• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفيوں کا عقيدہ تصوف

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بہترہوگاکوئی بھائی اس موضوع پر اظہار خیال کرے کہ
حضرت شاہ ولی اللہ کا حضرت مجدد الف ثانی کے متعلق کیاخیال تھا۔
دوسرے جن بھائی نے حضرت مجدد الف ثانی کیلئے ’’پاگل‘‘کالفظ استعمال کیاہے تووہ بتائیں کہ
جنہوں نے ان کے مکتوبات کی تعریف کی ہے اورعلمی تبحر کی علامت بتایاہے مثلا نواب صدیق حسن خان وغیرہ
ان کے متعلق کیاارشاد فرماناپسند کریں گے؟
کیونکہ جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ کرکٹ بے وقوفوں کاکھیل اورکرکٹ دیکھنے والے اس سے بڑے بے وقوف ہیں
توکیایہی الفاظ ہمیں نواب صدیق حسن خان کے متعلق (اوردوسرے سلفی عالم جنہوں نے مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی تعریف کی ہے)استعمال کرنے کی اجازت اوراذن عام ہے؟
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
بہترہوگاکوئی بھائی اس موضوع پر اظہار خیال کرے کہ
حضرت شاہ ولی اللہ کا حضرت مجدد الف ثانی کے متعلق کیاخیال تھا۔
فلاں کا فلاں کے بارے میں کیا مئوقف ہے اس سے اس شخص کے خلاف کتاب و سنت اقوال کو کیا سند حاصل ہو سکتی ہے۔ اس امت میں تو ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو فرعون کو بھی ایمان والا قرار دیتے رہے ہیں اور فرعون کو ایمان والا سمجھنے والوں کو ہمارے ایک حنفی عالم بہت بڑا ولی مانے بیٹھے ہیں۔
لہٰذا میرے خیال میں تو بجائے شاہ ولی اللہ دہلوی یا کسی بھی شخص کا مئوقف مجدد الف ثانی کے بارے میں دیکھنے کے یہ دیکھنا چاہئے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے جو باتیں ان مکتوبات میں درج کر رکھی ہیں ان کا کتاب و سنت کی رو سے حکم کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان مکتوبات میں کتاب و سنت کے صریح خلاف اقوال و افعال کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان مکتوبات میں ایسے ایسے بلند بانگ دعوے درج ہیں جو کفر و ضلالت سے ہرگز کم نہیں۔
دوسرے جن بھائی نے حضرت مجدد الف ثانی کیلئے ’’پاگل‘‘کالفظ استعمال کیاہے تووہ بتائیں کہ
جنہوں نے ان کے مکتوبات کی تعریف کی ہے اورعلمی تبحر کی علامت بتایاہے مثلا نواب صدیق حسن خان وغیرہ
ان کے متعلق کیاارشاد فرماناپسند کریں گے؟
کیونکہ جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ کرکٹ بے وقوفوں کاکھیل اورکرکٹ دیکھنے والے اس سے بڑے بے وقوف ہیں
توکیایہی الفاظ ہمیں نواب صدیق حسن خان کے متعلق (اوردوسرے سلفی عالم جنہوں نے مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی تعریف کی ہے)استعمال کرنے کی اجازت اوراذن عام ہے؟
میں پہلے بھی کئی جگہ بادلائل یہ عرض کر چکا ہوں کہ کسی شخصیت یا کسی کتاب کی تعریف کر دینا اس شخصیت یا کتاب کے خلاف کتاب و سنت اقوال کو سند جواز ہرگز فراہم نہیں کرتا۔ کسی بھی شخص یا کتاب میں موجود کفریہ نظریات ضروری نہیں کہ ہر شخص پر ظاہر ہوں۔ بھلا جب فرعون کی تعریف کرنے والوں کو ولی ماننے والے موجود ہوں تو شیخ احمد سرہندی کی اس تعریفی بہانے سے دال کیسے گلے کی؟
اگر جمشید صاحب فرعون کو تعریف کرنے والوں، احمد رضا خان بریلوی کی تعریف کرنے والوں، خواجہ غلام فرید کی تعریف کرنے والوں اور دیگر باطل و مردود نظریات سے بھری کتابوں کی تعریف کرنے والوں پر اپنے اس ’’کرکٹ‘‘ والے مقولے کے استعمال کو درست اور صحیح سمجھتے ہیں تو ۔۔۔۔ مزید ان سے اس فارمولے کی عملی شکل دیکھنا درکار ہے تا کہ ہم ان سے بھرپور استفادہ حاصل کر سکیں۔ والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بہترہوگاکوئی بھائی اس موضوع پر اظہار خیال کرے کہ
حضرت شاہ ولی اللہ کا حضرت مجدد الف ثانی کے متعلق کیاخیال تھا۔
دوسرے جن بھائی نے حضرت مجدد الف ثانی کیلئے ’’پاگل‘‘کالفظ استعمال کیاہے تووہ بتائیں کہ
جنہوں نے ان کے مکتوبات کی تعریف کی ہے اورعلمی تبحر کی علامت بتایاہے مثلا نواب صدیق حسن خان وغیرہ
ان کے متعلق کیاارشاد فرماناپسند کریں گے؟
کیونکہ جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ کرکٹ بے وقوفوں کاکھیل اورکرکٹ دیکھنے والے اس سے بڑے بے وقوف ہیں
توکیایہی الفاظ ہمیں نواب صدیق حسن خان کے متعلق (اوردوسرے سلفی عالم جنہوں نے مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی تعریف کی ہے)استعمال کرنے کی اجازت اوراذن عام ہے؟
مروج تصوف جس میں حنفی،دیوبندی اور بریلوی مبتلا رہے ہیں اور اب بھی ہیں غلیظ ترین اور ناپاک ترین چیز ہے۔ تصوف جیسی نجاست میں مبتلا افراد کے کسی اچھے کام کی تعریف بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ عام لوگوں کو اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ تعریف کئے جانے والے فرد کا عقیدہ صحیح ہے یا وہ شخص بھی قابل عزت ہے جبکہ تصوف کے لازمی شرکیہ اور کفریہ عقیدے وحدت الوجود رکھنے والا صوفی مسلمانوں کے بغض اور نفرت کا مستحق ہے۔ چونکہ محبت،نفرت،بغض عبادت کے قبیل سے ہیں اس لئے اس عبادت کا مستحق صرف اللہ رب العالمین ہے اللہ ہی کے لئے کسی سے محبت رکھی جائے اور اسی کے لئے دوسروں سے بغض اور نفرت ہو۔ شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں: ان کے ناپاک و نجس دین کی وجہ سے ان سے بغض رکھا جائے، ان سے علیحدگی اختیار کی جائے، ان کی طرف کسی قسم کا قلبی جھکاو اور میلان نہ ہو، اور نہ ہی ان کے کسی کارنامے پر خوش ہواجائے۔(ماہنامہ محدث، نومبر٢٠١١ ، صفحہ٤١)

ہم سمجھتے ہیں کہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے مجدد الف ثانی جیسے صوفی کی تعریف کی یہ ان کی لاعلمی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور حسن ظن کا بھی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ مراسلہ میں نے اردومجلس پر لکھاتھا۔وہیں سے لے کریہاں نقل کررہاہوں۔

حضرت مجدد الف ثانی کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اورہرصاحب فضل وکمال نے اس کا اعتراف کیاہے۔اگرمیں اس کی تفصیل بیان کروں توایک مضمون سے بڑھ کتاب بن جائے۔اولااہل حدیث یاغیرمقلدوں کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان القنوجی کی کتاب ابجدالعلوم سے حضرت مجددالف ثانی کا تذکرہ نقل کرتاہوں۔

