے ہیں اس بارے میں اہل علم وانصاف کا کیاطریقہ کار ہوناچاہئے اس کو ابن خلدون کی زبانی سنئے۔
و أما الكلام في الكشف و إعطاء حقائق العلويات و ترتيب صدور الكائنات فأكثر كلامهم فيه نوع من المتشابه لما أنه وجداني عندهم و فاقد الوجدان عندهم بمعزل عن أذواقهم فيه. و اللغات لا تعطى له دلالة على مرادهم منه لأنها لم توضع إلا للتعارف و أكثره من المحسوسات. فينبغي أن لا نتعرض لكلامهم في ذلك و نتركه فيما تركناه من المتشابه و من رزقه الله فهم شيء من هذه الكلمات على الوجه الموافق لظاهر الشريعة فأكرم بها سعادة. و أما الألفاظ الموهمة التي يعبرون عنها بالشطحات و يوآخذهم بها أهل الشرع فاعلم أن الإنصاف في شأن القوم أنهم أهل غيبة عن الحس و الواردات تملكهم حتى ينطقوا عنها بما لا يقصدونه و صاحب الغيبة غير مخاطب و المجبور معذور. فمن علم منهم فضله و اقتداؤه حمل على القصد الجميل من هذا و أمثاله و أن العبارة عن المواجد صعبة لفقدان الوضع لها كما وقع لأبي يزيد البسطامي و أمثاله. و من لم يعلم فضله و لا اشتهر فموآخذ بما صدر عنه من ذلك إذا لم يتبين لنا ما يحملنا على تأويل كلامه. و أما من تكلم بمثلها و هو حاضر في حسه و لم يملكه الحال فموآخذ أيضا. و لهذا أفتى الفقهاء و أكابر المتصوفة بقتل الحلاج لأنه تكلم في حضور و هو مالك لحاله. و الله أعلم(مقدمہ ابن خلدون230)
اس عربی کا کلام کا خلاصہ وہی ہے جو میں اوپر نقل کرچکاہوں اس لئے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔
اب اس کے بعد شطحیات کے متعلق دیگر علماء کی آراء نقل کرتاہوں۔
بعض اہل حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے۔(التکشف 519)ب
ے اختیاری کی حالت میں جو غلبہ وارد کی کی وجہ سے قواعد کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ شطح ہے۔اس شخص پر نہ گناہ ہے اورنہ اس کی تقلید جائز ہے۔(تعلیم الدین)
اکابر کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتوی لگادیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یاسکر کی حالت میں نکل جاتے ہین وہ نہ موجب کفر ہیں اورنہ موجب تقلید۔حدیث میں آیا ہے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے ا س سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جیساکہ ایک آدمی سفر میں جارہاہواوراس کی اونٹی پر اس کا ساراسامان کھانے پینے ک اہے اورایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک وہلاکت کا محل ہے تھوڑ دیر کو لیٹا ۔ذراآنکھ لگی اورجب آنکھ کھلی تواس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی۔ وہ ڈھونڈتارہا اورگرمی اورپیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیاکہ مرجائوں گا اورہاتھ پر سررکھ کر لیٹ گیا ۔آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا۔اس وقت میں اس کی خوشی کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا اورخوشی میں کہنے لگا اے اللہ تومیرابندہ میں تیرارب ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ شدت فرح سے چوک کیا۔یہ روایت بخاری ومسلم مین حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت انس سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے۔(بحوالہ شریعت وطریقت کا تلازم ۔شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ص202)
اب یہاں سے غیرمقلدین کے مشہور عالم مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے نقل کرتے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد ایک ادیب اورانشاء پرداز بھی تھے اس لئے ذیل کی تحریر سے علم اورادب دونوں کا مزہ لیجئے۔
اصل یہ ہے کہ اصحاب احوال وطریق کے معاملات کچھ عجیب وغریب واقع ہوئے ہیں اوریہ قوم اپنے کلمات واقوال غریبہ کیلئے بہت سے عذرات پیش کرتی
ہے۔اہل حق وانصاف نے ان عذرات کو قبول کیاہے۔مگر جولوگ ذوق حقیقت سے محروم اورسجن الفاظ وصورت میں محبوس ہیں۔ان کا فہم نارسا وہاں تک نہیں پہنچتا اور''رایت اسدایرمی''سنکر شیخ کے پنچے اورناخن ڈھونڈنے لگتے ہیں
۔بلاشبہ خواطر واحوال کیلئے شریعت الہی اورعلوم انبیاء کرام محک ردوقبول ومعیار ظن ویقین ہیں۔لیکن اکثروں کو مغلوبیت سکروسرگشتگی حال میں اس کاہوش ہی نہیں رہتا کہ اس کسوٹی کیلئے ہاتھ بڑھائیں۔یہ سخت غلطی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ ہماری درماندگی ومعذوری پر بھی نظررہے۔
