غلط کام کرنے والے ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم تحریر شدہ فتوی مانگتے ہیں۔ اسے حنفیوں کی مس گائیڈنگ کیوں کہتے ہیں؟
آپ ایک کام کریں ایسے کسی عالم کے پاس جائیں اور جب وہ کہے کہ حلالہ کروا لو تو اسے کہیں کہ بعینہ یہی الفاظ "حلالہ کروا لو" مجھے آپ تحریرا دے دیں۔ وہ کبھی نہیں دے گا۔ کچھ اور لکھے گا مثلا اگر حلالہ ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن اگر دیدے تو مجھے بتائیے گا۔ میں آپ کو ملک کے مختلف دار الافتاء بتاؤں گا۔ وہاں جمع کروا دیجیے گا۔ رد آ جائے گا۔
مزے کی بات ہے میں تو کہہ رہا ہوں اور آپ ماشاء اللہ اہل حدیث ہو کر بھی بغیر تعصب کے نہیں سوچ سک رہے۔ کل حزب بما لدیہم فرحون
بھائی، ہماری نظر ہوتی ہے نتائج پر۔ اور ہم ڈھکے چھپے اس طرح کے کام نہیں کرتے ہیں۔
نہ تو آپ ہی حلالہ کی مخالفت کر رہے ہیں نہ آپ کے علماء ہی کرتے ہیں۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہی ہے کہ "حلالہ کروا لو" واقعی لکھا نہیں ملتا۔ لیکن طلاق کے بعد بندہ جس مصیبت میں پھنسا ہوتا ہے، اسے ایسے فتووں میں اور لکھے ہوئے فتووں میں بھی ایسا ہی مل جاتا ہے جس سے وہ خود حلالہ کروا کر مسئلے کا حل نکالنے پر تل جاتا ہے۔
ارسلان بھائی، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور آئندہ یہ حضرات جب بھی حلالہ سے انکار کریں تو یہ فتاویٰ ان کے منہ پر کر دیجئے، ساری حقیقت خود ہی کھل کر سامنے آ جائے گی۔
حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)
حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔
حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن
اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)
آن لائن حوالہ
اب بتائیے عوام کو اس فتویٰ سے کیا سمجھانا مقصود ہے؟؟؟
یہی نا کہ حلالہ کی شرط عائد نہ کرنا، بلکہ دل میں چھپا کر یہ کام کر لینا۔
بس فرق اتنا سا ہی ہے کہ مفتی صاحب خود اپنے قلم سے نہیں لکھتے کہ حلالہ کروا لو، لیکن
ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی باور کروا کر،
اور حلالہ کے علاوہ کوئی صورت واپسی کی نہیں کہہ کر،
پھر حلالہ تو مکروہ تحریمی ہے ،
لیکن اگر کر لیا جائے تو اس سے شوہر اول کے لئے حلال ہو جائے گی کہہ کر
اور آخر میں مکروہ تحریمی سے بھی بچنا چاہو، تو دل میں نیت رکھنا، ظاہر مت کرنا ،
اب بتائیے، اس پریشان حال شخص کو کیا خود اس نتیجہ تک پہنچا نہیں دیا گیا ہے، کہ وہ اس لعنتی فعل میں ملوث ہو کر کرائے کا سانڈ ڈھونڈتا پھرے،
ہاںمفتی صاحب نے وہ الفاظ ادا نہیں کئے کہ حلالہ کروا لو۔ لہٰذا سب کچھ جائز و درست ہو گیا اور
مفتی خوش، کہ بندہ کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ایسا حل بتا دیا کہ جس سے اس کا کام بھی بن جائے گا، اور کسی حرام فعل کا ارتکاب بھی نہ ہوگا۔ اور نہ کوئی ہم پر اعتراض کر سکے گا، اعتراض کرے گا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کب کہا "حلالہ کروا لو"۔
بندہ بھی خوش،کہ چلو کوئی راستہ تو نظر آیا، بیوی کے حصول کا۔ یہ اور بات کہ اس واقعہ کے بعد ساری زندگی خجالت اور ندامت اس کا پیچھا نہ چھوڑے۔
حلالہ کے لئے استعمال ہونے والا کرائے کا سانڈ سب سے زیادہ خوش، کہ اس نے دوست کے کہنے پر فقط دل ہی دل میں ارادہ کیا، اور ایک رات کے بعد طلاق دے ڈالی، مکروہ کا ارتکاب بھی نہ ہوا، بلکہ غالباًدوست کی مدد کے جذبہ اور نیت کا ثواب کا متمنی بھی رہے گا۔