الشيخ‏:‏ أحمد بن عبد الأحد بن زين العابدين الفاروقي، السرهندي
مجدد الألف الثانيكان عالما عاملا، عارفا كاملا، ينتهي نسبه إلى الفاروق‏.‏
ولد في سنة 971، حفظ القرآن، وقرأ على أبيه أولا، واستفاد منه جما من العلوم، ثم ارتحل إلى سالكوت، وتتلمذ على المحقق‏:‏ كمال الدين الكشميري ‏(‏3/ 226‏)‏ بعض المعقولات بغاية من التحقيق، وأخذ الحديث عن‏:‏ الشيخ يعقوب، المحدث الكشميري، وكان صاحب كبراء المحدثين بالحرمين الشريفين، وأسند الحديث عنهم، وتناقل الحديث المسلسل بالرحمة بواسطة واحدة، عن الشيخ‏:‏ عبد الرحمن بن فهد - من كبراء المحدثين في زمانه بالهند -، وتعاطى عنه إجازة كتب التفسير، والصحاح الست، وسائر مقروءاته‏.‏
وروى الحديث المسلسل بالأولية عن القاضي‏:‏ بهلول البدخشاني، عن ابن فهد المذكور، ولعله هو الواسطة في الإجازة بينهما، وفرغ من التحصيل في عمر سبعة عشرة سنة، واشتغل بالتدريس‏.‏

وله‏:‏ رسائل لطيفة باللسان العربي، والفارسي‏.‏

وجاء إلى دهلي في سنة 1002، وأخذ الطريقة النقشندية عن خواجة عبد الباقي، عن خواجه إمكنكي، عن أبيه مولانا‏:‏ درويش محمد، عن خاله مولانا‏:‏ محمد زاهد، عن خواجه‏:‏ عبيد الله أحرار، وكذا الطرائق الأخرى عن شيوخ أخر، ووصلت سلسلته من الهند إلى ما وراء النهر، والروم، والشام، والعرب، وأقصى المغرب، مثل‏:‏ فاس وغيرها‏.‏

وله مكتوبات، في ثلاثة مجلدات، هي حجج قواطع على تبحره، وسمعت أنه عربها بعض العلماء، ولكن لم أر المعرَّبة، وحبسه السلطان‏:‏ جهانكير في حصن كواليا، على عدم سجدة التعظيم منه له، و إليه أشار آزاد في غزله‏:‏

لقد برع الأقران في الهند ساجع ** وجدد فن العشق يا للمغرد‏!‏

فلا عجب أن صاده متقنص ** ألم تر في الأسلاف قيد المجدد‏؟‏

ولما حبس لبث في السجن ثلاث سنين، ثم أطلق، وأقام في العسكر يدور معه، ثم عاد إلى سهرند - والعود أحمد -، ثم توفي في سنة 1034، وله ثلاث وستون سنة، دفن بسهرند‏.‏

ومن مؤلفاته‏:‏ ‏(‏الرسالة التهليلية‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏إثبات النبوة‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏المبدأ ‏(‏3/ 227‏)‏ والمعاد‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏المكاشفات الغيبية‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏آداب المريدين‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏المعارف اللدنية‏)‏، ورسالة‏:‏ ‏(‏رد الشيعة‏)‏، و ‏(‏تعليقات العوارف‏)‏‏.‏‏.‏‏.‏ إلى غير ذلك‏.‏

ومن إفاداته أنه أوضح الفرق بين وحدة الوجود، وبين وحدة الشهود، وبيَّن أن وحدة الوجود تعتري السالك في أثناء سلوكه، فمن ترقى مقاما أعلى من ذلك تتجلى له حقيقة وحدة الشهود، فسد بذلك طريق الإلحاد على كثير ممن كان يتستر بزي الصوفية، ثم إنه باحث الملاحدة في زمانه، وجادلهم بقلمه ولسانه، ورد على الروافض، وحقق الفرق بين البدعة والسنة؛ وأقيسة المجتهدين، واستحسانات المتأخرين؛ والتعارف عن القرون المشهود لها بالخير، وما أحدثه الناس في القرون المتأخرة وتعارفوه فيما بينهم؛ فردّ بذلك مسائل مما استحسنها المتأخرون من فقهاء مذهبه، وكان فقيها ماتريديا، حريصا على اتباع السنة، مجتهدا فيه، قليل الخطأ في دركه، والمسائل المعدودة التي شدد بعض أهل العلم النكير بها عليه، فالصواب أن لها تأويلا، وقد شاركه فيها غيره، ممن لا يحصى كثرة، فليس إذا يخصه الإنكار‏.‏

ومن أبنائه‏:‏ الشيخ محمد سعيد، الملقب‏:‏ بخازن الرحمة، له حاشية على ‏(‏المشكاة‏)‏، توفي في سنة 1020، والشيخ‏:‏ محمد معصوم، يلقب‏:‏ بالعروة الوثقى، له مجموع من مكاتيبه مفيد، توفي في سنة 1077‏.‏

وكان لهما أخ ثالث‏:‏ يقال له‏:‏ الشاه محمد يحيى، أخذ عن أخويه، وهو الذي خالفهم في مسألة الإشارة بالسبابة، توفي في سنة 1098‏.‏

ومن أجلة أصحابه المتأخرين‏:‏ الشيخ شمس الدين العلوي، من ذرية محمد ابن الحنفية، المعروف‏:‏ بميرزا مظهر جانجان، كان ذا فضائل كثيرة، وقرأ الحديث على الحاج السيالكوني، وأخذ الطريقة المجددية عن أكابر أهلها، كان له في اتباع السنة، والقوة الكشفية شأن عظيم‏.‏

وله شعر بديع، ومكاتيب نافعة، وكان يرى الإشارة بالمسبحة، ويضع يمينه على ‏(‏3/ 228‏)‏ شماله تحت صدره، ويقوي قراءة الفاتحة خلف الإمام‏.‏

عام وفاته‏:‏ عاش حميدا، مات شهيدا‏.‏

ومن أجلة أصحاب جانجان‏:‏ القاضي ثناء الله الأموي العثماني، من أهل بلدة ‏(‏باني بت‏)‏‏:‏ بقرب دهلي، كان فقيها، أصوليا، زاهدا، مجتهدا؛ له اختيارات في المذهب، ومصنفات في الفقه، والتفسير؛ وكان شيخه المظهر يفتخر به، رأيت له مؤلفات على مذهب النعمان، بالفارسية والعربية، وبعضها موجود عندي - رحمه الله تعالى -‏.‏" اهـ. (أبجد العلوم۔