جب حواس ظاہری کا عذر مسموع ہے اگر حاسہ بصرسراب کودریاسمجھ اورارباب قیل وقال وفقہاء ومتکلمین کیلئے بات تاویل مفتوح ہے اگر رائے وقیاس مین غلطی کرجائیں
توپھراصحاب احوال نے کیاقصور کیاہے کہ انکی لغزش فہم واشتباہ احوال وغلطی استنباط ناقابل معافی وعفو ہو
فیاللہ یاللعقول ،جن نفوس قدسیہ کی ساری زندگیاں زہد وانقطاع حقیقی وکمال مرتبہ عرفان ومحبت الہی واعمال صالحہ وحقہ وترک ماسوی اللہ میں بسرہوجائیں ان کی ایک غلطی بھی درخورعفو وتاویل نہ ہو ۔لیکن جن علماء دنیا وفقہاء دولت کی ساری عمریں یکسر دنیاسازی ودین بازی ومکر وحیل وفساد زور وہواپرستی وزہد وریاء میں ضائع ہوجائیں اورجن کو بقول علامہ شوکانی اہل اللہ سے وہ نسبت ہو کالبھیمة الی الانسان اوکالانسان بالنسبة الی الملائکة ۔ان کو پوراحق حاصل ہو کہ اپنی خود ساختہ مسند افتاء پر بیٹھ کر کفروقتل کافتویٰ لکھیں اوروہ پابجولاں حربی کفارومشرکین کی طرح ان کے سامنے لائیں جائیں۔
بڑی دقت ان لوگوں کو معانی کے فراوانی ووسعت اورالفاظ کی تنگ نائی ونامساعدت سے پیش آتی ہے۔ناچار ہنگام تعبیر وبیان جو الفاظ سامنے آجاتے ہیں انہی سے کام لیناپڑتاہے۔
نامحرموں
کیلئے وہ الفاظ فتنہ بن جاتے ہیں۔
معتقدین مقلدین
ان کو حجة گردانتے ہیں اور
منکرین معتصبین
آلہ انکاروکفر لیکن ارباب حق واقتصاد یاتوان کی تاویل کرتے ہیں یاان کے معاملے کوعالم السرائرکے حوالے کردیتے ہیں
البتہ عمل واعتقاد ہرحال میں احکام شریعت وظواہر نصوص کتاب وسنت پر ہے۔اوران کے سواکوئی نہیں جو محک حق وباطل وحجت وبرہان ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیاخوب فرمایاہے حجتہ الاسلام ابن قیم نے اعلام میں اورایک ایسااصل الاصول بتلادیاہے جس کے بعد اس راہ کی ساری مشکلات معدوم ہوجاتی ہیں کہ لابدمن امرین احدھمااعظم میں الآخر وھوالنصیحة للہ ولرسولہ وکتابہ وتنزیہہ عن الاقوال الباطلة المناقضة والثانی معرفة ائمة الاسلام ومقادیرھم وحقوقھم ومراتبھم وان فضلھم لایوجب قبول کل ماقالوا ولایوجب طرح اقوالھم
یعنی صحیح راہ حق اعتدال کی یہ ہے کہ دواصل ہیں اوردونوں کو ملحوظ رکھناضروری ہے ایک یہ کہ ہرحال میں کتاب وسنت اورنصوص شرعیہ کو مقدم رکھناچاہئے اوراسی پر حکم وعمل کرناچاہئے دوسری یہ کہ
تمام ائمہ اسلام اورعلماء حق سے حسن ظن اورمحبت وارادت رکھنی چاہئے اران کے مراتب وحقوق کی رعایت سے کبھی غافل نہ ہوناچاہئے
۔یہی دواصل ہے جن کے توازن وتناسب کو باعتدال ملحوظ نہ رکھنے سے ساری مصیبتیںپیش آتی ہیں اوربدبختانہ لوگوں نے ہمیشہ انہیں میں افراط وتفریط کیاہے۔یادونوں میں سے کسی ایک کے ہورہے ہیں۔ایک جماعت احکام ونصوص شرعیہ کے اتباع وتقدیم کا یہ مطلب سمجھتی ہے کہ جہاں کسی اہل علم وحال کا کوئی قول بظاہر کسی حکم ونص کے خلاف نظرآیا۔
بلاتامل تضلیل وتکفیر پر آمادہ ہوگئے
اورجھٹ حکم لگادیاکہ وہ منکر شریعت ہے اگرچہ اس نے اپنی سازی زندگی شریعت کے علم وعمل میں بسرکردی ہو۔ دوسری جماعت نے
ائمہ واکابردین کی پیروی اورمحبت واعتقاد کے یہ معنی سمجھے کہ احکام ونصوص کو انکا تابع ومحکوم بنادیا
اورچند غیرمعصوم انسانوں کی خاطرکتاب وسنت کوتر کرکے اتخذوااحبارھم ورہبانھم اربابامن دون اللہ کی سرحد سے قریب ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔پہلی راہ باعتبار اصل کے
راہ یہود
ہے اوردوسری راہ نصاری اوراسلام نے دونوں کوبند کرناچاہاکہ غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عذرات اصحاب علم واحوال دونوں کو پیش آئے ہیں اصحاب علم کیلئے یہ ہے کہ مثلاکسی وجہ سے نص ان تک نہ پہنچی جیساکہ بعض اجلہ صحابہ تک پیش آیااوراصحاب احوال کیلئے یہ کہ مثلاًغلبہ سکر یافریب سوانح وخواطریامثلاًایک اجمالی کیفیت پیش آئی یاازقبیل تمثیل وتشبح اوراس کی تفصیل وتعبیر میں قصورفہم واجتہاد حائل ہوگیا۔ یامثلاً ایک جزئی وعارضی مقام پیش آیا اورجزء وکل اورعارض وحقیقت میں تمیز کرنے سے بسبب غلبہ حال درماندہ رہ گئے
یاسورج نکل آیااوراس کی سلطان تجلی میں ستارے ناپید ہوگئے۔غلطی سے سمجھ لیاکہ ستاروں کا وجود ہی نہیں۔(تذکرہ ابوالکلام آزاد ص 33تا36)
اگر یہ دعویٰ کیاجائے کہ جواصل اورمعیار حضرت ابن قیم نے قائم کیاہے اس پر اہل حدیث حضرات قطعا قائم نہیں ہیں بلکہ ایک انتہاہیں اوردوسری انتہاء پر بریلوی حضرات رہے ہیں۔ تو شاید بے جانہ ہوگا۔