کسی بھی شخص پر کسی الزام کو ثابت کرنے کے لئے اس کا ثبوت ضروری ہے۔ اگر سید نزیر حسین دہلوی یا نواب صدیق حسن خان وغیرہ پر یہ الزام لگایا جائے کہ وہ ان صریح کفریہ و شرکیہ باتوں سے رضامند تھے تو اس کا ثبوت الزام لگانے والے کے ذمہ ہے محض کسی کتاب یا شخص کو پسند کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی ہر بات سے وہ شخص واقف و رضامند ہے۔ اگر آپ اس کے برعکس مئوقف رکھتے ہیں تو واضح بیان کریں کہ کسی بھی شخص یا کسی بھی کتاب کی تعریف کرنا اس شخص یا کتاب کی ہر بات سے متفق و رضا مند ہونا ہے۔ پھر دیکھئے آپ کا یہ باطل اصول آپ کو کس کنارے لگاتا ہے۔ لہٰذا سیدھی اور کھری بات کریں۔ واضح اور صاف کو گرد کے پردوں میں نہ چھپائیں۔
میں دوسرے طریقے سے پوچھتاہوں ۔جن عبارت کوآپ کفریہ اورشرکیہ قراردے رہے ہیں اورجن عبارتوں سے کفر مراد لے رہے ہیں کیادوسروں نے بھی اسی کو اسی نظر سے دیکھاہے؟ اورآپ کے ذمہ ہی اس بات کااثبات بھی ہوجاتاہے کہ کیانذیر حسین صاحب اورنواب صدیق حسن خان شطحیات اورسکرومستی کے قائل نہیں تھے۔اگرقائل تھے توہمارامدعاثابت ہے اوراگرقائل نہیں تھے جیساکہ آنجناب کا دعویٰ ہے تو پھر اس کاثبوت پیش کریں۔اوراس کے بعد یہ دعویٰ کریں کہ
کہ وہ ان صریح کفریہ و شرکیہ باتوں سے رضامند تھے
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ان کے مکاتیب ان کے تبحرعلمی پر دلالت کرتے ہیں اوردوسری جگہ ان کو نافع قراردیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ انہوں نے مکتوب پڑھ کر یہ لکھاتھایہ پطرس بخاری کے ایک مضمون کی طرح وہ بغیر پڑھے تعریف کرگئے۔
اورآنجناب کایہ کہنا
کسی بھی کتاب کی تعریف کرنا اس شخص یا کتاب کی ہر بات سے متفق و رضا مند ہوناہے۔ پھر دیکھئے آپ کا یہ باطل اصول آپ کو کس کنارے لگاتا ہے۔ لہٰذا سیدھی اور کھری بات کریں۔ واضح اور صاف کو گرد کے پردوں میں نہ چھپائیں۔
خداکاشکر ہے کہ ہم کھڑی بات کرتے ہیں کوئی ہم سے تقلید کی تعریف پوچھتاہے توہم بہانے نہیں بناتے ہیں کہ پہلے یہ کرو وہ کرو اس سوال کاجواب دو وہ مسئلہ حل کرو اوریہ کہ تقلید تقلید ہے جب تک کہ وہ تقلید ہے۔بلکہ جوکچھ کتابوں میں موجود اورعلماء سے منقول ہے وہ بیان کردیتے ہیں ۔جیساکہ اتباع والے تھریڈ میں آنجناب نے بھی ملاحظہ کیاہوگا۔
ایک توآنجناب کا دوسری کتابوں پر قیاس ،قیاس مع الفارق ہے۔کیونکہ فروعی مسائل میں اگرچہ اختلاف ہو اورکتاب میں باتیں ناقد کے نقطہ نظر سے غیردرست ہوں پھر بھی بعض پہلوؤں سے اس کی تعریف کی جاسکتی ہے اورکی گئی ہے۔لیکن وہ کتاب جوچاہے کتنی بھی اچھی ہو لیکن بقول آنجناب کے اس میں کفریہ اورشرکیہ باتیں موجود ہوں کیااس کے بارے میں یہ کہنادرست ہوگاکہ اس کتاب سے مصنف کے تبحرعلمی کا پتہ چلتاہےیااس کو نفع مند قراردینادرست ہوگا۔
دوسرے یہ کہ ایسے مواقع پر مصنف اپنااختلاف رائے بھی ذکر کرتاہے۔ کیاآپ وہ عبارتیں دونوں حضرات کی دکھاسکتے ہیں جہاں انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی پر تنقید کی ہو اعتراض کیاہواوران کی کتابوں کے مندرجات سے اختلاف کیاہو۔اگرہے توپیش کریں!