اب یہاں سے اہل حدیث یاغیرمقلد حضرات کے دوسرے مشہور عالم مولاناابوالکلام آزاد کی شیخ مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں بلند کلمات نقل کئے جارہے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد یہ لکھنے کے بعد کہ عہد اکبری میں جوفتنے پھیل رہے تھے وہ سب کی نگاہوں کے سامنے اوراس وقت علماء اورصوفیاء کی بھی کمی نہ تھی لیکن اس وقت جس نے اس کام کیلئے قدم آگے بڑھایاورتجدید دین کی عظیم الشان خدمت انجام دی وہ حضرت مجدد الف ثانی ہیں
''بایں ہمہ دوسرے دوسرے گوشوں اورکاموں میں وقت بسرگرگئے اس راہ میں توایک قدم بھی نہ اٹھ سکا۔شیخ عبدالحق محدث کو توحضرت مجدد کے بارے میں سخت لغزش بھی ہوئی(
یہ لغزش ان کے مکتوبات کی بعض عبارتوں پر تھی جیساکہ ابن دائود اوردیگر غیرمقلدین علماء کولاحق ہے
)اگرچہ آخرعمرکے اعتراف ورجوع نے تلافی کردی۔ اصحاب طریقت میں حضرت خواجہ باقی باللہ جیسے عارف کامل خود دہلی میں بعہد اکبری مقیم رہے لیکن وہ خود کہتے تھے کہ میں چراغ نہیں ہوں ۔چمقاق ہوں ۔آگ نکال دوں گا چراغ شیخ احمد سرہندی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف عہد اکبری کی بدعات تخت وتاج حکومت کے زور سے ہر طرف پھیل چکی تھی اورعلماء سوء ومشائخ دنیاپرست خود ان کے احداث ونقیب تھے کون تھا کہ اس وقت امن وعافیت کے مدرسوں اورسلطانی
وفرمانروائی کی خانقاہوں سے نکلتا اوردعوة واصلاح کی امتحان گاہوں میں قدم رکتھا اورپھر نصرة الہی کے لشکروں اورنفوذ باطنی کے سامانوں سے ایسامسلح ہوتاکہ نہ شہنشاہ ہند کاتخت وتاج اس کی راہ روک سکتا اورنہ وقت کی حکمرانی اورفرمانروائی اس کے سلطان حق وسطوت الہی پر غالب آسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ شک نہیں کہ توفیق الہی نے حضرت ممدوح کے وجود گرامی ہی کیلئے یہ مرتبہ خاص کردیاتھا۔انبیاء اولوالعزم کی نیابت وقائم مقامی یعنی مقام عزیمت ودعوت کا خلعت صرف انہی کے جسم پر چست آیا۔باقی جس قدر تھے یاتومدرسوں میں پڑھاتے رہے یاموٹی موٹی کتابیں اورنئی نئی شرحیں اورحاشئے لکھتے رہے یاپھران کی تضلیل وتکفیر کے فتووں پر دستخط کرتے رہے وقت کا جواصلی کام تھا اس کوکوئی ہاتھ نہ لگاسکا۔


دوسری جلد کے چوتھے مکتوب میں لکھتے ہیں ''از حق الیقین وعین الیقین چہ گوید واگرگوید کے فہم کند،این معاملات از حیطہ ولایت نیست ارباب ولایت نہ رنگ علماء ظواہر درادراک آں عاجز اند۔ایں کارمقتبس ازمشکوة نبوت است کہ بعد از تجدید الف ثانی بہ تبعیت ووراثت تازہ گشتہ۔ صاحب این علوم ومعارف مجدد است ''یہ جوبار بار کہہ رہاہوں کہ وقت کاسلطان اورخزینہ دار ایک ہی ہوتاہے خواہ کوئی ہو اورکیساہی ہو مگر اس سے الگ رہ کر چکھ نہں پاسکتا تویہ وہی حقیقت ہے جس کو بار بار حضرت ممدوح فرماتے رہے ۔(صفحہ 233)

ان سطورکے لکھتے ہوئے خیال آیاکہ حضرت مجدد رحمتہ الہ علیہ کاوجود گرامی بھی منجملہ ان اکابرامت کے ہے جن کی تعظیم وتوقیر توحسن اعتقاد کی بناء پر بہت کیجاتی ہے لیکن انکی زندگی کے اصلی کارناموں پر پردے پڑگئے ہیں بڑے بڑے معتقدین تک کو خبرنہیں ۔عام طورپر سمجھاجاتاہے کہ ان کی تجدید محض ردبدعات جہال صوفیہ وتحقیق بعض معارف تصوف واعلان واشتہار توحید شہیود میں منحصر ہے حالانکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔خودان کی زندگی میں بھی بہت کم لوگوں کی وہاں تک رسائی ہوئی تھی۔ اسی لئے بار بار اپنے مکتوبات میںیہ شعر لکھتے ہیں اورابناء عصر کی کوتاہ فہمیوں پر فغان سنج ہیں۔اصل یہ ہے کہ مجددین امت کاظہو ربھی معاملات نبوت کے ماتحت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال خیال ہواکہ حضرت موصوف کی سیرت لکھناضروری ہے اس بارے میں تمام مواد ذہن میں موجود تھا۔ حاجت مطالعہ ومراجعہ کی نہ تھی۔ اس لئے پچھلے ہفتہ اس طرح توجہ ہوئی اورآج31اگست سنہ 1916کو پورے ایک ہفتہ میں اتمام کو پہنچی۔ فالحمدللہ علی ذلک،شمار کیاتو متوسط تقطیع کے 173صفحے ہوئے۔ چونکہ اس تذکرہ کی تسوید کے محرک وباعث مرزا فضل الدین احمد صاحب سے وعدہ کیاتھ اکہ تذکرہ کے ضمن میں جوکچھ لکھاجائے گا انہی کے سپرد ہوگا۔ اس لئے یہ بھی انہی کے حوالہ کرتاہوں۔ خواہ چھپ جائے خواہ پڑارہے۔

سیرت حضرت مجدد لکھتے ہوئے کچھ عجیب انشراح خاطر اورانبساط طبع بہم پہنچا جس کی کیفیت حد بیان کرنے سے باہر ہے اوریہ یقینا اس ارادہ ونسبت کا نتیجہ ہے جو حضرت ممدوح سے اس عاجز اوراس عاجز کے خاندان کے تمام اکابر کو نسلابعد نسل حاصل رہی ہے۔حتی کہ اس کو اپنے خمیر طینت میں ممزوج پاتاہوں اوراس وقت سے برسرنفوذ وظہور دیکھتاہون کہ قبل ان اعرف الہوی۔یہی نسبت وارادت کی ایک دولت ہے جو شاید ہم بے مائگان کار اورتہی دستان راہ کیلئے توشہ آخرت اوروسیلہ سعادت ثابت ہو۔اگراس کے دامن تک ہاتھ نہ پہنچ سکاتواس کے دوستوں کادامن پکڑ سکتے ہیں ؟(تذکرہ 231)
میرے خیال سے اہل حدیث کے فقط دوحضرات کے نقولات کافی ہوں گے جس میں انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی کے خدمات کا اعتراف کیاہے۔لیکن اس موقع پر ضروری ہے کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں جوکچھ لکھاہےوہ نقل کیاجائے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ "اخبار الاخیار" میں رقم طراز ہیں:
ترجمہ:کتاب اخبار الاخیار مکمل ہوئی لیکن حقیقتا اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچے گی جبکہ
زبدۃ المقربین ،قطب الاقطاب ،مظہر تجلیات الہی ،مصدر برکات نامتناہی ،امام ربانی ،مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
کے کچھ حالات تحریر نہ کئے جائيں-مجھ مصنف کو آخری عمر میں آپ سے نسبت حاصل ہوئی اس لئے آپ مقدم ترین کاملین و سابق ترین واصلین الی اللہ کا تذکرہ اس کتاب کے آخر میں ہی زیادہ مناسب ہے اور اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو اول وآخر سب ایک ہی چیز ہے،میرا آپ سے رجوع ہونا ثقہ حضرات کی زبانی مشہور بات ہے جیساکہ کتاب کے آخر میں ان شاء اللہ بیان ہوگا-(اخبار الاخیار،ص728)

یہ لیجئے شاعراسلام ڈاکٹر علامہ اقبال کا حضرت مجدد الف ثانی کی خدمت میں نذرانہ عقیدت ہے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار




شطحیات


اب ذرا کچھ باتیں شطحیات کے تعلق سے بھی ہوجائیں ۔شطحیات بزرگان دین کے ایسے اقوال وافعال کو کہتے ہیں جوان سے بے خودی میں صادر ہوجائیں اورجو شریعت کے خلاف ہوں۔اس بارے میں علماکاموقف یہ رہاہے کہ جن کی پوری زندگی شریعت مطہرہ پر عمل میں گزری ہو اورجن کا علم وفضل امت کے درمیان مشہور ومعروف ہواگران سے کچھ ایسے کلمات کاصدورہوتاہے جو کہ خلاف شریعت ہیں یابظاہر خلاف شریعت معلوم ہوتے ہیں توان کی تاویل کی جائے گی اگرممکن ہو، اوراگریہ ممکن نہ ہوتو پھراس کے معنی ومفہوم کو خداکے سپرد کردیاجائے گا اوراس بارے مین ان کومعذورسمجھاجائے گا اوراس غلطی میں نہ ان کی پیروی کی جائے گی اورنہ ان کی تضلیل وتفسیق کی جائے گی۔

تاریخ میں ابن خلدون کابڑانام ہے اوراسے عمرانیات کا بانی تصورکیاجاتاہے ابن خلدون کی وجہ شہرت اس کا مقدمہ ہے جو اس نے تاریخ پر لکھاہےاس مقدمہ میں اس نے مختلف امور پر اظہار خیال کیاہے اورکتاب کے آخر میں اس نے مختلف علوم وفنون پراظہار خیال کیاہے جس سے اس کاتبحر علمی ثابت ہوتاہے اورکتاب کے مطالعہ سے بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس نے کس طرح جامعیت اوراختصار کے ساتھ دریاکو کوزہ میں بند کردیاہے۔اب شطحیات یاغلبہ حال میں صوفیاء کی زبان سے جوایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو بظاہر خلاف شریعت ہوتے ہیں اس بارے میں اہل علم وانصاف کا کیاطریقہ کار ہوناچاہئے اس کو ابن خلدون کی زبانی سنئے۔

و أما الكلام في الكشف و إعطاء حقائق العلويات و ترتيب صدور الكائنات فأكثر كلامهم فيه نوع من المتشابه لما أنه وجداني عندهم و فاقد الوجدان عندهم بمعزل عن أذواقهم فيه. و اللغات لا تعطى له دلالة على مرادهم منه لأنها لم توضع إلا للتعارف و أكثره من المحسوسات. فينبغي أن لا نتعرض لكلامهم في ذلك و نتركه فيما تركناه من المتشابه و من رزقه الله فهم شيء من هذه الكلمات على الوجه الموافق لظاهر الشريعة فأكرم بها سعادة. و أما الألفاظ الموهمة التي يعبرون عنها بالشطحات و يوآخذهم بها أهل الشرع فاعلم أن الإنصاف في شأن القوم أنهم أهل غيبة عن الحس و الواردات تملكهم حتى ينطقوا عنها بما لا يقصدونه و صاحب الغيبة غير مخاطب و المجبور معذور. فمن علم منهم فضله و اقتداؤه حمل على القصد الجميل من هذا و أمثاله و أن العبارة عن المواجد صعبة لفقدان الوضع لها كما وقع لأبي يزيد البسطامي و أمثاله. و من لم يعلم فضله و لا اشتهر فموآخذ بما صدر عنه من ذلك إذا لم يتبين لنا ما يحملنا على تأويل كلامه. و أما من تكلم بمثلها و هو حاضر في حسه و لم يملكه الحال فموآخذ أيضا. و لهذا أفتى الفقهاء و أكابر المتصوفة بقتل الحلاج لأنه تكلم في حضور و هو مالك لحاله. و الله أعلم(مقدمہ ابن خلدون230)

اس عربی کا کلام کا خلاصہ وہی ہے جو میں اوپر نقل کرچکاہوں اس لئے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اب اس کے بعد شطحیات کے متعلق دیگر علماء کی آراء نقل کرتاہوں۔

بعض اہل حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے۔(التکشف 519)ب
ے اختیاری کی حالت میں جو غلبہ وارد کی کی وجہ سے قواعد کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ شطح ہے۔اس شخص پر نہ گناہ ہے اورنہ اس کی تقلید جائز ہے۔(تعلیم الدین)
اکابر کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتوی لگادیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یاسکر کی حالت میں نکل جاتے ہین وہ نہ موجب کفر ہیں اورنہ موجب تقلید۔حدیث میں آیا ہے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے ا س سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جیساکہ ایک آدمی سفر میں جارہاہواوراس کی اونٹی پر اس کا ساراسامان کھانے پینے ک اہے اورایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک وہلاکت کا محل ہے تھوڑ دیر کو لیٹا ۔ذراآنکھ لگی اورجب آنکھ کھلی تواس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی۔ وہ ڈھونڈتارہا اورگرمی اورپیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیاکہ مرجائوں گا اورہاتھ پر سررکھ کر لیٹ گیا ۔آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا۔اس وقت میں اس کی خوشی کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا اورخوشی میں کہنے لگا اے اللہ تومیرابندہ میں تیرارب ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ شدت فرح سے چوک کیا۔یہ روایت بخاری ومسلم مین حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت انس سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے۔(بحوالہ شریعت وطریقت کا تلازم ۔شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ص202)
اب یہاں سے غیرمقلدین کے مشہور عالم مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے نقل کرتے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد ایک ادیب اورانشاء پرداز بھی تھے اس لئے ذیل کی تحریر سے علم اورادب دونوں کا مزہ لیجئے۔

اصل یہ ہے کہ اصحاب احوال وطریق کے معاملات کچھ عجیب وغریب واقع ہوئے ہیں اوریہ قوم اپنے کلمات واقوال غریبہ کیلئے بہت سے عذرات پیش کرتی
ہے۔اہل حق وانصاف نے ان عذرات کو قبول کیاہے۔مگر جولوگ ذوق حقیقت سے محروم اورسجن الفاظ وصورت میں محبوس ہیں۔ان کا فہم نارسا وہاں تک نہیں پہنچتا اور''رایت اسدایرمی''سنکر شیخ کے پنچے اورناخن ڈھونڈنے لگتے ہیں
۔بلاشبہ خواطر واحوال کیلئے شریعت الہی اورعلوم انبیاء کرام محک ردوقبول ومعیار ظن ویقین ہیں۔لیکن اکثروں کو مغلوبیت سکروسرگشتگی حال میں اس کاہوش ہی نہیں رہتا کہ اس کسوٹی کیلئے ہاتھ بڑھائیں۔یہ سخت غلطی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ ہماری درماندگی ومعذوری پر بھی نظررہے۔
جب حواس ظاہری کا عذر مسموع ہے اگر حاسہ بصرسراب کودریاسمجھ اورارباب قیل وقال وفقہاء ومتکلمین کیلئے بات تاویل مفتوح ہے اگر رائے وقیاس مین غلطی کرجائیں توپھراصحاب احوال نے کیاقصور کیاہے کہ انکی لغزش فہم واشتباہ احوال وغلطی استنباط ناقابل معافی وعفو ہو
فیاللہ یاللعقول ،جن نفوس قدسیہ کی ساری زندگیاں زہد وانقطاع حقیقی وکمال مرتبہ عرفان ومحبت الہی واعمال صالحہ وحقہ وترک ماسوی اللہ میں بسرہوجائیں ان کی ایک غلطی بھی درخورعفو وتاویل نہ ہو ۔لیکن جن علماء دنیا وفقہاء دولت کی ساری عمریں یکسر دنیاسازی ودین بازی ومکر وحیل وفساد زور وہواپرستی وزہد وریاء میں ضائع ہوجائیں اورجن کو بقول علامہ شوکانی اہل اللہ سے وہ نسبت ہو کالبھیمة الی الانسان اوکالانسان بالنسبة الی الملائکة ۔ان کو پوراحق حاصل ہو کہ اپنی خود ساختہ مسند افتاء پر بیٹھ کر کفروقتل کافتویٰ لکھیں اوروہ پابجولاں حربی کفارومشرکین کی طرح ان کے سامنے لائیں جائیں۔

بڑی دقت ان لوگوں کو معانی کے فراوانی ووسعت اورالفاظ کی تنگ نائی ونامساعدت سے پیش آتی ہے۔ناچار ہنگام تعبیر وبیان جو الفاظ سامنے آجاتے ہیں انہی سے کام لیناپڑتاہے۔
نامحرموں
کیلئے وہ الفاظ فتنہ بن جاتے ہیں۔
معتقدین مقلدین
ان کو حجة گردانتے ہیں اور
منکرین معتصبین
آلہ انکاروکفر لیکن ارباب حق واقتصاد یاتوان کی تاویل کرتے ہیں یاان کے معاملے کوعالم السرائرکے حوالے کردیتے ہیں البتہ عمل واعتقاد ہرحال میں احکام شریعت وظواہر نصوص کتاب وسنت پر ہے۔اوران کے سواکوئی نہیں جو محک حق وباطل وحجت وبرہان ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیاخوب فرمایاہے حجتہ الاسلام ابن قیم نے اعلام میں اورایک ایسااصل الاصول بتلادیاہے جس کے بعد اس راہ کی ساری مشکلات معدوم ہوجاتی ہیں کہ لابدمن امرین احدھمااعظم میں الآخر وھوالنصیحة للہ ولرسولہ وکتابہ وتنزیہہ عن الاقوال الباطلة المناقضة والثانی معرفة ائمة الاسلام ومقادیرھم وحقوقھم ومراتبھم وان فضلھم لایوجب قبول کل ماقالوا ولایوجب طرح اقوالھم
یعنی صحیح راہ حق اعتدال کی یہ ہے کہ دواصل ہیں اوردونوں کو ملحوظ رکھناضروری ہے ایک یہ کہ ہرحال میں کتاب وسنت اورنصوص شرعیہ کو مقدم رکھناچاہئے اوراسی پر حکم وعمل کرناچاہئے دوسری یہ کہ
تمام ائمہ اسلام اورعلماء حق سے حسن ظن اورمحبت وارادت رکھنی چاہئے اران کے مراتب وحقوق کی رعایت سے کبھی غافل نہ ہوناچاہئے
۔یہی دواصل ہے جن کے توازن وتناسب کو باعتدال ملحوظ نہ رکھنے سے ساری مصیبتیںپیش آتی ہیں اوربدبختانہ لوگوں نے ہمیشہ انہیں میں افراط وتفریط کیاہے۔یادونوں میں سے کسی ایک کے ہورہے ہیں۔ایک جماعت احکام ونصوص شرعیہ کے اتباع وتقدیم کا یہ مطلب سمجھتی ہے کہ جہاں کسی اہل علم وحال کا کوئی قول بظاہر کسی حکم ونص کے خلاف نظرآیا۔
بلاتامل تضلیل وتکفیر پر آمادہ ہوگئے
اورجھٹ حکم لگادیاکہ وہ منکر شریعت ہے اگرچہ اس نے اپنی سازی زندگی شریعت کے علم وعمل میں بسرکردی ہو۔ دوسری جماعت نے
ائمہ واکابردین کی پیروی اورمحبت واعتقاد کے یہ معنی سمجھے کہ احکام ونصوص کو انکا تابع ومحکوم بنادیا
اورچند غیرمعصوم انسانوں کی خاطرکتاب وسنت کوتر کرکے اتخذوااحبارھم ورہبانھم اربابامن دون اللہ کی سرحد سے قریب ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔پہلی راہ باعتبار اصل کے
راہ یہود
ہے اوردوسری راہ نصاری اوراسلام نے دونوں کوبند کرناچاہاکہ غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عذرات اصحاب علم واحوال دونوں کو پیش آئے ہیں اصحاب علم کیلئے یہ ہے کہ مثلاکسی وجہ سے نص ان تک نہ پہنچی جیساکہ بعض اجلہ صحابہ تک پیش آیااوراصحاب احوال کیلئے یہ کہ مثلاًغلبہ سکر یافریب سوانح وخواطریامثلاًایک اجمالی کیفیت پیش آئی یاازقبیل تمثیل وتشبح اوراس کی تفصیل وتعبیر میں قصورفہم واجتہاد حائل ہوگیا۔ یامثلاً ایک جزئی وعارضی مقام پیش آیا اورجزء وکل اورعارض وحقیقت میں تمیز کرنے سے بسبب غلبہ حال درماندہ رہ گئے یاسورج نکل آیااوراس کی سلطان تجلی میں ستارے ناپید ہوگئے۔غلطی سے سمجھ لیاکہ ستاروں کا وجود ہی نہیں۔(تذکرہ ابوالکلام آزاد ص 33تا36)
اگر یہ دعویٰ کیاجائے کہ جواصل اورمعیار حضرت ابن قیم نے قائم کیاہے اس پر اہل حدیث حضرات قطعا قائم نہیں ہیں بلکہ ایک انتہاہیں اوردوسری انتہاء پر بریلوی حضرات رہے ہیں۔ تو شاید بے جانہ ہوگا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں پہلے بھی کئی جگہ بادلائل یہ عرض کر چکا ہوں کہ کسی شخصیت یا کسی کتاب کی تعریف کر دینا اس شخصیت یا کتاب کے خلاف کتاب و سنت اقوال کو سند جواز ہرگز فراہم نہیں کرتا۔ کسی بھی شخص یا کتاب میں موجود کفریہ نظریات ضروری نہیں کہ ہر شخص پر ظاہر ہوں۔ بھلا جب فرعون کی تعریف کرنے والوں کو ولی ماننے والے موجود ہوں تو شیخ احمد سرہندی کی اس تعریفی بہانے سے دال کیسے گلے کی؟
اگر جمشید صاحب فرعون کو تعریف کرنے والوں، احمد رضا خان بریلوی کی تعریف کرنے والوں، خواجہ غلام فرید کی تعریف کرنے والوں اور دیگر باطل و مردود نظریات سے بھری کتابوں کی تعریف کرنے والوں پر اپنے اس ’’کرکٹ‘‘ والے مقولے کے استعمال کو درست اور صحیح سمجھتے ہیں تو ۔۔۔۔ مزید ان سے اس فارمولے کی عملی شکل دیکھنا درکار ہے تا کہ ہم ان سے بھرپور استفادہ حاصل کر سکیں۔ والسلام
ہم بھی بہت پہلے اردومجلس پر عرض کرچکے ہیں کہ وہ حضرات صوفیاء جن کی ساری زندگی شریعت اسلامیہ کی حمایت اورنشرواشاعت میں گزری ہو اوران سے کچھ ایسے اقوال صادر ہوں جوبظاہر شریعت کے خلاف ہوں تویاتوان کی تاویل کریں گے اگرتاویل کااحتمال ہوگایااس کوازقبیل شطحیات قراردیں گے لیکن ان حضرات سے حسن ظن رکھیں گے اورتکفیر وتضلیل نہیں کریں گے
ہماراکہنایہ ہے کہ جوتاویل آپ حضرت مجدد الف ثانی کی تعریف کرنے والوں مثلا میاں نذیر حسین صاحب اورنواب صدیق حسن خان وغیرہ کے بارے میں کرتے ہیں اسی تاویل کااطلاق حضرت مجدد الف ثانی پر کیوں نہیں کرتے؟
کہیں دال میں کچھ کالاتونہیں ہے یاپھر پوری دال ہی کالی ہے؟(ابتسامہ)
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ہماراکہنایہ ہے کہ جوتاویل آپ حضرت مجدد الف ثانی کی تعریف کرنے والوں مثلا میاں نذیر حسین صاحب اورنواب صدیق حسن خان وغیرہ کے بارے میں کرتے ہیں اسی تاویل کااطلاق حضرت مجدد الف ثانی پر کیوں نہیں کرتے؟
کہیں دال میں کچھ کالاتونہیں ہے یاپھر پوری دال ہی کالی ہے؟(ابتسامہ)
آپ کی یہ بات تب درست ہو جب آپ سید نزیر حسین دہلوی یا نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ کی اصل کتابوں سے ویسے ہی کفریہ عقائد و نظریات پیش کر دیں جیسے شیخ احمد سرہندی وغیرہ کی کتب میں موجود ہیں اور ہم سید نزیر حسین دہلوی یا کسی دوسرے اہل حدیث عالم کی کسی ایسی بات کی وہ تاویل کریں جو شیخ احمد سرہندی کی نہیں کرتے۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے لہٰذا دال ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہئے۔
دال صرف ان لوگوں کی کالی ہے جس کے لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ ایک بات جب مخالف مثلا بریلوی کی کتاب سے نکلے تو شرک و بدعت اور جب اپنے بڑے کی کتاب سے نکلے تو شطحیات، سبحان اللہ۔ اگر یہ بزرگ ایسی ہی شطحیات کے مرتکب ہیں جیسا کہ آپ باور کروانا چاہتے ہیں تو ان کے مکتوبات کی حیثیت ہی کیا رہی؟ کیا معلوم کہ جو بات کہیں بھی لکھی ہے وہ حال کی ہے کہ بےحال کی۔ بلکہ یہ جتنے صوفیاء اس نام نہاد اور بے دلیل بہانے شطحیات کا نام لیتے ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ یہ اپنی جس بیعت پر بڑے نازاں رہتے ہیں مثال کے طور پر خواجہ باقی باللہ کا شیخ احمد سرہندی کو بیعت کرنا، اس کی بھی حیثیت ایک پھوٹی کوڑی جتنی نہ رہی کہ جس طرح ان مکتوبات کے بارے میں یہ ممکن ہے کہ شطحیات ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ بیعت کرنا، کروانا از قبیل شطحیات ہی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ صوفیاء چاہے کسی بھی سلسلہ کے ہوں یا فرقہ کے، اس شطحیات والے بہانے کو اپنے من چاہے مقسد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جو بات منوانا چاہتے ہیں اسے ان بزرگوں کی بزرگی کا رعب ڈال کر منوا لو چاہے دلیل ایک بھی نہ ہو اور جب انہیں بزرگوں کے خلاف شریعت عقائد و نظریات سامنے آئیں تو شطحیات کا بہانہ بنا دو۔
یہی وجہ ہے کہ بریلوی دیوبندیوں کی جن عبارات کو کفریہ قرار دیتے ہیں ان پر دیوبندیوں کا یہ نام نہاد شطحیات والا بہانہ ہرگز نہیں سنتے اور نہ خود یہ بات مانتے ہیں کہ دیوبندی اکابرین کی جن عبارات پر ہم کفر کے فتوے لگا رہے ہیں وہ شطحیات بھی تو ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح دیوبندی حضرات بریلوی اکابرین کی کفریہ شرکیہ عبارات و نظریات پیش کر کے کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں یہاں انہین کبھی اس بات کا خیال نہیں آتا کہ ان باتوں کو شطحیات قرار دے دیں۔ صرف یہی ایک بات اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ یہ شطحیاتی بہانہ محض اپنے اپنے بزرگوں کے کفریہ و شرکیہ نظریات پر پردہ ڈالنے کا ایک گھسا پٹا بہانی ہے جس پر نہ تو شریعت سے کوئی دلیل ہے نہ عقل و شعور سے۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔ والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب ذرا کچھ باتیں شطحیات کے تعلق سے بھی ہوجائیں ۔شطحیات بزرگان دین کے ایسے اقوال وافعال کو کہتے ہیں جوان سے بے خودی میں صادر ہوجائیں اورجو شریعت کے خلاف ہوں۔اس بارے میں علماکاموقف یہ رہاہے کہ جن کی پوری زندگی شریعت مطہرہ پر عمل میں گزری ہو اورجن کا علم وفضل امت کے درمیان مشہور ومعروف ہواگران سے کچھ ایسے کلمات کاصدورہوتاہے جو کہ خلاف شریعت ہیں یابظاہر خلاف شریعت معلوم ہوتے ہیں توان کی تاویل کی جائے گی اگرممکن ہو، اوراگریہ ممکن نہ ہوتو پھراس کے معنی ومفہوم کو خداکے سپرد کردیاجائے گا اوراس بارے مین ان کومعذورسمجھاجائے گا اوراس غلطی میں نہ ان کی پیروی کی جائے گی اورنہ ان کی تضلیل وتفسیق کی جائے گی۔
جمشید بھائی اس میں یہ کہاں لکھا ہوا کہ ساتھ ساتھ ان فضول باتوں کی مختلف ذرائع سے تشہیر بھی کی جائے گی ۔۔ جو دیوبندی او ربریلوی حضرات دن رات جس طرح قرآن وحدیث کی اشاعت کی جاتی ہے ، کر رہے ہیں ۔۔۔
یہ حال و بے حال کی باتوں کی کثرت سے تشہیر اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ اس کو بطور نمونہ و اسوہ اور ان کی پارسائی اور زہد و ورع کے لیے بطور شاہد ذکر کرتے ہیں ۔