پہلے وہ اس بات کا ثبوت دے کہ جن واضح کفریہ باتوں کو ہم بنیاد بنا رہے ہیں یہ حضرات اس کے مندرجات سے پوری طرح واقف اور رضامند تھے۔ ہاں اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ جس شخص کو شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ولی کامل قرار دیا وہ اسی فرعون کے ایمان اور نجات کا قائل تھا جس کے کافر ہونے میں ہرگز کوئی شک نہیں۔
یہ بحث ماقبل میں گزرچکی ہے کہ جس چیز کو آپ کفر قراردے رہے ہیں دوسرااس کی تاویل کرتاہے یاپھراس کو سکر وغلبہ حال پر محمول کرکے قائل کومعذورسمجھتاہے ۔لہذا اپنے نقطہ نظرکو دوسروں پر ٹھونسنااچھاکام نہیں ہے۔ بات وہ کریں جوکہ قابل تسلیم ہو۔
رہی بات کے فلاں یا فلاں وحدت الوجود کا معنی کیا لیتے تھے؟ تو عرض ہے کہ اصطلاحات پر ہم بحث کی بات نہیں کر رہے کہ فلاں نے وحدت الوجود کا کیا معنی لیا اور فلاں نے کیا لیا بلکہ ہم تو ان کی بات کرتے ہیں جو ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا کے قائل ہیں، عابد و معبود کے ایک ہونے کے قائل ہیں، جو انبیاء کے مراتب سے بھی اوپر جانے کی بات کرتے ہیں وغیرہ۔ یعنی اگر ہم صرف اصطلاحات سے الزام لگائیں تو آپ کی بات صحیح ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو واضح عبارات پیش کر کے ان کا حکم پوچھتے ہیں۔
ہم نے تواصطلاحات کی محض اس لئے وضاحت کردی کہ بعض ظاہرپرست وحدۃ الوجود کو سیدھے کفروشرک سے کم پر تعبیر کرنے پر رضامند نہیں ہوتے۔اصطلاحات پر بحث ہمیں بھی منظورنہیں ہے ۔شیخ عبدالوہاب شعرانی نے میزان الکبری میں بعض عبارتوں کے جعلی ہونے کی بات کہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جیساکہ علمائے امت کہتے آئے ہیں کہ بعض اوقات اپنے احوال اورمافی الضمیر کو اداکرنے کیلئے ان کے پاس الفاظ نہیں ہوتے وہ کہناکچھ اورچاہتے ہیں اورزبان سے کچھ اوراداہوتاہے ۔اوراس کی وجہ سے فتنہ پیداہوجاتاہے۔پھریہ کہ ایسے اقوال غلبہ حال اورسکر وصحو کی کیفیت میں بھی اداہوتے ہیں جیساکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب تذکرہ سے ماقبل میں نقل کرچکاہوں۔
چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے آپ کے ممدوحین کی عبارات پیش کروں گا آپ اس کا شریعت کے موافق معنی و مراد بتا دیجئے گا۔ میں ان شاء اللہ دلیل کے ساتھ پیش کی جانے والی بات تسلیم کر لوں گا اور اگر آپ ان عبارات کا شریعت کے موافق معنی و مفہوم بیان نہ کر سکے تو شریعت کا حکم جو ان عبارات پر لگتا ہے اس سے خوامخواہ پردہ پوشی ہرگز مناسب نہیں اور نہ دیگر باطل اصولوں سے اس کا دفاع کیا جانا چاہئے۔ والسلام
خداکاشکرہے کہ ہم تعصب پرست نہیں لیکن ایک گزارش ہے کہ ماقبل میں جن بزرگوں نے شطحیات اورغلبہ حال میں ان کلام کے صادر ہونے کی توجیہہ کی ہے۔ جوآپ کے خیال میں باطل اصول ہیں،ن حضرات کے تعلق سے کیاخیال رکھاجائے ذراوضاحت کردیں تاکہ آئندہ ہم حافظ ذہبی، ابن قیم،ابوالکلام آزاد اوردوسروں کو اسی نظریہ سے دیکھ سکیں۔والسلام
ابن عربی کے تعلق سے حافظ ذہبی اوردیگر علمائنے جوکچھ کہاہے وہ پیش کردیتاہوں۔ شاید آنجناب کے خیالات میں کچھ تبدیلی ہوسکے۔
ولابن العربي توسُّع فِي الكلام، وذكاءٌ، وقوةٌ حافظةٌ، وتدقيقٌ فِي التصوف، وتواليفُ جمةٌ فِي العِرْفان. ولولا شطحاتٌ فِي كلامه وشعره لكانَ كلمةَ إجماع، ولعلَّ ذَلِكَ وَقَعَ منه فِي حال سكرِه وغيبته، فنرجو له الخير.14/273تاریخ الاسلام تحقیق دکتوربشارعواد
مشہور مورخ صفدی الوافی بالوفیات 4/125میں لکھتے ہیں
وَلم أكن وقفت على شَيْء من كَلَامه ثمَّ إِنِّي وقفت على فصوص الحكم الَّتِي لَهُ فَرَأَيْت فِيهَا أَشْيَاء مُنكرَة الظَّاهِر لَا توَافق الشَّرْع وَمَا فِيهِ شكّ أَنه يحصل لَهُ ولأمثاله حالات عِنْد معانات الرياضات فِي الخلوات يَحْتَاجُونَ إِلَى الْعبارَة عَنْهَا فَيَأْتُونَ بِمَا تقصر الْأَلْفَاظ عَن تِلْكَ الْمعَانِي الَّتِي لمحوها فِي تِلْكَ الْحَالَات فنسأل الله الْعِصْمَة من الْوُقُوع فِيمَا خَالف الشَّرْع
قال ابن مسدي في جملة ترجمته: كان ظاهري المذهب في العبارات، باطني النظر في الاعتقادات، " وكتب لبعض الولاة " ثم حج ولم يرجع إلى بلده، وروى عن السلفي بالإجازة " العامة "، وبرع في علم التصوف، وتواليف جمة في العرفان، ولولا شطحه في الكلام لم يكن له بأس، ولعل ذلك وقع منه حال سكره وغيبته فيرجى له الخير.فوات الوفیات3/437
یہ واضح رہے کہ شیخ محی الدین ابن عربی مسلک کے اعتبار سے ظاہری تھے لہذا حنفیوں کا تصوف کاتھریڈ بنانے والے کو ایک تھریڈ ظاہریوں کاتصوف پربھی بنانے کی خداتوفیق دے ۔