اور دوسری بات جو آپ نے فرمائی کہ ان بزرگوں کی باتوں پر سکوت اختیار کرنا چاہیے نہ کہ ان کی تضلیل و تفسیق کرنی چاہیے ۔۔۔
تو بھائی جان میرے خیال سے یہ طریقہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ اگر بروقت ان غلطات و لغزشوں کی وضاحت نہ کی گئی تو کل لوگ علماء کے اس سکوت کو حجت بنا کر ان باتوں کو بھی دین قرار دے دیں گے حالانکہ یہ دین کے بالکل مخالف ہیں ۔
اور کچھ لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں جن سے آپ ناواقف نہیں ہوں گے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ کی یہ بات تب درست ہو جب آپ سید نزیر حسین دہلوی یا نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ کی اصل کتابوں سے ویسے ہی کفریہ عقائد و نظریات پیش کر دیں جیسے شیخ احمد سرہندی وغیرہ کی کتب میں موجود ہیں اور ہم سید نزیر حسین دہلوی یا کسی دوسرے اہل حدیث عالم کی کسی ایسی بات کی وہ تاویل کریں جو شیخ احمد سرہندی کی نہیں کرتے۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے لہٰذا دال ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہئے۔
شاید میں اپنی بات سمجھانہیں سکایاآنجناب نے سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔
جو تاویل آپ اس بارے میں نواب صدیق حسن خان کے شیخ سرہندی کے مکتوبات کوتبحرعلمی کی علامت قراردینے پر کرتے ہیں۔اورسید نذیر حسین کے ابن عربی کو شیخ اکبر قراردینے پر کرتے ہیں وہی تاویل ان بزرگوں کے بھی حق میں چسپاں کیوں نہیں کرتے ۔ اوراس سے بھی اہم بات یہ کہ جو کچھ مولاناابوالکلام آزاد یاحضرت ابن قیم نے کہاہے اس کی جانب سے مکمل طورپر اعراض کرلیاہےآنجناب نے۔
دال صرف ان لوگوں کی کالی ہے جس کے لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ ایک بات جب مخالف مثلا بریلوی کی کتاب سے نکلے تو شرک و بدعت اور جب اپنے بڑے کی کتاب سے نکلے تو شطحیات، سبحان اللہ۔
اگراس پر بات کی جائے توبات بہت طویل ہوجائے گی۔ سعودی اشیاخ کسی کتاب سے کسی کا ترجمہ نکالیں تومصلحت شرعیہ اورحنفی علماء نکالیں تو خیانت۔شیخ عبدالوہاب تقلید کا اقرارکریں تو تبحرعلمی اورامام الدعوہ اورحنفی علماء تقلید کی وضاحت کریں تو شرک وگمراہی کی دعوت ۔حنفی علماء کے تصوف پر کفروشرک کافتویٰ لگے لیکن اگراپنے علماء بھی تصوف سے جڑے ہوں اورقائل ہوں توزبان ولب پر خاموشی کی سل چڑھالی جائے۔ باتیں تواوربھی ہیں بیان کرنے کی لیکن چونکہ بات دوسری جانب مڑجائے گی اسی لئے اس قدرقلیل پر اکتفاء کرتاہوں۔
اگر یہ بزرگ ایسی ہی شطحیات کے مرتکب ہیں جیسا کہ آپ باور کروانا چاہتے ہیں تو ان کے مکتوبات کی حیثیت ہی کیا رہی؟ کیا معلوم کہ جو بات کہیں بھی لکھی ہے وہ حال کی ہے کہ بےحال کی۔ بلکہ یہ جتنے صوفیاء اس نام نہاد اور بے دلیل بہانے شطحیات کا نام لیتے ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ یہ اپنی جس بیعت پر بڑے نازاں رہتے ہیں مثال کے طور پر خواجہ باقی باللہ کا شیخ احمد سرہندی کو بیعت کرنا، اس کی بھی حیثیت ایک پھوٹی کوڑی جتنی نہ رہی کہ جس طرح ان مکتوبات کے بارے میں یہ ممکن ہے کہ شطحیات ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ بیعت کرنا، کروانا از قبیل شطحیات ہی ہو۔
ذرامیں بھی داد دے لوں۔ سبحان اللہ کیاعارفانہ کلام ہے۔
ذرااسی سمت اورچلتے چلئے اورکہئے کہ بعض مسائل میں ابن حزم نے جمہورامت سے الگ شاذ رائے اختیار کی ہے توکیوں نہ ان کی تمام باتوں کو اسی احتمال پر سپرد دریایانذرآتش کردیاجائے۔ حضرت ابن تیمیہ بھی بعض مسائل میں جمہور امت سے الگ راہ پر گامزن ہیں اوران کی اجتہادی غلطیوں کو شمار کرکے بقیہ کے تعلق سے بھی یہی احتمال رکھ کر سبھی کو سپرد خاک کردیاجائے۔
ائمہ اربعہ اوران سے قبل بھی بعض مجتہدین حتی کہ صحابہ کرام سے بھی بعض اقوال ازقبیل شاذ مروی ہیں توکیوں نہ ان کے تمام اجتہادات کے تعلق سے یہ احتمال رکھاجائے کہ وہ بھی ازقبیل شاذ ہوسکتے ہیں اورپھر سب کو نظراحترام سے گرادیاجائے۔
اگرایسی ہی دلیلوں سے کام لیتے رہیں گے تو پھر کسی پربھی اعتماد کرنا مشکل ہوگاکیونکہ کون ایساہے جس سے غلطی نہیں ہوتی اورجس سے خظاواقع نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ صوفیاء چاہے کسی بھی سلسلہ کے ہوں یا فرقہ کے، اس شطحیات والے بہانے کو اپنے من چاہے مقسد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جو بات منوانا چاہتے ہیں اسے ان بزرگوں کی بزرگی کا رعب ڈال کر منوا لو چاہے دلیل ایک بھی نہ ہو اور جب انہیں بزرگوں کے خلاف شریعت عقائد و نظریات سامنے آئیں تو شطحیات کا بہانہ بنا دو۔
اگرمان بھی لیاجائے کہ آنجناب کایہ ارشاد اس قدر وزنی ہے کہ اس کے آگے مورخ اسلام ابن خلدون اورابوالکلام آزاد کی باتوں کی پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں توبھی چونکہ آنجناب نے تمام صوفیاء کرام پر ایک عمومی حکم لگایاہے اورنیت کو نشانہ بنایاہے لہذا اس کی دلیل دیناضروری ہے کہ شطحیات کامقصد وہی ہے جوآنجناب نے بیان کیاہے ورنہ ہم حق بجانب ہوں گے اگرآنجناب کے اس "وزنی"قول کو کوڑے دان میں پھینک دیں۔
یہی وجہ ہے کہ بریلوی دیوبندیوں کی جن عبارات کو کفریہ قرار دیتے ہیں ان پر دیوبندیوں کا یہ نام نہاد شطحیات والا بہانہ ہرگز نہیں سنتے اور نہ خود یہ بات مانتے ہیں کہ دیوبندی اکابرین کی جن عبارات پر ہم کفر کے فتوے لگا رہے ہیں وہ شطحیات بھی تو ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح دیوبندی حضرات بریلوی اکابرین کی کفریہ شرکیہ عبارات و نظریات پیش کر کے کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں یہاں انہین کبھی اس بات کا خیال نہیں آتا کہ ان باتوں کو شطحیات قرار دے دیں۔ صرف یہی ایک بات اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ یہ شطحیاتی بہانہ محض اپنے اپنے بزرگوں کے کفریہ و شرکیہ نظریات پر پردہ ڈالنے کا ایک گھسا پٹا بہانی ہے جس پر نہ تو شریعت سے کوئی دلیل ہے نہ عقل و شعور سے۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔ والسلام
یہ دیکھئے حضرت ابن قیم کیاکہتے ہیں۔
ابن قیم
وهذا وجه كلامه وحمله على أحسن المحامل فيقال : هذا ونحوه من الشطحات التي ترجى مغفرتها بكثرة الحسنات ويستغرقها كمال الصدق وصحة المعاملة وقوة الإخلاص وتجريد التوحيد ولم تضمن العصمة لبشر بعد رسول الله وهذه الشطحات أوجبت فتنة على طائفتين من الناس إحداهما : حجبت بها عن محاسن هذه الطائفة ولطف نفوسهم وصدق معاملتهم فأهدروها لأجل هذه الشطحات وأنكروها غاية الإنكار وأساءوا الظن بهم مطلقا وهذا عدوان وإسراف فلو كان كل من أخطأ أو غلط ترك جملة وأهدرت محاسنه لفسدت العلوم والصناعات والحكم وتعطلت معالمها
مدارج السالکین 2/39
فأين هذا من حال من قال : لا أحبك لثوابك لأنه عين حظي وإنما أحبك لعقابك لأنه لاحظ لي فيه والرجاء عين الحظ ونحن قد خرجنا عن نفوسنا فما لنا وللرجاء
فهذا وأمثاله أحسن ما يقال فيهم : إنه شطح قد يعذر فيه صاحبه إذا كان مغلوبا على عقله كالسكران ونحوه ولا تهدر محاسنه ومعاملاته وأحواله وزهده

مدارج السالکین2/49
کیااس کے بارے میں بھی آنجناب وہی کہیں گے جوپہلے کہہ چکے ہیں یاالفاظ بدل جائیں گے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید بھائی اس میں یہ کہاں لکھا ہوا کہ ساتھ ساتھ ان فضول باتوں کی مختلف ذرائع سے تشہیر بھی کی جائے گی ۔۔ جو دیوبندی او ربریلوی حضرات دن رات جس طرح قرآن وحدیث کی اشاعت کی جاتی ہے ، کر رہے ہیں ۔۔۔
یہ حال و بے حال کی باتوں کی کثرت سے تشہیر اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ اس کو بطور نمونہ و اسوہ اور ان کی پارسائی اور زہد و ورع کے لیے بطور شاہد ذکر کرتے ہیں ۔
آپ ذرا مختلف سائٹوں کاجائزہ لیں اوردیکھیں کہ حضرت مجدد الف ثانی کایہ کلام کس نے عوام الناس کے درمیان پھیلایاہے۔ہم حنفیوں نے یااآنجناب کے ہم مسلک افراد نے۔زیادہ نہیں صرف اردو مجلس اورکتاب وسنت فورم کاہی جائزہ لے لیں پتہ چل جائے گاکہ نشرواشاعت کون کررہاہے؟
ہم واقعتاحضرت مجددالف ثانی کی خدمات جلیلہ اوراعمال حسنہ کے قائل ہیںاورصرف ہم پر ہی الزام کیوں ذرامولانااسماعیل سلفی کی الانطلاق الفکری کاجائزہ لیں اوردیکھیںکہ انہوں نے حضرت شاہ الف ثانی کے متعلق کیاکہاہے؟اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کیاکہاہے۔


اور دوسری بات جو آپ نے فرمائی کہ ان بزرگوں کی باتوں پر سکوت اختیار کرنا چاہیے نہ کہ ان کی تضلیل و تفسیق کرنی چاہیے ۔۔۔
تو بھائی جان میرے خیال سے یہ طریقہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ اگر بروقت ان غلطات و لغزشوں کی وضاحت نہ کی گئی تو کل لوگ علماء کے اس سکوت کو حجت بنا کر ان باتوں کو بھی دین قرار دے دیں گے حالانکہ یہ دین کے بالکل مخالف ہیں ۔
اور کچھ لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں جن سے آپ ناواقف نہیں ہوں گے ۔
یہ بات میری نہیں ہے بلکہ حضرت ابن قیم،ابن خلدون اورابوالکلام اآزاد کی بھی ہے۔اورصرف ان کی ہی نہیں بلکہ دیگر علماء اسلام کی بھی ہے۔
جہاں تک ’’کچھ لوگ‘‘کی بات ہے توکچھ لوگ ہرمعاملہ میں بہت کچھ کرتے ہیں۔اآپ اپنی جماعت کے "کچھ لوگ"سےاچھی طرح واقف ہوں گے۔وہ چھپے ہوئے نہیں اس فورم پر بھی موجود ہیں۔والسلام
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
شاید میں اپنی بات سمجھانہیں سکایاآنجناب نے سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔
جو تاویل آپ اس بارے میں نواب صدیق حسن خان کے شیخ سرہندی کے مکتوبات کوتبحرعلمی کی علامت قراردینے پر کرتے ہیں۔اورسید نذیر حسین کے ابن عربی کو شیخ اکبر قراردینے پر کرتے ہیں وہی تاویل ان بزرگوں کے بھی حق میں چسپاں کیوں نہیں کرتے ۔ اوراس سے بھی اہم بات یہ کہ جو کچھ مولاناابوالکلام آزاد یاحضرت ابن قیم نے کہاہے اس کی جانب سے مکمل طورپر اعراض کرلیاہےآنجناب نے۔
میرے خیال میں بات آپ نے نہیں سمجھی یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
آپ بتائیں کہ وہ تاویل کیا ہے جو ہم ’’نواب صدیق حسن خان کے شیخ سرہندی کے مکتوبات کوتبحرعلمی کی علامت قراردینے پر کرتے ہیں۔اورسید نذیر حسین کے ابن عربی کو شیخ اکبر قراردینے پر کرتے ہیں‘‘؟ وہ تاویل یہ ہے کہ یہ حضرات ان کتب یا ان اشخاص کے کفر یا شرک سے پوری طرح واقف نہ تھے اور انہوں نے صرف کچھ پہلوں کی تعریف کی بنا پر ان حضرات کی تعریف کر دی۔ کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ سید نزیر حسین دہلوی یا نواب صدیق حسن خان ان کفریات سے واقف تھے جن کو ہم بنیاد بنا رہے ہیں۔
کیا آپ بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابن عربی یا احمد سرہندی کی کتب و مکتوبات میں عقیدہ توحید و رسالت کے صریح خلاف عقائد و نظریات موجود ہیں تو یہ حضرات توحید و رسالت سے واقف ہی نہ تھے۔ واللہ المستعان۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک کفریہ و شرکیہ بات جس شخص نے کہی ہے بات اسی سے متعلقہ ہے اور محض اس کی تعریف سے وہی کفر و شرک اس تعریف کردہ کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ورنہ فرعون کا کفر و شرک جس حنفی عالم کے کھاتے میں جائے گا اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا محض اپنے بڑوں کے کفر و شرک پر پردہ ڈالنے کے لئے دو الگ الگ چیزوں کو مت ملائیں۔
ذرااسی سمت اورچلتے چلئے اورکہئے کہ بعض مسائل میں ابن حزم نے جمہورامت سے الگ شاذ رائے اختیار کی ہے توکیوں نہ ان کی تمام باتوں کو اسی احتمال پر سپرد دریایانذرآتش کردیاجائے۔ حضرت ابن تیمیہ بھی بعض مسائل میں جمہور امت سے الگ راہ پر گامزن ہیں اوران کی اجتہادی غلطیوں کو شمار کرکے بقیہ کے تعلق سے بھی یہی احتمال رکھ کر سبھی کو سپرد خاک کردیاجائے۔
ائمہ اربعہ اوران سے قبل بھی بعض مجتہدین حتی کہ صحابہ کرام سے بھی بعض اقوال ازقبیل شاذ مروی ہیں توکیوں نہ ان کے تمام اجتہادات کے تعلق سے یہ احتمال رکھاجائے کہ وہ بھی ازقبیل شاذ ہوسکتے ہیں اورپھر سب کو نظراحترام سے گرادیاجائے۔
اگرایسی ہی دلیلوں سے کام لیتے رہیں گے تو پھر کسی پربھی اعتماد کرنا مشکل ہوگاکیونکہ کون ایساہے جس سے غلطی نہیں ہوتی اورجس سے خظاواقع نہیں ہوئی۔
جناب من! بہت ادب سے گزارش ہے کہ آپ ایک دفعہ پھر دو الگ الگ معاملوں کو ملا کر غلط نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ ابن حزم ہوں یا ابن قیم، ابن تیمیہ ہوں یا کوئی حنفی عالم یہ سب کے سب انسان تھے اور ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ہم تو اس بات کے سب سے بڑے داعی ہیں کہ ان علماء کی غلطیوں اور فروگزاشتوں کو پرے پھینک کر ان کے اس کام کو اخذ کرنا چاہئے جو انہوں نے کتاب و سنت کی رہنمائی و دلیل کے ساتھ انجام دیے ہیں۔ مگر یہ تمام باتیں صرف اجتہادی نوعیت کے معاملات میں ہیں نہ کے اعتقادی معاملات میں۔
مثال کے طور پر اگر ابن حزم یا ابن قیم کا عقیدہ و نظریہ یہ ہوتا کہ اللہ اور بندہ ایک ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور رسول بھی آ سکتا ہے تو کیا یہ حضرات ان عقائد و نظریات کے بعد بھی قابل قبول ہوتے؟ لہٰذا صریح کفریہ و شرکیہ عقائد کے حاملین کی مثال اجتہادی غلطیوں سے دینا اگر دھوکہ دہی نہیں تو لاعلمی ضرور ہے۔
 
Top